ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا : استاد، شاعرہ اور انسانی حقوق کی کارکن
پاکستان کے تعلیمی اور ادبی حلقے بزرگ استاد اور دانشور کی وفات سے غمزدہ ہیں۔ 83 برس کی عمر میں انتقال کرنے والی ڈاکٹر عارفہ سید زہرا نہ صرف اردو ادب اور زبان میں اپنی گہری علمیت کے باعث جانی جاتی تھیں بلکہ انسانی حقوق کی فعال کارکن اور شاعرہ کے طور پر بھی ممتاز مقام رکھتی تھیں۔
وہ تعلیم، تاریخ اور سماجی علوم میں نمایاں خدمات کیلیے جانی جاتی تھیں اور ان کا شمار پاکستان کے مؤثر تعلیمی اور فکری شخصیات میں ہوتا تھا۔ نصف صدی سے زائد عرصے تک تدریس کے شعبے سے وابستہ رہنے والی ڈاکٹر عارفہ نے اپنی تعلیم اور خدمات کے ذریعے کئی نسلوں کی تربیت کی، اور اپنے علمی و فکری کاموں سے لاہور کے تعلیمی منظرنامے میں نمایاں مقام حاصل کیا۔انہوں نے بطور خاص مشیر برائے تعلیم و قومی ہم آہنگی وزیراعظم کے ساتھ خدمات انجام دیں، فارمن کرسچین کالج میں پروفیسر ایمرٹس، لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی سابق پرنسپل اورقومی کمیشن برائے خواتین کی چیئر پرسن کے طورپربھی کام کیا۔انہوں نے اردو ادب اور فکری تاریخ میں مہارت حاصل کی اور معاشرتی مسائل پر کھل کر اظہار رائے کیا۔
ان کی علمی اورعوامی خدمات میں تعلیمی شعبے میں اصلاحات،سماجی انصاف اور خواتین کے حقوق کی تحریک شامل تھی،وہ اپنے شجاعانہ اور بے باک بیانات کیلئے مشہور تھیں اور اکثر سامعین کو سماجی اور تاریخی شعور کیلئے سوچنے پر مجبور کر دیتی تھیں۔لاہور میں پیدا ہونے والی ڈاکٹر عارفہ نے لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی سے آنرز کے ساتھ بی اے کیا، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے اردو میں ایم اے اور یونیورسٹی آف ہوائی، مانووا سےAsian Studies میں ایم اے اور تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
ڈاکٹر عارفہ زہرا اردو ادب و زبان پر اپنی گہری علمیت کے باعث معروف تھیں اور انہوں نے 50 سال سے زائد عرصے تک تدریس کے شعبے میں خدمات انجام دیں۔وہ 7 زبانوں پر عبور رکھتی تھیں۔ وہ نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کی رکن بھی رہیں اور 2006ء میں اس کی چیئرپرسن کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ڈاکٹر عارفہ سید زہرہ کو ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے اسی سال تمغہ امتیاز سے نوازا تھا جبکہ فاطمہ جناح ایوارڈ، انٹرنیشنل سوفسٹ ایوارڈ، یونیسکو چیئر ہولڈر اور متحدہ عرب امارات میں ادب و ثقافت کیلئے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
وہ سوشل میڈیا پر بھی فعال رہتی تھی اور کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتی تھیں، جس کی وجہ سے اکثر ان کی ویڈیوز وائرل ہو جاتی ہیں، ان کی زندگی تعلیم، سچائی اور سماجی انصاف کی جدوجہد کا آئینہ ہے۔ ’’آدمی ایک مادی وجود ہے اور انسان ایک اخلاقی۔ آدمی سے ایک انسان کیسے ہوتا ہے؟ جب درمیان میں کتاب آجاتی ہے۔ اور خواہ وہ کتاب خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے والی ہو۔ زندگی کا حوالہ لکھے ہوئے حرف یعنی کتاب کے بغیر مکمل نہیں ہے۔ ڈاکٹر عارفہ کو لاہور سے اپنے تعلق پر ناز تھا۔ ان کے بقول’’ انہیں فخر ہے کہ وہ اس شہر میں رہتی ہیں، جہاں سید علی ہجویریؒ آرام کرتے ہیں۔ان کے چاہنے والے لاہور کو داتا کی نگری کا نام دیتے ہیں‘‘۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ معاشرے کے دو بڑے مسائل تکبر اور دوسروں کو ساتھ شامل نہ کرنا ہے‘‘۔وہ عدم برداشت کو احترام آدمیت کے منافی قرار دیتی تھیں، اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ عدم برداشت کے رویے ہم سے دوسروں کا احترام چھین لیتے ہیں۔