فکرِ آخرت: دنیاوی فکروں کا علاج
’’اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو ، جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے‘‘(آل عمران) ’’بِلاشبہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے ،جس نے یہاں نجات پا لی اس کیلئے سب منزلیں آسان ہو جائیں گی‘‘ :(ترمذی شریف)
عدم کے واسطے سامان کر غافل
مسافر شب کو اٹھتے ہیں جب منزل دور ہوتی ہے
آج کل ہم نے خدا کو چھوڑ رکھا ہے،یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہر قسم کی مشکلات کا سامنا ہے،قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی بیماریاں اور اس کی علاج کا ذکر کیا ہے،سورۃ الاعلیٰ میں بھی ایک بیماری اور اس کے علاج کاذکر ہے، بیماری تو یہ ہے کہ ہم نے دنیاوی زندگی کو ترجیح دی ہے اور مقصود اصلی کو پس پُشت ڈالا ہے،ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے،لیکن ہم اسی دنیا میں رہ کر ان کی نافرمانی کرتے ہیں اور اسی بیماری کا علاج یہ ذکرکیا ہے کہ آخرت ہی بہتر اور باقی ہے مطلب یہ کہ اپنے سامنے آخرت کی فکر رکھو تو زندگی اچھی گزرے گی۔
یہی فکر آخرت ان صحابہ کرام ؓ کو بھی تھی جن کی ولایت کی شہادت خود رسولِ اکرم ﷺنے دی تھی، ان کے نیک اعمال، تقویٰ و طہارت کی قسم کھائی جاسکتی ہے ، لیکن جب کبھی بھول کر کوئی معمولی گناہ بھی ان سے سرزد ہوجاتا تو بے چین ہو جایا کرتے تھے۔ روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے غلام کی مشتبہ کمائی میں سے کچھ حصہ کھالیا تھا، بھوک کی شدت کی وجہ سے تحقیق کا خیال نہ رہا، غلام نے کھالینے کے بعد جب اطلاع دی تو سخت پریشان ہوئے اور منہ میں ہاتھ ڈال کر قے کر دی اور فرمایا کہ میں نے رسولِ اکرمﷺ سے سنا ہے جو جسم حرام سے پرورش پائے ، اس کیلئے دوزخ کی آگ ہے ۔ مجھے ڈر ہوا کہ اس لقمہ سے میرے جسم کا کوئی حصہ پرورش نہ پا جائے (خلفاء الرسول:96)۔
حضرت عمر ؓ کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک مرتبہ آپؓ رات کو بیت المال میں بیٹھے ہوئے کوئی خلافت کا کام انجام دے رہے تھے کہ حضرت علی مرتضیٰؓ بھی تشریف لے آئے اور فرمایا کہ مجھے آپؓ سے کچھ بات کرنی ہے ۔ حضرت عمر ؓ نے دریافت فرمایا کیا آپؓ کو کچھ خلافت کے کام سے متعلق گفتگو کرنی ہے یا اپنے کسی ذاتی و نجی مسئلہ میں؟ انھوں نے فرمایا مجھے اپنے ذاتی معاملہ میں گفتگو کرنی ہے ، اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: بس تو چلو کسی اور جگہ بات کریں گے ، کیونکہ بیت المال کی روشنی میں بیٹھ کر ذاتی گفتگو کرنا درست نہیں ہے ۔
عثمان ذوالنورین ؓ جو حضورِ اقدس ﷺ کے داماد اور تیسرے خلیفہ تھے اور جن کو آپﷺ نے جنتی ہونے کی بشارت دی تھی، ان کا یہ حال تھا کہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے خوف آخرت سے اس قدر روتے کہ ان کی مبارک داڑھی تر ہوجاتی۔ کسی نے سوال کیا آپؓ دوزخ اور جنت کے تذکرہ سے نہیں روتے اور قبر کو دیکھ کر اس قدر روتے ہیں؟ اس پر حضرت عثمان ؓنے جواب میں فرمایا کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بِلاشبہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے ۔ اگر قبر کی مصیبت سے کسی نے نجات پالی تو اس کے بعد سب منزلیں آسان ہو جائیں گی اور اگر اس کی مصیبت سے نجات نہ پائی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے زیادہ سخت ہیں (ترمذی)۔
حضرت علیؓ کی یہ حالت تھی کہ جب نماز کا وقت آجاتا تو بدن پر کپکپی آجاتی تھی اور چہرہ زرد ہوجاتا تھا۔ کسی نے پوچھا کیا بات ہے ؟ تو فرمایا: اس امانت کی ادائیگی کا وقت ہے جس کو اللہ جل شانہ نے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر اُتارا تو وہ اس کے تحمل سے عاجز ہوگئے اور میں نے اس کا تحمل کرلیا، اب دیکھنا چاہئے پوری ادا کرتا ہوں یا نہیں (آخرت کے فکرمندوں کے پچاس قصے، 25-26)۔
کاش! تمام مسلمانوں کے دِل و دماغ میں آخرت کا تصور مستحکم اور مضبوط ہوجائے اور اللہ کے خوف اور یادِ الٰہی سے ہر لمحہ سینہ معمور رہے ۔ بِلاشبہ آج بھی مسلمانوں میں اِنقلابی قوت پیدا ہوسکتی ہے اور دُنیا میں پھر ایک بار امانت، عدل و اِنصاف اور امن و سکون کا ماحول پیدا ہوسکتا ہے ۔ زندگی کے جو حصے گزر چکے ، اب ان کی اِصلاح تو نہیں ہوسکتی، البتہ زندگی کے جو ایام باقی رہ گئے ہیں، ان کو فکر آخرت میں گزارکر اللہ کی مرضی ہم پاسکتے ہیں۔ بقول شاعر
وقت طلوع دیکھا وقت غروب دیکھا
اب فکر آخرت ہے، دُنیا کو خوب دیکھا
حضرت بہلولؒ کا ایک واقعہ یاد آیا۔ بہلول مجذوب ہارون الرشید کے زمانے میں ایک مجذوب صفت بزرگ تھے، ہارون الرشید ان کی باتوں سے ظرافت کے مزے لیا کرتے تھے، کبھی کبھی جذب کے عالم میں وہ پتے کی باتیں بھی کہہ جایا کرتے تھے، ایک مرتبہ بہلول مجذوب ہارون الرشید کے پاس پہنچے، ہارون الرشید نے ایک چھڑی اٹھاکردی،مزاحاً کہا کہ بہلول یہ چھڑی تمہیں دے رہا ہوںجو شخص تمہیں اپنے سے زیادہ بے وقوف نظر آئے اسے دے دینا، بہلول مجذوب نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ چھڑی لے کر رکھ لی اور واپس چلے آئے۔
بات آئی گئی ہوگئی،شاید ہارون الرشید بھی بھول گئے ہوں گے۔ عرصہ کے بعد ہارون الرشید کو سخت بیماری لاحق ہو گئی، بچنے کی کوئی امید نہ تھی،اطباء نے جواب دیا ، بہلول مجذوب عیادت کیلئے پہنچے اور سلام کے بعد پوچھا امیر المومنین کیا حال ہے ؟ امیر المومنین نے کہا حال پوچھتے ہو بہلول؟ بڑا لمبا سفر درپیش ہے۔ کہاں کا سفر؟ بہلول نے کہا، جواب دیاآخرت کا، بہلول نے سادگی سے پوچھا اچھا واپسی کب ہوگی؟ جواب دیا بہلول! تم بھی عجیب آدمی ہو،بھلا آخرت کے سفر سے بھی کوئی واپس ہوا ہے۔بہلول نے تعجب سے کہا اچھا آپ واپس نہیں آئیں گے؟ تو آپ نے کتنے حفاظتی دستے آگے روانہ کئے اورساتھ ساتھ کون جائے گا؟ جواب دیاآخرت کے سفر میں کوئی ساتھ نہیں جایا کرتا،خالی ہاتھ جارہا ہوں۔
بہلول مجذوب بولا اچھا اتنا لمبا سفر کوئی معین و مددگار نہیں پھر تو لیجئے ہارون الرشید کی چھڑی بغل سے نکال کر کہا یہ امانت واپس ہے ،مجھے آپ کے سوا کوئی انسان اپنے سے زیادہ بے وقوف نہیں مل سکا۔ آپ جب کبھی چھوٹے سفر پر جاتے تھے ،تو ہفتوں پہلے اس کی تیاریاں ہوتی تھی،حفاظتی دستے آگے چلتے تھے،حشم وخدم کے ساتھ لشکر ہمرکاب ہوتے تھے ۔ اتنے لمبے سفر میں جس میں واپسی بھی ناممکن ہے آپ نے تیاری نہیں کی۔ ہارون الرشید نے یہ سنا تو رو پڑے اور کہاکہ بہلول ہم تجھے دیوانہ سمجھا کرتے تھے مگرآج پتہ چلا کہ تمہارے جیسا کوئی فرزانہ نہیں ہے۔
ہارون الرشید کہتے ہیں کہ مجھے بہلولؒ کے اس مکالمہ سے معلوم ہوا کہ میں تو آخرت کے سفر پر جارہاہوں اور میں نے اپنے سے پہلے کوئی عمل نہیں بھیجا کہ وہ میرے لیے راہ ہموار کر لیں۔
قارئین کرام اللہ تعالیٰ ہم سب کو فکر آخرت لاحق کر دے(آمین)