کنجوس کا گھڑا
کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔
شیخو کے پاس کافی دولت تھی لیکن وہ اسے چھپا کر رکھتا تھا۔ اس کا سب سے بڑا خزانہ اس کا وہ مٹی کا گھڑا تھا، جسے اس نے گھر کے پچھلے حصے میں پرانے درخت کے نیچے دفن کر رکھا تھا۔ اس گھڑے میں سونے کے سکّے بھرے ہوئے تھے جو اس نے برسوں کی کنجوسی کے بعد جمع کیے تھے۔
شیخو کا معمول تھا کہ وہ صبح اٹھتا، تھوڑا سا باسی کھانا کھاتا اور پھر گھڑے کے پاس چلاجاتا۔ وہ چھپ کر گھڑے کو نکالتا، سونے کے سکّوں کو چمکدار آنکھوں سے دیکھتا، انہیں گنتا اور پھر انہیں واپس گھڑے میں رکھ کر دوبارہ دفن کر دیتا۔ وہ ان سکّوں کو استعمال نہیں کرتا تھا، صرف انہیں دیکھنے اور چھونے کی حد تک اسے خوشی ملتی تھی۔ اس کیلئے وہ سکّے کوئی کام آنے والی چیز نہیں تھے۔
شیخو کی حویلی کے قریب ہی عقلمند درزی رہتا تھا، جس کا نام فضل تھا۔ فضل نے کئی بار شیخو کو اس جگہ کے آس پاس مشکوک حرکات کرتے دیکھا تھا۔ اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ شیخو وہاں کچھ قیمتی چیز چھپا کر رکھتا ہے۔
ایک دن فضل نے دیکھا کہ شیخو کسی ضروری کام سے گاؤں سے باہر گیا ہے۔ یہ مناسب موقع جان کر فضل نے اس درخت کے پاس کھدائی کی اور گھڑا نکال لیا۔ فضل نے گھڑے میں سے سارے سونے کے سکّے نکالے اور ان کی جگہ پتھر بھر دیے، اور گھڑے کو ویسے ہی احتیاط سے دفن کر دیا جیسے وہ پہلے تھا۔
جب شیخو واپس آیا، تو وہ فوراً اپنے خزانے کو دیکھنے گیا۔ جب اس نے گھڑے کو نکال کر کھولا، تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں! سونے کے سکّوں کی جگہ بیکار پتھر دیکھ کر وہ زور زور سے رونے اور چیخنے لگا۔ اس کی چیخ و پکار سن کر پورا محلہ جمع ہو گیا۔
فضل درزی بھی لوگوں کے ساتھ وہاں پہنچا۔ جب اس نے شیخو کو زار و قطار روتے دیکھا تو قریب آیا اور پوچھا:شیخو، تم کیوں رو رہے ہو؟ کیا ہوا؟۔ شیخو نے روتے ہوئے زمین پر پڑے خالی گھڑے کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ کیسے چور اس کے تمام سونے کے سکّے چرا کر لے گئے ہیں۔
فضل درزی مسکرایا اور بولا: تم تو ان سکّوں کو کبھی استعمال ہی نہیں کرتے تھے، نہ انہیں کسی ضرورت میں خرچ کرتے تھے۔ وہ تو دفن شدہ تھے، نہ کسی کے کام آتے تھے اور نہ تمہارے کام آتے تھے۔
فضل نے ایک پتھر اٹھایا اور شیخو کو دے کر کہا: دیکھو شیخو، جب تمہیں سکّوں کو صرف دیکھنا ہی تھا، تو تم اس پتھر کو دیکھ کر بھی وہی تصور کر سکتے تھے کہ یہ سونے کے سکّے ہیں۔ تمہارے لیے ان سکّوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔
شیخو نے فضل کی بات سنی تو شرمسار ہو گیا۔ اسے اپنی کنجوسی اور غلطی کا احساس ہوا۔ فضل نے پھر کہا کہ دولت کا مقصد ضرورتوں کو پورا کرنا، خوشیاں خریدنا اور دوسروں کی مدد کرنا ہوتا ہے، اسے دفن کر کے بیکار کر دینا تو کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
اگلے دن، فضل درزی نے خفیہ طور پر وہ سارا سونا واپس گھڑے میں رکھ کر دوبارہ دفن کر دیا۔ فضل جانتا تھا کہ شیخو کو سبق مل گیا ہے۔
جب شیخو اگلی صبح گھڑے کو دیکھنے گیا، تو سکّوں کو واپس دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ لیکن اب کی بار یہ خوشی کے آنسو تھے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ زندگی کو بدلے گا۔ اس نے اپنے پرانے کپڑے پھینکے، اچھے کپڑے سلوائے، اچھا کھانا شروع کیا اور اس سونے کو کاروبار میں لگا کر اپنے اور گاؤں کے لوگوں کیلئے بہتری کا سبب بنا۔ گاؤں والے بھی اس کی مدد سے خوش ہوئے۔ اسے علم ہو گیا تھا کہ مال و دولت کا فائدہ اس کے صحیح استعمال میں ہے۔ جو چیز استعمال نہ ہو، وہ مٹی اور پتھر کے برابر ہے۔