اسلام کا فلسفہ عدل
اسپیشل فیچر
عدل ومساوات کا جو پیمانہ اسلام نے دیا ہے، دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔رسول اکرم ﷺنے اپنے قول اور عمل سے مساوات کی بہترین مثالیں قائم فرمائیں۔اسلام میںامیر وغریب، شاہ وگدا، اعلیٰ وادنیٰ، آقاوغلام اور حاکم ومحکوم میں کوئی فرق نہیں۔اسلام تمام انسانوں کو برابرحقوق دینے کی تعلیم دیتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عدل وانصاف ہی اسلام کی اساس اوربنیادہے۔ عدل کا مفہوم یہ ہے کہ’’ کسی چیز کو اس کے صحیح مقام پررکھنا‘‘، ہرحق دار کواس کا پورا حق دینا اور انفرادی واجتماعی معاملات میںاعتدال اپنا کرافراط وتفریط سے بچنے کا نام عدل ہے۔ یعنی معاشرے میں ہر طبقے اور فرد کوجو حقوق حاصل ہیںوہ اسے دیئے جائیں ۔ رنگ، نسل، علاقائیت، صوبائیت، لسانیت اور ذات پات کی بنیاد پرفرق روانہ رکھا جائے اور حق دارکو اس کا حق ضرور دیا جائے ،اگر ایسا نہ کیاجائے تو یہ ظلم یا زیادتی ہوتی ہے۔’’عدل‘‘ کا دوسرا نام’’ انصاف‘‘ ہے اور انصاف کالغوی معنیٰ ’’دوٹکڑے کرنا‘‘،’’کسی چیز کا نصف‘‘، ’’فیصلہ کرنا‘‘،’’حق دینا‘‘ اور’’عدل کرنا‘‘ہے۔ اسی طرح عدل وانصاف کا ایک اور نام ’’قسط ‘‘ بھی ہے جس کامعنی’’حصہ‘‘ اور’’ جز‘‘ہے۔عدل وانصاف اور مساوات اسلامی معاشرہ کا اہم اوربنیادی جز ہے۔ اسلام نے عدل اور مساوات پربہت زوردیا ہے۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے،’’ اے ایمان والو!اللہ کے لیے (حق پر) مضبوطی سے قائم رہنے والے ہو جائو، تم انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے ہو،کسی قوم (یافرد) کی عداوت تمہیں بے انصافی پر نہ اُبھارے ،تم عدل کرتے رہو(کیوں کہ) وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو ، بے شک اللہ تمہارے سب کاموں کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘ (سورۃ المائدہ)اسلام نے باہمی تعلقات میںاور لین دین میں دیانت داری اور عدالتی معاملات میں سچی گواہی دینے اورانصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کی بار بار تاکید کی ہے تا کہ حقوق العبادمتاثر نہ ہوں۔ اس لیے حق دار کو حق دلانے اور مظلوم کو ظالم کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے عدالتوں کانظام قائم کیاجاتا ہے۔حضور اکرم ﷺکا فرمان ہے کہ، ’’جو قوم عدل وانصاف کو ہاتھ سے جانے دیتی ہے تباہی اور بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے‘‘۔اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے،’’اے ایمان والو!انصاف پر خوب قائم ہو جائو، اللہ (کی رضا)کے لیے (حق وسچ کے ساتھ)گواہی دو ،چاہے اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو یا ماں باپ کا یا رشتہ داروں کا، جس پر گواہی دو، وہ غنی ہو یا فقیر ہو، بہر حال اللہ کو اس کاسب سے زیادہ اختیار ہے تو خواہش(نفس) کے پیچھے نہ پڑو کہ حق (عدل)سے الگ پڑو اور اگر تم (گواہی میں) ہیر پھیر کرو یا منہ موڑو تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔‘‘(سورۃ النسا)اس آیت مقدسہ میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو عدل قائم کرنے اور حق کے مطابق گواہی دینے کا حکم فرما رہاہے اور فرمایا کہ چاہے تمہاری سچی گواہی کی وجہ سے تمہارے ماں باپ اوررشتہ داروں کو نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے، گواہی ہرحال میں حق وسچ کے ساتھ ہونی چاہیے یعنی اہل ایمان کی شان یہ ہونی چاہیے کہ اس کی خواہش نفس، پسند ناپسند، نفع ونقصان اور دوستی ودشمنی عدل وانصاف کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ساری دنیا کو مساوات کا درس دیتے ہوئے فرمایا،’’ اے لوگو! تم سب کاپروردگار ایک ہے اور تم سب کا باپ بھی ایک(حضرت آدم علیہ السلام) ہے، کسی عربی کو عجمی پراور کسی عجمی کو کسی عربی پرکوئی فضیلت حاصل نہیں اورنہ کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو کسی گورے پرفضیلت حاصل ہے، سوائے تقویٰ اورپرہیز گاری کے۔‘‘ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)حضرت محمد مصطفی ﷺ کی مبارک زندگی سے عدل وانصاف اور مساوات کی چندمثالیں پیش ہیں۔ایک مرتبہ قبیلہ بنی مخزوم کی ایک عورت فاطمہ بنت اسود نے چوری کی ، یہ خاندان قریش میں عزت کا حامل تھا ،اس لیے لوگ چاہتے تھے کہ وہ عورت سزا سے بچ جائے۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ رسول اللہ ﷺکے منظور نظر تھے۔ لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے معافی کی سفارش کیجیے۔ انہوں نے حضورﷺ سے معافی کی درخواست کی۔ آپ ﷺنے ناراض ہو کر فرمایا،’’ بنی اسرائیل اسی وجہ سے تباہ ہوگئے کہ وہ غرباء پر بلا تامل حد جاری کردیتے تھے اور امراء سے درگزر کرتے تھے ، (یہ تو فاطمہ بنت اسود ہے ) قسم ہے رب عظیم کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اگر (بالفرض) فاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرتیں تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالتا۔‘‘ (صحیح بخاری)اسی طرح غزوۂ بدر کے موقع پر دوسرے قیدیوں کے ساتھ حضوراکرم ﷺ کے چچا حضرت عباس بھی گرفتار ہو کر آئے تھے۔ قیدیوں کو زرِ فدیہ لے کر آزاد کیا جا رہا تھا ۔ فدیہ کی عام رقم چار ہزار درہم تھی لیکن امراء سے زیادہ فدیہ لیا جاتا تھا،بعض انصار نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا، یا رسول اﷲﷺ ! اجازت دیجیے کہ ہم عباس کا زرِ فدیہ معاف کردیں، یہ سُن کر حضورﷺ نے فرمایا ،’’ہر گز نہیں، ایک درہم بھی معاف نہ کرو بلکہ حضرت عباس سے ان کی امارت کی وجہ سے حسبِ قاعدہ چار ہزار درہم سے زیادہ وصول کئے جائیں۔‘‘ (صحیح بخاری)فتح مکہ کے بعد تمام عرب میں صرف طائف رہ گیا تھا جس نے گردن تسلیم خم نہیں کی تھی۔رسول اللہ ﷺ نے اس کا محاصرہ کیا لیکن پندرہ بیس روز کے بعد محاصرہ اٹھانا پڑا۔ صخر نامی ایک صحابی ذی حیثیت رئیس تھے، انہیں جب معلوم ہوا تو انہوں نے خودجا کر طائف کی حصار بندی کی اور طائف والوںپر اس قدر دباؤ ڈالا کہ وہ بالآخر مصالحت پر راضی ہوگئے اور صخر نے حضور نبی کریم ﷺ خدمت میں فتح اور کام یابی کی اطلاع بھیج دی۔ اس فتح کے بعد مغیرہ بن شعبہ ثقفی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ صخر نے میری پھوپھی کو قبضے میں کر رکھا ہے۔ آپ ﷺنے صخر کو بلایا اور حکم دیا کہ مغیرہ کی پھوپھی کو ان کے گھر پہنچا دو ۔اس کے بعد بنو سلیم آئے اور عرض کیا کہ جس زمانہ میں ہم کافر تھے، صخر نے ہمارے چشمے پر قبضہ کرلیا تھا اب ہم اسلام قبول کر چکے ہیں ۔ اس لئے ہمارا چشمہ ہمیں واپس دلایا جائے۔آپ ﷺنے صخر کو بلایا اور فرمایا کہ جب کوئی قوم اسلام قبول کرتی تو اپنے جان و مال کی مالک ہو جاتی ہے۔ اس لئے ان کا چشمہ انہیں واپس دے دو۔ صخر کو بارگاہ مصطفوی ﷺ کی بے لاگ عدالت کا یہ فیصلہ بھی منظور کرنا پڑا۔ راوی کا بیان ہے کہ جب حضورﷺ کے حکم سے صخر نے دونوں فیصلے منظو ر کئے تو میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ کے چہرہ اقدس پر شرم سے سرخی آگئی ، کیوں کہ فاتح طائف حضرت صخرؓکو ان دونوں معاملوں میں شکست ہوئی اور فتح طائف کا انہیں کوئی صلہ نہ ملا۔ (مقالات سعیدی بحوالہ سنن ابو داؤد)اسلام فرد سے اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی دونوں میں عدل اور اعتدال قائم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ عدل یا انصاف دراصل توازن قائم کرنے کا نام ہے ۔ عدل کے علاوہ ’’انصاف‘‘ کے لیے ’’ قسط‘‘ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآنی آیات کی روسے انصاف سے مراد کسی چیز کو اس کے اصل مقام پر رکھنا ہے۔انفرادی واجتماعی معاملات میں اعتدال کی راہ اختیار کرنا ہے ، جو شخص انصاف کرتا ہے وہ عادل ، مُنصف اور مقسط کہلاتا ہے۔ اسلام میں عدل وانصاف انسانی زندگی کے انفرادی واجتماعی تمام پہلوئوں پر مشتمل ہے۔قانونی عدل وانصاف قانونی عدل وانصاف کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی مَظلوم کِسی حَاکِم،قاضی یا جج کے سامنے کوئی فریادلے کر آئے تو بغیر سفارش کے اور بغیر رشوت کے اُسے انصاف مل سکے، کسی شخص کی غربت یا معاشرے میں اس کی کم زور حیثیت حصول انصاف میںرکاوٹ نہ بنے اور نہ یہ ہوکہ کوئی شخص اپنے منصب یادولت کی وجہ سے انصاف پر اثر انداز ہو۔ اسلام میں قاضی کو یہ مقام اور حق حاصل ہے کہ وہ حاکم وقت کو بھی بلاکر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرسکتا ہے ۔ حضرت علیؓکی زرہ کی چوری کا واقعہ اور اس سلسلے میں آپ کا عدالت میں بلوایا جانا ہماری تاریخ کا نہایت روشن پہلو ہے۔ اسی طرح بخاری شریف میں ’’حد سَرقہ‘‘یعنی چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا کے نفاذ کے بارے میں معززین قریش کا اثر انداز ہونے کی کوشش کرنا اور حضور اکرم ﷺکاناراض ہوکر تاریخی فرمان بہت واضح انصاف ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے،’’اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو‘‘۔(سورۃ النسا)اسی طرح سورۃ المائدہ میں حکم دیا گیا،’’اور اگر تم فیصلہ کرو تو ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرو۔‘‘معاشی عدل وانصاف عدل وانصاف کی ایک اور قسم معاشی عدل وانصاف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مال خرچ کرنے میں افراط وتفریط یا اسراف وبخل سے کام نہ لیا جائے بلکہ میانہ روی اختیار کی جائے۔ سورہ فرقان میں ارشاد باری تعالیٰ ہے،’’اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ ہی فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ ہی کنجوسی کرتے ہیں بلکہ ان کا طرزعمل میانہ روی کا ہوتا ہے۔ ‘‘معاشی عدل سے یہ بھی مراد ہے کہ وسائل رزق اور معیشت پر چند افراد کی اجارہ داری نہ ہو بلکہ معاش کی راہیں سب کے لیے یکساں طور پر کھلی ہوں ، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے،’’تاکہ دولت تمہارے امیروں کے درمیان ہی نہ رہے۔‘‘(سورۃ الحشر)اسلامی معیشت میں زکوٰۃ ،عشر، صدقات، وراثت کے لازمی احکام اور نفلی صدقات وعطیات کے ترغیبی احکام کا مقصد بھی یہی ہے کہ منصفانہ اقدامات کے ذریعے تقسیم دولت کا مناسب انتظام کیا جائے۔ اسلامی ریاست میں اگر کوئی فرد اپنی اہلیت، صلاحیت اور ذہانت کے باوجود صرف غربت یاپس ماندگی کے باعث حصول تعلیم یا حصول روزگار کے مواقع سے محروم رہ جائے تو اُسے معاشی ظلم کہا جائے گا ۔قرآن مجید میںارشاد ربانی ہے ،’’بے شک اللہ تعالیٰ انصاف اور نیکی کا حکم دیتا ہے‘‘۔ (سورۃ النحل)اسی طرح سورۃ الشوریٰ میں فرمایا،’’اور مُجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں۔‘‘اللہ تبارک تعالیٰ نے کائنات میں عدل وانصاف اور توازن کی بے شمار نشانیاں رکھی ہیں۔ مادے کے سب سے چھوٹے ذَرّے ایٹم ہی کو دیکھیں توپتہ چلتا ہے کہ اس میں بھی الیکٹران ایک خاص توازنی حالات میں چکر لگاتاہے۔نظام شمسی کی طرف نظرکریں تو وہ بھی متوازن حالت میں نظر آتا ہے۔ پانی کے بہائو کا قاعدہ دیکھیں تو وہ بھی اس وقت تک فراز سے نشیب کی طرف بہتا ہے جب تک کہ سطحی توازن قائم نہ ہوجائے۔مظاہر قدرت زبان حال سے چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ’’اے اشرف المخلوقات ! جب بے جان اشیاء کائنات کا نظام عدل کے ساتھ توازن رکھے ہوئے ہیں اور اللہ کے حکم کے تابع ہیں توتُو اپنی انفرادی واجتماعی زندگی میںعدل وانصاف سے کام کیوں نہیں لیتا۔‘‘ ( حیاتِ اسلامی) تعصب کا مفہومتعصب کا مفہوم یہ ہے کہ، ’’ کسی بھی ناحق اور غلط کام میں اپنوں کی مدد کرنا۔‘‘ اسلام اس نظریئے کی پُرزور مُخالفت اور مَذمت کرتا ہے ، پس اس نظریہ کی دعوت دینا اوراس کی بنیاد پر جنگ وقتال کرنا کسی مسلمان کا کام نہیں ۔حضرت واثلہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا،’’ یارسول اللہﷺ! تعصب کیا ہے؟‘‘ آپ ﷺنے فرمایاکہ ،’’ (تعصب یہ ہے کہ) تم ظلم میں اپنی قوم کی مد د کرو۔‘‘ (سنن ابودائود)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ،’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو تعصب کی طرف بلائے اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں ہے جو تعصب کی بنیاد پر جنگ کرے اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں ہے جو تعصب کی حالت میںمرے۔‘‘(سنن ابودائود)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشادفرمایا،’’جس شخص نے کسی ناحق(ناجائز)معاملے میں اپنی قوم کی مدد کی، پس اُس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اونٹ کنویں میں گر رہا ہو اور وہ اسے (نکالنے کے لیے ) دُم سے پکڑ کر کھینچتا ہو (نتیجتاً وہ خود بھی اس میں جا گرے گا)۔‘‘(سنن ابودائود)جہاں تک حقوق العباد کا تعلق ہے، اس میں خطائِ اجتہادی پر مبنی قاضی کا فیصلہ ظاہراً نافذ تو ہوجاتا ہے،لیکن یہ فیصلہ حقیقتِ واقعہ تبدیل نہیں کرتا، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے،’’تم میرے پاس اپنے مقدمات لے کر آتے ہو اور ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے موقف کو دوسرے کے بہ نسبت زیادہ مؤثردلائل کے ساتھ پیش کرنے کی مہارت رکھتاہو اور اس سماعت کے اعتبار سے( بالفرض)میں اس کے حق میںفیصلہ کردوں، تو جس شخص کو میں اس کے بھائی کے حق میںسے (خلافِ حقیقت) کچھ دے دوں تو (وہ چیزاس کے لیے جائز نہیں ہے بلکہ اسے سمجھنا چاہیے کہ) میں اسے آگ کا ایک ٹکڑا دے رہاہوں۔‘‘ (صحیح مسلم)انسانی زندگی پرعدل کے اثراتعدل وانصاف سے نہ صرف انسانی زندگی میں انقلاب آتا ہے بلکہ اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست کوبھی ترقی واستحکام ملتا ہے۔ معاشرہ میں امن وامان،اخوت وبھائی چارہ،محبت ویگانگت عدل سے ہی برپا ہو سکتی ہے جب ہر شخص اپنے فرائض مکمل طورپر ادا کرتا ہے تو اس کااثر پورے معاشرہ پرپڑتا ہے اور باقی لوگ بھی اس کی پیرو ی کرتے ہیں۔ان احادیث مبارکہ میں اسلامی معاشرے کی تباہی اُخوّت ،بھائی چارہ، مساوات اور انصاف ختم ہونے کا ایک بہت بڑا سبب بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ناحق معاملہ پر یا کسی غلط کام یا غلط عقیدے ونظریئے پر اپنی قوم اور قبیلے یاہم زبان وہم وطن کی بے جا حمایت طرف داری اور مدد کرتاہے تو وہ شخص اپنی قوم کی تباہی کے ساتھ اپنے آپ کو بھی برباد کرتا ہے۔ایک حدیث پاک میںحضرت ابوامامہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا،’’ قیامت کے دن بدترین حالت کے اندر و ہ شخص ہوگا، جس نے دوسروں کی دُنیا بنانے کی خاطر اپنی آخرت تباہ کر ڈالی۔‘‘(سنن ابن ماجہ،مشکوٰۃ المصابیح)جو شخص ناحق ونا جائز معاملہ میں اپنی قوم یا قبیلے کی مدد کرتا ہے تو وہ اسلامی تعلیمات سے انحراف اور دوسروں کے حقوق غصب کرتا ہے۔ تعصب کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس سے حقوق العباد متاثر ہوتے ہیں ۔قرآن و حدیث میں حقوق العباد کی ادائیگی کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے، جب تک مسلمانوں میں اُخوّت ، مُحبت ،اِتحاداوراتفاق کا رشتہ قائم رہا، وہ ساری دنیا پہ چھائے رہے اورجب انہوں نے تعصب اختیارکیا ،وہ ذلیل و خوار ہوئے۔خرد نے کہہ بھی دیا لاالٰہ تو کیا حاصلدل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں