پی ٹی آئی بند گلی میں، ذمہ دار کون؟
ٹریفک رولز کی خلاف ورزی اور پکڑ دھکڑ، وزیراعلیٰ کا نوٹس
بانی پی ٹی آئی کی بہن عظمیٰ خان کی اپنے بھائی سے اڈیالہ جیل میں ہونے والی ملاقات کے بعد اُن کی صحت کے حوالے سے اڑائی جانے والی افواہیں توڑ دم توڑ گئیں۔ عظمیٰ خان نے یہ کہہ کر اطمینان ظاہر کر دیا کہ بانی مکمل طور پر صحت یاب ہیں لیکن اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر تحفظات ظاہر کرتے نظر آئے۔ جیل میں کسی بھی قیدی سے ملاقات جیل مینویل کے مطابق اُس کا حق ہے اور ان ملاقاتوں میں عزیز و اقارب اور وکلاکو ملنے کی اجازت ہوتی ہے لیکن بانی پی ٹی آئی سے ان کے عزیز و اقارب اور وکلا کی ملاقاتیں نہ ہونے نے بہت سے سوالات اُٹھا ئے ہیں۔ حکومت کی شکایت یہ تھی کہ ملاقاتوں میں اصل رکاوٹ ملاقاتوں کے ذریعہ اپنے ٹویٹر اکائونٹ کا چلانا اور پارٹی کو ہدایت جاری کرنا ہے۔وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے اس حوالے سے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی بہن کی ملاقات بھی اس شرط پر کرائی گئی کہ وہ بعد میں پریس کانفرنس نہیں کریں گی، اور اگر اس طرح چلتے رہے تو آئندہ ملاقاتوں پر پابندی نہیں ہو گی۔ جیل کے بارے میں رانا ثنا اللہ کے خیالات کو اس لیے درست مانا جا سکتا ہے کہ ماضی میں وہ متعدد بار جیلوں کے مہمان بنے لیکن جہاں تک وہ یہ کہتے ہیں کہ ملاقاتوں کے بعد کسی کو پریس کانفرنس(یا صحافیوں سے گفتگو ) کی اجازت نہیں،اس سے اتفاق ممکن نہیں کیونکہ اس پر کسی جمہوری دور کے اندر پابندی ممکن نہیں۔ عظمیٰ خان کی ملاقات کا ایک نتیجہ تو یہ سامنے آیا کہ جس احتجاجی پروگرام پر پی ٹی آئی گامزن تھی اس میں ٹھہرائو آیا۔ البتہ اس میں حکومت کیلئے یہ پیغام ضرور ہے کہ سیاسی مخالفین پر ایسی پابندیاں نہ لگائی جائیں جو آنے والے وقت میں کسی اور جماعت کیلئے بھی جواز بن سکیں۔ پاکستان کی سیاست میں افہام و تفہیم ڈائیلاگ اور مذاکرات کے آپشن ممکن نظر نہیں آ رہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ماضی میں بھی سیاسی مخالفین کے درمیان تنائو نظر آتا تھا لیکن سیاسی اختلاف دشمنیوں میں تبدیل نہیں ہوتے تھے، لیکن اب ایسا نظر آ رہا ہے کیونکہ ایک دوسرے کی سیاست پر اثر انداز ہونے کیلئے جو ہو سکتا ہے کیا جا رہا ہے، مگر یہ پاکستان میں جمہوری و سیاسی مستقل سے حوالے سے اچھا نہیں۔ البتہ یہ کام صرف بانی پی ٹی آئی کرتے نظر آ رہے ہیں کہ وہ اپنی سیاست میں نہ صرف مخالفین پر گرجتے برستے اور ان کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کرتے نظر آتے ہیں بلکہ انہوں نے ریاست اور ریاستی اداروں کو بھی ٹارگٹ بنا رکھا ہے، جو کہ اُن کی سیاست کے حوالے سے خطرناک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں غصہ خود سیاستدان کیلئے خطرناک ہوتا ہے۔ اپنی بہن سے ملاقات کے بعد ایکس اکائونٹ پر بانی پی ٹی آئی کی جانب سے جاری بیان جس میں انہوں نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی سکیورٹی کانفرنس میں شرکت کرنے والے اپنے پارٹی کے رہنماؤں پر تنقید کی گئی‘ ان کی جماعت کیلئے لمحہ فکریہ ہے، اس لئے کہ مذکورہ ورکشاپ سکیورٹی چیلنجز پر قومی سطح پر مکالمہ اور ادارہ جاتی اہلیت و صلاحیت میں اضافہ کے ساتھ مربوط حکمت عملی اپنانے کا ایک اہم پلیٹ فارم ہے جس میں اراکین پارلیمنٹ، سینئر سول و عسکری افسران، علمی دنیا اور میڈیا سمیت سول سوسائٹی کے لوگ شرکت کرتے ہیں اور ماضی میں پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمنٹ اس کا حصہ بنتے رہے ہیں۔حالیہ ورکشاپ میں شریک ہونے والے پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کی جانب سے ایک سے وضاحتی بیان بھی سامنے آ یا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی ایک شدید نفسیاتی کیفیت سے دو چار ہیں۔ انہیں زمینی حقائق کا ادراک نہیں ہو پا رہا لہٰذا اس حوالے سے گیند خود ان کی جماعت کے ذمہ داران کی کورٹ میں ہے کہ کیا پاکستان میں سیاست کے تقاضے یہی ہیں جن پر ان کے لیڈر گامزن ہیں اور ان کا یہ طرز ِعمل ان کیلئے سیاسی راستے کھولنے کا باعث بنے گا؟
ٹریفک سسٹم کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی قوم قانون اور نظم و ضبط کی کتنی پابند ہے۔ سڑکوں پر نظر آنے والا شہریوں کا شعور قوم کی اجتماعی سوچ کی نمائندہ ہوتا ہے۔ بلاشبہ ہمارے ہاں ٹریفک سسٹم بے ہنگم اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں روز مرہ کا معمول ہیں اور اس حوالے سے چلائی جانے والی مہمات بھی محض جرمانوں کے حصول تک محدود ہی ہیں، لیکن پنجاب میں موٹروہیکل آرڈیننس میں ہونے والی ترامیم اور اس پر عمل درآمد کیلئے جو سخت اقدامات شروع کئے گئے ہیں اور روز مرہ بنیادوں پر ہزاروں کی تعداد میں چالان اور شہریوں کے خلاف مقدمات اور خصوصاً نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ نے ایک نئی صورتحال پیدا کردی ہے جس سے شہریوں میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔ کم عمر ڈرائیوروں کے خلاف قانون کا شکنجہ کستے ہوئے ان کی گرفتاریوں نے والدین میں تشویش کی لہر دوڑا دی۔ مذکورہ مہم سے ایسا لگا کہ جیسے قانون کی حاکمیت صرف سڑکوں پر ہی لاگو ہو گی اور خلاف ورزی کے مرتکب افراد کو تھانوں میں بند کیا جائے گا۔بلاشبہ یہ سلسلہ خود ٹریفک سسٹم کی مضبوطی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلئے یقینی بنایا جا رہا ہے لیکن اس کیلئے جو طریقہ اختیار کیا گیااسے سراہا نہیں جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ مریم نواز کو جب حقیقت حال معلوم ہوئی اور انہیں پتہ چلا کہ کم عمر ڈرائیورز کو پکڑ کر تھانوں میں بند کیا جا رہا ہے تو انہوں نے اس عمل کو روک دیا اور بچوں کو ہتھکڑیاں لگانے پر برہمی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی 16 سال کے بچوں کو سمارٹ کارڈ اور موٹرسائیکل ڈرائیورنگ لائسنس کے اجرا کا فیصلہ کیا گیا، نیز یہ کہ ہیلمٹ نہ پہننے پر وارننگ چالان ہوگا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں ٹریفک قوانین پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنے کیلئے کہا گیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ بچوں کو نہیں پکڑنا چاہئے مگر والدین اپنے بچوں پر نظر رکھیں اور انہیں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کا پابند بنائیں اور قانون کی حاکمیت کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ وزیر اعلیٰ کے احکامات تو بروقت ہیں لیکن اس حوالے سے مانیٹر نگ ضروری ہے، اس لئے کہ ایک طرف جہاں ٹریفک قوانین کے نفاذ پر زور ہے تو دوسری طرف پکڑے جانے والے شہریوں اور نوجوانوں کی رہائی کیلئے تھانوں میں لین دین کی شکایتیں عروج پر ہیں۔ پولیس حکام کا فرض ہے کہ امن و امان کے حوالے سے اگر ان کی کارکردگی میں اضافہ ہوا تو ٹریفک رُولز پر عمل درآمد کے ضمن میں کالی بھیڑوں پر بھی نظر رکھی جائے جو پولیس کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔