قرآن و سنت کی روشنی میں خطابت کا اسلوب

تحریر : مفتی ڈاکٹرمحمد کریم خان


’’اے ایمان والو! ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو‘‘ (سورہ الصف) خطیب اصلاح معاشرہ کا اہم فریضہ سرانجام دیتا ہے، اسلامی حکومتوں میں خطیب کا منصب ہمیشہ اہم رہا ’’اے نبی مکرم ﷺ !آپ کہہ دیجئے کہ میرا طریق یہی ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں اور میرے پیروکار دلیل پر قائم ہیں‘‘(سورہ یوسف)

منبر و محراب کی گونج صدیوں سے امت مسلمہ کی روحانی زندگی کا محور رہی ہے۔ خطابت صرف الفاظ کا ہنر نہیں بلکہ قلوب و اذہان کی تربیت کا وہ مقدس فریضہ ہے جس کے ذریعے ایمان کی حرارت بیدار، عمل کی شمع روشن اور معاشرہ کی اصلاح ممکن ہوتی ہے۔ ایک خطیب کے الفاظ اگر علم، اخلاص اور حکمت سے مزین ہوں تو وہ دلوں میں انقلاب برپا کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے خطابت کو محض گفتار نہیں بلکہ ایک امانت اور ذمہ داری قرار دیا ہے۔ نبی کریمﷺ اور خلفائے راشدینؓ کے خطبات دراصل اسی ذمہ دارانہ خطابت کی روشن مثالیں ہیں، جنہوں نے جہالت کے اندھیروں میں فکر و ایمان کے چراغ جلائے۔ آج جب منبر و محراب کی زبان سے قوم کی رہنمائی اور اصلاحِ حال کی توقع کی جاتی ہے تو اس منصب کے تقاضوں کو سمجھنا اور اس کا صحیح استعمال کرنا نہایت ضروری ہے۔

 مساجد میں جمعہ ودیگر اہم مواقع پر ایک اچھا خطیب ہی اصلاح معاشرہ کا اہم فریضہ انجام دیتا ہے۔ اس کی تقاریر کے نتیجہ میں لوگوں میں نیکی کی طرف رغبت اور برائیوں سے بے رغبتی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اچھی اور موثر تقریر یقیناً اصلاح کا باعث بنتی ہے۔ خطیب و مبلغ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جمیع انبیاء کرام خطیب وامام تھے۔ حضور نبی کریمﷺ کے خطبات اسلامی شریعت اور تاریخ و ادب کا اہم حصہ ہیں، خلفاء راشدین کے خطبات سے شریعت کی راہیں کھلتی ہیں۔ اسی لیے تمام اسلامی حکومتوں میں خطیب کا منصب ہمیشہ اہم رہا ہے۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر اور عوامی سطح پر خطیب ایک اہم منصب ہے۔ اس لیے خطیب کی حدود و قیود اور ذمہ داریوں کے تعین کے بارے میں نبی کریم ﷺ کی سیرت سے ہمیں مکمل راہنمائی ملتی ہے۔ ایک خطیب کو کن صفات کا حامل ہونا چاہیے، خطیب کی دعوت کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے۔ خطیب کیلئے تقریر کے اصول و ضوابط کیا ہونے چاہیے، ہم اختصارکے ساتھ ان امور کا قرآن و سنت اور سیرت نبویﷺ کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں۔

یہ ضروری ہے کہ خطیب دین کا علم اور سمجھ رکھنے وا لا، اور جو کچھ وہ کہہ رہا ہے اور جس چیز کی طرف بلا رہا ہے، اس پر عمل کرنے والا ہو، اچھی خصلتیں اور اچھی صفات کا حامل ہو۔ اللہ کی طرف بلانے والے راستہ میں مشکلات پر صبر کرنے والا اور تکالیف کو تحمل و بردباری سے برداشت کرنے والا ہو۔ اس کی زبان میں شیرینی اور اس کے مزاج میں درگزر کرنے کا مادہ ہو، اس لئے کہ خطیب و مبلغ درحقیقت نبی کریم ﷺ کا نائب ہے۔ لہٰذا جس کا نائب ہے، اس کی صفات سے اس کا متصف ہونا ضروری ہے۔ (امام و خطیب کی شرعی و معاشرتی حیثیت، ص101)

مبلغ یا داعی کی تمام صفات میں سب سے پہلی صفت، صفت علم ہے۔ داعی کیلئے عالم ہونا ضروری ہے اور یہ بھی کہ وہ اپنے علم میں اضافہ کرتا رہے، جس کیلئے وہ تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت النبیﷺ وغیرہ کی کتابیں مطالعہ کرے اور دیگر مبلغین اور مجاہدین کی تاریخ دعوت و عزیمت سے آشنا اور آگاہ ہو، اور ان مضامین سے متعلق کتب کے ذخیرہ سے اپنے علم کو مزید ترقی دے، اور جس چیز کی طرف وہ لوگوں کو دعوت دے رہا ہو، اس میں اس کو بصیرت اور عبور حاصل ہو، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے نبی مکرمؐ ! آپ کہہ دیجئے کہ میرا طریق یہی ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں اور میرے پیروکار دلیل پر قائم ہیں، پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور میں مشرکوں میں سے نہیں‘‘ (سورہ یوسف:108)۔

چونکہ خطیب لوگوں کو پروردگار کے راستہ کی طرف بلاتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ وہ اس راستہ کے تمام مقتضیات اور معلومات سے واقف ہو اور جب وہ لوگوں کو اچھی چیزوں کی طرف بلا رہا ہے اور بری چیزوں سے روک رہا ہے، تو یہ اچھائی اور برائی کی معرفت بغیر علم کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ نبی کریم ﷺ جو کہ تمام لوگوں سے زیادہ عالم تھے، ان کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی کہ آپ کثرت سے یہ دعا مانگیں: ’’قُل رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْماً‘‘(اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما)،(سورہ طٰہٰ:114)

خطیب و داعی کیلئے ضروری ہے کہ اس کے پاس جو علم ہے اور جس چیز کی طرف وہ لوگوں کو بلا رہا ہے، اس پر اس کا عمل بھی ہو، نبی کریم ﷺ جس چیز کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے تھے، آپ ﷺ اس پر سب سے پہلے عمل کرنے والے ہوتے تھے اور ان کیلئے عمل کا ایک نمونہ پیش فرماتے، تاکہ لوگ اس نمونہ عمل کی اقتداء کریں۔ جب نماز پڑھنے کا حکم نازل ہوا تو آپ ﷺ نے پہلے خود نماز ادا فرمائی اور اس کے بعد صحابہ کرام سے فرمایا: ’’اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الاذان، رقم 631)

اسی طرح جب حج اداکرنے کاحکم نازل ہواتوآپﷺنے حج ادا کر کے فرمایا: ’’لوگو!مجھ سے اپنے حج کا طریقہ ضرور سیکھ لو کیونکہ مجھے نہیں معلوم شاید اپنے اس حج کے بعد دوبارہ حج نہ کرسکوں‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الحج، رقم 1297)۔

جب داعی اس عمل پر خود عمل پیرا ہو، جس کی طرف وہ دعوت دے رہا ہے، تو وہ بات دل میں مضبوطی سے جاگزیں ہوتی ہے اور مخاطب اس کو پوری بصیرت اور خوش دلی سے قبول کرتا ہے، جب بات دل سے نکلتی ہے تو دل میں جاگزیں ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر سخت نکیر فرمائی ہے، جو لوگ اپنے کہے ہوئے پر عمل نہیں کرتے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو، اللہ کے نزدیک یہ بات بہت ناراضگی کی ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں‘‘ (سورہ الصف:3)۔

حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اور میں نہیں چاہتا کہ تمہارے برخلاف ان کاموں کو کروں، جن سے میں تمہیں روکتا ہوں، میں تو بس اصلاح ہی چاہتا ہوں، جہاں تک میں کر سکوں اور مجھے جو کچھ توفیق ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہے، اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔

خطیب وداعی کیلئے ضروری ہے کہ وہ سلامت قلب اور پاکیزگی روح کے ساتھ متصف ہو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا تعلق نہایت مضبوط ہو، اور تعلق باللہ فرائض پر پابندی کے ساتھ عمل، رات کی نماز اور کثرت ذکر سے حاصل ہو گا۔ اس لئے کہ ذکر الہٰی سے دل ودماغ کو جلا ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشادہے: ’’خبردار!اللہ کے ذکرسے ہی دلوں کواطمینان ہوتا ہے‘‘ (الرعد:28)۔

خطیب وداعی کو چاہیے کہ وہ کچھ وقت اپنے رب کے ساتھ تخلیہ کیلئے فارغ رکھے۔ ڈاکٹر مصطفیٰ سباعی فرماتے ہیں: ’’اللہ جل شانہ کی طرف بلانے والے کیلئے ضروری ہے کہ کچھ اوقات فارغ کرے،جن میں وہ اللہ جل شانہ کے ساتھ اپنی روح کے تعلق کو مضبوط کرے۔ ان اوقات میں وہ برے اخلاق کی کدورتوں سے اپنے نفس کو پاک کرے، اپنے گرد و پیش کی منتشر زندگی سے پرسکون ہو جائے۔ تخلیہ کے ان اوقات میں اپنے نفس کا محاسبہ کرے کہ اس نے بھلائی میں کیا کوتاہی کی؟ کہاں اس کے قدم متزلزل ہوئے؟ کہاں اس نے حکمت تبلیغ اور منہج دعوت میں غلطی کی؟ ان امور کا محاسبہ کرے ان کے ازالہ کی تدبیر سوچے اور ان اوقات تخلیہ میں وہ آخرت، جنت، دوزخ، موت اور اس کی ہولناکیوں کا تصور کرے، ان اوقات تخلیہ میں ذکر الہٰی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ پر نماز تہجد اور قیام اللیل فرض تھی(سورہ الاسرآء:79)، جبکہ امت کے دیگر افراد کے حق میں مستحب ہے، اس نماز تہجد کی سب سے زیادہ ضرورت مبلغین کو ہے اور پھر رات کے آخری حصہ میں تخلیہ اور نماز تہجد کی لذت سے وہی شخص آشنا ہو سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس نعمت سے سرفراز فرمایا ہو۔ (امام وخطیب کی شرعی ومعاشرتی حیثیت، ص 103-104)

ضروری ہے کہ خطیب پاکیزہ اخلاق اور اچھی صفات مثلاً صبر، بردباری، نرم مزاجی، عفو ودرگزر اور لوگوں پر شفقت جیسی صفات سے متصف ہو،جیسے کہ نبی کریم ﷺ متصف تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے تمام اخلاق حمیدہ اور صفات پاکیزہ کے اعلیٰ رتبہ پر فائز ہونے کی خبر قرآن کریم نے متعدد آیات میں دی، چند ایک درج ذیل ہیں: ’’اور بے شک آپؐ اخلاق کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہیں‘‘ (القلم: 4)۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔