سیرت رسول اللہﷺ کے عملی پہلو
اسپیشل فیچر
مولانا ابو الکلام آزاد کی ہمہ جہت شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں جس موضوع پربھی قلم اٹھایا۔ اس کا حق ادا کردیا۔ تفسیر قرآن اور سیرتِ طیبہ اُن کے خاص موضوع رہے ہیں۔ ذیل میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے حوالے سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔کتاب اللہ کی شہادترسول اللہﷺ عالم انسانیت کے لیے فضائل و مکارم اخلاق کا بہترین نمونہ تھے۔ جس وجود مبارک کو پوری اولاد آدم کے لیے قیامت تک اسوہ حسنہ قرار دیا گیا۔ اس کی حیثیت اس کے سوا ہو بھی کیا سکتی تھی؟ اس کا پہلا شاہد قرآن پاک ہے۔ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (سورہ قلم)’’(اے پیغمبرؐ)تم اعلیٰ اخلاق پر پیدا ہوئے۔‘‘’’(اے پیغمبرؐ) خدا کی یہ بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے اس قدر نرم مزاج واقع ہوئے کج خلق اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمہارے پاس سے ہٹ جاتے (یعنی ان کے دل تمہاری طرف اس طرح نہ کھنچتے جس طرح اب بے اختیار کھنچ رہے ہیں)۔‘‘ (سورہ آل عمران)’’(مسلمانو) تمہارے پاس اللہ کا رسول آگیا ہے، جو تم ہی میںسے ہے۔ تمہارا رنج و کلفت میں پڑنا اس پر بہت شاق گزرتا ہے ۔ وہ تمہاری بھلائی کا بھوکا ہے۔ مومنوں کے لیے نہایت شفیق ورحیم ہے۔‘‘(سورہ توبہ)حضور ﷺ کے ارشاداتحضورﷺ کے ارشادات ملاحظہ ہوں،بعثت الاتمم حسن الاخلاق۔’’میں َحسن اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔‘‘ انما بعثت الاتمم مکارم الاخلاق۔’’میں تو اسی لیے بھیجا گیا ہوں کہ مکارم اخلاق کا معاملہ درجۂ اتمام پر پہنچادوں۔‘‘رسول اللہ ﷺ کی بعثت کی خبر ابوذر غفاری ؓ تک پہنچی تھی تو انہوںنے اپنا بھائی تحقیق احوال کے لیے مکہ مکرمہ بھیج دیا تھا۔ بھائی نے مکہ مکرمہ سے مراجعت پر حضرت ابوذرؓ کو ان الفاظ میں اطلا ع دی،رایتہ‘ یامربمکارم الاخلاق’’ میںنے آپﷺ کو دیکھا ہے۔ آپ ﷺ اعلیٰ اخلاق کا حکم دیتے ہیں۔‘‘یہ بعثت کے بالکل ابتدائی دور کا واقعہ ہے۔ اس دور میںبھی جس کسی کی نظر آپﷺ پر پڑی، آپﷺ میں جو نمایاں ترین وصف نظر آیا، اسے فضائل ِاخلاق ہی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حضرت علی ؓ کا بیانامام حسینؓ نے حضرت علی ؓ سے حضورﷺ کے اخلاق وعادات کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا،’’آپﷺ خندہ جبیں، نرم خو اور مہربان طبع تھے۔ سخت مزاج اور تنگ دل نہ تھے۔ کوئی برا کلمہ کبھی منہ سے نہ نکلا۔ عیب جو اور تنگ گیرنہ تھے۔ کوئی بات ناپسند ہوتی تو اس سے اغماض فرماتے۔نہایت فیاض، نہایت راست گو، نہایت نرم طبع اور نہایت خوش صحبت تھے۔اگر کوئی آپﷺ کو دفعتاً دیکھ لیتا تو مرعوب ہوجاتا۔ لیکن جیسے جیسے آشنا ہوتا جاتا محبت کرنے لگتا۔اور کہا کرتا کہ میں نے آپﷺ جیسا کوئی بھی اس سے پہلے یا بعد میں نہیں دیکھا۔ حضرت عائشہ ؓ کابیانحضرت عائشہؓ نے ہجرت سے قبل رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے بعض اہم واقعات بھی دیکھے تھے اور مدنی زندگی میں تو وہ حضورﷺ کی رفیقۂ حیات بن گئی تھیں۔ یہاں تک کہ اس دنیا میں حضورﷺ کی حیات طیبہ کا آخری ہفتہ حضرت ممدوحہؓ ہی کے حجرے میں گزرا۔حضرت ممددحہؓ نے سہارا دے رکھا تھا، جب روح پاک اس دنیا کو چھوڑ کر عالم قدس میں پہنچی۔ حضرت عائشہؓ ہی کے حجرے کو اللہ تعالیٰ نے جسد اطہر کی آخری آرام گاہ بنایا۔مشاہدے کے جیسے مختلف مواقع حضرت ممدوحہ ؓ کو میسر آئے، وہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوسکتے تھے۔٭جب بھی رسول اللہ ﷺ کو دوباتوں میں اختیار دیا جاتا تو آپﷺ ان میں سے وہ لے لیتے جو آسان اور سہل ہوتی، بشر ط یہ کہ اس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہوتا، اگر گناہ ہو تاتو آپﷺ سب سے بڑھ کر اس سے دوری اختیار کرتے۔٭رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی کو سزا نہ دی اور کبھی بدلہ نہ لیا۔ ہاں اللہ کے حکموں کی حرمت زایل کرنے والوں کو آپ ﷺ اللہ کے لیے سزا دیتے تھے۔٭عادت شریف یہ تھی کہ برائی کے بدلے میںبرائی سے کبھی کام نہ لیا۔ ہمیشہ درگزر کرتے اورمعاف فرمادیتے۔٭آپ ﷺ نے نام لے کر کبھی کسی پر لعنت نہ کی، نہ کبھی اپنے کسی خادم، کسی لونڈی ، کسی غلام ، کسی عورت اور کسی جانور کو اپنے ہاتھ سے مارا۔حسنِ اخلاق کی اہمیترسول اللہ ﷺ نے فرمایا،٭ تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کےاخلاق سب سے اچھے ہوں۔٭ کامل ایمان اس مومن کا ہے، جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو۔٭ قیامت کے روز اعمال کے ترازو میں حسن خلق سے زیادہ بھاری چیز کوئی نہ ہوگی۔٭انسانوں کو قدرت کی طرف سے جو چیزیں عطاہوئی ہیں ان میں سب سے بہتر چیز اچھے اخلاق ہیں۔٭بندوں میں سے اللہ کے نزدیک سب سے پیارا وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔٭آخرت کی زندگی میںمیرے لیے سب سے پسندیدہ وہ شخص ہوگا جس کے اخلاق اچھے ہوں اور وہی مجھ سے قریب تر ہوگا۔٭کسی نے سوال کیا،’’ یا رسول اللہ ﷺ مومنوں میں سے افضل کون ہے ؟‘‘ فرمایا، ’’جو سب سے زیادہ خوش اخلاق ہو۔‘‘٭انسان حسنِ اخلاق سے وہ درجہ حاصل کرسکتا ہے، جو مسلسل روزے رکھنے اور راتوں کو مسلسل عبادت کرنے سے حاصل ہوتاہے۔حُسن خلقرسول اللہ ﷺ نہایت نرم مزاج اور خوش اخلاق تھے۔ چہرہ مبارک پر اس قسم کی کیفیت چھائی رہتی تھی جس سے دیکھنے والے پر لطف و شفقت کا اثر پڑتا۔ گفتگو و قار و متانت سے فرماتے، ایک ایک جملہ ٹھہر ٹھہر کر بولتے ۔ ہرایک کو نرمی سے سمجھاتے۔ کبھی کسی کی دل شکنی گوارانہ فرمائی، آپ سوار ہوتے اور راستے میںکوئی صحابی مل جاتا تو اسے سوار کردیتے اور خود اتر آتے۔ایک صحابی کا بیان ہے کہ میں بچپن میں انصار کے نخلستان میں چلاجاتا تو ڈھیلے مارمار کر کھجوریں گراتا۔ لوگ مجھے پکڑ کر خدمت اقدس میںلے گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ زمین پر ٹپکی ہوئی کھجور کھالیا کرو، ڈھیلے نہ مارا کرو، پھر میرے سر پر ہاتھ پھیر اور دعادی۔مجلس نبویﷺ میں بیٹھنے کی جگہ نہ رہتی تو نئے آنے والے کے لیے ردائے مبارک بچھا دیتے تھے۔ سلام میںپیش دستی فرماتے۔ راستہ چلتے تو مرد، عورت ، بچہ جو سامنے آتا اسے سلام کرتے۔ زبان مبارک پر کبھی کوئی غیر مناسب لفظ نہ آیا ۔ انسؓ بن مالک کہتے ہیں کہ جب، کسی پر عتاب کرتے تو فرماتے: ’’مالہٰ تَرِب جینہ‘‘ (اسے کیا ہوا، اس کی پیشانی خاک آلود ہو) محاورے میں اُس فقرے کا استعمال ہلکے رجز کے رنگ میںہوتا ہے۔بچوں پر شفقتایک مرتبہ ایک نہایت غریب عورت حضرت عائشہؓ کے پاس آئی۔ اس کی دو بچیاں بھی ساتھ تھیں۔ اتفاق سے حضرت عائشہؓ کے پاس اس وقت کچھ نہ تھا۔ ایک کھجور پڑی تھی وہ اس عورت کو نذر کردی۔ اس نے کھجور کے دوٹکڑے کئے اور ایک ایک ٹکڑا دونوں کو دے دیا۔ حضرت عائشہؓ نے یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کو سنایا تو فرمایا: جس کے دل میں خدا اولاد کی محبت ڈالے اور وہ اس محبت کا حق ادا کرے تو دوزخ کی آگ سے محفوظ رہے گا۔یہ شفقت مسلمان بچوں تک محدود نہ تھی۔ ایک دفعہ کسی غزوے میں چند بچے بھی بے ارادہ و علم مارے گئے، آپﷺ کو اطلاع ملی تو بڑا رنج ہوا۔ کسی کی زبان سے نکلایا رسول اللہﷺ وہ مشرکین کے بچے تھے۔ فرمایا: مشرکین کے بچے بھی تم سے بہتر ہیں۔ خبردار! بچوں کو قتل نہ کرو، خبردار! بچوں کو قتل نہ کرو۔ ہرجان خدا ہی کی فطرت پر پیدا ہوتی ہے۔غلاموں پر شفقتابوذرؓ غفاری سے آپﷺ نے فرمایا تھا: تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں، جو خود کھائو، انہیں کھلائو، جو خود پہنو، انہیں پہنائو۔ چناں چہ اس کے بعد سے ابوذرؓ نے اپنے غلام کو ہمیشہ کھانے پہننے وغیرہ میں اپنے برابر رکھا۔غلام کے لیے لفظ غلام بھی گوارانہ تھا۔آپ ﷺ نے فرمایا: انہیں غلام یا لونڈی کہہ کر نہ پکارا کرو۔ ’’میرا بچہ‘‘ ’’میری بچی‘‘ کہا کرو۔ آپﷺ کے پاس جو غلام آتا، اسے آزاد کردیتے۔ لیکن وہ لوگ آزاد ہو کر بھی آپﷺ کی شفقت کی زنجیر میں جکڑے رہتے۔ زیدؓ بن حارث کا واقعہ محتاج تفصیل نہیں۔ ان کے والد اور چچا لینے کے لیے آئے اور ہر قیمت ادا کرنے کے لیے آمادہ تھے۔ آپﷺ پہلے ہی زیدؓ کو آزاد کرچکے تھے۔ جانے نہ جانے کا معاملہ زیدؓ ہی پر چھوڑ دیا۔ انہوں نے جانے سے انکار کردیااور آپﷺ کے آستانہ رحمت کو والدین اور دوسرے خونی اقربا کے ظل عاطفت پر ترجیح دی۔ محبت شفقت کے اس اعجاز کا صحیح اندازہ کون کرسکتا ہے، جس کے سامنے قریب ترین خونی رشتے بھی بے حقیقت رہ گئے تھے۔ایک صحابی اپنے غلام کو ماررہے تھے۔ پیچھے سے آواز آئی کہ اللہ کو تم پر اس سے زیادہ اختیارہے۔ صحابی نے مڑکر دیکھا توخود رسول اللہ ﷺ تھے۔ عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میںنے اسے اللہ کے لیے آزاد کردیا۔ فرمایا: اگر تم ایسا نہ کرتے تو آتش دوزخ تمہیں چھولیتی۔غریبوں پر شفقترسول اللہ ﷺ اکثر دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ مجھے مسکین زندہ رکھ، مسکین اٹھا اور مسکینوں ہی کے ساتھ میرا حشر کر۔ حضرت عائشہؓ نے دریافت کیا یہ کیوں؟ فرمایا:اس لیے کہ مساکین دولت مندوں سے پہلے جنت میں جائیں گے۔ پھر فرمایا: عائشہؓ ! کسی مسکین کو اپنے دروازے سے خالی ہاتھ نہ لوٹائو۔ کچھ نہ ہو تو چھوہارے کا ایک ٹکڑا ہی سہی، ضروردے دو۔ عائشہؓ غریبوں سے محبت کرو۔ انہیں اپنے سے نزدیک رکھو، خدا بھی تم کو اپنے سے نزدیک کرے گا۔فرمایا: جو شخص کسی بیوہ اور مسکین کی خبر گیری کرتا ہے ۔ اس کی حیثیت اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے کی ہے یا اس شخص کی جو دن کو روزے رکھتا ہے اور رات کو عبادت کے لیے کھڑا رہتا ہے۔