6نومبر قتل عام کی یاد میں!
لائن آف کنڑول کے دونوں طرف کشمیریوں نے 6 نومبر کو یوم شہدا ئے جموں اس عزم کے ساتھ منایا کہ وہ حصولِ حقِ خود ارادیت تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
6 نومبر 1947ء کو ڈوگرہ فوج اور ہندو بلوائیوں نے دو لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کر دیا تھا۔ اس روز مقبوضہ جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں بالخصوص راجوری، ڈوڈہ، پونچھ ، رام بن ، ادھمپور ، ریاسی ، جموں شہر اور اکھنور کے علاقوں میں جس بے دردی اور وحشیانہ طریقے سے مسلمانوں کو شہید کیا گیا اس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ اس قتلِ عام کا آغاز 27 اکتوبر1947 ء کو اُس وقت ہوا جب بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر پر قبضہ کیا تھا۔ 27 اکتوبر سے 6 نومبر تک جموں کے مختلف علاقوں میں مجموعی طور پر دو لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ پاکستان بننے سے پہلے جموں ڈویژن کی مسلم اور غیر مسلم آبادی کم و بیش برابر تھی جبکہ جموں کے بیشتر مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی 90فیصد سے زیادہ تھی، ان علاقوں کے مسلمانوں کی آبادی کو ہندوؤں کے مقابلے میں کم کرنے کیلئے بھارتی حکمرانوں نے بلوائیوں کے ذریعے اس قتل عام کی منصوبہ بندی کی تھی۔
اس قتل عام کے دوران پانچ لاکھ سے زائد کشمیری جموں سے سیالکوٹ ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ جموں سے سیالکوٹ کی طرف کشمیریوں کی ہجرت ریاست جموں و کشمیر کی سب سے بڑی ہجرت تھی۔6نومبر کے اس قتل عام میں بچ جانے والے افراد کا کہنا تھا کہ 5 نومبر کی شام کو ہندو پولیس اہلکاروں کی طرف سے جموں کے بیشتر علاقوں میں اعلان کیا گیا کہ سب مسلمان اپنے گھروں سے نکل کر قریبی پولیس تھانوں، سرکاری سکولوں یا ہسپتالوں کے احاطوں میں پہنچ جائیں۔ سادہ لوح اور خوفزدہ کشمیری خالی ہاتھ بھارتی پولیس اہلکاروں کے کہنے پر گھروں سے نکل کر قریبی سرکاری عمارات میں پہنچ گئے جہاں انہیں یہ بتا کر سرکاری ٹرکوں اور پولیس کی گاڑیوں میں بٹھایا گیا کہ انہیں سیالکوٹ کے راستے محفوظ طریقے سے پاکستان بھیج دیا جائے گا۔ لیکن جوں ہی رات کی تاریکی بڑھتی گئی اور یہ قافلے دریائے توی کے ساتھ پہنچ گئے تو وہاں انہیں بسوں اور ٹرکوں سے اتار کر ایک ایک کر کے بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔ یہ ریاست جموں وکشمیر کی تاریخ کا ایک ہولناک دن تھا۔ اس خونِ نا حق کی صدائیں اب بھی سانبہ - سیالکوٹ سڑک پر سنائی دے رہی ہیں۔اس قتل عام کے ذریعے بھارتی حکومت اور قابض بھارتی فوج مقبوضہ جموں کے علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت کو کم کرنا چاہتی تھی تاکہ مستقبل میں اس علاقے میں رائے شماری کی جائے تو پاکستان سے زیادہ بھارت کے حق میں ووٹ آئیں۔ جموں میں دو لاکھ سے زائد کشمیریوں کی شہادت سے جہاں انتہا پسند وں کی مسلم دشمنی سامنے آئی وہاں دنیا پر یہ بھی واضع ہوگیا کہ بھارت کس طرح مسلمانوں کی آبادی سے خائف ہے۔ اسی وجہ سے وہاں کے حکمران ہر دور میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے مختلف منصوبوں پر کام کر تے رہے چاہے اس کیلئے انہیں بے گناہ لوگوں کا خون ہی کیوں نہ بہانا پڑے۔ ریاست جموں وکشمیر مسلم اکثریتی ریاست تھی جہاں اکثریت کو اقلیت میں تبدیلی کرنے کیلئے6 نومبر کے قتل عام سے اس کا با ضابطہ سرکاری طور پر آغاز کیا گیا۔ اس کے بعد آج تک مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر کے مسلمان بھارتی انتہا پسند حکمرانوں کے نشانے پر رہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں کشمیریوں کا سیاسی استحصال شروع ہوا اور 1953ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے وزیر اعظم اور صدر ریاست کا عہدہ ختم کر کے ان کی جگہ وزیر اعلیٰ اور گورنر کا عہدہ متعارف کرایا گیا اورمقامی سیاسی جماعتوں بشمول جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی گی تاکہ مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو ختم کیا جائے۔ یہیں پر بس نہیں کیا گیا بلکہ 1987ء میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں مسلم متحدہ محاذ کا مینڈیٹ دہلی کے حکمرانوں نے چرا کر ریاست جموں وکشمیر میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو ختم کرنے کی ایک اور ناکام کوشش کی۔ مقبوضہ ریاست میں آزادی اور اپنے حقوق کی بات کرنے والوں کو خاموش کرنے کیلئے مختلف کالے قوانین متعارف کرائے گئے جن میں بد نام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ بھی شامل ہے۔ اس قانون کو بھارت نے مسلمان سیاسی مخالفین کو خاموش کرانے کیلئے متعارف کرایا۔ اس کالے قانون کے تحت بھارتی حکومت کسی بھی شہری کو بغیر کسی عدالتی حکم یا کارروائی کے دو سال تک قید میں رکھ سکتی ہے۔بھارت کے اس ظلم اور جبر کے خلاف 1990ء سے اب تک کشمیری قربانیاں دے رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں پندرہ لاکھ قابض فوج بٹھا رکھی ہے جس نے1989ء سے لے کر اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا گیا جن میں سات ہزار سے زائد لوگوں کو زیر حراست قابض بھارتی فوج نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بھارت نے اب تک مقبوضہ جموں وکشمیر میں دو لاکھ سے زائد سیاسی کارکنان کو گرفتار کیا جبکہ ایک لاکھ سے زائد یتیم بچوں اور بچیوں کے والدین کو بے گناہ شہید کیا۔6 نومبر 1947ء کے قتل عام کے پیچھے بھارت کے جو سیاسی عزائم تھے وہ پانچ اگست 2019ء کو ایک مرتبہ پھر اس وقت سامنے آئے جب نئی دلی نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی نیم خودمختاری کا درجہ ختم کر کے اسے کشمیریوں کی مرضی اور منشا کے خلاف بھارت میں ضم کر کے مرکز کا زیر انتظام علاقہ قرار دے دیا۔6 نومبر 1947ء سے پانچ اگست 2019ء تک بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں جو قتل و غارت گری کے ساتھ دیگر سیاسی اقدامات اٹھائے ان کا مقصد علاقے کی ڈیمو گرافی کو تبدیل کر کے مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے، تاکہ مستقبل میں اگر اس علاقے میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے تحت رائے شماری کرانی پڑے تو اس کے نتائج بھارت کے حق میں نکلیں۔