خیال کو تصویر کرنے والے مینر نیازی کی پنجابی شاعری
اسپیشل فیچر
منیر نیازی کو اردو شاعری کی طرح پنجابی شاعری میں بھی خود کو منوانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ وہ پنجابی شاعری میں بھی اپنا الگ اور منفرد لہجہ لے کر آئے۔ زبان و بیان کے علاوہ موضوعات بھی اچھوتے تھے۔ وہ خود بھی اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’نامعلوم سے معلوم کا سفر‘‘ ہی اصل کام ہے۔ وہ کلیشے اور روٹین سے بے زار تھے۔ روندے ہوئے اور پامال راستوں پر انہیں چلنا پسند نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے لیے نیا راستہ نکالا۔ خاص طور پر پنجابی کے حوالے سے وہ ‘پکی ٹھیٹھ‘ پنجابی سے بچے۔ اس لیے نہیں کہ وہ انہیں پسند نہیں تھی۔ اصل بات یہ تھی کہ اس میں صوفی شعراء جیسے جن موجود تھے جو کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔ ورڈز ورتھ نے بھی ملٹن کے بعد اندازہ لگا لیا تھا کہ اس پرشکوہ زبان میں اب کوئی گنجائش نہیں رہی۔ بڑے لوگ جب ایک خاص طرح کی زبان لکھتے ہیں تو اسے اس مقام پر پہنچا دیتے ہیں جہاں اس زبان میں مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہی۔ اسی لیے ورڈز ورتھ نے عام زبان استعمال کی جسے تخیل کے زور نے سنبھالا دیا۔ منیر نیازی کے ذہن میں یہ بات تھی یا پھر انہوں نے بے خیالی میں اپنے لیے رائج عام فہم شہری زبان برتی اور وہی کہ زور دار تخیل اور نئے مضامین کے ساتھ وہ ہم آہنگ ہوگئی۔ ’سفر دی رات‘ ، ’چار چپ چیزاں‘، ’رستہ دسن والے تارے‘ اور تازہ کلام نیازی صاحب کا سرمایہ ہے جو ’’کل کلام‘‘ میں یکجا دستیاب ہے۔ انہوں نے پنجابی میں دو مختصر ڈرامے ’’قصہ دو بھراواں دا‘‘ اور ’’قصہ کلے آدمی دے سفر دا‘‘ بھی لکھے جو اپنی جگہ خاصے کی چیز ہیں۔اختصار منیر نیازی کی پہلی اور بڑی خوبی ہے کہ لفظ برتنے میں وہ بہت کفایت شعار اور چوزی ہیں۔ ان کی نظم سے مصرع نکالنا یا ڈالنا آسان نہیں اور یہی اچھی گُندھی ہوئی نظم کی نشانی ہے۔ اگر میں روایتی جملہ لکھ دوںکہ وہ کوزے میں دریا بند کر دیتے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ پنجابی کی مختصر نظم کے تو وہ موجد ہیں۔ بعض دفعہ تو اختصار کی حد یہ ہوئی کہ عنوان بڑا اور نظم چھوٹی۔ یہ بھی تو اختراع اور نیا پن ہے!پہلے آدمی دی سوچمیں کیہ کراںویلے کولوں اَگے لنگھن دی سزاآدمی کلا رہ جاندا اےان نظموں کی طرح ان کے شعری مجموعے بھی مختصر ہیں مگر لوگ ان کے مجموعے ڈھونڈتے پھرتے تھے۔ خاص طور پر نوجوان شاعر ان سے بہت متاثر ہوئے۔ اس حوالے سے منیر نیازی ٹرینڈ سیٹر شاعر ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان کی شاعری کی روح کو سمجھنے کے لیے ان کی ایک لازوال نظم ’ہونی دے حیلے‘ دیکھیے۔ یہ نظم ان کا نقطۂ عروج بھی ہے۔ ہونی دے حیلےکس دا دوش سی کس دا نئیں سیایہہ گلاںہن کرن دیاں نئیںویلے لنگھ گئے توبہ والےراتاں ہوکے بھرن دیاں نئیںجو ہویا اے ہونا ای سیتے ہونی روکیاں رکدی نئیںاک واری جدوں شروع ہو جاوےگل فیر ایویں مکدی نئیںکجھ اُنج وی راہواں اوکھیاں سنکجھ گل وچ غم دا طوق وی سیکجھ شہر دے لوک وی ظالم سنکجھ مینوں مرن دا شوق وی سیاس نظم سے نیازی صاحب کو بہت شہرت ملی۔ خاص طور پر نظم کے آخری چار مصرعے تو ایسے زبان زدِ خاص و عام ہوئے کہ ضرب المثل بن گئے۔ تصویر کو خیال بنانا ایک بات ہے مگر خیال کو تصویر بنانا دوسری بات ، دوسرا کام ذرا اور طرح کا ہے اور شاید یہی ’نامعلوم سے معلوم کا سفر‘ ہے۔ یا یہ اَن دیکھی دنیا میں جانے کا شوق بھی ہے۔ یہی جستجو منیر نیازی کو بے چین بھی رکھتی تھی اور دربدر بھی۔ انہیں سنسنان‘ناآباد‘ ویران اور اَن دیکھے راستوں پر جانا پسند تھا۔ سندر بن انہیں ہانٹ کرتا تھا۔ چڑیلیں‘ جن بھوت‘ چھلیڈے‘ عفریت اور دوسری مافوق الفطرت چیزیں ان کی شاعری میں جابجا ملتی ہیں۔ لوگوں نے اسے منیر نیازی کا کمپلیکس کہا۔ ایسی بات نہیں ہے یہ تو سوچ کا انداز ہے۔ یہ اپنے ہی ہمزاد کا دکھ بھی تو ہو سکتا ہے۔ یہ بے پناہ طاقت کو ادراک میں لانے کی سعی بھی تو ہو سکتی ہے۔ یہ اس ڈاکٹر فائوسٹس کی خواہش بھی تو ہو سکتی جو اپنی دسترس میں بہت کچھ چاہتا ہے اور جو آخر میں اپنی بے بسی پر خود کلامی بھی کرتا ہے۔ آپ ’سفر دی رات‘ کی پہلی نظم ہی دیکھ لیں اور کل کلام کو آخر تک پڑھ جائیں۔ پہلی نظم ’اک پکی رات‘ میں ہی منیر نیازی کی کیمسٹری سامنے آجاتی ہے۔ یہ وہی مقام ہے جو شہر والوں کے لیے No go area ہے مگر منیر نیازی اسی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ وہ شہر سے باہر بے آباد جگہوں کے آسیب کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ نہ جانے یہ سب کچھ ان کے اندر آباد کس طرح ہوا؟ آپ غور کریں تو جواب ضرور ملے گا۔ فی الحال کتاب کی پہلی نظم دیکھیے:اک پکی راتگھردیاں کندھاں اُتے دسن چھٹاں لال پھوار دیاںاَدھی راتی بوہے کھڑکن ڈیناں چیکاں ماردیاںسپ دی شوکر گونجے جیویں گلاں گجھے پیار دیاںایدھر اودھر لک لک ہسن شکلاں شہروں پار دیاںروحاں وانگوں کولوں لنگھن مہکاں باسی ہار دیاںقبرستان دے رستے دسن کوکاں پہرے دار دیاںمنیر نیازی کے ہاں تمثال نگاری پوری فضا میں رچی بسی نظر آتی ہے۔ ان کے ہاں متحرک امیجری جلوہ گر ہے۔ ہر شاعر کے اندر داخل اور خارج دونوں عوامل کام کرتے ہیں۔ منیر نیازی کے ہاں داخلی یعنی ذات کا حوالہ زیادہ ہے۔ خیال ان کے ہاں پوری طرح رچائو حاصل کرتا ہے تب نظم بنتا ہے۔ ان کے ہاں خیال اپنی زبان ساتھ لے کر آتا ہے جس کے اندر آہنگ خودبخود پیدا ہو جاتا ہے۔ ان کے ہاں ’اکلاپے‘ یعنی تنہائی کا بہت عمل دخل ہے۔ اس کے محرکات کیا ہیں؟ ڈھونڈنے کے لیے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑے گا۔ منیر نیازی جیسے حساس اور شرمیلے شخص کے لیے اس منافق اور حاسد معاشرے میں زندگی کرنا کوئی آسان نہ تھا۔ ان کی منفرد آواز انہیں امتیاز بخش رہی تھی۔ تبھی تو انہیں ہر شام دشمنوں کے درمیان گزرتی محسوس ہوتی تھی۔ ایک غزل میں کہتے ہیں:بے یقین لوکاں وچ بے یقین ہو جاندےسانوں خود پرستی نے شہر توں بچا دتاشاعری منیر اپنی باغ ہے اجاڑ اندرمیں جویں حقیقت نوں وہم وچ لکا دتا’خودپرستی‘ جیسی منفی چیز کو مثبت بنا کر پیش کرنا بھی نیازی صاحب کا حصہ ہے۔ دو برائیوں میں چھوٹی برائی انتخاب کرنے والا معاملہ ہے۔ ویسے بھی نیازی صاحب کے ہاں معاشرتی طور پر ایک عدم تحفظ کا رویہ بھی ہے کہ انہیں زندگی کے شب و روز میں رنگ بھرنے کے لیے وسائل مہیا نہیں تھے۔ جو کچھ ’کلیم‘ میں تھا وہ بھی لال ٹیپ کی نظر ہوگیا تھا۔ جو کام کیا وہ کاروباری ذہن نہ ہونے کے باعث چلا بھی نہیں۔ انہوں نے ہفتہ وار ادبی اخبار ’سات رنگ‘ منٹگمری (ساہیوال) سے نکالا۔ اس سے شہرت اور پہچان تو ملی مگر جو جمع پونجی تھی اس میں خرچ ہو گئی۔ شاعری کا جنون اور جذبوں کا وفور ہو تو وہاں توازن کہاں رہتا ہے۔ ویسے بھی منیر نیازی کے ہاں تند خوئی اور بے زاری بہت تھی۔ ان کے لیے شہر کے رنگ میں رنگ جانا ناممکن تھا۔ وہ تو کسی اور دنیا کی ہوا لے کر اہلِ سخن میں آئے تھے۔ انہوں نے اپنے شوق کی تشفی اور اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے بہت پاپڑ بیلے۔ ایسے ہی جیسے رانجھے نے ہیر کے لیے بھینسیں چرائیں اور کان چھدوائے تھے۔ ان کی ایک نظم دیکھیے:دنیا دے وچ رہن لئی ویکیہ کجھ کرنا پیندا اےاپنے ای لہو دیاں نہراں اندرآپے ای ترنا پیندا اےراتاں نوں بوہے کھڑکاندیوا توں ڈرنا پیندا اےروز شام نوں نویں قبر تےہوکا بھرنا پیندا اےاسے کہتے ہیں آفاقیت! مجھے تو یہ آج کی بات لگتی ہے کب سے ایسا ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لوگ صرف لاشیں گنتے ہیں اور وہ اس کرب کو محسوس کرنے کے قابل نہیں رہے۔ شاعر تو چیونٹی پر بھی پائوں نہیں دھر سکتا۔ یہ سانحہ انسان کی خود غرضی‘ لالچ اور ہوس کے باعث رونما ہوا۔ دھوکہ دہی‘ منافقت‘ غداری‘ جھوٹ‘ مکر‘ فریب‘ نفرت اور حسد کیا کچھ ہم میں در نہیں آیا۔ مادہ پرست معاشرے نے تو سب کو تنہا تنہا کر دیا ہے۔ منیر نیازی صاحب کو یہ بھی احساس تھا کہ وہ بہت اوریجنل اور منفرد تھے۔ یہاں گروپ بندی کے زور پر ادبی معرکے ہو رہے تھے۔ ریڈیو‘ ٹی وی اور اخبارات پر گروپس کی اجارہ داری تھی۔ نیازی صاحب اپنی شاعری کی پذیرائی کی بنیاد پر ذرائع ابلاغ کی مجبوری بن گئے۔ وہ نہ برے شاعر کو داد دیتے تھے اور نہ برے شاعر سے داد کے طلبگار تھے۔ وہ مشاعرہ پڑھتے تو سماں باندھ دیتے۔ میں سنی سنائی بات نہیں کر رہا دیکھی ہوئی صورت حال لکھ رہا ہوں۔ آپ یہ نظم پڑھ لیجیے اگر آپ منیر نیازی سے سنتے تو آپ بھی بارش میں بھیگ جاتے اور ہوا کی آواز سننے لگتے:ورہدے مینہ وچ ٹریا جاواں رات سی بہت ای کالیاپنے ای پرچھانویں کولوں دل نوں ڈراون والیشاں شاں کردے رُکھ پپل دے‘ انھیاں کردیاں واواںاوس رات تے بوہتے لوکی بھل گئے گھر دیاں راہواںدوستوں کا خیال ہے کہ منیر نیازی مردم بے زار تھے۔ اکتائے ہوئے‘ تنہائی پسند اور سمٹے ہوئے۔ ایسی بات نہیں ہے وہ بہت خوش گفتار اور ملنسار تھے۔ بات تو پسند اور ناپسند کی ہے۔ ہاں وہ مجمع سے گھبراتے تھے یہ بھی مزاج کی بات ہے۔ وہ بہت محبت کرنے والے تھے۔ اعلیٰ خاندان کے چشم و چراغ۔ انہوں نے بہت امارت بھی دیکھی تھی۔ ان کے خاندان کی پاکستان کے لیے بہت قربانیاں ہیں۔ پاکستان بنا تو ان کی ٹرانسپورٹ کمپنی نے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ ان کے والد بھی شہید ہوئے تھے۔ وہ پاکستان اور انسانیت سے بہت پیار کرتے تھے۔ وہ تو ان لوگوں کے خلاف تھے جو اس ملک پر چڑیلوں‘ بدروحوں‘ چمگادڑوں اور سانپوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔ وہ ان دعوے داروں کے بارے میں کہتے تھے کہ بول بول کر ان کے منہ بڑے اور سر چھوٹے ہوگئے ہیں۔ اور سب اپنے اپنے گدھوں کی مالش کرکر کے گھوڑے بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں یہ لوگ بونے نظر آتے ہیں۔ کبھی وہ ان کو مونچھوں والے بچھو کہتے اور کبھی کچھ۔ یہ ان کا موجودہ معاشرے کے ناسوروں کے خلاف غصے کا اظہار تھا کہ وہ اس ملک کو عیاروں‘ مکاروں‘ چال بازوں اور ریاکاروں سے پاک دیکھنا چاہتے تھے۔و گرنہ ان کا عام لوگوں کے ساتھ رویہ بہت اچھا تھا۔ ایک چھوٹی نظم اس دعوے کی دلیل ہے:ایڈیاں دردی اکھیاں دے وچہنجو بھرن نہ دیواںوس چلے تے ایس جہان چکسے نوں مرن نہ دیواںان کی ایک نعت کے مقطع پر تو میں رک کر کسی کیفیت میں پہنچ گیا۔ کیا اندازِ محبت ہے!شہر مبارک اوہناں دناں دے سوہنیاں دھپاں چھاواںجنہاں چ پھریا شام سویرے احمدؐ دا پرچھاواںمنیر نیازی کی شاعری میں حقیقی رومانٹک فضا ملتی ہے۔ یہ وہ رومانٹسزم یا رومانیت ہے جو انگریزی ادب میں مراد لی جاتی ہے۔ نیا پن اور قواعد و ضوابط سے بے نیازی‘ داخلی واردات کا غلبہ اور اپنی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے کا عمل۔ اپنے جذبات اور احساسات کو تجسیم کرنے کی کوشش۔ یہاں ہجر و وصال کی کیفیتیں بھی ہیں اور کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوشش بھی۔ صحرا نوردی بھی ہے اور جنگلوں کی سیر بھی۔ ایک پراسرار فضا بھی ہے۔ اور سامنے کا منظر بھی۔ رات کا سناٹا بھی ہے اور صبح کا شور بھی۔ آنے والے سمے کا خوف منیر نیازی کو ڈراتا ہے۔ وہ اپنے اردگرد کو بھی اسی خوف میں مبتلا دیکھتے ہیں۔ شہر دے مکاناپنے ای ڈر توں جڑے ہوئے نیںاک دوجے دے نالوہی خوف جو انسان کو شہروں میں لایا۔ وہی ڈر کہ جس کے باعث قصبے آباد ہوئے۔ وہ خوف انہیں مکانوں میں نظر آتا ہے۔ ویسے تو انسان جنگلوں سے آیا اور شہر بسائے مگر وہ اپنے ساتھ کچھ کچھ درندگی بھی ساتھ لے آیا جو انتہائی تہذیب کے مرحلے پر بھی چھپائے نہیں چھپتی۔ اس کی وہی جبلت جب کبھی شکل پاتی ہے تو وہ منیر نیازی کو چڑیلوں‘ بھوتوں‘ سانپوں‘ جھلیڈوں اور ڈائنوں کی شکل میں نظر آتی ہے۔ منیر نیازی کبھی کبھی ایک روحانیت میں نظر آتے ہیں جہاں کشف ہوتا ہے اور جہاں چھٹی حس راہنمائی کرتی ہے اور راز کی باتیں ایمائیت پیدا کرتی ہیں۔جیہڑیاں تھاواں صوفیاں جا کے لئیاں ملاوہ اوہناں دے درد دی تاب نہ سکیاں جھلاکو کوک فرید دی سنجے کر گئی تھلیہ کوئی الگ مجاہدہ ہے‘ کوئی الگ ہجر ہے‘ مولانا روم کی بانسری کی تان جیسا۔ بعض مقام ایسے آتے ہیں جہاں حرف ساتھ نہیں دیتے۔ صوت و صدا کا اپنا ایک مقام ہے۔ حرف بھی تو ایک راز کی طرح ہے جسے غالب نے قفل ابجد کہا ہے اور پھر حرف حرف سے جڑتا ہے تو بات بنتی ہے۔ حسنِ ترتیب ایک فن سے زیادہ عطا ہے۔ یہاں ہر فنکار عاجز ہے اور یہی ادراک علم ہے: حرف اک دوجے حرف دا پر دا میتھوں قیاس نہ ہویاساری حیاتی حرف لخے پر حرف شناس نہ ہویابعض اوقات ان کے ہاں کسی ایک لائن میں ایسا مسحور کن تصور ہے کہ آپ اس ایک مصرعے کو پوری نظم کہہ سکتے ہیں ’’سو سو فکراں دے پرچھاویں‘ سو سو غم جدائی دے‘‘منیر نیازی کی شاعری میں سفر اور ڈر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ انہیں اس خوف میں عجب کشش محسوس ہوتی ہے جیسے وہ اس سے لطف کشید کرتے ہیں۔ وہ کسی ایسی منزل کی تلاش ہیں جس کا خاکہ انہوں نے کہیں بچپن میں دیکھا شاید کسی بوڑھی ماں کی کہانی میں یا کسی بزرگ کے قصے میں۔ یہ ایک مہم جوئی ہے آبِ حیات کے حصول جیسی یا ہمیشگی کی آس۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سارے بھید ہیں اپنے ہونے کے۔ مجھے کبھی کبھی برائوننگ کا Dark Tower یاد آتا ہے کہ جہاں پہنچنا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ راستے کے بہکاوے اور مشکلات ان گنت ہیں لیکن جرات مند اور بہادر اسی Dark Tower کے راستے کو منزل بنا لیتے ہیں۔ نیازی صاحب کے ہاں یکسانیت سے اکتاہٹ اور تبدیلی کی آرزو ملتی ہے کہ کوئی اس ہولناک یکسانیت کو توڑے۔ یہ یکسانیت نفرتوں اور خود غرضیوں کی ہے جہاں ایک دوسرے کا خون بہایا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے کے راستے میں گڑھے کھودے جا رہے ہیں۔ ہر طرف موت کا رقص ہے۔ بے بسی اور بے حسی ہے۔ شاعر کی بے چینی اسے کسی پہلو چین نہیں لینے دیتی۔ سر تے گھپ ہنیر تے دھرتی اتے کالپیریں کنڈھے زہر دے لہو وچ بھجے والجتن کرو کجھ دوستو توڑو موت دا جالپھڑ مرلی اوئے رانجھیا‘ کڈھ کوئی تکھی تانمار کوئی تیر او مرزیا کھچ کے ول اسمانمنیر نیازی بعض اوقات موج میں آتے تو طے شدہ پیٹرن کا خیال بھی نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے شعر کے لیے باقاعدہ کوئی سانچہ تیار نہیں کرتے تھے۔ میری بات کی شہادت یہ واقعہ ہے کہ میں منیر نیازی صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ میں ان کے انگریزی تراجم کو ترتیب دے رہا تھا۔ کہنے لگے ’’یار! اس غزل کو دیکھو کسی نے نشاندہی کی ہے‘‘۔ میں نے دیکھا تو ان کی وہ غزل گائی بھی گئی اور اچھی خاصی مشہور بھی ہوئی:کناں ٹرئیے ہور کناں تھکیے ہوراک پتن تے ڈیرا لائیےگھاٹ نہ لبھیے ہوریار جے گل نوں سمجھ نہ سکےگل کوئی کرئیے ہوراس فن پارے کے اوپر ’غزل‘ لکھا ہو اہے حالانکہ یہ غزل کے تقاضے پورے نہیں کرتی۔ مطلع ’فعلن فعلن فع‘ ہے۔ باقی تمام شعروں کے مصرعِ اولیٰ میں ڈیڑھ رکن زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں اس میں قافیہ کیا ہے اور حرفِ روی کیا ہے؟ ایک مشکل سی بات ہے۔ یہ موج میں کہی گئی نظم تو ہو سکتی ہے غزل نہیں۔ میں نے نیازی صاحب سے کہا ’’اس غزل کا کمال یہ ہے کہ مطلع کے بغیر باقی اشعار Regularly Irregular ہیں۔ وہ مسکرا دئیے۔ بہرحال ان کے خالی لمحے بھی ان کی شاعری ہوتے تھے:اج دا دن وی ایویں لنگھیا‘ کوئی وی کم ناں ہویاپورب ولوں چڑھیا سورج پچھم آن کھلویانہ ملیا میں خلقت نوں‘ ناں یاد خدا نوں کیتاناں میں پڑھی نماز تے ناں میں جام شراب دا پیتاخوشی ناں غم کوئی کول ناں آیا ناںہسیا نہ رویااَج دا دِن وی ایویں لنگھیا…٭٭٭