حضرت امام حسین ؓ
اسپیشل فیچر
تاریخ ِحَق وباطل میں خیروشَر،ہدایت وضلالت اوراِسلام وکُفرکے مابین ہزاروں معرکے برپاہوئے اور قیامت تک ہوتے رہیں گے۔لاکھوں شہادتیں ہوئیں اور ہزاروں انقلابات آئے ۔خصوصاًاسلام کااوّلین دور عظیم الشّان شہادتوں سے لبریز ہے تاہم یہ حقیقت بھی روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ آج تک کوئی معرکہ اورکوئی شہادت اس قدرعالم گیر تذکرہ نہ پاسکی، جتنانواسہ رسولﷺ،جگرگوشہ بتول اورفرزند علی امام عالی مقام حضرت اِمام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو نصیب ہوا۔چودہ سوسال گزرنے کے بعدبھی شہادت امام حسین کا تذکرہ زندہ وتابندہ ہے یہاں تک کہ ہر دور کے لیے حسینیت حق اوریزیدیت باطل کی علامت بن گئی۔یومِ عاشورکی اہمیت وفضیلتمحرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ اس ماہ کی دسویں تاریخ کو ’’یومِ عاشور‘‘کہا جاتا ہے جسے بہت زیادہ عظمت ،اہمیت اورفضیلت حاصل ہے ۔رسول اللہﷺکافرمان ہے کہ،’’ محرم اللہ کے لیے ہے،اِس کی تعظیم کرو،جس نے ماہِ محرم کی قدرکی، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں عزت عطافرمائے گااوردوزَخ سے نجات عطافرمائے گا۔‘‘یومِ عاشور پرحضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔حضرت آدم جنت سے زمین پربھیجے گئے تھے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کونمرودکی آگ سے نجات ملی۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی اوراسی روزآپ آسمان پر اٹھائے گئے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے فرعون سے نجات پائی جب کہ فرعون دریائے نیل میں غرق ہوا۔حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہرآئے ۔حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں کی بینائی واپس آئی ۔اللہ تعالیٰ نے عرش ،فرش،زمینوں، آسمانوں اورلوح وقلم پیدا فرمایا۔اللہ تعالیٰ نے پہلی باربارش نازل فرمائی۔اسی روزدنیاوتمام مخلوق فناہوگی اورقیامت قائم ہوگی۔حضرت امام حسینؓ اور آپ کے اصحاب نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔شہیدکامعنیٰ ومفہومشہید،شاہد،شہوداورمشاہدہ لفظ’’شہود‘‘مصدرسے مشتق ہیں۔ شہدیشہد شہوداًکے کئی معٰنی ہیں مثلاًحاضرہونا،مددکرنا،گواہی دینااورکوئی چیزپانا وغیرہ۔اسلام میں شہیداورشہادت کاتصور یہ ہے کہ شہیدکی روح اُسی وقت اللہ کی بارگاہ میں حاضرکردی جاتی ہے۔ شہیداپنی جان کانذرانہ پیش کر کے اللہ کے دین کی مددکرتاہے۔جامِ شہادت نوش کرکے دین ،ملک اورملت کے حق ہونے پر عملی گواہی دیتا ہے۔شہادت اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان اورگراںقدرنعمت ہے۔یہ نعمت اللہ اپنے محبوب بندوں کوعطافرماتاہے،ان انعام یافتہ بندوں کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظوں میں کیاہے،’’اورجولوگ اللہ کی راہ میںقتل کئے جاتے ہیں،انہیں مردہ مت کہو (وہ مردہ نہیں) وہ زندہ ہیں ۔ تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں ۔ ‘‘(سورۃ البقرہ)ایک اورمقام پرارشادفرمایا،’’اورجولوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے،تم انہیں مردہ مت خیال کرو، وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق بھی دیاجاتاہے‘‘۔ (آل عمران)سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ نے شہداء کاذکر ان لوگوں کے ساتھ بیان کیاجن پراللہ نے خاص فضل ،انعام اوراکرام فرمایااور انھیں صراطِ مستقیم کی کسوٹی قراردیا۔چناں چہ ارشادِ ہوا،’’اورجواللہ اوراس کے رسولﷺ کی ( ایمان اور صدقِ دل کے ساتھ) اطاعت کرتاہے ، وہ (روزِ قیامت) ان لوگوں کے ساتھ ہوگاجن پراللہ تعالیٰ نے (اپناخاص )انعام فرمایاہے،جو انبیاء ،صدیقین ،شہداء اورصالحین ہیں اوریہ کتنے بہترین ساتھی ہیں۔‘‘(سورۃ النسا)شہادت، ایک ایسی عظیم الشان نعمت ہے،جس کی حضورسیّدعالم ﷺ نے بھی آرزو کی، حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺنے فرمایا،’’ قسم ہے اُس ذَات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے،میری تمناہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میںقتل (شہید)کیاجائوں،پھرزندہ کیا جائوں ، پھر شہید کیا جائوں ،پھر زندہ کیا جائوں اورپھر شہید کیا جائوں ۔ ‘‘ ( بخاری ، مشکوٰۃ المصابیح ) شہادتِ امام حسینحضرت امام حسینؓ کی شہادت،مقامِ اورزمانہ شہادت (یعنی شہادت کاسن وسال)سے متعلق نبی کریمﷺنے صحابہ کرام کو پہلے ہی آگاہ فرمادیاتھا۔حضرت اُم سلمہ ؓفرماتی ہیں کہ ایک روزحسن اور حسین میرے گھرمیں رسول اکرمﷺکے سامنے کھیل رہے تھے کہ حضرت جبرائیل حاضرہوئے اورکہا کہ،’’ اے محمدﷺ!آپ کی اُمت (میں بعض لوگوں کی جماعت) آپ کا یہ بیٹا قتل(شہید) کردے گی۔‘‘جبرائیل نے آپﷺ کواس جگہ کی تھوڑی سی مٹی دی۔رحمت دوعالمﷺنے یہ مٹی اپنے سینہ مبارک سے چمٹا لی اور رو دیئے، ارشاد فرمایا کہ ، ’’ اُم سلمہ !جب یہ مٹی سرخ ہوجائے توسمجھ لیناکہ میرایہ بیٹاشہیدہوگیا۔‘‘حضرت اُم سلمہ نے یہ مٹی محفوظ کرلی۔ہرروزاسےدیکھتیں اورفرماتیں کہ’’ اے مٹی!جس دن توخون میں تبدیل ہوگی وہ کتناعظیم دن ہوگا۔‘‘(الخصائص الکبریٰ۔ المعجم الکبیر۔الصواعق المحرقہ۔السرالشہادتین)مقامِ شہادتامام حسین کے مقامِ شہادت سے متعلق حضرت علی المرتضیٰؓبیان کرتے ہیں کہ،’’ ایک مرتبہ میں بارگاہ رسالتﷺ میں حاضر ہواتو دیکھا کہ آپﷺرو رہے ہیں۔میں نے عرض کی کہ ’’یارسول اللہﷺ!آپ کیوں رو رہے ہیں؟‘‘آپﷺنے فرمایاکہ ،’’ابھی میرے پاس حضرت جبرائیل آئے تھے ،انہوں نے خبردی ہے کہ میرابیٹاحسین دریائے فرات کے کنارے اس جگہ قتل کیاجائے گا،جسے کربلا(ملکِ عراق میں کوفہ کے قریب ایک جگہ کانام ہے)کہتےہیں۔‘‘(الصواعق المحرقہ،البدایہ والنہایہ)زمانہ شہادتزمانہ شہادت (سن وسال)کے بارے میں بھی حضوراکرمﷺنے اشارتاًنشان دہی فرمادی تھی۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ،’’اے ابوہریرہ!ساٹھ ہجری کے سال کے سرے(یعنی اختتام) سے اورلڑکوں کی امارت وحکومت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔‘‘چناںچہ حضرت ابوہریرہؓ 60؍ہجری کے اختتام اورلڑکوں کی حکومت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تھے۔ فلسفہ شہادتِ امام حسینقمری سال کاآغازماہِ محرم الحرام سے اوراختتام ماہِ ذوالحجہ پرہوتاہے۔ 10محرم الحرام امام حسین اور10ذوالحجہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی تاریخ ہے۔معلوم ہواکہ اسلام ابتداء سے لے کرانتہاء تک قربانیوں کانام ہے،غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرمنہایت اس کی حسین ، ابتداء ہے اسماعیلحضرت امام حسین ؓ کی شہادت فطری عطیہ تھاجو ازل سے آپ کے لیے لکھاجاچکاتھا۔امامؓ کی شہادت انفرادی واقعہ نہیں بلکہ یہ چمنستانِ نبویﷺکے پورے گلشن(خاندان)کی شہادت کاواقعہ ہے،اس کاتعلق اسلام کی اس روح سے ہے،جس کی ابتداء حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ہوئی ۔نواسہ رسولﷺ نے میدانِ کربلامیں اپنی قربانی سے اس کی تکمیل کردی۔شہادت ِامام عالی مقام دیگرتمام شہادتوں سے ممتازاورمنفرد ہے۔اس کی انفرادیت کی ایک وجہ یہ ہے کہ آپ خانوادئہ رسولﷺکے چشم وچراغ ہیں یعنی آپ سے پہلے کسی رسول کے خاندان نے شہادت کارتبہ حاصل نہیں کیا۔ اس میں شہید ہونے والوں کی حضو ر سیّدعالمﷺکے ساتھ خاص نسبتیں اور رشتہ داریاں ہیں ۔ یہ داستانِ شہادت گلشن نبوت کے کسی ایک پھول پرمشتمل نہیں بلکہ یہ سارے گلشن کی قربانی ہے۔قتل حسین اصل میں مرگِ یزیدہےاسلام زندہ ہوتاہے ہرکربلاکے بعداسلام کی نشرواشاعت اوردین حق کی سربلندی کے لیے لاتعدادمسلمان مرتبہ شہادت پرفائزہوچکے ہیں مگران تمام شہدائِ کرام میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت بے مثال ہے کیو ں کہ آپ جیسی مصیبتیں کسی دوسرے شہیدنے نہیں اٹھائیں،مثلاًآپ تین دن کے بھوکے پیاسے شہیدکئے گئے اوراس حال میں کہ آپ کے تمام اصحاب ، عزیزواقارب اوراہل وعیال بھی بھوکے پیاسے تھے اورخاص طورپرچھوٹے چھوٹے معصوم بچے پانی کے لیے تڑپ رہے تھے یہ آپ کے لیے اور زیادہ تکلیف کی بات تھی،کیوں کہ انسان اپنی بھوک وپیاس توکسی طرح برداشت کر ہی لیتا ہے،لیکن اپنے اہل وعیال اور خصوصاًمعصوم اورشیرخواربچوں کی بھوک وپیاس برداشت سے باہر ہوتی ہے۔پھرپانی کاوجودنہ ہوتوپیاس کی تکلیف کم محسوس ہوتی ہے ،لیکن جب پانی کی کثرت اور فراوانی ہو اورجسے عام لوگ ہرطرح سے استعمال بھی کررہے ہوں حتیٰ کہ جانوربھی سیراب ہورہے ہوں،مگر کوئی شخص اپنے اہل وعیال اوراپنے اصحاب سمیت تین دن سے بھوکا پیاساہواوراسے وہ پانی نہ پینے دیاجائے تویہ اس کے لیے زیادہ تکلیف وآزمائش کی بات ہے۔دشت کرب وبلامیں بالکل یہی نقشہ تھاکہ عام آدمی اورجانورسبھی دریائے فرات سے سیراب ہورہے تھے ،مگرنواسہ رسول سیّدالشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اورآپ کے تمام اصحاب ورفقاء پرپانی بندکردیاگیاتھا۔ یہاں تک کہ آپ اپنے بیماروں اور معصوم بچوں کوبھی پانی کاایک قطرہ نہیں پلاسکتے تھے۔اُس کی قدرت جانورتک، آب سے سیراب ہوںپیاس کی شدت میں تڑپے بے زبان اہل بیت!سیّدالشہداء امام عالی مقام حضرت سیّدناامام حسین رضی اللہ عنہ کربلاکے تپتے ہوئے صحراء میں قیامت خیزگرمی اورچلچلاتی دھوپ میں بھوکے پیاسے مگراللہ تعالیٰ اوراس کے پیارے رسولﷺکی محبت واطاعت میں سرشارہوکراپنے عزیز واقارب اوراپنے اصحاب سمیت شہادت کے عظیم منصب سے شرف یاب ہوئے۔توحیدورسالت ،دین حق کی سربلندی ،بقاء، کلمۃ الحق،حق گوئی اورسچائی کی خاطراللہ تعالیٰ کی راہ میں اپناسب کچھ قربان کردیا۔انقلابِ شہادتِ امام حسینانسان کو بیدار تو ہو لینے دوہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ 10محرم الحرام61ہجری سرزمینِ کربلا میں شہیدکردیے گئے۔ آپ کی شہادت کاواقعہ بہت طویل اوردل گداز ہے، جس طرح آپ کودھوکے اورفریب سے کوفہ بلایاگیااورجس طرح جگرگوشوں، عزیزو اقارب اوراصحاب سمیت بڑی بے دردی اورسنگ دلی کے ساتھ شہیدکیا گیا۔اسے لکھنے اور سننے کی قلب وجگرمیں تاب وطاقت نہیں ہے۔امام جلال الدین سیوطی’’تاریخ الخلفائ‘‘اورعلامہ ابن اثیر’’البدایہ والنہایہ ‘‘ میں رقم طرازہیں کہ,حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ کے16اہلِ بیت بھی شہیدکیے گئے۔ شہادت کے ہنگامے کے وقت دنیامیں سات یوم تک اندھیراچھایارہا۔دیواروں پر دھوپ کارنگ زردسانظرآتاتھااورستارے ٹوٹتے رہتے تھے۔آپ کی شہادت ۱۰محرم الحرام ۶۱ہجری کو واقع ہوئی ۔اس دن سورج گہنا(بے نور)گیاتھااورمسلسل چھ مہینے تک آسمان کے کنارے سرخ رہے،بعدمیں وہ سرخی رفتہ رفتہ ختم ہوگئی لیکن اُفق کی سرخی اب تک موجود ہے،جوشہادتِ امام حسین سے پہلے نہیں تھی…بعض لوگ کہتے ہیں کہ یومِ شہادتِ حسین پربیت المقدس کا جو پتھر بھی پلٹاجاتاتواس کے نیچے تازہ خون دکھائی دیتا۔عراقی فوج نے اپنے لیے ایک اونٹ ذبح کیاتواس کا گوشت آگ کاانگارہ بن گیاجوشعلے ماررہاتھااور جب انھوں نے وہ گوشت پکایا تووہ نہایت تلخ اورکڑواہوگیا۔( تاریخ الخلفاء/البدایہ والنہایہ)امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کاسرمبارک لے جانے والے قافلے کے راستے میں ایک جگہ گرجاگھرآیاتوانھوں نے رات گزارنے کے لیے وہاں قیام کیا اوروہ لوگ آپ کاسرِانورپاس ہی رکھ کرنبیذ(شراب)پینے لگے۔ اتنے میں پردئہ غیب سے ایک آہنی قلم نمودارہوااوراس نے دیوارپر خون سے لکھاکہاَ تَرْجُوْا اُمَّۃً قَتَلَتْ حُسَیْناً … شَفَاعَۃُ جَدِّہٖ یَوْمَ الْحِسَابَ ’’کیاحسین کوشہیدکرنے والے یہ امیدبھی لگائے بیٹھے ہیں کہ قیامت کے دن ان کے نانا جان(حضوراکرمﷺ)ان کی شفاعت بھی کریں گے‘‘۔ بعض روایات کے مطابق یہ شعر حضورنبی کریمﷺکی بعثت مبارک سے بھی۳۰۰ سال پہلے سے دیوارپر لکھا ہوا تھا ۔ ( البدایہ والنہایہ ، تاریخ الخلفا )تاریخ نے لکھاہے بہت ذکرِ کربلاجس طرح لکھنا چاہیے اب تک لکھا نہیں گیامحرم الحرام کی دسویں تاریخ بڑی عظمت وبزرگی اورقدرومنزلت والی ہے ، کیوں کہ بہت سے اہم اور تاریخ ساز واقعات اسی تاریخ پروقوع پذیرہوئے ہیں۔عاشورہ کے دن روزہ رکھناسنت نبوی ﷺہے اور بہت ہی فضیلت رکھتاہے۔اسی طرح امامِ عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اوردیگرشہدائِ کربلا اوراپنے مرحومین کے لیے ایصال ثواب کی نیت سے نذرو نیاز کا اہتمام کرنا،حلیم پکاکرکھلانا،سبیلیں لگانا،کھیرپکانااورپانی وشربت وغیرہ پلانابہت اجروثواب کاکام ہے۔دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کوغازی کی زندگی اور شہادت کی موت نصیب فرمائے۔(آمین ۔ثم آمین)