جذبہء ایثار
اسپیشل فیچر
یہ عربی لفظ ہے اس کے معنی دوسروں کی خاطر اپنے آپ کو تکالیف میں ڈالنے کے ہیں۔جس کی بناء پر دوسروںکو فوائد حاصل ہوںیا دوسرے کے مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دینا یا دوسرے کو نفع پہنچانا ،اپنے مال کا کچھ حصہ یا پورا کسی کو دے دینا ۔عموماًلوگ ایثار کے بجائے لفظ قربانی استعمال کرتے ہیں۔ یہ سخاوت کے اعلیٰ ترین مرتبے پر آتا ہے ۔ یہ لفظ اسلام میں استعمال ہوتا ہے جس کی تاریخ اسلام شاہد ہے ۔قرآن حکیم میں اس کا ذکر اس طرح ہے ،’’اور (ان کے لیے )جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنائی ہے اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوںسے مُحبت کرتے ہیںاور مہاجرین کو جو کچھ دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گوخود کوکتنی ہی سخت حاجت ہو (بات یہ ہے )کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کام یاب (اور بامراد ) ہے ۔‘‘(سورۃ الحشر)اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق جو لوگ مکّے سے مدینہ ہجرت کر گئے تھے وہ تمام اہل ایمان تھے جب کہ اہل مدینہ کی اکثریت ہجرت کے بعد اسلام لائی تھی۔ جنہیں انصار کہا گیا ہے اور ہجرت کرنے والوں کو مہاجر۔اس آیت سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ مہاجرین کو اللہ کا رسولؐ جو بھی دے دے ۔اس پر انصار حسد اور بغض قطعی نہیں کرتے ،جیسا کہ مال فیٔ کا اصل مستحق بھی مہاجرین کو قرار دیا تھا جس کا انصار نے برا نہیں منایا تھاکیوں کہ انہوں نے اپنے مقابلے میں مہاجرین کو زیادہ ضرورت مند پایا تھا ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ وہ خود بھوکے رہے اور مہاجروں کو شکم سیر کرتے رہے۔ایثار کا ایک مشہور واقعہ حدیث مبارکہ میںاس طرح آیا ہے حضرت ابوہریر ہؓ حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کے پاس آئے اور کہا،’’ یا رسول اللہؐ! میں بہت بھوکا ہوں (کچھ کھلائیے) آپؐ نے اپنی ازواج کے پاس سے کچھ کھانے کے لیے منگوایا لیکن کسی کے پاس کچھ نہ نکلا ۔آخر آپ ؐ نے لوگوں سے (جو موجود تھے) فرمایا ،’’کوئی ایسا ہے جو اس رات اس کی مہمان نوازی کرلے (اس کو کچھ کھلائے ) اللہ اس پر رحم کرے ۔‘‘یہ سن کر ایک انصاری ابو طلحہؓ نے کہا،’’ یا رسول اللہؐ! میں ان کی مہمان داری کروں گا۔‘‘ وہ انہیں لے کر اپنے گھر گئے اور اپنی اہلیہ سے کہا کہ،’’ یہ رسول اللہؐ کے بھیجے ہوئے مہمان ہیں کوئی چیز ان سے اٹھا کر مت رکھو جو کچھ بھی ہو کھلا دیں۔‘‘ وہ بولیں،’’ اللہ کی قسم ،میرے پاس اتنا کم کھانا ہے جو بچوں کو بھی پورا نہ ہو سکے گا۔‘‘ ابو طلحہ ؓنے کہا ،’’تو ایسا کیجیے کہ جب بچے کھانا مانگنے لگیں تو انہیں سلا دینا اورچراغ بجھا دینا ہم دونوں بھی آج رات کھانا نہیں کھائیں گے۔‘‘ چناں چہ اُمّ سلیمؓ نے ایسا ہی کیا۔ صبح حضرت ابو طلحہؓ رسول اللہ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے توآپ ؐ نے فرمایا ،’’رات کو اللہ تعالیٰ نے تعجب کیا فلاں مرداور فلاںعورت (ابو طلحہؓ اور اُمّ سلیمؓ ) پر اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (یعنی آیۂ مبارکہ کی شان نزول یہ ہے )(صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ الحشر آیت۹)ایثار پر ایک اور حیرت انگیز واقعہ بخاری شریف میں رقم ہے جو ابراہیم بن اسعد سے روایت ہے جو انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ جب مہاجرین مدینہ میں آئے تو رسول اللہؐ نے مہاجرین اور انصار میںبھائی چارہ قائم کیا، ایک انصار کو دوسرے مہاجر کا بھائی بنایا۔ سعد بن ربیع انصاریؓ کو حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ کا بھائی بنایا۔ حضرت سعد ؓ نے حضرت عبدالرحمان ؓ سے کہا کہ،’’ میں انصار میں سب سے زیاد ہ مال دار ہوں ،میں ایک بھائی ہونے کے ناتے اپنا آدھا مال تمہیں پیش کرتا ہوں اس کے علاوہ میری دوبیویاں ہیں تم انہیں دیکھ لو اور جو تمہیں اچھی لگے میں اسے طلاق دے دوں گا اور بعداز عدت تم اس سے نکاح کرلینا ۔‘‘ عبدالرحمان بن عوف ؓنے جو اب میں کہا کہ ،’’اللہ تمہارے مال اور اہل میں برکت عطا فرمائے ۔ مجھے تو کوئی بازار بتادو کہ میں وہاں جاکر تجارت کر سکوں چناں چہ انہیں بنو قینقاع کابازار بتا دیا۔صوفیاء کے نزدیک ایثار یہ ہے کہ صحبت اور رفاقت میں اپنے ساتھی اور دوست کے حق کا خیال رکھے۔ حضرت داتاگنج بخشؒ اپنی تصنیف ’’کشف المحجوب ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایثار دوسروں کی مدد کرنا اور ساتھ ہی اس امر میں مشغول ہونا ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ؐ کو حکم فرمایا ہے چناں چہ ارشاد مبارک ہے ’’درگزراختیار کیجیے اور نیکی کا حکم دیجیے اور جاہلوں سے اعراض فرمائیے۔ ‘‘ایثار دوقسم کا ہوتا ہے ایک تو صحبت میں اور دوسرے محبت میں ۔حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ؐ کو فرماتے سنا ہے کہ،’’ جو شخص کسی چیز کی خواہش کرے جب اسے مل جائے تو ترک کر دے اور دوسرے شخص کو اپنے آپ پر ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے۔‘‘ایثارصرف اللہ کی راہ میں کیا جاتا ہے خواہ وہ دوست کے لیے ہی کیوں نہ ہو ، عام مخلوق کے لیے یا پھر فی سبیل اللہ ۔ ایثار جان، مال،اولا ،علم،نفس اور جذبات وغیرہ سے بھی کیا جاتا ہے ۔ایک مرتبہ ایک خاتون نے رسول اللہ ؐ کی خدمت میں ایک چادر پیش کی آپؐ کو اس کی ضرورت بھی تھی۔ایک صاحب حاضر خدمت ہوئے انہوں نے کہا ،’’ اچھی چادر ہے ۔‘‘آپ ؐ نے چادراتار کر انہیں دے دی، جب وہ اٹھ کر چلے گئے تو صحابہ نے انہیں ملامت کی کہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہؐ کو اس کی ضرورت تھی ،پھربھی تم نے لے لی اور یہ بھی جانتے ہو کہ آپ کسی کا سوال رد نہیں کرتے انہوں نے کہا ،’’ہاں ،میں نے یہ چادر برکت کے لیے لی ہے میں اس کا کفن بناؤں گا۔‘‘حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ایثار کی سب سے بڑی مثال پیش کی ہے ،انہوں نے صحبت سرکارؐ کے لیے گھر بار، اولاد، مال و دولت سب کچھ چھوڑ دیا اور جب کبھی بھی داعیؐ اسلام کو ضرورت پیش آئی سب کچھ رسول اللہؐ کے قدموں میں لاکر ڈال دیا۔حضرت عمر فاروق ؓ ایک مجوسی غلام ابو لولو فیروز کے ہاتھوں مسجدِ نبوی کی محراب میں زخمی ہوئے ،اپنی وفات سے قبل اپنے بیٹے عبداللہ کو اُمّ المُومنین حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں بھیجا کہ انہیں حضور اکرم ؐ کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت دے دی جائے۔ انہوں نے جواب میں عرض کیا کہ،’’ یہ جگہ میں نے اپنے لیے رکھی تھی مگر عمر ؓ کی خدماتِ اسلام میں مُجھ سے زیادہ ہیں اس لیے میں یہ جگہ ان کے لیے ایثار کرتی ہوں۔‘‘ اس طرح حضرت عمر ؓ نے وفات کے بعد بھی آپؐ کے پہلو میں جگہ پائی جبکہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ جنت البقیع میں دیگر ازواج کے ہمراہ آرام فرماہیں ۔ حضرت ابو جہم بن حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ یرموک کی لڑائی میں اپنے چچازاد بھائی کی تلاش میں نکلا کہ وہ لڑائی میں شریک تھے میں نے ایک پانی کا مشکیزہ ساتھ لیا کہ ممکن ہے وہ پیاسے ہوں تو پانی پلاؤں۔اتفاق سے وہ ایک جگہ اس حالت میں پڑے تھے کہ دم توڑ رہے تھے ۔ میں نے پوچھا ’’پانی دوں‘‘ اتنے میں دوسرے صحابی نے (جو قریب ہی زخمی پڑے تھے ) جاں کنی کے عالم میں آہ بھری۔میرے چچا زاد بھائی نے آہ سن کر ان کی جانب اشارہ کیا کہ،’’ پہلے انہیں پلاؤ۔‘‘ میں ان کی جانب بڑھا تو وہ ہشام بن ابی العاص تھے ۔ابھی میں پہنچا ہی تھا تو ان کے قریب ہی تیسرے صحابی جو قریب المرگ تھے انہوں نے بھی،’’ آہ ‘‘کی۔ہشام نے مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کیا ۔میں ان کے پاس پانی لے کر پہنچا تو وہ شہادت پا چکے تھے۔ پھر میں ہشام کے پاس آیا تو وہ بھی جاں بحق ہو چکے تھے۔ میں واپس اپنے بھائی کے پاس پہنچا تو اس دوران وہ بھی شہادت پا چکے تھے۔اس طرح وہ پانی جوں کا توں موجود رہا جو ایثار کی ایک اعلیٰ مثال ہے ۔آج مسلمانوں کے اجسام سے ایثار کی روح نکل چکی ہے۔ حتیٰ کے اس لفظ سے بھی اکثریت ناشناس ہے ،اس کی وجہ سے آج قتل و غارت گری عام ہے۔ کاش ہم پھر اسلام کے درس کااعادہ کر سکیں تاکہ ہمارے قلوب ایک بار پھرسے رجوع الی اللہ ہو جائیں اور ہم دہشت گردی اور قتل وغارت سے نجات حاصل کر لیں۔