سندھ، سیاست، دائروں کا سفر
ملک میں سیاست 27ویں ترمیم کی حمایت اور مخالفت کے گرد گھوم رہی ہے البتہ سندھ میں سیاست چند مخصوص دائروں میں گھومتی رہتی ہے۔ ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد بھی وہیں پر ہے جہاں دہائیوں سے پڑی ہے۔
اس ہفتے صوبے میں کئی اہم اور بڑے کام ہوئے، پہلے ذکر ڈاکوؤں کے خلاف جاری آپریشن کا کہ جس میں رینجرز اور پولیس نے مشترکہ کارروائی کی اور درجن بھر ڈاکوؤں کو ہلاک کردیا، متعدد زخمی بھی ہوئے، کچھ پولیس اہلکار بھی شہید اور زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والے ڈاکوؤں میں ایک، پنجاب پولیس کے 12 جوانوں کی شہادت کا مرکزی ملزم، شاہو تھا جس کے سر کی قیمت 50لاکھ روپے مقرر تھی۔ ڈاکوؤں کے خلاف مسلسل کارروائیوں کی ضرورت ہے تب ہی ان کا خاتمہ ممکن ہے۔
سندھ حکومت کسانوں کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتی ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا،بلاول بھٹو زرداری نے لاڑکانہ میں تقریب میں شرکت کی جس کا مقصد گندم کی کاشت کیلئے کھاد خریدنے کی خاطر کسانوں میں نقد رقم کی تقسیم تھا۔صوبے میں ڈینگی کے وار بھی جاری ہیں، درجنوں افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ رواں ماہ پانچ ہزار کے قریب افراد ڈینگی کا شکار ہوئے، گزشتہ ساڑھے دس ماہ میں ساڑھے 10ہزار افراد وائرس کا شکار ہوئے لیکن ڈینگی مچھر مار مہم کہیں نظر نہیں آئی۔ کراچی اور حیدرآباد خاصے متاثر ہیں۔ حکومت کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کراچی میں یونیورسٹی روڈ سے گزرنے والوں کے لیے اچھی اور برُی خبر ایک ساتھ ہے۔ حکومت نے کے فورمنصوبے کی لائن ڈالنے کے لیے سڑک کا ایک حصہ بند کردیا ہے، اس لیے عوام 30دسمبر تک اس سڑک کو استعمال نہ کرپائیں گے، یہ تو تھی اچھی۔ برُی خبر یہ ہے کہ انہیں شاہراہ پاکستان یا شاہراہ فیصل یا پھر ڈالمیا روڈ استعمال کرنا ہوگی۔ اگر شاہراہ فیصل پر گئے تو ای چالان کیلئے تیار رہیں، بچنا ہے تو ٹریفک قوانین پر مکمل عمل کریں۔ سڑک بند کرنے کے اعلان کے بعد ایک دلچسپ خبر سامنے آئی کہ وزیر داخلہ ضیاالحسن لنجار نے انتظامیہ کو ہدایت کی کہ متبادل جامع پلان پیش کیا جائے۔ حیران کن بات یہ کہ سڑک پہلے بند کی، متبادل ٹریفک پلان بعد میں طلب کیا گیا۔
ادھر وزیراعلیٰ مراد علی شاہ بھی عوام کیلئے بہت فکرمند ہیں، ان کا کہنا تھا کہ پانی کی لائن سے شہر کی بڑھتی ہوئی ضرورت پوری ہوگی۔ واٹر بورڈ مقررہ وقت میں کام مکمل کرے تاکہ عوام کو پریشانی نہ ہو۔ یہ بھی اچھا ہے کہ پانی کی سپلائی بڑھ جائے گی۔ اب تک جو پانی سپلائی کیا جاتا ہے وزیراعلیٰ اس کی تفصیلات بھی بتا دیتے تو اچھا رہتا۔ بعض علاقے ایسے ہیں جہاں ہفتوں پانی نہیں آتا، اگر آجائے تو رکنے کا نام نہیں لیتا، واٹر ہائیڈرینٹ کو پانی کی سپلائی مستقل جاری رہتی ہے جو شہر کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں، یعنی پانی موجود ہے سپلائی کا نظام درست نہیں۔ لائنیں خراب ہیں، لائن مین خراب ہیں، ادارہ ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہے۔ توجہ اس طرف زیادہ ہونی چاہیے لیکن جیسا حال دوسرے محکموں کا ہے واٹر بورڈ کوئی آسمان سے تھوڑا ہی اترا ہے کہ اس اکیلے کو سیدھا کیا جائے اور باقی مزے لیں۔ کام مقررہ وقت میں مکمل کرنے کی بات بھی دلچسپ لگی، آج تک تو کسی منصوبے کو وقت پر پورا ہوتے نہیں دیکھا، یونیورسٹی روڈ پر بس لین بن رہی ہے اور کب تک بنتی رہے گی۔ کریم آباد انڈر پاس کا مقررہ وقت گزرے بھی زمانہ ہوا۔
کراچی میں ای چالان کا سلسلہ بھی جاری ہے، تاہم ایک بات یہ اچھی نظر آرہی ہے کہ شاہراہ فیصل پر ٹریفک قوانین کی پابندی نظر آنے لگی ہے، لوگ لائن اور لین کی پاسداری کر رہے ہیں، دوسری طرف جماعت اسلامی کراچی کے امیر منعم ظفر نے چالان کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سڑک پر نہ تو رفتار کی حد کے بورڈ نصب ہیں اور نہ ہی زیبرا کراسنگ ہے۔ سہولتیں کوئی نہیں پھر بھی بھاری جرمانہ کیا جارہا ہے۔ انفراسٹرکچر کے بغیر چالان کو غیرقانونی اور امتیازی سلوک قرار دیا جائے۔ عدالت نے فریقین سے 24نومبر تک جواب طلب کرلیا ہے۔ مخصوص شاہراہوں پر تو ای چالان کی وجہ سے صورتحال بہتر ہورہی ہے لیکن شہر کی دیگر سڑکوں کا حال برُا ہے۔ گزشتہ ہفتے ڈمپر سے نوجوان کی موت کے کیس میں عجیب سی صورتحال پیدا ہوگئی، ڈمپر جلانے والے شہریوں پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا جبکہ ڈمپر ڈرائیور پر قابلِ ضمانت دفعہ لگائی گئی۔ کیس میں اب تک چارمقدمات درج ہوچکے ہیں۔ حادثے میں اگر ڈرائیور کی غیرذمہ داری ہے تو اسے سزا دینا عدالت کا کام ہے، عوام کو قانون ہاتھ میں لینے سے گریز کرنا چاہیے، تاہم اس بارے میں بہت سے سنجیدہ حلقوں کی رائے ہے کہ ریاست کو مقدمات کے اندراج اور ان میں لگائی گئی دفعات میں بھی سوچ و بچار سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ حادثات کی شرح دیکھیں تو رواں برس بھاری گاڑیوں سے 224افراد جاں بحق ہوئے، یہ بھی تو کسی کے بھائی، بیٹے تھے، کیا ان کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں ؟
حکومت کو ایسی قانون سازی کرنی چاہیے کہ حادثے کی صورت میں مرنے والے کے لواحقین کو ہرجانہ دیا جائے گا۔ یہ ہرجانہ اس شخص کی تعلیم، صلاحیت اور کام کے لحاظ سے طے ہونا چاہیے کہ دنیا بھر میں اسی بنیاد پر ہرجانہ طے ہوتا ہے۔ کسی کا پیارا مر جائے تو اس کی کمی دنیا کی ساری دولت بھی پوری نہیں کرسکتی لیکن مناسب ہرجانہ مل جانے سے لواحقین کی کچھ اشک شوئی ہوسکے گی۔