شعور ،شکر اور اتحاد کی نعمت
’’کیا تم عقل نہیں رکھتے؟ کیا تم غور و فکر نہیں کرتے؟ ‘‘(القرآن) ’’اگر تم شکر کرو گے، تو میں ضرور تمہیں اور زیادہ دوں گا‘‘ (سورہ ابراہیم:07) ’’مومن (دوسرے) مومن کیلئے عمارت کی مانند ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے ‘‘(مشکوٰۃ المصابیح)
پاکستان کی موجودہ صورتِ حال میں اگر کوئی سوال سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے تو وہ یہ ہے کہ ہمیں بحیثیتِ قوم سب سے پہلے کس چیز کی ضرورت ہے: شعور، شکر یا اتحاد؟ یہ تینوں محض الفاظ نہیں بلکہ ایک زندہ اور بامقصد قوم کی بنیاد ہیں، شعور وہ روشنی ہے جو حق و باطل میں تمیز عطا کرتی ہے، شکر وہ احساس ہے جو نعمتوں کو محفوظ رکھتا ہے اور اتحاد وہ قوت ہے جو کسی قوم کو ناقابلِ شکست بنا دیتی ہے۔ ان میں سب سے پہلا قدم شعور ہے، کیونکہ شعور کے بغیر نہ شکر حقیقی رہتا ہے اور نہ اتحاد پائیدار۔ یہی شعور ہمیں اپنے ماضی سے سبق، حال کا ادراک اور مستقبل کی سمت عطا کرتا ہے۔ اس مضمون میں ہم ان تینوں پہلوؤں کو قرآن و سنت اور قومی ضرورت کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
شکر کا پہلا پہلو یہ ہے کہ شعور ایک زندہ قوم کی پہچان ہے ،شعور کیا ہے؟ شعور صرف علم کا نام نہیں یہ وہ بصیرت ہے جس سے انسان حق اور باطل میں فرق کر سکے، سچ کو پہچان سکے اور اپنے فیصلے عقل، علم اور دین کی روشنی میں کر سکے۔اللہ رب العزت قرآن میں بار بار فرماتا ہے: ’’کیا تم عقل نہیں رکھتے؟ کیا تم غور و فکر نہیں کرتے؟ ‘‘۔
یہ شعور ہی ہے جو انسان کو قوم کیلئے جینے، قربانی دینے اور حالات کو بدلنے والا انسان بناتا ہے افسوس! آج کے دور میں سب سے بڑی کمی شعور کی ہے۔ ہمیں دشمن کی سازشوں کا شعور نہیں، ہمیں میڈیا کے اثرات کا شعور نہیں، ہمیں دین کا، پاکستان کی اساس کا اور امت کی وحدت کا شعور نہیں۔
ذرا سوچیے! کیا ہم سوشل میڈیا پر کسی پوسٹ یا ویڈیو کو بغیر تحقیق کے آگے نہیں بڑھا دیتے؟ کیا ہم اپنے ووٹ کی طاقت کو سمجھتے ہیں؟ کیا ہمیں یہ شعور ہے کہ ہماری ایک رائے قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے؟ہم دشمن کے فتنوں میں الجھ کر، آپس میں بٹے بیٹھے ہیں یہ شعور کی موت ہے اور دشمن خوب جانتا ہے اسی لیے ہمیں فیشن، فتنہ، فرقہ واریت اور فکری انتشار میں الجھایا جا رہا ہے تا کہ ہم سوچنا بند کر دیں۔ آج ذہنوں کو بند کیا جا رہا ہے تاکہ ہاتھوں سے کچھ نہ نکلے۔یاد رکھیے! شعور کے بغیر شکر بھی صرف زبانی ہوگا اور اتحاد بھی نعرہ بن کر رہ جائے گا۔
شکر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ شکر نعمت کا محافظ ہے۔ شکر، صرف زبان سے ’’الحمدللہ‘‘ کہنے کا نام نہیں۔ شکر ایک عملی طرزِ زندگی ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: ’’اگر تم شکر کرو گے، تو میں ضرور تمہیں اور زیادہ دوں گا‘‘ (سورہ ابراہیم:07)۔
آج ہم کس چیز کا شکر ادا کریں؟ ہماری آزادی کا؟ اسلامی ملک ہونے کا؟ اس سرزمین کا جس نے ہمیں شناخت دی، حرمت دی، دینی ماحول دیا؟ یا ان بے شمار نعمتوں کا جنہیں ہم دیکھ کر بھی نظر انداز کر دیتے ہیں؟کیا ہم نے کبھی کشمیر، غزہ یا دیگر مظلوم علاقوں کو دیکھ کر سوچا ہے کہ ہم کن نعمتوں میں ہیں؟ کیا ہم نے کبھی پینے کے صاف پانی، مسجدوں کے آزاد ماحول یا اذان کی آواز پر شکر ادا کیا ہے؟ہمیں شکر کرنا ہے ان شہداء کا، جنہوں نے پاکستان کیلئے جان دی، ان بزرگوں کا جنہوں نے ہجرت کے زخم سہے، ان نعمتوں کا جو ہمیں میسر ہیں۔ مگر افسوس ہم شکوے میں زیادہ اور شکر میں کم رہتے ہیں۔ہم یہ بھول چکے ہیں کہ جو قوم شکر چھوڑ دیتی ہے، اس سے نعمتیں چھین لی جاتی ہیں۔شکر وہ دیوار ہے جو نعمت کو گرنے نہیں دیتی، شکر وہ کنجی ہے جو بند رزق کے دروازے کھولتی ہے، شکر وہ طرزِ فکر ہے جو انسان کو منفی سوچ سے نکال کر رضائے الٰہی کی طرف لے جاتی ہے۔
شکر کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اتحادامت کی طاقت ہے، اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹ جاؤ‘‘ (آل عمران :103)۔
اتحاد ایک نعرہ نہیں ایک نظام ہے، ایک سوچ ہے، ایک طرزِ عمل ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’مومن (دوسرے) مومن کیلئے عمارت کی مانند ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے ‘‘ پھر آپ ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالیں (مشکوۃ المصابیح: 4955)۔
فرقہ واریت، صوبائیت، لسانیت اور سیاسی تعصب نے ہمیں توڑ کر رکھ دیا ہے ان شاء اللہ کبھی بھی دشمن ہمیں میدانِ جنگ میں شکست نہیں دے سکتا۔ اس نے ہمارے درمیان نفرت کے بیج بوئے، ہمیں آپس میں لڑایا اور ہم کمزور ہو گئے۔ جب سیلاب آیا تو کچھ علاقوں میں نوجوانوں نے بغیر کسی حکومتی مدد کے ریلیف کیمپ لگائے۔ یہ اتحاد کا عملی مظہر تھا۔ جب زلزلہ آیا تو انسانیت کی بنیاد پر سب اکٹھے ہو گئے، یہ ہے اصل اتحاد۔جب ہم متحد تھے تو ہم نے بدر جیتی، خیبر فتح کیا، اندلس پر حکومت کی،جب ہم بٹے تو غلامی ہمارے مقدر میں آئی۔یاد رکھیں! قومیں بندوق سے نہیں، اتحاد سے بنتی ہیں۔
ہمیں سب سے پہلے شعور کی ضرورت ہے، شعور وہ پہلی اینٹ ہے جس پر شکر اور اتحاد کی عمارت کھڑی ہوتی ہے،کیونکہ شعور ہو تو ہم شکر بھی کریں گے اور شعور ہو تو ہم متحد بھی ہوں گے۔ شعور ہوگا تو ہمیں دشمن کی چالیں، قوم کی حالت، دین کی حقیقت سب کچھ دکھائی دے گا۔ شعور ہمیں بتاتا ہے کہ دشمن صرف بارڈر پار نہیں ہوتا، دشمن وہ بھی ہے جو ہمیں آپس میں لڑا رہا ہے، بانٹ رہا ہے، کمزور کر رہا ہے۔
شعور ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ صرف نعروں اور جھنڈوں سے وطن نہیں بچتے عقل، علم اور اخلاق سے بچتے ہیں۔لیکن کیا شعور اکیلا کافی ہے؟ نہیں۔شعور کے ساتھ شکر بھی چاہیے تاکہ ہم اس وطن کی قدر کریں، شکر ہمیں منفی سوچ سے بچاتا ہے،شکر ہمیں سکھاتا ہے کہ جو ہے، وہ بھی بہت ہے۔اور پھر سب سے قیمتی چیز اتحاد کیونکہ اگر ہم شعور رکھتے ہیں، شکر ادا کرتے ہیں لیکن بکھرے ہوئے ہیں تو دشمن کا کام آسان ہو جائے گا۔اتحاد وہ طاقت ہے جو ہمیں ایٹمی ہتھیاروں سے بھی زیادہ مضبوط بناتی ہے، جس دن ہم ایک ہوگئے، فرقوں سے، زبانوں سے، علاقوں سے اوپر اٹھ گئے، یقین کریں پاکستان کا سورج کبھی غروب نہیں ہوگا۔
اگر ہم شعور کو دیکھیں وہ ہمیں سچ اور جھوٹ کے درمیان تمیز دیتا ہے،شکر ہمیں منفی سوچ سے بچاتا ہے اور اللہ کی نعمتوں کا صحیح استعمال سکھاتا ہے۔ اتحاد ہمیں اجتماعی طاقت دیتا ہے، جس سے ہم ہر طوفان کا مقابلہ کر سکتے ہیں لیکن ان میں سب سے پہلا قدم شعور ہے۔ کیونکہ جب تک قوم کو یہ شعور ہی نہ ہو کہ ان کی اصل بیماری کیا ہے، تب تک نہ شکر آئے گا، نہ اتحاد ممکن ہو گا۔
شعور راستہ دکھاتا ہے، شکر منزل کا یقین دیتا ہے اور اتحاد اس منزل تک لے جاتا ہے۔ لہٰذا آج اہلِ پاکستان کو سب سے پہلے شعور کی ضرورت ہے تاکہ ہم شکر گزار بھی بنیں اور متحد بھی۔
اے نوجوانو! تم پاکستان کا اصل چہرہ ہو، تم امت کی امید ہو، تمہارے پاس آج معلومات کا سمندر ہے مگر کیا تمہارے پاس شعور بھی ہے؟ کیا تم شکر گزار ہو؟ کیا تم اختلاف کو ختم کر کے اتحاد کو اپنا سکتے ہو؟آج یہ سوال تم سے ہے۔ اپنی سوچ بدلو، اپنی ترجیحات درست کرو،شعور حاصل کرو۔علم، تحقیق اور قرآن و سنت سے، شکر گزاربنو۔نعمتوں کی قدر کرو، منفی سوچ سے بچو،متحد ہو جاؤ ذات، فرقہ اور زبان سے بالاتر ہو کرمسلمان اور پاکستانی بنو،یہی نجات ہے۔ یہی ترقی ہے اور یہی ہماری اصل پہچان ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں شعور، شکر اور اتحاد کی دولت عطا فرمائے۔ آمین!