خادمِ خاص (تیسری قسط )

تحریر : اشفاق احمد خاں


حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ ہمیشہ سیرت رسول ﷺ کی خوشبو بن کر مہکتے رہے۔ جب بھی گفتگو کرتے، بھلائی کی باتوں کے سوا کوئی بات نہ کرتے۔ رسول اللہﷺ سے قریبی تعلق اور ان کا خادمِ خاص ہونے کی بنا پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں انہیں ممتاز مقام حاصل تھا۔ سب کے دلوں میں ان کا بے حد احترام تھا۔

جب سید نا ابوبکر صدیق ؓ خلیفہ بنے تو ان کی طرف ایک قاصد بھیجا تاکہ ان کو بحرین کا عامل بنایا جائے۔ اسی اثناء میں حضرت عمر ؓ، ابو بکر صدیق ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ابوبکر صدیق ؓ نے ان سے مشورہ کیا کہ میں انس ؓ کو بحرین کا عامل بنا کر بھیج رہا ہوں، آپ کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے؟‘‘۔حضرت عمر ؓ نے ان کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے کہا ’’ان کو اس کام پر ضرور روانہ فرمائیں کیونکہ وہ سب سے زیادہ عقلمند ہیں اور لکھنا پڑھنا بھی جانتے ہیں‘‘۔

سید نا عمر رضی اللہ عنہ بھی ان کا بہت زیادہ احترام کرتے۔ خود انسؓ فرماتے ہیں کہ ابوبکر صدیق ؓ نے مجھے صدقات کا عامل بنایا وہ اس دنیا سے چلے گئے، لیکن میں اسی طرح عامل برقرار رہا۔ ایک مرتبہ سیدنا عمر ؓ فرمانے لگے: ’’ اے انسؓہمارے پاس مال لے کر آئے ہو؟،وہ ہمارے پاس لائو، لیکن یہ مال آپؓ کیلئے ہے‘‘۔ انس ؓنے کہا: ’’اے امیر المومنین! یہ تو ضرورت سے زیادہ ہے‘‘ ،  سید نا عمر ؓ نے فرمایا ’’اگرچہ زیادہ ہے، لیکن یہ آپؓ کیلئے ہی ہے‘‘۔اس مال کی قیمت چار ہزار درہم یا دینار تھی۔ 

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں جریربن عبداللہ ؓ کے ساتھ تھا۔ وہ میری ہر لحاظ سے خدمت کرتے اور فرماتے ’’ میں نے انصار کو دیکھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی ایسی خدمت انجام دیتے کہ ان کے علاوہ میں نے کسی کو ایسی خدمت کرتے نہیں دیکھا‘‘۔

جلیل القدر صحابی حضرت ثابتؓ جب حضرت انسؓ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو ان کے ہاتھ کا بوسہ لیتے۔ جمیلہ جو انس ؓکی لونڈی تھیں وہ کہتی ہیں کہ جب ثابت ؓ، انسؓ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو انس ؓ مجھے حکم دیتے: ’’ اے جمیلہ! مجھے کچھ خوشبو دیجئے تاکہ میں اپنے ان ہاتھوں پر لگا لوں، کیونکہ ثابتؓ اس وقت تک راضی نہیں ہوتے جب تک وہ میرے ہاتھ کو بوسہ نہ دے لیں، کیونکہ ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ یہ وہ ہاتھ ہیں جنہوں نے رسول اللہﷺکو چھوا ہے‘‘۔

حضرت انس ؓ بڑے مخلص اور محبت رکھنے والے دل کے مالک تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی محبت ان کے جسم میں خون بن کر دوڑ رہی تھی، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ مبارک کو چھوا جو ریشم سے بھی زیادہ نرم تھا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خوشبو سے بہتر خوشبو کوئی نہیں پائی۔ آپﷺ کی وفات انس ؓ کیلئے قیامت سے کم نہ تھی۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعد جب بھی وہ رسول اللہ ﷺ کا ذکر کرتے، زار و قطار رو پڑتے۔ اسی محبت کی بنا پر انہیں اللہ کے رسول ﷺ کا خواب میں دیدار ہوتا رہتا تھا۔

مثنی بن سعید زراع ؒ کہتے ہیں میں نے انس ؓسے سنا وہ فرما رہے تھے کہ کوئی رات ایسی نہیں گزری جس میں اللہ کے رسول ﷺ کا مجھے دیدار نہ ہوا ہو۔ جب وہ خواب بیان فرماتے تو رو پڑتے، پھر کہتے مجھے امید ہے کہ میں جلد اللہ کے رسول ﷺ سے ملنے والا ہوں۔ میں ان سے ملتے ہی کہوں گا ’’اے اللہ کے رسولﷺ!  میں آپﷺ کا ادنیٰ خادم انسؓ ہوں‘‘۔

یہ تھی انس ؓ کی رسول اللہﷺ کیلئے بے لوث محبت۔ جب ان کا آخری وقت قریب آیا تو کہا کہ مرتے وقت بھی میرے پاس قبر میں کوئی ایسی چیز ضرور ہو جس سے اللہ کے محبوب ﷺ کی یاد تازہ رہے۔ ثابت بنانی ؒ فرماتے ہیں مجھے انس بن مالک ؓ نے کہا: ’’یہ رسول اللہﷺ کے بالوں میں سے ایک بال ہے، مرنے کے بعد اس کو میری زبان کے نیچے رکھ دینا‘‘ پھر فرمایا ’’میرے پاس رسول اللہﷺ کی ایک چھوٹی لاٹھی ہے اسے بھی میرے ساتھ دفن کر دینا تاکہ ان کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ سے میری محبت کا مزید اظہار ہو جائے، جس طرح مجھے ان سے دنیا میں محبت تھی مرنے کے بعد بھی یہ محبت جاری رہے‘‘۔90سال کی عمر میں انہوں نے وفات پائی۔ ان کو بصرہ میں دفن کیا گیا۔قتادہ ؒ کہتے ہیں کہ انس بن مالکؓ  فوت ہوئے تو اس وقت مورق عجلی ؒ نے کہا: ’’ آج دنیا سے آدھا علم رخصت ہو گیا ہے‘‘۔

سید نا انسؓ نے اپنی تمام عمر دین اسلام کیلئے وقف کر دی تھی۔ کبھی وہ رسول اللہﷺ کے خادم کی حیثیت سے نظر آتے تو کبھی ایک شاگرد کی طرح اور کبھی ایک عابد کی طرح نظر آتے۔ وہ رسول کریم ﷺ کی پیروی کرنے میں ہر وقت مصروف رہتے۔ ان کی زندگی ایک استاد کی طرح بھی گزری۔ انہوں نے جو علم رسول اللہﷺ سے سیکھا اسے لوگوں تک پہنچایا۔ یہ سلسلہ زندگی بھر جاری رہا۔ (جاری ہے)

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔

خطرناک غلطیاں

٭… آزمائے ہوئے کو دوبارہ آزمانا اور ہر شیریں زبان کو دوست سمجھ لینا۔ ٭…اپنے آپ کو سب سے زیادہ عقل مند اور لائق آدمی تصور کرنا۔ ٭… تمام نوجوانوں کو تجربہ کار خیال کرنا۔

ذرا مسکرائیے

استاد: تم نے میٹرک کس ڈویژن میں پاس کیا ہے؟ شاگرد: کراچی ڈویژن میں۔ ٭٭٭

پہیلیاں

یقینا وہ بزدل ہے جس نے بھی کھایا بہادر ہے وہ جس نے پی کر دکھایا (غصہ )