تنقید کاخوف،شاہین تتر بتر

تحریر : زاہداعوان


آئی سی سی مینزٹی20 ورلڈ کپ2024ء کا سپرایٹ مرحلہ جاری ہے۔ مایوس کن کارکردگی کے باعث گروپ مرحلے سے ہی باہر ہونے والی پاکستان کرکٹ ٹیم کو شکست کے بعد شائقین کی جانب سے شدید تنقید کے خوف نے قومی کھلاڑیوں کی بحیثیت ٹیم وطن واپسی مشکل بنا دی ہے۔

 ٹی 20 ورلڈ کپ میں پہلی بار سپرایٹ مرحلے میں کوالیفائی نہ کرنے والی 15 رکنی پاکستان کرکٹ ٹیم کے9 کھلاڑی پاکستان واپس پہنچ چکے ہیں جبکہ کپتان بابراعظم سمیت 6کرکٹرز نے ٹیم کے ساتھ واپسی کا سفر نہ کیا۔  حارث رئوف کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ اور مبینہ طور پر میچ فکسنگ کے الزامات کے بعد بابراعظم نے فوری وطن واپسی کا ارادہ ترک کیا، ٹیم کے دو کھلاڑی اعظم خان اور حارث رئوف بھی امریکہ میں ہی رک گئے ہیں جبکہ تین کرکٹرز محمد عامر، عماد وسیم اور شاداب خان برطانیہ میں پڑائو کا ارادہ رکھتے ہیں۔دبئی کے راستے واپس وطن آنے والوں میں محمد رضوان، فخر زمان، افتخار احمد، نسیم شاہ، شاہین شاہ آفریدی، محمدعباس آفریدی، عثمان خان، ابرار احمد اور صائم ایوب شا مل ہیں۔میگاایونٹ میں کے پہلے مرحلے میں گروپ اے میں شامل پاکستان نے  ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا، 4 میچز میں صرف 4پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر پر آنے والی پاکستان ٹیم کو سابق کرکٹرز اور شائقین کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔سابق ورلڈ چیمپئن ٹیم جب امریکہ کی نئی نویلی ٹیم سے بھی ہار گئی تو پھر مختلف الزامات کے ساتھ ایک طرف شدید تنقید جاری ہے تو دوسری جانب کھلاڑیوں کے غیرذمہ دارانہ اور غیر پیشہ ورانہ روئیے ، نظم وضبط کے فقدان اور باہمی اختلافات سمیت ہوشربا انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔

 ٹیم کی شکست کے بعد چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی ٹیم میں بڑی سرجری کا عندیہ دے چکے ہیں۔ قومی ٹیم کے سابق کپتان و ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ نے بھی ایک پروگرام میں مائیکل وان اور ایڈم گلکرسٹ سے بات چیت کے دوران کھلاڑیوں کے ڈریسنگ روم میں سونے کا انکشاف کیاہے جو پروفیشنل کرکٹرز کے ڈسپلن پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے اس موقع پر ایڈم گلکرسٹ سیگفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایک میچ کے دوران جب میں ڈریسنگ روم میں گیا تو وہاں 4 سے 5 کرکٹرز سو رہے تھے جس پر میں نے ناراضی کا اظہارکیا اور انھیں کہا کہ میچ کے دوران آپ کی پوری توجہ صرف کھیل پر ہونا چاہیے۔جب تک مقابلہ جاری ہے آپ لوگوں کی پوری توجہ اسی پر ہونی چاہیے،لیکن اس پر الٹا مجھے ہی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔امام الحق نے بھی محمدحفیظ کے الزام کی تصدیق کی۔قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ گیری کرسٹن نے بھی گرین شرٹس کے ڈریسنگ روم کی اندرونی کہانی عیاں کرتے ہوئے بتایا کہ ٹیم میں اتحاد ہی نہیں ہے۔ٹیم کی ناقص کارکردگی پر ٹیم میں عدم یکجہتی کے شکوک کا اظہار کیا تھا، جس پر گیری کرسٹن نے تصدیق کی مہر لگا دی۔آخری رائونڈ میچ کے بعد بابر الیون کے ساتھ میٹنگ میں ہیڈ کوچ ٹیم کی ہر شعبے میں ناکامی پر افسردہ نظر آئے اور کھلاڑیوں کی کھیل میں عدم دلچسپی پر برہم نظر آئے۔کھلاڑیوں کے فٹنس معیار پر بھی ہیڈ کوچ نے کھلاڑیوں کے سامنے سوالات کھڑے کر دیئے اور جدید کرکٹ سے دور رہنے کی وجوہات بھی پوچھیں۔گیری کرسٹن نے سینئر کھلاڑیوں کے درمیان اختلافات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب سے ٹیم کو جوائن کیا ہے میں نے ٹیم کو متحد نہیں دیکھا، نہ یہ اتحاد میدان میں نظر آیا اور نہ ہی ڈریسنگ روم میں اس کی ایک جھلک دیکھنے کو ملی۔ہیڈ کوچ نے ایسی صورتحال میں ٹیم سے علیحدگی کابھی اشارہ دیدیا۔میچ سے ایک رات قبل کھلاڑیوں کی جانب سے کرفیوٹائم کی خلاف ورزی اور رات گئے تک ہوٹل سے باہر رہنے کی خبریں بھی سامنے آئیں جو تشویشناک ہیں۔

طویل عرصہ بعد قومی کرکٹرز پر فکسنگ کے الزامات نے قوم اور شائقین کرکٹ کو مزید مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیا تاہم پی سی بی نے نہ صرف ایسے الزامات کی مکمل تردید کی ہے بلکہ قومی کرکٹ ٹیم پر فکسنگ کے الزامات لگانے والوں کو ثبوت سامنے لانے یا پھر عدالت میں ملنے کی وارننگ بھی دے دی اوراس حوالے سے لیگل ڈیپارٹمنٹ کو باضابطہ طور پر ہدایات بھی جاری کر دی گئی ہیں۔ بورڈ ذرائع کے مطابق امریکہ میں کسی کھلاڑی کے منفی سرگرمی میں ملوث ہونے کی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ آئی سی سی اینٹی کرپشن آفیشلز اور ٹیم کے ساتھ موجود سیکورٹی منیجر نے سب پر مکمل نظر رکھی۔ ناقص کارکردگی کے بعد قومی کرکٹرز تنقید کی زد میں ہیں، سابق کرکٹرز دل کھول کر تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں، سوشل میڈیا پر مداحوں کا غصہ بھی کم ہونے کا نام نہیں لے رہا، پی سی بی کو اندازہ تھا کہ ایسا ہوگا البتہ میچ فکسنگ کے الزامات نے کرکٹرز کو پریشان کر دیا۔ الزامات کو بھارتی میڈیا نے بھی شہ شرخیوں میں شائع کیا،تاہم پاکستان کرکٹ بورڈ کے مطابق امریکہ میں کسی کھلاڑی کے منفی سرگرمی میں ملوث ہونے کی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ پی سی بی ذرائع نے کہا کہ ہم ان منفی  باتوں سے مکمل طور پر واقف ہیں، کھیل کی حد تک تنقید بالکل کریں کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوگا، البتہ فکسنگ جیسے بے بنیاد الزامات کسی صورت برداشت نہیں کیے جا سکتے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

26ویں آئینی ترمیم کے بعد۔۔۔

بالآخر26ویں آئینی ترمیم منظور ہو گئی‘ جس کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہو گیا۔ ترمیم منظور ہونے کے بعد ایک غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا اور ملک میں ایک نیا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بڑے اور اہم اختیارات تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ آئینی ترمیم کا عمل حیران کن طور پر خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا۔

آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج،بے وقت کی را گنی وکلا ءکا ردعمل کیا ہو گا؟

چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے عمل کے بعد ملک کے سیاسی محاذ پر ٹھہرائو کے امکانات روشن ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل کو ملک میں ترقی، خوشحالی اور سیاسی و معاشی استحکام کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل سے عوام کیلئے عدل و انصاف کے دروازے کھلیں گے اور ملک آگے کی طرف چلے گا۔

سیاست سے انتقام ختم کریں؟

ملک بھر کے میڈیا پر آج کل صرف ایک ہی خبر اہم ترین ہے اور وہ ہے 26 ویں آئینی ترمیم کے مثبت اور منفی اثرات۔لیکن محلاتی سازشیں ہوں یا چاہے کچھ بھی ہورہا ہو، عوام کا اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ انہیں کیا مل رہا ہے۔

پولیس ایکٹ میں تبدیلی سیاسی مداخلت نہیں؟

پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ( ن) پر’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کو تبدیل کرنے کا الزام لگاتی ہے لیکن خود پی ٹی آئی نے جس طرح یوٹرن لیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔بانی پی ٹی آئی کے نظریے کے برعکس خیبرپختونخوا حکومت نے محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کی راہ ہموار کردی ہے۔ پولیس ایکٹ 2017ء میں خیبرپختونخوا پولیس کو غیر سیاسی بنانے کیلئے قانون سازی کی گئی تھی اور وزیراعلیٰ سے تبادلوں اورتعیناتیوں سمیت متعدد اختیارات لے کر آئی جی کو سونپ دیئے گئے تھے۔

26ویں آئینی ترمیم،ملا جلا ردعمل

26ویں آئینی ترمیم کو جہاں سیا سی عمائدین پاکستان کے عدالتی نظام میں احتساب اور کارکردگی کو بہتر بنا نے کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں وہیں کچھ سیا سی جماعتیں اور وکلاتنظیمیں آئینی ترمیم کوعدالتی آزادی اور قانون کی حکمرانی پر قدغن سمجھتی ہیں۔

وزیراعظم کا انتخاب،معاملہ ہائیکورٹ میں

آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے چوہدری انوار الحق کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے خلاف درخواست پر لار جر بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن قانون ساز اسمبلی فاروق حیدر کے وکلا نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔