خیبرپختونخوا کی سیاست نئے موڑ پر
پاکستان تحریک انصاف کااسلام آباد میں احتجاج کا اعلان،وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کا خود اسلام آباد احتجاج لیڈ کرنے کافیصلہ اور پھرخیبرپختونخوا میں گورنرراج کی خبریں، گزشتہ اور رواں ہفتہ سیاسی حوالے سے انتہائی گرم رہا۔دونوں جانب سے دعوے کئے گئے۔
وزیراعلیٰ کی جانب سے پریس کانفرنس بھی کی گئی، جس پر وفاقی وزرا کی جانب سے بھی ردعمل آیا،دوطرفہ بیانات سے یوں لگ رہاتھا کہ دودسمبر کو جیسے کوئی ہولناک چیز ہونے جارہی ہے، دونوں جانب سے بڑھاچڑھا کر بیانات دیئے گئے،ہیجان پھیلایاگیا، ایسے میں خیبرپختونخوا میں گورنر راج کی خبروں نے جلتی پر تیل کا کام کیا،تاہم دودسمبر کو جب وقت آیاتو موٹروے انٹرچینج پی ٹی آئی کارکنوں سے خالی تھا۔مقررہ وقت تک اکا دُکاکارکن ہی پہنچ پائے، ارکان اسمبلی اور سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسلام آبادپہنچے، اگرنہیں پہنچے تو وزیراعلیٰ سہیل آفریدی جن کے بارے میں ہمارے ذرائع نے بتایاکہ انہیں رات گئے پشاور میں ہی رہنے کامشورہ دیاگیا۔ اس دوران سیاسی درجہ حرارت اتنا بلند رہاکہ اس تمام کے بیچ میں پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کی خبریں دب گئیں۔ بتایاگیا کہ پشاور موٹروے انٹرچینج سے صوابی تک احتجاج کی کال عمیراحمد خان نیازی نے دی تھی۔ اس معاملے میں صوبائی صدر جنید اکبر کہیں نظرنہیں آئے۔ ضلعی صدر عرفان سلیم بھی منظرعام سے غائب رہے۔ احتجاج کا اعلان تو کردیاگیا لیکن اس کو لیڈ کس نے کرنا ہے،شرکت کون کون کرے گا، آخری وقت تک کارکنوں سمیت کسی کو علم نہیں تھا۔ذرائع کے مطابق خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کی جانب سے موٹروے پر احتجاج کرنے اور اسے بند کرنے کی مخالفت کی گئی۔اُن کا مؤقف تھا کہ اس سے وفاق پر کوئی دباؤ نہیں پڑتا اور مقامی لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ بعض دھڑوں کا خیال تھا کہ وفاقی حکومت اس موقع کو کریک ڈاون کیلئے استعمال کرسکتی ہے۔ ایسی اطلاعات بھی پارٹی قیادت کو ملیں کہ شاید کچھ گرفتاریاں بھی ہوجائیں، تاہم اس کے باوجودعمیر احمد خان نیازی کی جانب سے اس احتجاج کا اعلان کیاگیاجس پر پارٹی کی جانب سے سردمہری دکھائی گئی۔ یہ اندرونی اختلافات ہی تھے جن کی وجہ سے کارکنوں کی قلیل تعداد ہی پشاور موٹروے انٹرچینج پر پہنچی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پارٹی کے اندرونی اختلافات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی بہنیں اور عمیر احمد خان نیازی ارکان اسمبلی اور پارٹی قیادت پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں؟ پشاور موٹروے انٹرچینج پر جمع ہونے والے کارکنوں میں زیادہ تر کا تعلق ضلع خیبر سے تھا۔ پشاور،چارسدہ اور مردان سے کارکنوں کی بہت کم تعداد نے شرکت کی۔ اس احتجاج میں مرکزی رہنماؤں میں سے شوکت یوسفزئی موجود تھے، پارٹی کا کوئی اور رہنما موجود نہیں تھا۔ایک بارپھر دودسمبر کو ہونے والے احتجاج سے پارٹی کے اندرونی اختلافات سامنے آئے۔صاف لگ رہا ہے کہ سب اچھا نہیں۔ ایک تاثر جو بڑی شدت سے ابھر کر سامنے آرہا ہے کہ سہیل آفریدی کی نہ صرف حکومت بلکہ پارٹی پر بھی گرفت مضبوط نہیں۔انہیں پارٹی کے اندر ٹف ٹائم مل رہا ہے۔ بیشتر ارکان اسمبلی نوجوان کارکن کو وزیراعلیٰ کی کرسی ملنے پر خوش نظرنہیں آتے۔ جس طرح کی اندرونی سپورٹ اس وقت وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو چاہئے وہ انہیں نہیں مل رہی۔ ایک مخصوص حلقے نے وزیراعلیٰ کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے اور اسی حلقے میں موجود لوگوں کا ان پر زیادہ اثر ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما خود بھی تسلیم کررہے ہیں کہ ان کاسوشل میڈیا انہیں اکثر اپنے فیصلے بدلنے پر مجبور کردیتا ہے۔ وزیراعلیٰ کو اس حلقے کو توڑنا ہوگا جو ان کے گرد ہروقت احاطہ کئے رکھتا ہے۔ اس بات کا احساس شاید نوجوان وزیراعلیٰ کو بھی ہورہا ہے جنہوں نے گزشتہ روز کچھ اہم تبادلے اور تعیناتیاں کی ہیں جنہیں پارٹی کے بعض حلقوں کی جانب سے سیاسی کنٹرول اوراپنے حلقے کو مضبوط کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
موجودہ حالات سے جو چند چیزیں واضح ہوئی ہیں ان میں پارٹی کے اندر تیزی سے بننے والی دھڑے بندی، قیادت کے درمیان اعتماد کا فقدان، نوجوان کارکنوں کی جانب سے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی پر بڑھتا ہوا دباؤ، وفاق کی سخت پالیسی اور احتجاجی حکمت عملی کی ناکامی جیسے عوامل سامنے آرہے ہیں۔ یہ تمام عوامل خیبرپختونخوا کی سیاست کو ایک نئے موڑ پر لے آئے ہیں۔ کچھ اچھے سیاسی فیصلے بھی وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی جانب سے سامنے آئے ہیں جن میں سے ایک این ایف سی اجلاس میں شرکت کا ہے۔ اس سے قبل اکثر اہم اجلاسوں میں صوبائی حکومت کی جانب سے شرکت سے انکار کیاجاتا تھا جس کی وجہ سے وفاق اور خیبرپختونخوا کے مابین بہت سے معاملات پر اختلاف کم ہونے کے بجائے بڑھ گئے۔ این ایف سی کی مد میں جو پیسے ملنے تھے وہ بھی نہ ملے۔ بجلی کے خالص منافع کے بقایاجات کے حوالے سے بھی وفاق سے کوئی بات نہیں کی جاسکی۔ یہ تمام تنازعات ابھی بھی موجود ہیں اوراس کا سبب صوبائی اور وفاقی حکومت کے مابین رابطوں کافقدان ہے۔ اگرچہ علی امین گنڈا پور کے دورِ حکومت میں ان معاملات کو قدرے بہتر بنانے کی کوشش کی گئی لیکن ہر بار سیاسی درجہ حرارت اتنا بڑھا کہ تمام معاملات ٹھپ ہوگئے۔ ابھی بھی این ایف سی کی مد میں خیبرپختونخوا حکومت کو گزشتہ دو سہ مائیوں کی ادائیگیاں نہیں ہوئیں۔ صوبائی وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق خیبرپختونخوا حکومت اب تک 139ارب روپے ضم اور بندوبستی اضلاع میں لگا چکی ہے، جس میں سے 28 ارب روپے ضم قبائلی اضلاع میں لگائے گئے، ابھی مزید بارہ ارب روپے درکار ہیں۔ سیلاب کے دوران صوبائی حکومت کی جانب سے 18 ارب روپے سے زائد خرچ کئے گئے، صوبائی حکومت کا شکوہ ہے کہ انہیں پچھلی دو سہ مائیوں سے وفاق کی جانب سے ایک روپیہ بھی نہیں ملا۔ صوبائی حکومت نے اس حوالے سے ایک مضبوط کیس تیار کرلیا ہے جو این ایف سی اجلاس میں پیش کیاجائے گا۔وزیراعلیٰ سہیل آفریدی خود اس اجلاس میں شرکت کریں گے یہی وہ طریقہ کار ہے جس کے تحت صوبہ قانونی اور آئینی طورپر اپنا حق حاصل کرسکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے طرز سیاست میں بھی نمایاں تبدیلی آرہی ہے۔ گزشتہ روز اسمبلی اجلاس میں این ایف سی ایوارڈ پر بحث کرائی گئی اور اس حوالے سے اپوزیشن اور حکومت ایک پیج پر نظر آئے۔ اسی طرح ایک اور مثبت پیش رفت صوبائی اسمبلی میں صوبہ ہزارہ اور ذوالفقار علی بھٹوکو سرکاری شہید کا درجہ دینے کی قراردادیں بھی متفقہ طورپر منظورکرلی گئیں۔ ذوالفقار علی بھٹوکو سرکاری طورپر قومی شہید کا درجہ دینے کی قرارداد پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر احمد کنڈی نے پیش کی جسے متفقہ طورپر منظور کرلیاگیا۔ اس سیاسی پیش رفت کو تجزیہ کار پی ٹی آئی کیلئے انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کے حوالے سے رویے اور طرزِ عمل میں جو تبدیلیاں دیکھی جارہی ہیں وہ کافی مثبت ہیں۔ اس سے صوبے میں سیاسی ہم آہنگی پیدا ہوگی جو ماضی قریب میں نہ ہونے کے برابر تھی۔