خیال کو تصویر کرنے والے مینر نیازی کی پنجابی شاعری

خیال کو تصویر کرنے والے مینر نیازی کی پنجابی شاعری

اسپیشل فیچر

تحریر : سعداللہ شاہ


منیر نیازی کو اردو شاعری کی طرح پنجابی شاعری میں بھی خود کو منوانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ وہ پنجابی شاعری میں بھی اپنا الگ اور منفرد لہجہ لے کر آئے۔ زبان و بیان کے علاوہ موضوعات بھی اچھوتے تھے۔ وہ خود بھی اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’نامعلوم سے معلوم کا سفر‘‘ ہی اصل کام ہے۔ وہ کلیشے اور روٹین سے بے زار تھے۔ روندے ہوئے اور پامال راستوں پر انہیں چلنا پسند نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے لیے نیا راستہ نکالا۔ خاص طور پر پنجابی کے حوالے سے وہ ‘پکی ٹھیٹھ‘ پنجابی سے بچے۔ اس لیے نہیں کہ وہ انہیں پسند نہیں تھی۔ اصل بات یہ تھی کہ اس میں صوفی شعراء جیسے جن موجود تھے جو کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔ ورڈز ورتھ نے بھی ملٹن کے بعد اندازہ لگا لیا تھا کہ اس پرشکوہ زبان میں اب کوئی گنجائش نہیں رہی۔ بڑے لوگ جب ایک خاص طرح کی زبان لکھتے ہیں تو اسے اس مقام پر پہنچا دیتے ہیں جہاں اس زبان میں مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہی۔ اسی لیے ورڈز ورتھ نے عام زبان استعمال کی جسے تخیل کے زور نے سنبھالا دیا۔ منیر نیازی کے ذہن میں یہ بات تھی یا پھر انہوں نے بے خیالی میں اپنے لیے رائج عام فہم شہری زبان برتی اور وہی کہ زور دار تخیل اور نئے مضامین کے ساتھ وہ ہم آہنگ ہوگئی۔ ’سفر دی رات‘ ، ’چار چپ چیزاں‘، ’رستہ دسن والے تارے‘ اور تازہ کلام نیازی صاحب کا سرمایہ ہے جو ’’کل کلام‘‘ میں یکجا دستیاب ہے۔ انہوں نے پنجابی میں دو مختصر ڈرامے ’’قصہ دو بھراواں دا‘‘ اور ’’قصہ کلے آدمی دے سفر دا‘‘ بھی لکھے جو اپنی جگہ خاصے کی چیز ہیں۔اختصار منیر نیازی کی پہلی اور بڑی خوبی ہے کہ لفظ برتنے میں وہ بہت کفایت شعار اور چوزی ہیں۔ ان کی نظم سے مصرع نکالنا یا ڈالنا آسان نہیں اور یہی اچھی گُندھی ہوئی نظم کی نشانی ہے۔ اگر میں روایتی جملہ لکھ دوںکہ وہ کوزے میں دریا بند کر دیتے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ پنجابی کی مختصر نظم کے تو وہ موجد ہیں۔ بعض دفعہ تو اختصار کی حد یہ ہوئی کہ عنوان بڑا اور نظم چھوٹی۔ یہ بھی تو اختراع اور نیا پن ہے!پہلے آدمی دی سوچمیں کیہ کراںویلے کولوں اَگے لنگھن دی سزاآدمی کلا رہ جاندا اےان نظموں کی طرح ان کے شعری مجموعے بھی مختصر ہیں مگر لوگ ان کے مجموعے ڈھونڈتے پھرتے تھے۔ خاص طور پر نوجوان شاعر ان سے بہت متاثر ہوئے۔ اس حوالے سے منیر نیازی ٹرینڈ سیٹر شاعر ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان کی شاعری کی روح کو سمجھنے کے لیے ان کی ایک لازوال نظم ’ہونی دے حیلے‘ دیکھیے۔ یہ نظم ان کا نقطۂ عروج بھی ہے۔ ہونی دے حیلےکس دا دوش سی کس دا نئیں سیایہہ گلاںہن کرن دیاں نئیںویلے لنگھ گئے توبہ والےراتاں ہوکے بھرن دیاں نئیںجو ہویا اے ہونا ای سیتے ہونی روکیاں رکدی نئیںاک واری جدوں شروع ہو جاوےگل فیر ایویں مکدی نئیںکجھ اُنج وی راہواں اوکھیاں سنکجھ گل وچ غم دا طوق وی سیکجھ شہر دے لوک وی ظالم سنکجھ مینوں مرن دا شوق وی سیاس نظم سے نیازی صاحب کو بہت شہرت ملی۔ خاص طور پر نظم کے آخری چار مصرعے تو ایسے زبان زدِ خاص و عام ہوئے کہ ضرب المثل بن گئے۔ تصویر کو خیال بنانا ایک بات ہے مگر خیال کو تصویر بنانا دوسری بات ، دوسرا کام ذرا اور طرح کا ہے اور شاید یہی ’نامعلوم سے معلوم کا سفر‘ ہے۔ یا یہ اَن دیکھی دنیا میں جانے کا شوق بھی ہے۔ یہی جستجو منیر نیازی کو بے چین بھی رکھتی تھی اور دربدر بھی۔ انہیں سنسنان‘ناآباد‘ ویران اور اَن دیکھے راستوں پر جانا پسند تھا۔ سندر بن انہیں ہانٹ کرتا تھا۔ چڑیلیں‘ جن بھوت‘ چھلیڈے‘ عفریت اور دوسری مافوق الفطرت چیزیں ان کی شاعری میں جابجا ملتی ہیں۔ لوگوں نے اسے منیر نیازی کا کمپلیکس کہا۔ ایسی بات نہیں ہے یہ تو سوچ کا انداز ہے۔ یہ اپنے ہی ہمزاد کا دکھ بھی تو ہو سکتا ہے۔ یہ بے پناہ طاقت کو ادراک میں لانے کی سعی بھی تو ہو سکتی ہے۔ یہ اس ڈاکٹر فائوسٹس کی خواہش بھی تو ہو سکتی جو اپنی دسترس میں بہت کچھ چاہتا ہے اور جو آخر میں اپنی بے بسی پر خود کلامی بھی کرتا ہے۔ آپ ’سفر دی رات‘ کی پہلی نظم ہی دیکھ لیں اور کل کلام کو آخر تک پڑھ جائیں۔ پہلی نظم ’اک پکی رات‘ میں ہی منیر نیازی کی کیمسٹری سامنے آجاتی ہے۔ یہ وہی مقام ہے جو شہر والوں کے لیے No go area ہے مگر منیر نیازی اسی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ وہ شہر سے باہر بے آباد جگہوں کے آسیب کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ نہ جانے یہ سب کچھ ان کے اندر آباد کس طرح ہوا؟ آپ غور کریں تو جواب ضرور ملے گا۔ فی الحال کتاب کی پہلی نظم دیکھیے:اک پکی راتگھردیاں کندھاں اُتے دسن چھٹاں لال پھوار دیاںاَدھی راتی بوہے کھڑکن ڈیناں چیکاں ماردیاںسپ دی شوکر گونجے جیویں گلاں گجھے پیار دیاںایدھر اودھر لک لک ہسن شکلاں شہروں پار دیاںروحاں وانگوں کولوں لنگھن مہکاں باسی ہار دیاںقبرستان دے رستے دسن کوکاں پہرے دار دیاںمنیر نیازی کے ہاں تمثال نگاری پوری فضا میں رچی بسی نظر آتی ہے۔ ان کے ہاں متحرک امیجری جلوہ گر ہے۔ ہر شاعر کے اندر داخل اور خارج دونوں عوامل کام کرتے ہیں۔ منیر نیازی کے ہاں داخلی یعنی ذات کا حوالہ زیادہ ہے۔ خیال ان کے ہاں پوری طرح رچائو حاصل کرتا ہے تب نظم بنتا ہے۔ ان کے ہاں خیال اپنی زبان ساتھ لے کر آتا ہے جس کے اندر آہنگ خودبخود پیدا ہو جاتا ہے۔ ان کے ہاں ’اکلاپے‘ یعنی تنہائی کا بہت عمل دخل ہے۔ اس کے محرکات کیا ہیں؟ ڈھونڈنے کے لیے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑے گا۔ منیر نیازی جیسے حساس اور شرمیلے شخص کے لیے اس منافق اور حاسد معاشرے میں زندگی کرنا کوئی آسان نہ تھا۔ ان کی منفرد آواز انہیں امتیاز بخش رہی تھی۔ تبھی تو انہیں ہر شام دشمنوں کے درمیان گزرتی محسوس ہوتی تھی۔ ایک غزل میں کہتے ہیں:بے یقین لوکاں وچ بے یقین ہو جاندےسانوں خود پرستی نے شہر توں بچا دتاشاعری منیر اپنی باغ ہے اجاڑ اندرمیں جویں حقیقت نوں وہم وچ لکا دتا’خودپرستی‘ جیسی منفی چیز کو مثبت بنا کر پیش کرنا بھی نیازی صاحب کا حصہ ہے۔ دو برائیوں میں چھوٹی برائی انتخاب کرنے والا معاملہ ہے۔ ویسے بھی نیازی صاحب کے ہاں معاشرتی طور پر ایک عدم تحفظ کا رویہ بھی ہے کہ انہیں زندگی کے شب و روز میں رنگ بھرنے کے لیے وسائل مہیا نہیں تھے۔ جو کچھ ’کلیم‘ میں تھا وہ بھی لال ٹیپ کی نظر ہوگیا تھا۔ جو کام کیا وہ کاروباری ذہن نہ ہونے کے باعث چلا بھی نہیں۔ انہوں نے ہفتہ وار ادبی اخبار ’سات رنگ‘ منٹگمری (ساہیوال) سے نکالا۔ اس سے شہرت اور پہچان تو ملی مگر جو جمع پونجی تھی اس میں خرچ ہو گئی۔ شاعری کا جنون اور جذبوں کا وفور ہو تو وہاں توازن کہاں رہتا ہے۔ ویسے بھی منیر نیازی کے ہاں تند خوئی اور بے زاری بہت تھی۔ ان کے لیے شہر کے رنگ میں رنگ جانا ناممکن تھا۔ وہ تو کسی اور دنیا کی ہوا لے کر اہلِ سخن میں آئے تھے۔ انہوں نے اپنے شوق کی تشفی اور اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے بہت پاپڑ بیلے۔ ایسے ہی جیسے رانجھے نے ہیر کے لیے بھینسیں چرائیں اور کان چھدوائے تھے۔ ان کی ایک نظم دیکھیے:دنیا دے وچ رہن لئی ویکیہ کجھ کرنا پیندا اےاپنے ای لہو دیاں نہراں اندرآپے ای ترنا پیندا اےراتاں نوں بوہے کھڑکاندیوا توں ڈرنا پیندا اےروز شام نوں نویں قبر تےہوکا بھرنا پیندا اےاسے کہتے ہیں آفاقیت! مجھے تو یہ آج کی بات لگتی ہے کب سے ایسا ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لوگ صرف لاشیں گنتے ہیں اور وہ اس کرب کو محسوس کرنے کے قابل نہیں رہے۔ شاعر تو چیونٹی پر بھی پائوں نہیں دھر سکتا۔ یہ سانحہ انسان کی خود غرضی‘ لالچ اور ہوس کے باعث رونما ہوا۔ دھوکہ دہی‘ منافقت‘ غداری‘ جھوٹ‘ مکر‘ فریب‘ نفرت اور حسد کیا کچھ ہم میں در نہیں آیا۔ مادہ پرست معاشرے نے تو سب کو تنہا تنہا کر دیا ہے۔ منیر نیازی صاحب کو یہ بھی احساس تھا کہ وہ بہت اوریجنل اور منفرد تھے۔ یہاں گروپ بندی کے زور پر ادبی معرکے ہو رہے تھے۔ ریڈیو‘ ٹی وی اور اخبارات پر گروپس کی اجارہ داری تھی۔ نیازی صاحب اپنی شاعری کی پذیرائی کی بنیاد پر ذرائع ابلاغ کی مجبوری بن گئے۔ وہ نہ برے شاعر کو داد دیتے تھے اور نہ برے شاعر سے داد کے طلبگار تھے۔ وہ مشاعرہ پڑھتے تو سماں باندھ دیتے۔ میں سنی سنائی بات نہیں کر رہا دیکھی ہوئی صورت حال لکھ رہا ہوں۔ آپ یہ نظم پڑھ لیجیے اگر آپ منیر نیازی سے سنتے تو آپ بھی بارش میں بھیگ جاتے اور ہوا کی آواز سننے لگتے:ورہدے مینہ وچ ٹریا جاواں رات سی بہت ای کالیاپنے ای پرچھانویں کولوں دل نوں ڈراون والیشاں شاں کردے رُکھ پپل دے‘ انھیاں کردیاں واواںاوس رات تے بوہتے لوکی بھل گئے گھر دیاں راہواںدوستوں کا خیال ہے کہ منیر نیازی مردم بے زار تھے۔ اکتائے ہوئے‘ تنہائی پسند اور سمٹے ہوئے۔ ایسی بات نہیں ہے وہ بہت خوش گفتار اور ملنسار تھے۔ بات تو پسند اور ناپسند کی ہے۔ ہاں وہ مجمع سے گھبراتے تھے یہ بھی مزاج کی بات ہے۔ وہ بہت محبت کرنے والے تھے۔ اعلیٰ خاندان کے چشم و چراغ۔ انہوں نے بہت امارت بھی دیکھی تھی۔ ان کے خاندان کی پاکستان کے لیے بہت قربانیاں ہیں۔ پاکستان بنا تو ان کی ٹرانسپورٹ کمپنی نے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ ان کے والد بھی شہید ہوئے تھے۔ وہ پاکستان اور انسانیت سے بہت پیار کرتے تھے۔ وہ تو ان لوگوں کے خلاف تھے جو اس ملک پر چڑیلوں‘ بدروحوں‘ چمگادڑوں اور سانپوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔ وہ ان دعوے داروں کے بارے میں کہتے تھے کہ بول بول کر ان کے منہ بڑے اور سر چھوٹے ہوگئے ہیں۔ اور سب اپنے اپنے گدھوں کی مالش کرکر کے گھوڑے بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں یہ لوگ بونے نظر آتے ہیں۔ کبھی وہ ان کو مونچھوں والے بچھو کہتے اور کبھی کچھ۔ یہ ان کا موجودہ معاشرے کے ناسوروں کے خلاف غصے کا اظہار تھا کہ وہ اس ملک کو عیاروں‘ مکاروں‘ چال بازوں اور ریاکاروں سے پاک دیکھنا چاہتے تھے۔و گرنہ ان کا عام لوگوں کے ساتھ رویہ بہت اچھا تھا۔ ایک چھوٹی نظم اس دعوے کی دلیل ہے:ایڈیاں دردی اکھیاں دے وچہنجو بھرن نہ دیواںوس چلے تے ایس جہان چکسے نوں مرن نہ دیواںان کی ایک نعت کے مقطع پر تو میں رک کر کسی کیفیت میں پہنچ گیا۔ کیا اندازِ محبت ہے!شہر مبارک اوہناں دناں دے سوہنیاں دھپاں چھاواںجنہاں چ پھریا شام سویرے احمدؐ دا پرچھاواںمنیر نیازی کی شاعری میں حقیقی رومانٹک فضا ملتی ہے۔ یہ وہ رومانٹسزم یا رومانیت ہے جو انگریزی ادب میں مراد لی جاتی ہے۔ نیا پن اور قواعد و ضوابط سے بے نیازی‘ داخلی واردات کا غلبہ اور اپنی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے کا عمل۔ اپنے جذبات اور احساسات کو تجسیم کرنے کی کوشش۔ یہاں ہجر و وصال کی کیفیتیں بھی ہیں اور کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوشش بھی۔ صحرا نوردی بھی ہے اور جنگلوں کی سیر بھی۔ ایک پراسرار فضا بھی ہے۔ اور سامنے کا منظر بھی۔ رات کا سناٹا بھی ہے اور صبح کا شور بھی۔ آنے والے سمے کا خوف منیر نیازی کو ڈراتا ہے۔ وہ اپنے اردگرد کو بھی اسی خوف میں مبتلا دیکھتے ہیں۔ شہر دے مکاناپنے ای ڈر توں جڑے ہوئے نیںاک دوجے دے نالوہی خوف جو انسان کو شہروں میں لایا۔ وہی ڈر کہ جس کے باعث قصبے آباد ہوئے۔ وہ خوف انہیں مکانوں میں نظر آتا ہے۔ ویسے تو انسان جنگلوں سے آیا اور شہر بسائے مگر وہ اپنے ساتھ کچھ کچھ درندگی بھی ساتھ لے آیا جو انتہائی تہذیب کے مرحلے پر بھی چھپائے نہیں چھپتی۔ اس کی وہی جبلت جب کبھی شکل پاتی ہے تو وہ منیر نیازی کو چڑیلوں‘ بھوتوں‘ سانپوں‘ جھلیڈوں اور ڈائنوں کی شکل میں نظر آتی ہے۔ منیر نیازی کبھی کبھی ایک روحانیت میں نظر آتے ہیں جہاں کشف ہوتا ہے اور جہاں چھٹی حس راہنمائی کرتی ہے اور راز کی باتیں ایمائیت پیدا کرتی ہیں۔جیہڑیاں تھاواں صوفیاں جا کے لئیاں ملاوہ اوہناں دے درد دی تاب نہ سکیاں جھلاکو کوک فرید دی سنجے کر گئی تھلیہ کوئی الگ مجاہدہ ہے‘ کوئی الگ ہجر ہے‘ مولانا روم کی بانسری کی تان جیسا۔ بعض مقام ایسے آتے ہیں جہاں حرف ساتھ نہیں دیتے۔ صوت و صدا کا اپنا ایک مقام ہے۔ حرف بھی تو ایک راز کی طرح ہے جسے غالب نے قفل ابجد کہا ہے اور پھر حرف حرف سے جڑتا ہے تو بات بنتی ہے۔ حسنِ ترتیب ایک فن سے زیادہ عطا ہے۔ یہاں ہر فنکار عاجز ہے اور یہی ادراک علم ہے: حرف اک دوجے حرف دا پر دا میتھوں قیاس نہ ہویاساری حیاتی حرف لخے پر حرف شناس نہ ہویابعض اوقات ان کے ہاں کسی ایک لائن میں ایسا مسحور کن تصور ہے کہ آپ اس ایک مصرعے کو پوری نظم کہہ سکتے ہیں ’’سو سو فکراں دے پرچھاویں‘ سو سو غم جدائی دے‘‘منیر نیازی کی شاعری میں سفر اور ڈر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ انہیں اس خوف میں عجب کشش محسوس ہوتی ہے جیسے وہ اس سے لطف کشید کرتے ہیں۔ وہ کسی ایسی منزل کی تلاش ہیں جس کا خاکہ انہوں نے کہیں بچپن میں دیکھا شاید کسی بوڑھی ماں کی کہانی میں یا کسی بزرگ کے قصے میں۔ یہ ایک مہم جوئی ہے آبِ حیات کے حصول جیسی یا ہمیشگی کی آس۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سارے بھید ہیں اپنے ہونے کے۔ مجھے کبھی کبھی برائوننگ کا Dark Tower یاد آتا ہے کہ جہاں پہنچنا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ راستے کے بہکاوے اور مشکلات ان گنت ہیں لیکن جرات مند اور بہادر اسی Dark Tower کے راستے کو منزل بنا لیتے ہیں۔ نیازی صاحب کے ہاں یکسانیت سے اکتاہٹ اور تبدیلی کی آرزو ملتی ہے کہ کوئی اس ہولناک یکسانیت کو توڑے۔ یہ یکسانیت نفرتوں اور خود غرضیوں کی ہے جہاں ایک دوسرے کا خون بہایا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے کے راستے میں گڑھے کھودے جا رہے ہیں۔ ہر طرف موت کا رقص ہے۔ بے بسی اور بے حسی ہے۔ شاعر کی بے چینی اسے کسی پہلو چین نہیں لینے دیتی۔ سر تے گھپ ہنیر تے دھرتی اتے کالپیریں کنڈھے زہر دے لہو وچ بھجے والجتن کرو کجھ دوستو توڑو موت دا جالپھڑ مرلی اوئے رانجھیا‘ کڈھ کوئی تکھی تانمار کوئی تیر او مرزیا کھچ کے ول اسمانمنیر نیازی بعض اوقات موج میں آتے تو طے شدہ پیٹرن کا خیال بھی نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے شعر کے لیے باقاعدہ کوئی سانچہ تیار نہیں کرتے تھے۔ میری بات کی شہادت یہ واقعہ ہے کہ میں منیر نیازی صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ میں ان کے انگریزی تراجم کو ترتیب دے رہا تھا۔ کہنے لگے ’’یار! اس غزل کو دیکھو کسی نے نشاندہی کی ہے‘‘۔ میں نے دیکھا تو ان کی وہ غزل گائی بھی گئی اور اچھی خاصی مشہور بھی ہوئی:کناں ٹرئیے ہور کناں تھکیے ہوراک پتن تے ڈیرا لائیےگھاٹ نہ لبھیے ہوریار جے گل نوں سمجھ نہ سکےگل کوئی کرئیے ہوراس فن پارے کے اوپر ’غزل‘ لکھا ہو اہے حالانکہ یہ غزل کے تقاضے پورے نہیں کرتی۔ مطلع ’فعلن فعلن فع‘ ہے۔ باقی تمام شعروں کے مصرعِ اولیٰ میں ڈیڑھ رکن زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں اس میں قافیہ کیا ہے اور حرفِ روی کیا ہے؟ ایک مشکل سی بات ہے۔ یہ موج میں کہی گئی نظم تو ہو سکتی ہے غزل نہیں۔ میں نے نیازی صاحب سے کہا ’’اس غزل کا کمال یہ ہے کہ مطلع کے بغیر باقی اشعار Regularly Irregular ہیں۔ وہ مسکرا دئیے۔ بہرحال ان کے خالی لمحے بھی ان کی شاعری ہوتے تھے:اج دا دن وی ایویں لنگھیا‘ کوئی وی کم ناں ہویاپورب ولوں چڑھیا سورج پچھم آن کھلویانہ ملیا میں خلقت نوں‘ ناں یاد خدا نوں کیتاناں میں پڑھی نماز تے ناں میں جام شراب دا پیتاخوشی ناں غم کوئی کول ناں آیا ناںہسیا نہ رویااَج دا دِن وی ایویں لنگھیا…٭٭٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
 سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

رواں ماہ کی ایک صبح جب آسٹریلوی نوجوانوں نے اپنے انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور فیس بک کے نوٹیفیکیشن کھولے تو انہیں ایک عجیب سا احساس ہوا کہ شاید آن لائن زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ حقیقت یہی ہے ۔آسٹریلیا نے 16 سال سے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس رکھنے اور نئے اکاؤنٹس بنانے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ قانون جسےThe Online Safety Amendment (Social Media Minimum Age) Act 2024 کہا جاتا ہے، نومبر 2024ء میں پارلیمنٹ سے منظور ہوا اور اس سال 10 دسمبرسے نافذ العمل ہو گیا۔ اس کے تحت میٹا، ٹک ٹاک، یوٹیوب، سنیپ چیٹ، ریڈیٹ، ٹویچ اور دیگر بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کو حکم دیا گیاہے کہ وہ 16 سال سے کم عمر صارفین کے اکاؤنٹس بلاک کریں یا انہیں حذف کردیں ورنہ بھاری جرمانے کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہیں۔ آسٹریلوی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے الگورتھم بچوں کی کمزور نفسیات، خود اعتمادی اور ذہنی صحت کو نشانہ بناتے ہیں، اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بجائے والدین کے کمپنیوں کو اس نقصان دہ ماحول سے بچوں کو بچانے کا حکم دیا جائے۔ سوشل میڈیا سکرین ایڈکشن، تنقیدی سوچ میں کمی اور آن لائن ہراسانی جیسی مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔چھوٹے بچے غلط معلومات، غیر اخلاقی مواد اور پرائیویسی خطرات کے سامنے بے بس ہوتے ہیں جبکہ والدین تکنیکی اور ثقافتی دباؤ کے سامنے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔لگتا ہے کہ یہ قانون سوشل میڈیا کی دنیا کے پیٹرن تبدیل کردے گا۔ آسٹریلیا کا یہ اقدام دنیا بھر میں سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ مختلف ممالک نے اس کے متوازی یا مختلف ماڈل پر غور شروع کر دیا ہے جیسا کہ یورپی پارلیمنٹ نے 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پابندی کی حمایت کی ہے، کیو نکہ کمپنیاں الگورتھمز کے ذریعے بچوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ نیوزی لینڈ نے ایک پارلیمانی کمیٹی رپورٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو جلد اسی موضوع پر قانون سازی کے لیے سفارشات دے گی۔ ملائیشیا 2026ء میں اسی طرح کی پابندی نافذ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ سپین نے سوشل میڈیا کے لیے عمر کی حد 14 سے بڑھا کر 16 کرنے یا والدین کی رضا مندی کے ساتھ رسائی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ فرانس اور ناروے بھی مختلف مدتوں اور حدود کے ساتھ اسی معاملے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک عالمی تحریک اب بچوں کی ڈیجیٹل حفاظت کے لیے شروع ہو چکی ہے۔ جیسے جیسے حکومتیں اس موضوع پر غور کریں گی ہر ملک کے اپنے ثقافتی اور سیاسی پیمانے سامنے آئیں گے۔تاہم سوشل میڈیا کے حوالے سے کچھ ملک نرم رویہ اختیار کر رہے ہیں جیسا کہ جنوبی کوریا، جہاں سوشل میڈیا بلیک آؤٹ کی بجائے کلاس رومز میں موبائل فونز کی پابندی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تعلیم میں خلل نہ آئے اور جاپان کے ایک شہر نے سب کے لیے دن میں دو گھنٹے انٹر نٹ استعمال کی حد متعارف کرائی ہے، جسے ڈیجیٹل وقت کا متوازن استعمالکہا جارہاہے۔ ڈنمارک نے سب سے مختلف حکمت عملی اپنائی ہے ، وہاں 15 سال سے کم عمر صارفین کو سوشل میڈیا تک محدود رسائی دینے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، مگر والدین کو 13،14 سال کے بچوں کو اجازت دینے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ہر ملک اور سماج کے لیے ایک ہی حل نہیں ہے۔ بعض جگہوں پر سختی ہے، بعض جگہوں پر لچک اور بعض میں تعلیمی انداز اپنایا جا رہا ہے۔آسٹریلیا کی پابندی نے شدید ردعمل بھی پیدا کیا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں، حقوقِ اظہار کے حامیوں اور نوجوانوں نے حکومت کی اس حد تک مداخلت پر سوالات اٹھائے ہیں مثال کے طور پر،یہ آزادی اظہار کا حق چھیننے جیسا تو نہیں؟ بچے دیگر انٹرنیٹ پلیٹ فارمز یا وی پی این کے ذریعے پابندی کو توڑ سکتے ہیں؟ کیا اس سے نوجوانوں کی سماجی تعاملات اور تعلیمی صلاحیتوں کو نقصان نہیں ہوگا؟انہی نکات کو لے کر آسٹریلیا کی اعلیٰ عدالت میں اس قانون کو چیلنج بھی کیا گیا ہے جس میں 15 سال کے دو بچوں نے کہا ہے کہ ان کا آزادانہ اظہار اور سیاسی معلومات تک رسائی کا حق محدود ہوا ہے۔ آج کا ڈیجیٹل منظرنامہ وہ نہیں رہا جو پانچ سال پہلے تھا۔ سوشل میڈیا صرف تفریح نہیں بلکہ تعلیم، معلومات اور معاشرتی رابطے کا ذریعہ بھی ہے، اسی لیے کوئی بھی پابندی اپنے آپ میں اچھی بری نہیں ہے ۔آسٹریلیا نے اپنی پالیسی کے ذریعے دنیا کو ایک چیلنج دیا ہے کہ بچوں کے تحفظ اور آزادی کے درمیان توازن کہاں ہے؟یہ سوال نہ صرف قانون سازوں کو درپیش ہے بلکہ والدین، اساتذہ اور خود نوجوانوں کے لیے بھی ایک آئینہ ہے۔ کیا دنیا آسٹریلیا کے نقش قدم پر چلتی ہے؟ کیا ہم ایک نئے ڈیجیٹل سماجی معاہدے کی طرف بڑھیں گے؟وقت ہی بتائے گا کہ یہ قدم محفوظ مستقبل کی بنیاد بنتا ہے یا نئی حدود کی کنجی۔

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ایشیا میں پرندوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ، ہالیجی جھیل کراچی سے 82 کلومیٹر اور ٹھٹھہ سے شمال مغرب میں 24 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہالیجی جھیل نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی ماحولیاتی اہمیت کی حامل ہے اور اپنی قدرتی خوبصورتی، میٹھے پانی کے ذخیرے اور بالخصوص آبی پرندوں کے مسکن کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔یہاں تقریباً 200 سے زائد اقسام کے پرندے آتے ہیں ۔کسی زمانے میں مہمان پرندوں کی 500 سے زائد اقسام ہوتی تھی تاہم وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں پرندوں کی تعداد اور اقسام کم ہوتی چلی گئیں۔اس کی ایک بڑی وجہ جھیل کے پانی کی آلودگی بھی ہے۔ اس جھیل سے کراچی شہر کو پانی فراہم کیا جاتا تھا لیکن جب پانی کی یہ سپلائی یہاں سے بند کر کے کینجھرجھیل سے شروع ہوئی تو ہالیجی جھیل کا پانی آلودہ ہونے لگا اور آبی حیات کے لیے یہ مسکن ناقابلِ رہائش ہو گیا اور افزائش نسل کے لیے بھی مناسب نہ رہا۔ہالیجی جھیل کے قیام کا تاریخی پس منظر یوں ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران اتحادی افواج کی کثیر تعداد کراچی میں قیام پذیر ہوئی اور پانی کی ضرورت کے پیشِ نظر ہالیجی جھیل بنانے کا فیصلہ کیا گیا، یوں ایک مصنوعی جھیل وجود میں آئی جو کہ 1943ء میں مکمل ہوئی۔ جھیل کے انسپکٹر کی رہائش گاہ پر آج بھی 1943ء کی تختی لگی ہوئی ہے۔جھیل تقریباً 18 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کی گہرائی مختلف مقامات پر 17 سے 30 فٹ تک ہے۔ اس جھیل کے دلدلی حصے میں مگر مچھوں کی ایک کثیر تعداد ہوا کرتی تھی جوبتدریج کم ہوتے جارہے ہیں ۔ہالیجی جھیل کو رامسر کنونشن کے تحت عالمی اہمیت کی حامل آب گاہ (Wetlands of International Importance) قرار دیا گیا، جو اس کی ماحولیاتی قدر و قیمت کا واضح ثبوت ہے۔رامسر کنونشن عالمی معاہدہ ہے جو دو فروری 1971 ء کو ایران کے شہر رامسر میں آب گاہوں کے تحفظ کے اجلاس دوران طے پایااور 76-1975ء میں مکمل طور پر نافذ کیاگیا ۔ اُس وقت پاکستان میں آٹھ رامسر آب گاہیں تھیں اور اس وقت ان کی تعداد 19 ہوگئی ہے۔ہالیجی بنیادی طور پر بارشوں اور قریبی ندی نالوں کے پانی سے وجود میں آئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جھیل ایک متوازن ماحولیاتی نظام میں تبدیل ہو گئی جہاں پانی، نباتات، مچھلیاں اور پرندے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جھیل کے اردگرد پائے جانے والے آبی پودے، سرکنڈے اور گھاس پرندوں کے لیے قدرتی پناہ گاہ اور افزائشِ نسل کا ذریعہ فراہم کرتے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہالیجی جھیل کو آبی اورمہاجر پرندوں کے لیے ایک محفوظ مسکن سمجھا جاتا ہے۔ہالیجی جھیل انڈس فلائی وے زون کے راستے میں ہونے کے باعث ہر سال سردیوں کے موسم میں سائبیریا، وسطی ایشیا اور یورپ کے مختلف علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کا مسکن بنتی ہے ۔ ان میں فلیمنگو، پیلیکن، بطخوں کی مختلف اقسام، ہیرون، ایگریٹ اور کوٹ شامل ہوتے ہیں۔ یہ پرندے یہاں نہ صرف قیام کرتے ہیں بلکہ خوراک حاصل کرتے اور بعض اقسام افزائشِ نسل بھی کرتی ہیں۔ ہالیجی جھیل کا پرامن ماحول اور وافر خوراک ان پرندوں کے لیے ایک مثالی پناہ گاہ بناتا ہے۔رامسر کنونشن کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں آب گاہوں کا تحفظ، ان کا دانشمندانہ استعمال اور حیاتیاتی تنوع کی بقا کو یقینی بنانا ہے۔ ہالیجی جھیل اس کنونشن کے اصولوں کی عملی مثال ہے کیونکہ یہ جھیل پرندوں کے مسکن کے ساتھ ساتھ مقامی ماہی گیروں، نباتات اور آبی حیات کے لیے بھی ناگزیر اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم ہالیجی جھیل کو درپیش خطرات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی، صنعتی آلودگی، غیر قانونی شکار، پانی کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے عوامل اس جھیل کے قدرتی توازن کو متاثر کر رہے ہیں۔ خاص طور پر پرندوں کے غیر قانونی شکار نے ماضی میں اس مسکن کو شدید نقصان پہنچایا۔ اگرچہ حکومت اور محکمہ جنگلی حیات نے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں لیکن مؤثر عمل درآمد اور عوامی آگاہی کی اب بھی شدید ضرورت ہے۔ہالیجی جھیل کی حفاظت دراصل پرندوں ہی نہیں بلکہ پورے ماحولیاتی نظام کی حفاظت ہے۔ یہ جھیل ہمیں یاد دلاتی ہے کہ آب گاہیں قدرت کا وہ نازک تحفہ ہیں جو انسانی غفلت کی صورت میں تیزی سے تباہ ہو سکتی ہیں۔ رامسر کنونشن کے تحت ہالیجی جھیل کی حیثیت ہمیں یہ ذمہ داری سونپتی ہے کہ ہم اس قدرتی ورثے کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنائیں۔ ہالیجی جھیل پاکستان کے ماحولیاتی خزانے کا ایک قیمتی حصہ ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ، پانی کی سطح پر تیرتے رنگ برنگے پرندے اور قدرتی خاموشی اس جھیل کو ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ اگر ہالیجی جھیل کا تحفظ سنجیدگی سے کیا جائے تو یہ نہ صرف پرندوں کا محفوظ مسکن بنی رہے گی بلکہ رامسر کنونشن کے مقاصد کی تکمیل میں بھی پاکستان کے مثبت کردار کو اجاگر کرے گی۔

آج کا دن

آج کا دن

پہلی کامیاب پرواز 17 دسمبر 1903ء کو امریکی ریاست نارتھ کیرولائنا کے مقام کِٹی ہاک پر اورول رائٹ اور ولبر رائٹ نے پہلی مرتبہ ایک ایسا ہوائی جہاز کامیابی سے اڑایا جو انجن سے چلتا تھا، کنٹرول کیا جاتا تھا اور انسان کو فضا میں لے جانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس طیارے کا نام فلائر ون تھا جس نے تقریباً 12 سیکنڈ تک پرواز کی اور 120 فٹ کا فاصلہ طے کیا۔یہ کارنامہ محض ایک سائنسی تجربہ نہیں تھا بلکہ انسانی تہذیب میں ایک انقلابی قدم تھا۔ رائٹ برادران کی اس کامیابی نے بعد میں ہوابازی، جنگی طیاروں، مسافر بردار جہازوں اور عالمی رابطوں کے پورے نظام کی بنیاد رکھی۔ سیمون بولیوار کا انتقال 17 دسمبر 1830ء کو لاطینی امریکا کے عظیم انقلابی رہنما سیمون بولیوار کا انتقال ہوا۔ بولیوار کو'' لبریٹر‘‘یعنی آزادی دلانے والا کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے سپین کی نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے وینزویلا، کولمبیا، ایکواڈور، پیرو اور بولیویا کو آزادی دلوانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔بولیوار نہ صرف ایک فوجی کمانڈر تھے بلکہ ایک ویژنری سیاسی رہنما بھی تھے۔ ان کا خواب تھا کہ آزاد ہونے والے لاطینی امریکی ممالک ایک مضبوط وفاق کی صورت میں متحد رہیں مگر اندرونی اختلافات، علاقائی سیاست اور اقتدار کی کشمکش نے ان کے خواب کو پورا نہ ہونے دیا۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ مایوسی، بیماری اور تنہائی کا شکار رہے۔ مالمدی قتلِ عام دوسری عالمی جنگ کے دوران 17 دسمبر 1944ء کو یورپ میں ایک انتہائی ہولناک واقعہ پیش آیا جسے مالمدی قتلِ عام کہا جاتا ہے۔ یہ واقعہ بلجیم کے علاقے مالمدی کے قریب پیش آیا جہاں نازی جرمن فوج کے ایس ایس دستوں نے امریکی فوج کے تقریباً 84 جنگی قیدیوں کو گولی مار کر قتل کر دیا۔یہ واقعہBattle of the Bulge کے دوران پیش آیا۔ بعد ازاں یہ واقعہ جنگی جرائم کی ایک نمایاں مثال کے طور پر سامنے آیا۔جنگ کے بعد نیورمبرگ طرز کے مقدمات میں اس قتلِ عام میں ملوث جرمن افسران پر مقدمات چلائے گئے اور کئی کو سزائیں سنائی گئیں۔عرب بہار کا آغاز17 دسمبر 2010ء کو تیونس کے ایک نوجوان پھل فروش محمد بوعزیزی نے پولیس کی بدسلوکی، بے روزگاری اور حکومتی ناانصافی کے خلاف احتجاجاً خود سوزی کرلی۔ یہ واقعہ بظاہر ایک فرد کی ذاتی اذیت کا اظہار تھا مگر اس نے پوری عرب دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔بوعزیزی کی خودسوزی کے بعد تیونس میں عوامی احتجاج شروع ہوا جو جلد ہی ایک عوامی انقلاب میں تبدیل ہو گیا۔ چند ہفتوں میں صدر زین العابدین بن علی اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہو گئے۔ یہی تحریک آگے چل کر عرب بہار کہلائی جس نے مصر، لیبیا، یمن اور شام سمیت کئی ممالک میں سیاسی ہلچل پیدا کی۔

روبوٹک لیمپ:ٹیکنالوجی کا نیا شاہکار

روبوٹک لیمپ:ٹیکنالوجی کا نیا شاہکار

دنیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی میں اب ایک اور حیران کن ایجاد شامل ہو گئی ہے۔ پکسر کے مشہور اچھلتے لیمپ سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا ایک دلچسپ روبوٹک ڈیسک لیمپ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے، جو نہ صرف حرکت کرتا ہے بلکہ دیکھنے، سننے اور بات کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ کیلیفورنیا کی کمپنی ''Interaction Labs‘‘ کی جانب سے تیار کردہ ''اونگو‘‘(Ongo) نامی یہ سمارٹ لیمپ گھروں اور دفاتر کیلئے ایک نئے طرز کی ڈیجیٹل رفاقت پیش کرتا ہے۔ پرومو ویڈیو میں یہ روبوٹ اشیاء اور انسانوں کو تجسس بھری نظروں سے دیکھتا، مدد فراہم کرتا اور ماحول سے تعامل کرتا نظر آتا ہے، جبکہ اس کی رازداری کے تحفظ کیلئے سن گلاسز تک مہیا کیے گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے شوقین افراد اس جدت کو روبوٹکس کے مستقبل کی ایک دلکش جھلک قرار دے رہے ہیں۔کمپنی کے شریک بانی اور سی ای او کریم رخا چاہم (Karim Rkha Chaham) نے بتایا کہ یہ ''جذبات کا اظہارِ کرنے والا‘‘ روبوٹ صارفین کو یاد بھی رکھ سکتا ہے اور ان کی ضروریات کا اندازہ بھی لگا لیتا ہے۔ اسے یوں سمجھیں جیسے کسی بلی کو ایک ڈیسک لیمپ کے جسم میں قید کر دیا گیا ہو‘‘۔سماجی پلیٹ فارم ''ایکس‘‘ پر تبصرہ کرنے والوں نے اس ڈیزائن کو ناقابلِ یقین، شاندار، بہت زبردست اور حیرت انگیز ٹیکنالوجی کا نمونہ قرار دیا ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ ''یہ یقینی طور پر وہ چیز ہے جو میں گھر میں رکھ سکتا ہوں، کسی خوفناک انسانی نما روبوٹ کے مقابلے میں‘‘۔ جبکہ ایک اور نے لکھا کہ ''یہ شاید مارکیٹ کا سب سے پیارا روبوٹ ہو سکتا ہے‘‘۔''اونگو‘‘ کی حرکات ایلیک سوکولو نے ڈیزائن کی ہیں، جو پکسر کی فلم ''ٹوائے سٹوری‘‘، ''گارفیلڈ: دی مووی‘‘ اور ''ایون المائٹی‘‘ کے آسکر کیلئے نامزد سکرین رائٹر ہیں۔ پرومو ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ''اونگو‘‘ اپنے بیس پر گھومتا ہے اور اپنی محور کو خودبخود ایڈجسٹ کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے Pixar کا مشہور کردار کرتا تھا۔صارف کی ضرورت کے مطابق ''اونگو‘‘ اپنی آنکھوں سے نکلنے والی روشنی کی شدت کو کم یا زیادہ کرسکتا ہے اور انہیں قریب بھی لا سکتا ہے، مثلاً رات کے وقت کتاب پڑھنے کیلئے۔یہ خوشگوار انداز میں سلام کرتا ہے، مفید مشورے دیتا ہے اور ہدایات بھی دیتا ہے جیسے: ''ارے! اپنی چابیاں بھولنا مت‘‘۔ایک اور دلکش منظر میں دکھایا گیا ہے کہ جب گھر میں پارٹی ہو رہی ہوتی ہے تو ''اونگو‘‘ پاس والے کمرے میں چلنے والی موسیقی کی دھن پر جھومتا ہے۔کمپنی کے مطابق، یہ ڈیسک لیمپ آپ کے ڈیسک اور آپ کے دن کو روشن کرتا ہے اور آپ کے گھر میں ''جادو جیسی مانوس موجودگی‘‘ لے کر آتا ہے۔کمپنی اپنی ویب سائٹ پر کہتی ہے: ''یہ آپ کی جگہ کو حرکت، شخصیت اور جذباتی ذہانت کے ساتھ زندہ بناتا ہے۔یہ اُن باتوں کو یاد رکھتا ہے جو آپ کیلئے اہم ہیں، آپ کے احساسات کو محسوس کرتا ہے اور دن بھر چھوٹی چھوٹی، خیال رکھنے والی حرکات کے ذریعے آپ کا ساتھ دیتا ہے۔ اونگو آپ کے دن کی رفتار کو محسوس کرتا ہے اور ماحول میں آنے والی لطیف تبدیلیوں کو خاموشی سے سمجھتے ہوئے ان کا جواب دیتا ہے۔ سمارٹ مصنوعات کی طرح جن میں کیمرے شامل ہوتے ہیں، اونگو بھی اپنے اردگرد کے ماحول کا ادراک رکھتا ہے، لیکن وہ ویژول ڈیٹا کو اپنی ڈیوائس ہی پر پروسیس کرتا ہے اور کسی بھی قسم کی ویڈیو کلپس کلاؤڈ پر نہیں بھیجتا، تاکہ کمپنی کا کوئی فرد انہیں نہ دیکھ سکے۔ جب صارفین مکمل پرائیویسی چاہتے ہوں اور نہیں چاہتے کہ اونگو ان پر نظر رکھے، تو وہ اس کی آنکھوں پر غیر شفاف چشمے لگا سکتے ہیں، جو مقناطیس کی مدد سے فوری طور پر چپک جاتے ہیں۔ایکس (X) پر کئی صارفین نے کہا کہ انہیں اونگو کی آواز ''پریشان کن‘‘ اور ''چبھن بھری‘‘ لگتی ہے، لیکن چہام (Chaham) کا کہنا ہے کہ اس کی آواز کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت بھی حسبِ ضرورت کسٹمائز کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ پرومو ویڈیو کمپیوٹر جنریٹڈ ہے، لیکن یہ صارفین کو ایک واضح اندازہ دیتی ہے کہ وہ کیا توقع رکھ سکتے ہیں، کیونکہ فی الحال پروٹوٹائپ پر کام جاری ہے، یعنی یہ ابھی مکمل طور پر تیار نہیں۔اونگو کو کمپنی کی ویب سائٹ پر پری آرڈر کیا جا سکتا ہے، جس کیلئے 49 ڈالر یا 38.38 پاؤنڈ کی مکمل طور پر قابلِ واپسی ''پرائیویٹی ایکسس ڈپازٹ‘‘ درکار ہے۔ یہ ڈپازٹ صارف کیلئے پہلے بیچ سے ایک یونٹ محفوظ کر دیتا ہے اور یہ رقم پروڈکٹ کی آخری قیمت میں سے منہا ہوجائے گی،جس کے بارے میں چہام نے بتایا کہ یہ تقریباً 300 ڈالر (225 پاؤنڈ) ہوگی۔ جو صارفین ابھی ادائیگی کریں گے انہیں اونگو کی ترسیل اگلے سال موسمِ گرما میں شروع ہونے پر پہلے فراہم کی جائے گی۔اونگو بلاشبہ پکسر کے اصل لیمپ ''لکسو جونیئر‘‘ (Luxo.Jr) کی طرف ایک واضح اشارہ ہے، جو 1995ء میں ''ٹوائے سٹوری‘‘ سے لے کر اب تک ہر پکسر فلم کے پروڈکشن لوگو میں دکھائی دیتا ہے۔

پلاسٹک کی بوتلوں سے محل تعمیر

پلاسٹک کی بوتلوں سے محل تعمیر

کینیڈین فنکارکا کارنامہ گنیز گیئربک میں شامل کر لیا گیاپلاسٹک آلودگی کے بڑھتے ہوئے بحران کے اس دور میں، دنیا بھر میں جب ماحولیاتی ماہرین سر پکڑے بیٹھے ہیں، ایک شخص نے تخلیقی سوچ اور عزم کے ساتھ وہ کام کر دکھایا جس کا تصور بھی مشکل ہے۔ ''پلاسٹک کنگ‘‘ کے نام سے مشہور اس باہمت فرد نے 40 ہزار استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ضائع ہونے نہیں دیا، بلکہ انہیں جوڑ کر ایک شاندار چار منزلہ محل تعمیر کر ڈالا۔ یہ منفرد منصوبہ نہ صرف ماحول دوستی کی ایک روشن مثال ہے بلکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ تخلیق اور جدت انسان کو ناممکن کو بھی ممکن بنانے کی طاقت عطا کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں کے تناظر میں یہ کارنامہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو ایک پھینکی ہوئی پلاسٹک کی بوتل بھی تعمیر وطن اور خدمت انسانیت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔یہ چند سال پہلے کی بات ہے کہ دنیا کو بے کار کچرے سے پاک کرنے کے خواہش مند ایک کینیڈین شخص نے پاناما کے لوگوں میں حیرت انگیز جوش پیدا کر دیا۔ اس نے ساحلوں اور شاہراہوں پر بکھری ہزاروں پلاسٹک کی بوتلیں اکٹھی کروائیں اور اسی ''کچرے‘‘ کو استعمال کر کے ایک ایسا شاندار محل تعمیر کر ڈالا جو کیریبین سورج کی روشنی میں جگمگاتا ہے۔ یہ کوئی کہانی نہیں ہے بلکہ مونٹریال سے تعلق رکھنے والے رابرٹ بیزو کی حقیقی زندگی کا وہ کارنامہ ہے جس نے انہیں درست طور پر ''پلاسٹک کنگ‘‘ کا لقب دلایا۔ 2012ء میں رابرٹ پاناما کے علاقے بوکاس ڈیل ٹورو کے ایسلا کولون میں رہائش پذیر تھے اور اپنا وقت بوکاس ری سائیکلنگ پروگرام کے ساتھ گزار رہے تھے، جو ملک کے ساحلوں اور بستیوں سے کچرا صاف کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ مگر کینیڈین شہری اس بات پر سخت حیران ہوا کہ صرف ڈیڑھ سال کے دوران انہوں نے دس لاکھ سے زائد پلاسٹک کی بوتلیں جمع کیں جو ری سائیکل ہونے والے کچرے کے بڑے بڑے ڈھیر کی صورت جمع ہو رہی تھیں۔ اس آلودگی کو کم کرنے کیلئے رابرٹ کے ذہن میں ایک بہت ہی غیر معمولی خیال آیا۔ کیا ہو اگر ان بوتلوں کو ری سائیکل کرنے کے بجائے براہ راست استعمال کر کے کوئی بڑا ڈھانچہ بنایا جائے، ایسا جو رہائش بھی فراہم کرے اور انسانی فضلے اور ماحول دوست حل کی ایک علامت بھی بن جائے۔اسی خیال کے بیج سے دنیا کا سب سے بڑا پلاسٹک بوتلوں سے بنا قلعہ وجود میں آیا۔ چار منزلہ، 46 فٹ (14 میٹر) بلند کاسٹیلو اِن اسپیریسیون، جو تقریباً 40 ہزار بوتلوں سے تیار کیا گیا۔رابرٹ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ شروع میں جزیرے کے رہائشیوں اور حکام کو لگا کہ میں پاگل ہوں حتیٰ کہ میری بیوی اور میرا بیٹا بھی یہی سمجھتے تھے۔ پھر انہیں تجسس ہوا اور انہوں نے مجھے یہ دیکھنے کیلئے کام جاری رکھنے دیا کہ آخر میں کیا کرنے والا ہوں۔ جیسے جیسے عمارت بڑھتی گئی، ان کی دلچسپی بھی بڑھتی گئی۔ کچھ ہی عرصے میں عمارت نے واضح شکل اختیار کرنا شروع کر دی۔ کنکریٹ اور اسٹیل کے مضبوط ڈھانچے کے گرد بنائی گئی اس تعمیر میں رابرٹ اور ان کی ٹیم نے پلاسٹک کی بوتلوں کو ''ماحول دوست تعمیراتی مواد‘‘ یا انسولیشن کے طور پر استعمال کیا۔ بوتلوں کی ساخت نے قلعے کو موسمی اثرات سے محفوظ رکھا اور اسے ایک منفرد حسن بخشا جس کی جھلک کسی پلاسٹک گلاس جیسی دکھائی دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ چیلنج یہ تھا کہ ہمارے پاس کوئی منصوبہ نہیں تھا، ہم روزانہ کی بنیاد پر کام میں جدت لاتے تھے۔ یہ ایک دن، ایک منزل کر کے اوپر اٹھتا گیا، یہاں تک کہ ہم چار منزلوں تک پہنچ گئے! مجموعی طور پر قلعے میں چار مہمان کمرے، ضیافت کیلئے ایک بڑا ہال اور چھت پر ایک دیدہ زیب مشاہدہ گاہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ وہاں آنے والے زائرین کیلئے متعدد تعلیمی مواد بھی رکھا گیا ہے، تاکہ لوگ پلاسٹک کے کچرے کے اثرات اور رابرٹ کی اس منفرد تخلیق کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکیں۔اس تمام عمل کے دوران، رابرٹ ری سائیکلنگ کے بجائے اپ سائیکلنگ کی اہمیت کو اجاگر کرتے رہے۔ اپ سائیکلنگ سے مراد یہ ہے کہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ان کی کیمیائی ساخت بدلے بغیر کسی نئے مقصد کیلئے دوبارہ استعمال کیا جائے۔ جبکہ روایتی ری سائیکلنگ کے نتیجے میں عموماً پلاسٹک کے ذرات ماحول کے نظام میں داخل ہو جاتے ہیں، اپ سائیکلنگ کو کچرے کے زیادہ ماحول دوست استعمال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ رابرٹ نے ایک بار کہا تھا: ''ایک شخص کا کچرا، دوسرے انسان کا محل بن سکتا ہے۔ ڈائنوسار ایک شہابِ ثاقب سے ختم ہوئے تھے، اور انسانیت پلاسٹک سے ختم ہوگی‘‘۔ چند سال بعد جب رابرٹ نے یہ محل تعمیر کیا، انہیں '' انرجی گلوب ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا، جو ان کے پائیدار منصوبوں کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایوارڈ انہیں ''ناقابل یقین احساس‘‘ دلانے والا تھا۔مگر اس اعزاز کے باوجود، وہ یہاں رکنے والے نہیں تھے۔ 2021ء میں، انہوں نے اپنے منصوبے کو وسعت دیتے ہوئے پورا پلاسٹک بوتلوں کا گاؤں تعمیر کیا، جس میں کئی دیگر عمارتیں بھی شامل ہیں۔ ان گھروں میں بوتلیں انسولیشن کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں اور ان کے باہر کنکریٹ کی تہہ دی گئی ہے۔

پومپیئی:ایک قدیم شہر جو لمحوں میں تاریخ بن گیا

پومپیئی:ایک قدیم شہر جو لمحوں میں تاریخ بن گیا

دنیا کی قدیم تہذیبوں میں اگر کوئی شہر عبرت، حیرت اور تاریخ کے سنگم کے طور پر یاد کیا جاتا ہے تو وہ پومپیئی ہے۔ اٹلی کے جنوب میں واقع یہ رومن شہر 79ء میں آتش فشاں ماؤنٹ ویسوویس کے اچانک پھٹنے سے لمحوں میں مٹ گیا۔ مگر اس شہر کی حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مٹی نہیں بلکہ راکھ میں محفوظ ہوگیا۔ ایسے جیسے وقت رک گیا ہو اور زندگی ایک ٹھہرے ہوئے منظر کی صورت ہمیشہ کیلئے نقش ہو گئی ہو۔تاریخی پس منظرپومپیئی بحیرہ روم کے کنارے واقع ایک خوشحال رومن شہر تھا جس کی بنیاد غالباً چھٹی یا ساتویں صدی قبل مسیح میں رکھی گئی۔ یہ شہر ایک اہم تجارتی مرکز تھا جہاں رومی طرزِ زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری تھی۔ پتھروں کی پختہ گلیاں، شاندار گھروں کے صحن، حمام، تھیٹر، بازار اور شراب خانے سب پومپیئی کی بھرپور تہذیب اور سماجی زندگی کی عکاسی کرتے تھے۔24 اگست 79ء کی صبح اچانک ماؤنٹ ویسوویس نے زبردست دھماکے کے ساتھ آگ اگلی۔ آسمان سیاہ ہو گیا، زہریلی گیسوں اور راکھ نے فضا بھر دی۔ چند ہی گھنٹوں میں گرم لاوے کا سیلاب، راکھ اور پتھروں کی بارش اور زہریلی گیسوں کے بادل نے پورے شہر کو ڈھانپ لیا۔ پومپیئی کے تقریباً 20 ہزار باشندوں میں سے بہت سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے، مگر ہزاروں لوگ وہیں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ شہر 6 سے 7 میٹر موٹی آتش فشانی راکھ کے نیچے دفن ہوگیا۔پومپیئی 17 صدیوں تک زمین کے نیچے چھپا رہا۔ 1748ء میں جب کھدائی شروع ہوئی تو آثارِ قدیمہ کے ماہرین ششدر رہ گئے کیونکہ شہر کے گھر، فرنیچر، برتن، دیواروں پر بنے رنگین نقش و نگار، فریسکوز، حتیٰ کہ انسانوں اور جانوروں کے آخری لمحات تک حیرت انگیز طور پر محفوظ تھے۔راکھ میں دبے جسم وقت کے ساتھ گل گئے، مگر ان کے خالی خول برقرار رہے۔ ماہرین نے ان میں پلاسٹر بھر کر انسانوں کے آخری لمحات کو شکل دے دی۔کوئی بھاگ رہا تھا،کوئی اپنے بچے کو تھامے ہوئے تھا اور کوئی گھٹنوں کے بل جھکا امداد کا منتظر تھا۔ یہ مناظر آج بھی دیکھنے والوں کے دل دہلا دیتے ہیں۔پومپیئی کی گلیاں، پتھریلے فٹ پاتھ، دوکانوں کے کاؤنٹر، شہریوں کے گھر اور شاہی ولا آج بھی اسی طرح موجود ہیں جیسے 79ء کی صبح تھے۔رنگین دیواری تصویریں رومی آرٹ کی بہترین مثال ہیں جن میں اساطیری مناظر، رقص، کھانے پینے کی محفلیں اور روزمرہ زندگی کی جھلکیاں شامل ہیں۔رومی تہذیب کا آئینہپومپیئی آج روم کی قدیم تہذیب کا سب سے بڑا کھلا میوزیم ہے۔ یہاں سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ لوگ کیسے رہتے تھے، کیا کھاتے تھے، تفریح کیسے کرتے تھے، تجارت کیسے ہوتی تھی اور مذہبی رسومات کیا تھیں۔ گھروں میں ملنے والے فرنیچر کے نشانات، بیکریوں کے تنور، حمام کے کمرے، اسٹیڈیم، تھیٹر اور مندر سب کچھ اس قدیم شہر کے سماجی ڈھانچے کو زندہ کر دیتے ہیں۔آج کا پومپیئیآج پومپیئی دنیا کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے آثارِ قدیمہ مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ یہ مقام نہ صرف سیاحوں کیلئے پرکشش ہے بلکہ ماہرین آثارِ قدیمہ کیلئے بھی ایک زریں خزانہ ہے جہاں نئی دریافتیں آج بھی جاری ہیں۔ جدید تحقیق آتش فشانی تباہی، قدیم فنون اور رومی طرزِ زندگی کے بارے میں نئی روشنی ڈال رہی ہے۔اطالوی حکومت اور یونیسکو مل کر اس تاریخی مقام کے تحفظ کیلئے بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں تاکہ یہ ورثہ آئندہ نسلوں تک محفوظ رہے۔پومپیئی صرف ایک تباہ شدہ شہر نہیں، بلکہ وقت کے رُک جانے کی داستان ہے۔ یہ ہمیں انسان کی طاقت، کمزوری، فخر، خوشیوں، غموں اور قدرت کی بے رحم قوتوں کے بارے میں سبق دیتا ہے۔ یہاں کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ تہذیبیں کیسے بستی ہیں اور لمحوں میں کیسے مٹ سکتی ہیں لیکن ان کے نقوش صدیوں بعد بھی انسان کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔