کراچی کے مسائل اور حکومتی عدم دلچسپی

تحریر : طلحہ ہاشمی


سندھ میں آج کل دو خبروں کا چرچا ہے۔ پہلی ملک میں نئے صوبے بنانے کی بات اور دوسری کراچی کے ایک گٹر میں ڈوب کر تین سالہ بچے کی موت۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے ملیر میں جلسہ کیا۔

 رہنماؤں نے ایک بار پھر سندھ کی تقسیم کا مطالبہ کیا اور کہاکہ جب کراچی کو انتظامی بنیاد پر تقسیم کیا جاسکتا ہے تو سندھ کی تقسیم میں کیا امر مانع ہے؟ کراچی کے مسائل کے حل میں صوبائی حکومت کی عدم دلچسپی واضح ہے، اس لیے شہر کو وفاق کے حوالے کیا جائے، دوسری صورت سندھ میں نئے انتظامی یونٹس کی تشکیل ہے۔ایم کیو ایم پاکستان کے چیئرمین خالد مقبول صدیقی کے مطابق، اگلا سال ہمارا ہے، دیہی و شہری تقسیم کے خاتمے کیلئے بہت قربانیاں دے لیں اب کسی اور کی باری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ مت بھولیے کہ کراچی کھڑا ہوتا ہے تو تخت الٹ جاتے ہیں، اب حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، عوام کے لیے کھڑے نہ ہوئے تو تاریخ کے مجرم کہلائیں گے، ملک بھر کی ترقی کا منبع کراچی ہے۔ فاروق ستار نے کہا کہ اگر انتظامی بنیاد پر کراچی کی تقسیم تسلیم نہیں تو صوبے کے چھ انتظامی یونٹس بنادیے جائیں،اور اب کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت نے واضح کیا کہ سندھ کی تقسیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

صوبے میں کھلے گٹر، ٹوٹی سڑکیں، قبضہ مافیا، تجاوزات مافیا اور بھتہ مافیا سب موجود ہیں۔ حکومت ہے، اپوزیشن ہے، زوردار بیانات بھی ہیں، اگر کچھ نہیں ہے تو وہ توجہ،احساسِ ذمہ داری اور عوام سے محبت نہیں ہے۔ ساری جماعتیں عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن یہ عوام تقریروں میں تو نظر آتے ہیں البتہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ یہ تمہید اس لیے ضروری سمجھی کہ کراچی میں چند روز قبل گلشن اقبال ٹاؤن، نیپا فلائی اوور کے قریب تین سالہ بچہ کھلے گٹر میں گر کر جاں بحق ہوگیا۔ لواحقین اور سانحے کے مقام پر موجود عوام نے انتظامیہ کو سنگین غفلت کا مرتکب قرار دیا اور کہا کہ امدادی اداروں کا ردعمل بہت تاخیری تھا۔ موقع پر موجود افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت جو ہوسکتا تھا کیا۔ مشینری منگوائی اور ادائیگی بھی کی۔ پھر انتظامیہ بھی سامنے آئی اور آخرکار بچے کی لاش 14سے 15گھنٹے بعد نکالی جاسکی۔انتظامیہ کی کارکردگی کو سٹی کونسل میں اپوزیشن نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے شہری حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ امیر جماعت حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ شہر کا نظام بھیڑیوں کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے، سندھ حکومت قبضوں کے سوا کچھ نہیں کررہی۔ انہوں نے قبضہ گروپوں کے خلاف سیل قائم کرنے کا بھی اعلان کردیا ہے۔

میئر مرتضیٰ وہاب کا تو اپنا ہی انداز ہے، انہوں نے سانحے پر بات کرنے کو سیاست قرار دے ڈالا۔ البتہ سندھ اسمبلی میں ارکان نے اپنے دکھ کا اظہار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ہفتہ بھر میں ایسا قانون بنایا جائے کہ اس طرح کے حادثات کے ذمہ داروں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ سینئر وزیر شرجیل میمن نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ غفلت ثابت ہوئی تو ذمہ دار بچ نہیں سکیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ افسران کو اپنے دفاتر سے باہر نکلنا چاہیے اور عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دینی چاہیے، اگر افسران کام نہ کریں تو ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ 

ادھرضلع دادو سے بھی قبضے کی خبر ہے۔ کچے کی آٹھ ہزار 251ایکڑ سے زائد زمین پر قبضہ کیا جاچکا ہے۔ یہ زمین محکمہ جنگلات کی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈپٹی کمشنر دادو کی زیرِ صدارت اجلاس ہوا، حکام نے بتایا کہ دوہزار565ایکڑ سرکاری زمین کو واگزار کرایا جاچکا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ قبضہ مبینہ طور پر سابق وزیر اور علاقے کے بااثر افراد نے کر رکھا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے قبضہ چھڑانے کے لیے فوری کارروائی کی ہدایت کردی۔ اہم سوال یہ ہے کہ اس زمین پر کتنے عرصہ سے قبضہ ہے؟اسی طرح سپریم کورٹ کا ون مین کمیشن بھی متحرک ہے۔ اس نے کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں قبضہ کی گئی سرکاری اراضی کے لیے متروکہ وقف املاک بورڈ کو ہدایت کردی ہے۔ اسی طرح صوبے کے ہر حصے میں قبضہ گروپ کہیں نہ کہیں زمین، جائیداد دبائے بیٹھے ہیں۔ ان سب کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ اسی کے ساتھ جتنے عرصہ سے قبضہ تھا اور انہوں نے اگر ان زمینوں سے کمائی کی ہے تو وہ رقم پوری کی پوری وصول کرکے سرکاری خزانے میں جمع کرائی جانی چاہیے۔ ویسے اس مشورے کا جواب ہمیں معلوم ہے، وہ یہ ہوگا کہ کمائی کا حساب کتاب چھوڑو، زمین چھڑا لی کیا یہ کافی نہیں ؟

حیدرآباد سے بھی کرپشن رپورٹ سامنے آئی ہے کہ سندھ پولیس کی وردیوں کی خریداری میں ایک ارب روپے سے زائد کی بے قاعدگیاں کی گئی ہیں۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے مطابق یہ معاملہ مالی سال 2023ء اور 2024ء کا ہے۔ این او سی نہیں لی گئی، خریداری میں غیرقانونی راستہ اختیار کیا گیا، بلوں پر سیلز ٹیکس تک نہیں کاٹا گیا۔ ذمہ داروں کا تعین کب ہوگا، آئیے سب مل کر انتظار کرتے ہیں!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

فکرِ آخرت: دنیاوی فکروں کا علاج

’’اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو ، جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے‘‘(آل عمران) ’’بِلاشبہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے ،جس نے یہاں نجات پا لی اس کیلئے سب منزلیں آسان ہو جائیں گی‘‘ :(ترمذی شریف)

حرام خوری: ایمان اور اخلاق کیلئے زہرِ قاتل

’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھاو‘‘ (النساء) ’’اللہ کی قسم! جب کوئی شخص حرام کا لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے تو 40 دن تک اللہ تعالیٰ اُس کا عمل قبول نہیں کرتا‘‘(معجم طبرانی)منہ میں خاک ڈال لینا اِس سے بہتر ہے کہ کوئی شخص حرام مال اپنے منہ میں ڈالے‘‘ (شعب الایمان)

رحمت دو عالم ﷺکا عفوو در گزر

رسول اکرمﷺ نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپﷺ اس کا انتقام لیتے تھے (ابو داؤد)

مسائل اور ان کا حل

نماز میں ایک سجدہ رہ جانے کا مسئلہ سوال:اگر کسی سے نمازمیں ایک سجدہ رہ جائے اور آخری قعدہ میں یاد آئے توکس طرح نمازمکمل کرے؟ (واجد علی، ملتان)

جڑواں شہروں میں سیاسی گرما گرمی

بانی پی ٹی آئی کے اہلِ خانہ اور پارٹی رہنماؤں کو ان سے ملاقات کی اجازت دیئے جانے کا مطالبہ لے کر پاکستان تحریک انصاف نے ایک بار پھر اپنے اراکین اسمبلی اور کارکنان کو منگل کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ اور اڈیالہ جیل کے باہر اکٹھا ہونے کی کال دی تھی۔

پی ٹی آئی بند گلی میں، ذمہ دار کون؟

ٹریفک رولز کی خلاف ورزی اور پکڑ دھکڑ، وزیراعلیٰ کا نوٹس