مولانا ظفر علی خان عزم،ولولے اور دلیرانہ صحافت کی داستان

تحریر : ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی


مولانا ظفر علی خان مختصر سوانح و خدمات: برصغیر کے نامور صحافی، ادیب، شاعر اور سیاسی رہنما ظفر علی خاں موضع مہرتھہ ضلع سیالکوٹ میں 17جنوری 1874ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت کی تاریخ کے تعین میں جزوی اختلاف ہے لیکن مذکورہ سال ان کے خاندان میں ان کی سالگرہ منائے جانے کے لحاظ سے مطابقت رکھتا ہے۔

 وہ ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد مولوی سراج الدین احمد بھی صحافت اور ادب سے گہرا تعلق رکھتے تھے اور اسی گھرانے کے ماحول نے ظفر علی خان کی شخصیت کو ابتدائی عمر ہی میں جلا بخشی۔1890ء کی دہائی میں انہوں نے علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی اور جدید و قدیم علوم میں مہارت پیدا کی۔ 1900ء کے قریب وہ ریاست حیدرآباد دکن سے بطور سیکرٹری وابستہ ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد واپس آئے اور اپنے والد کے جاری کردہ ’’زمیندار‘‘ اخبار کی ادارت سنبھالی۔ 1909ء میں انہیں باقاعدہ مدیر مقرر کیا گیا اور پھر 1911ء کے بعد ’’زمیندار‘‘ تحریکِ آزادی  کا بلند ترین ترجمان بن گیا۔ مولانا نے اپنی تیز، بے باک اور اصولی صحافت کے ذریعے برطانوی حکومت کے مظالم کو بے نقاب کیا۔ اسی وجہ سے انہیں 1919ء ، 1922ء اور متعدد دیگر مواقع پر مقدمات، جرمانوں اور  قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔سیاسی طور پر وہ مسلم لیگ کے فعال رہنما تھے۔ 1937ء کے انتخابات میں وہ پنجاب سے مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انہوں نے اتحادِ ملت، آزادیِ صحافت، اردو زبان کے فروغ، اور مسلمانوں کے معاشی و سیاسی حقوق کے لیے بھرپور آواز اٹھائی۔ ان کی شاعری، خصوصاً ملی اور حماسی نظموں نے عوام کے دلوں میں نئی روح پھونک دی۔مولانا ظفر علی خان 27 نومبر 1956ء کو انتقال کر گئے اور اپنے آبائی گاؤں کرم آباد، وزیرآباد میں سپردِ خاک کئے گئے۔ ان کی خدمات کو پاکستان میں صحافت کا سنہرا باب سمجھا جاتا ہے۔ ان کا نام حق گوئی، شجاعت، قومی حمیت اور اردو صحافت کی عظمت کی علامت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

مولانا ظفر علی خاں کے سیاسی شعور کی تشکیل میں چھ شخصیات کا نمایاں حصہ ہے، جبکہ ساتویں چیز بین الاقوامی سیاسی حالات تھے۔ ان عوامل نے ان میں ذہنی پختگی پیدا کی اور خار زار سیاست میں چلنا سکھایا۔ اسی سبب سے وہ ایک مضبوط عزم کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول کیلئے ولولہ انگیز فکر کو نثر و نظم کے قالب میں ڈھالتے رہے۔ ان چھ شخصیات میں: مولوی سراج الدین احمد (والدمحترم)،سر سید احمد خاں،علامہ شبلی نعمانی،نواب محسن الملک، مولوی عزیز مرزا اورسید جمال الدین افغانی شامل ہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے انگریز کے خلاف فکری مزاحمت کا سبق اپنے والد گرامی سے سیکھا، جب ان کے والد نے ایک انگریز کے غلط رویے کے سبب اُس کی پٹائی کی تھی۔ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ ظفر علی خاں کے سامنے نہ گزرا ہولیکن یہ جذبہ انہوں نے اپنے والد سے وراثت میں پایا کہ انگریز کے دبائو کو کسی طرح قبول نہ کیا جائے۔ دوسرا واقعہ گورنر یو پی کے خلاف اُردو تحریک میں حصہ لینے کا پیش آیاجبکہ ان کے والد محترم نے نواب محسن الملک کی اردو تحریک کو آگے بڑھانے میں حصہ لیا۔بقول حکیم احمد شجاع ’’مولوی سراج الدین احمد صاحب نے پنجاب و کشمیر میں باقاعدہ اردو مہم چلائی اور سینکڑوں خطوط کے پتے اردو میں لکھوائے تاکہ اس کی مقبولیت کا اندازہ حکومت کو ہو سکے۔ لاہور کی صحبتوں میں انگریز کی اردو دشمنی کے خلاف اپنی تمام ہمتوں کو صرف کیا‘‘۔

مولانا ظفر علی خاں کے والد نے کشمیر میں ملازمت کے دوران بیگار کی رسم ختم کرانے میں بھی حصہ لیا، اس طرح سعادت مند بیٹے نے یہ بات اپنی گرہ میں باندھ لی کہ میں بھی غلط رسم و رواج کے خلاف اپنی کوششوں میں کوئی کمی نہیں کروں گا(جس کا عملی اظہار ان کی مابعد زندگی میں ہوا)۔مولانا سراج الدین احمد ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ میں بھی کبھی کبھی مضامین لکھتے تھے۔ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ نے تعصب، تقلید اور بیہودہ رسم و رواج پر تنقید کی۔ سر سید کو اس سلسلہ میں اپنے بعض دوستوں سے بھی مدد ملی جن کے مضامین ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی تائید میں نکلتے تھے۔ اس طرح والد کی دلچسپی کا اثر خود ظفر علی خاں کی صلاحیتوں پر پڑا اور اپنے والد اور پھوپھا مولوی محمد عبداللہ (پروفیسر مہندرا لا کالج پٹیالہ) کی سخت نگرانی نے ہی ایک لگن کا عادی بنا دیا کہ محنت سے کام کیا جائے۔ تعلیم کے دوران کئی مقامات پر رہنے کے سبب انہیں اجنبی ماحول میں رہنے کا ڈھنگ بھی سکھا دیا اور دوسروں کے اچھے اطوار سیکھنے کی صلاحیت پیدا کردی۔

اس کے بعدظفر علی خاں کے سیاسی شعور کو نکھارنے میں سر سید کی شخصیت اور علی گڑھ کے ماحول نے زبردست کام کیا۔ بقول ڈاکٹر عبدالحق ’’سیاسی زندگی کا سنگ بنیاد اسی وقت رکھا گیا تھاجب انہوں نے سر سید کو دیکھا۔ علی گڑھ کے ماحول میں زندگی گزارنے کے سلسلے میں خاص بات یہ تھی کہ وہاں جو قومیت کی ہمک تھی وہ کسی دوسری جگہ نہیں پائی جاتی تھی۔ یہ کالج کے بانی سر سید ہی کا طفیل تھا کہ انہوں نے مسلمانوں میں قومیت کا احساس پیدا کیااور اس احساس کو ان اکابر قوم سے بھی تقویت ملتی تھی جو سر سید کے پاس آتے تھے۔ سر سید کی صحبت نے ان میں وسعت نظر پیدا کی اسی لئے سر سید کے زمانے سے علی گڑھ مسلمانوں کی قومی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا‘‘۔

علامہ شبلی کی شاگردی نے ظفر علی خاں میں مشرق سے محبت، اسلامی تاریخ کے مطالعے کا شوق، نماز کی لگن اور عالم اسلام سے محبت سکھائی۔ شبلی کی شاگردی نے ان میں ادبی و علمی ذوق و شوق تو پیدا ہی کیالیکن ظفر علی خاں نے اسلامی تاریخ کا شوق براہ راست ان سے سیکھ کر یہ بھی سیکھا کہ اسلامی آثار کو بچانے کیلئے ماحول سے ہٹ کر کس طرح کام کیا جا سکتا ہے۔ شبلی کو علم کلام کا شوق اس حد تک تھا کہ بقول علامہ سید سلیمان ندوی’’ کلامیات‘‘ ان کی وسعتِ علمی کا جزو تھا۔ اسلامی علوم و فنون سے شیفتگی کے ساتھ انہوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ کس طرح گستاخ ہاتھوں نے اسلام کے چمن کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ وہ یورپ کی دستبرد سے ہمہ تن فریاد تھے۔ اسی جذبے نے ہندوستانی سیاست ان کے سامنے اس طرح پیش کی کہ یہ ملک ہندو و مسلمان کا متحدہ وطن ہے لیکن اسلامی سیاست میں وہ پورے پہن اسلامی تھے۔ گویا شبلی نے پین اسلام کا شعور ظفر علی خان میں پیدا کیا خود ان کی شاعری اور نثری کاوشیں اسلامی مفاد کے تحفظ کیلئے وقف ہو گئیں تھیں۔ وہ دنیائے اسلام میں کہیں تکلیف دیکھتے، تو بے چین ہو جاتے تھے۔

ظفر علی خاں بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد محسن الملک کے پاس بمبئی پہنچے جہاں وہ ایک سال ان کی خدمت میں رہے اور بعد میں ان کے مشورے سے حیدر آباد گئے۔ وہ ایک جہاں دیدہ اور زیرک انسان تھے، بقول سرور جنگ ’’اگر یورپ میں ہوتے، تو بسمارک سے کم نہ ہوتے‘‘۔ خود ظفر علی کے والد نے محسن الملک کی زیر ہدایت اردو کی حمایت میں اردو تحریک چلائی۔

ظفر علی خان کی جسمانی صحت باقاعدہ ورزش اور سیر کے باعث بہت اچھی تھی۔ انہیں جسمانی مشقت سے کبھی عار نہ تھا البتہ عمر کے آ خری حصے میں ان کی صحت آہستہ آہستہ گرنا شروع ہو گئی اور کچھ رعشہ کی شکایت بھی پیدا ہو گئی تھی۔ کسی نے کوئی نسخہ تجویز کیا جو اُن کو راس نہ آیا اور وہ حالت کر دی کہ کہ پھر اُٹھ ہی نہ سکے۔ عبداللہ بٹ، ناقل ہیں کہ ’’ حبیب الرحمن جو مکتوب برلن کے نام سے زمیندار میں مضامین لکھتے تھے اور جنگ کے زمانے میں برلن سے اردو میں خبریں بھی نشر کرتے تھے اگست 1947ء میں میرے یہاں مقیم تھے۔ انہوں نے مولانا سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ وہ مولانا سے بہت عقیدت رکھتے تھے چنانچہ ہم دونوں زمیندار کے دفتر میں پہنچے۔ مولانا اختر علی نے اپنے مخصوص جوش و خروش کے ساتھ معانقہ کیا اور ہمیں دفتر کے عقبی حصے میں لے گئے جہاں مولانا بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کی صحت خراب تھی۔ کمزوری و نقاہت کے آثار بہت نمایاں تھے اس کے باوجود وہ ہم سے بغل گیر ہوئے۔ جب بیٹھے تو ان کے ہاتھوں میں رعشہ تھا۔ آواز بہت نحیف تھی۔ ان کی حالت دیکھ کر میری آنکھیں پرنم ہوگئیں۔

تقریباً 1948ء سے ان کے بدن میں رعشہ اور زبان میں کچھ لکنت پیدا ہو گئی تھی لیکن اس عالم میں بھی وہ زمیندار کے دفتر جاتے، دیر تک بیٹھتے، افتتاحیہ ضرور سنتے اور کچھ تبدیلیاں کراتے، اسی سال 2مارچ1948ء کو ان کی بیگم صاحبہ کا انتقال ہو گیا۔ اس حادثہ نے ان کی صحت پر اور اثر ڈالا اور تقریباًدس سال تک عملی زندگی سے کنارہ کشی پر مجبور ہو گئے لیکن اس غم کے باوجود انہوں نے 1949ء میں پنجاب یونیورسٹی میں اردو کانفرنس کے جلسہ میں ایک معرکہ آراا تقریر کی۔ 

 بقول عشرت رحمانی: ’’ میں نے انہیں 52/53ء میں کوہ مری میں دیکھا جبکہ وہ طویل علالت اور رعشہ سے مجبور تھے اور اپنی کوٹھی سے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے برآمد ہوئے اور باہر سڑک پر بدستور سست خرام نظر آئے۔ ان کے بھائی چوہدری غلام حیدر ان کو سہارا دیئے ہوئے تھے لیکن ان کے تیور بتاتے تھے کہ ان کو سہارا گوارا نہیں۔ تاہم معمولات کی پابندی میں فرق نہ آنے دیتے۔ موسم گرما میں بالا لتزام مری جاتے اور سارا موسم گرما وہیں گزارتے۔ اس علالت کے دوران دو صاحبان ایسے تھے جنہوں نے اپنی محبت و خدمت کا حق ادا کر دیا، ایک ان کے بھائی چوہدری غلام حیدر جو شروع ہی سے ان کے شریک کار رہے تھے اور دوسرے ان کے بیٹے اختر علی خاں۔  وہ کوئی گھڑی، کوئی لمحہ اپنے باپ کی خدمت سے علیحدہ نہ ہوئے‘‘۔

مولانا ظفر علی خان نے اپنے والد مولانا سراج الدین احمد کے انتقال کے بعد ’’زمیندار‘‘ کی ادارت سنبھال لی۔ کرم آباد چھوٹی سی بستی تھی جہاں کافی مسائل بھی تھے، اس لیے وہ لاہور چلے آئے اوریہیں سے مئی1911ء میں بڑے پیمانے پر ’’زمیندار‘‘ کا پہلا شمارہ نکالا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ’’زمیندار‘‘ کی شہرت پورے برّصغیر میں پھیل گئی کہ اس میں اب صرف کاشت کاروں کی نہیں بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کی بات کی جاتی تھی۔ اس میں مسلمان قوم کو اپنے حق کیلئے آواز اُٹھانے کی ترغیب دی جانے لگی توانگریزکے قصر ِاستبداد کی بنیادیں ہلنے لگیں۔ یہاں تک کہ ’’زمیندار‘‘ عوام کا مقبول ترین اخبار بن گیا۔ ’’زمیندار‘‘ وہ پہلا اخبار تھا جس نے بلقان اور طرابلس کی جنگوں میں بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی خدمات حاصل کیں۔زمیندار نے قریباً نصف صدی تک مسلمانوں کی خدمت کی اور اس دوران اُس نے ایک ادارے کی سی حیثیت اختیار کرلی تھی جس نے کئی نامور صحافی پیدا کیے جن میں مولانا عبدالمجید سالک، مولانا غلام رسول مہر، مرتضیٰ احمد خاں میکش، قاضی عدیل عباسی، چراغ حسن حسرت، حاجی لق لق اور عطا اللہ سجادوغیرہ شامل ہیں۔

فرض اور قرض

جو مسلم ہے تو جاں ناموس ملت پر فدا کر دے

خدا کا فرض اور اس کے نبی کا قرض ادا کر دے

بھری محفل میں لا سکتا نہ ہو گر کفر تاب اس کی

تو زنداں ہی میں جا کر روشن ایماں کا دیا کر دے

شہادت کی تمنا ہو تو انگریزی حکومت پر

کسی مجلس کے اندر نکتہ چینی برملا کر دے

تمہارا قافلہ کچھ لٹ چکا اور کچھ ہے لٹنے کو

رسول اللہؐ کو اس کی خبر باد صبا کر دے

ضرورت ہے اب اس ایجاد کی دانائے مغرب کو

جو اہلِ ہند کے دامن کو چولی سے جدا کر دے

نکل آنے کو ہے سورج کہ مشرق میں اجالا ہو

برس جانے کو ہے بادل کہ گلشن کو ہرا کر دے

قفس کی تیلیوں پر آشیاں کا کاٹ کر چکر

فلک سے گر پڑے بجلی کہ بلبل کو رہا کر دے

یہ ہے پہچان خاصان خدا کی ہر زمانے میں

کہ خوش ہو کر خدا ان کو گرفتار بلا کر دے

فانوس ہند کا شعلہ

زندہ باش اے انقلاب اے شعلہ فانوس ہند

گرمیاں جس کی فروغ منتقل جاں ہو گئیں

بستیوں پر چھا رہی تھیں موت کی خاموشیاں

تو نے صور اپنا جو پھونکا محشرستاں ہو گئیں

جتنی بوندیں تھیں شہیدان وطن کے خون کی

قصر آزادی کی آرائش کا ساماں ہو گئیں

مرحبا اے نو گرفتارانِ بیدادِ فرنگ

جن کی زنجیریں خروش افزائے زنداں ہو گئیں

زندگی ان کی ہے، دین ان کا ہے، دنیا ان کی ہے

جن کی جانیں قوم کی عزت پہ قرباں ہو گئیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

فکرِ آخرت: دنیاوی فکروں کا علاج

’’اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو ، جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے‘‘(آل عمران) ’’بِلاشبہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے ،جس نے یہاں نجات پا لی اس کیلئے سب منزلیں آسان ہو جائیں گی‘‘ :(ترمذی شریف)

حرام خوری: ایمان اور اخلاق کیلئے زہرِ قاتل

’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھاو‘‘ (النساء) ’’اللہ کی قسم! جب کوئی شخص حرام کا لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے تو 40 دن تک اللہ تعالیٰ اُس کا عمل قبول نہیں کرتا‘‘(معجم طبرانی)منہ میں خاک ڈال لینا اِس سے بہتر ہے کہ کوئی شخص حرام مال اپنے منہ میں ڈالے‘‘ (شعب الایمان)

رحمت دو عالم ﷺکا عفوو در گزر

رسول اکرمﷺ نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپﷺ اس کا انتقام لیتے تھے (ابو داؤد)

مسائل اور ان کا حل

نماز میں ایک سجدہ رہ جانے کا مسئلہ سوال:اگر کسی سے نمازمیں ایک سجدہ رہ جائے اور آخری قعدہ میں یاد آئے توکس طرح نمازمکمل کرے؟ (واجد علی، ملتان)

جڑواں شہروں میں سیاسی گرما گرمی

بانی پی ٹی آئی کے اہلِ خانہ اور پارٹی رہنماؤں کو ان سے ملاقات کی اجازت دیئے جانے کا مطالبہ لے کر پاکستان تحریک انصاف نے ایک بار پھر اپنے اراکین اسمبلی اور کارکنان کو منگل کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ اور اڈیالہ جیل کے باہر اکٹھا ہونے کی کال دی تھی۔

پی ٹی آئی بند گلی میں، ذمہ دار کون؟

ٹریفک رولز کی خلاف ورزی اور پکڑ دھکڑ، وزیراعلیٰ کا نوٹس