لنگر کے کھانے اور ران کا احترام
اسپیشل فیچر
امراءکی ضیافتوں میں زیاں کو خاص دخل ہوتا ہے۔ کھانا تیار کرنے سے پہلے بھی اصراف کیا جاتا ہے اور کھانا کھانے کے دوران بھی ضائع کرنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ لنگر کے کھانے چاہے ہتھیلی پر رکھ کر کھائیں جائیں، چاہے زمین پر بیٹھ کر گود میں رکابی رکھ کر، ان کا ایک عجیب طرح کا احترام ہوتا ہے کہ کوئی شے ضائع نہیں کی جاتی۔ کوئی لقمہ ناپسندیدہ ہونے کی بنا پر پھینکا نہیں جاتا اور کوئی دانہ ارادی یا غیر ارادی طور پر گرنے نہیں دیا جاتا۔ امرائی اور شرفائی دعوتوں کے ہر کھانے میں چونکہ جائفل، جاوتری، زعفران، سونٹھ کے ساتھ ساتھ تکبر اور گھمنڈ کا روغن بھی ملا ہوتا ہے اس لئے وہ کھانا روح پر اور دماغ پر بھاری ہو جاتا ہے۔ ان لوگوں پر بھی جو تکبر اور غرور میں میزبانوں سے بھی زیادہ متکبر اور غصہ ور ہوں۔ امرائی، شرفائی، سرکاری اور سلطنتی دعوتوں میں چونکہ اشیاءکو مہمانوں کے مقابلے میں زیادہ وقعت دی جاتی ہے اور کھانے کو مہمانوں پر فوقیت دی جاتی ہے اس لئے ان کا رنگین، خوش وضع، جاذب نظر اور اشتہا انگیز کھانا لنگر کے بے رنگ، بے کیف اور بلینڈ کھانے کے مقابلے میں وجود پرآرہ بن کر چلتا رہتا ہے۔ لنگر کے کھانے کی تیاری میں شے کے مقابلے میں کھانے والوں کااحترام کیا جاتا ہے۔ اور مہمان کی مہما کی جاتی ہے اس لئے لنگر کا کھانا کچھ اور ہی ہوتا ہے حالانکہ اس میں کم پکی روٹی اور چنے کی زیادہ گھٹی دال اور پودینے کے سوکھے تنکوں کی چٹنی ہوتی ہے۔باباجی نے ڈونگے میں بچے ہوئے ہمارے سالن میں سے گٹ کی ایک بوٹی اٹھا کر اسے چوستے ہوئے کہا ”سیکرٹری صاحب اشفاق صاحب کیلئے چادر کرتا نکال کران کے سونے کا بندوبست کریں اور باہر ڈیوڑھی کے پاس تھڑے پر ان کی چارپائی ڈال دیں۔پہلے تو میں نے انکار کرنے کی کوشش کی اور کچھ تکلف کا اظہار کیا لیکن اتنے میں سیکرٹری صاحب ٹانسے ایک نیلی کٹاری والا تہمد اور کھدر کا ایک دھلا ہوا سفید کرتہ لے آئے۔ میں نے ڈوہنگے کوٹھے کی ساتھ والی جھگی میں جا کر کپڑے تبدیل کیے اور واپس آ کر بابا جی سے درخواست کی کہ ”اگر وہ مجھے دھوپ میں سونے کی بجائے یہیں، اپنے کمرے میں آرام کرنے کی اجازت عنایت فرمائیں تو مجھ پر احسان ہوگا۔ انہوں نے بڑی خوشی سے اور خوشدلی سے اجازت دے دی اور میں کنستروں، ڈبوں، بوریوں اور اچار کے مرتبانوں کے درمیان ایک چارپائی پر لیٹ گیا۔میرا اس وقت کا لیٹنا کچھ اس طرح کا تھا گویا میں غسل کے تختے پر لیٹا ہوا ہوں اور میرے گرد یہ کنستر، ڈبے، تین مرتبان گرم پانی سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان میں کافور، عرق گلاب اور نیم کے پتوں کا ابلا ہوا پانی شامل ہے اور ان سے ابھی مجھے غسل دیا جانا ہے۔ اردگرد کے لوگوں کی آوازیں میرے کانوں میں آ رہی ہیں لیکن وہ خود میرے قریب نہیں آ رہے۔ ان سب کو غسال کا انتظار ہے جو ابھی تک پہنچا نہیں ہے اور اس کے بیٹے نے آ کر بتایا ہے کہ اباجی کھانا کھا کر سو گئے ہیں، اس لئے کوئی آدھ گھنٹے تک آئیں گے۔جب میں سو کر اٹھا تو گہری شام ہو چکی تھی۔ ڈوہنگے کوٹھے کے اندر، میری چارپائی سے ذرا دور چومکھیا دیا جل رہا تھااور باہر سے لوگوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں اٹھ بیٹھا اور چارپائی سے ٹانگیں نیچے اتار کرسوچنے لگا کہ آج یہ میرے ساتھ کیا ہوا!میرے خیال ہے کہ خرکاروں کے کیمپ میں سپلائی کیا جانے والا لڑکا جب پہلی مرتبہ سو کر اٹھتا ہوگا تو اس کے ذہن میں بھی ایسے ہی خیال آتے ہوں گے۔ میں نے نیلی کناری والے ٹانے کے تہمد کو جو سوتے میں، کھلنے کے برابر ڈھیلا ہو گیا تھا پھر کس کر باندھا اور باہر آ گیا۔باہر ڈیرے پر روشنی ہو چکی تھی اور لوگ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹے شام کا کھانا رہے تھے۔(جاری ہے)