بڑا نقصان

تحریر : دانیال حسن چغتائی


سلیم صاحب کے دو بیٹے حماد اور ارمان تھے۔ دونوں ہی بہت شرارتی تھے۔ گھر ہو یا اسکول، ان کی شرارتوں کے چرچے ہر جگہ مشہور تھے۔ ہر وقت شرارتیں ہی سوجھتے اور کرتے رہتے۔

سلیم صاحب جو ایک فیکٹری میں اکاؤنٹنٹ تھے، بارہا اپنے بیٹوں کو سمجھاتے کہ شرارتیں کم کیا کرو، وقت پر پڑھائی کیا کرو، مگر بیٹوں کے کانوں سے ان کی باتیں ہوا کی طرح نکل جاتیں۔آخر ایک دن سلیم صاحب نے تنگ آ کر دونوں کے گھر سے باہر جانے پر پابندی لگا دی۔

اب ایک طرف ابو کا سخت مزاج تھا تو دوسری طرف ان کی اماں تھیں جو نرم دل اور پیار کرنے والی تھیں۔ جیسے ہی سلیم صاحب کسی کام کیلئے باہر نکلتے، دونوں بھائی اپنی اماں کو منانے کی کوشش کرتے۔

’’اماں، بس آدھا گھنٹہ باہر کھیلنے دیں، پھر واپس آ جائیں گے!‘‘

ماں تو ماں ہوتی ہے۔ وہ بھی ان کے سامنے ہار مان جاتیں، مسکرا کر اجازت دے دیتیں۔

ایک دن دونوں کھیلنے کیلئے باہر نکلے تو راستے میں ایک زخمی چڑیا نظر آئی۔ ننھی سی چڑیا زمین پر بیٹھی تھی، اس کے پر زخمی تھے اور سانس پھولی ہوئی تھی۔ 

حماد نے فوراً کہا: ’’ارمان! اسے پانی پلاتے ہیں، اس پر کسی بلی نے حملہ کیا ہے اور مجھے یہ پیاسی بھی لگ رہی ہے‘‘۔

دونوں بھاگ کر گھر گئے۔ حماد نے مرہم اٹھایا، ارمان نے پانی کا پیالہ لیا اور واپس آ کر دیکھا تو چڑیا ابھی تک وہیں تھی۔ جیسے ہی ارمان نے پانی آگے کیا، چڑیا نے جلدی جلدی پانی پیا۔

پھر حماد نے نرمی سے اس کے پیر دیکھے تو ایک باریک لوہے کا تار اس میں پھنسا ہوا تھا۔ دونوں نے احتیاط سے وہ تار نکالا، زخم پر مرہم لگائی اور دعا کی، یااللہ اسے ٹھیک کر دے۔ 

اب انہیں علم ہوا تھا کہ اس پر حملہ کسی بلی نے نہیں کیا بلکہ کسی انسان نے اسے پکڑنے کی کوشش کی اور اس کی تار میں آ کر یہ زخمی ہو گئی۔ 

کچھ ہی دیر میں چڑیا کے زخمی پر ہلنے لگے اور پھر وہ اڑ کر پاس کے درخت پر اپنے گھونسلے میں جا بیٹھی۔

دونوں بھائی خوشی سے تالیاں بجانے لگے۔اسی لمحے انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ ابو قریب ہی کھڑے مسکرا رہے تھے۔دونوں چونک کر رہ گئے۔ ابو ادھر یہاں ؟ کب اور کیسے ؟ وہ تو اب ناراض ہو جائیں گے!

لیکن ابو ان کے پاس آئے، ان کے سروں پر ہاتھ پھیرا اور محبت سے بولے: ’’بیٹا! آج تم نے میری بات نہیں مانی مگر نیکی کے کام میں میں تمہیں سزا نہیں دے سکتا۔ کسی کی مدد کرنا سب سے خوبصورت نیکی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے بیٹے شرارتی ضرور ہیں مگر نرم دل بھی ہیں‘‘۔

دونوں بچوں نے ابو کے گلے لگ کر وعدہ کیا کہ وہ آئندہ شرارتیں نہیں کریں گے اور والدین کی بات مانیں گے کیونکہ نافرمانی سے بڑا نقصان اور کوئی نہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔