طفیل ہوشیار پوری
اسپیشل فیچر
مجھے کبوتر بہت اچھے لگتے ہیں۔ خاص طور پر جنگلی کبوتر‘ کہ وہ کسی روشندان میں بیٹھا ہو تو ایسے لگتا ہے جیسے کوئی صوفی دھیان گیان میں گم ہے۔ یہ بڑا معصوم پرندہ ہے۔ اگرچہ ناصر کاظمی اس شعبے کے عالم بھی تھے اور عامل بھی مگر کبوتر کے حوالے سے گانا طفیل ہوشیار پوری کا مشہور ہوا:واسطہ ای رب دا توں جاویں وے کبوتراچٹھی مرے ڈھول نوں پچاویں وے کبوتراکیسا زمانہ تھا کہ پیغام رسانی کے لیے کبوتر سے کام لیا جاتا تھا اور ’ڈھول‘ کو چٹھی بھجوائی جاتی تھی۔ کہتے ہیں اس وقت بھی مس کال (Miss Call) ہوا کرتی تھی یعنی کبوتر کے ہاتھ خالی کاغذ بھیج دیا جاتا تھا۔ اصل میں کبوتر پر میں مزید نہیںلکھنا چاہتا کہ یہ تو بہانہ ہے طفیل ہوشیار پوری کو یاد کرنے کا کہ وہ جنوری 1993ء کو ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ ان کا دور ادب کا زرّیں دور تھا۔ ان کے ساتھ کئی مشاعرے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ وہ انتہائی انکساری‘ رواداری اور وضع داری کی مثال تھے۔ ہم بہت جونیئر تھے مگر وہ ہمیں اتنا احترام دیتے کہ مثال میں صرف عارف عبدالمتین کا نام پیش کیا جا سکتا ہے۔ آج بھی میرے کانوں سے ان کی دل سوز آواز ٹکراتی ہے کہ جب وہ ترنم سے غزل سرا ہوتے تو مجمع دم بخود رہ جاتا۔ ہر شعر پر انہیں خواب داد ملتی۔ پچیس تیس سال بعد بھی مجھے ان کی غزل کے شعر از بر ہیں:وہ مقابل جو آئنے کے ہواروشنی روشنی سے ٹکرائیخشک آنکھوں سے عمر بھر روئےہو نہ جائے کسی کی رسوائیجب کبھی تجھ کو بھولنا چاہاانتقاماً تمہاری یاد آئیطفیل ہوشیار پوری کا شمار ان تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جو سر تا پا پاکستانی روایات و اقدار کا مجسمہ تھے۔ شرافت کے پیکر اور محبِ وطن۔ ان میں بہت شائستگی تھی۔ نوجوانوں کو وہ بہت سراہتے اور نئے لکھنے والوں کو اپنے رسالے ’محفل‘ میں جگہ دیتے۔ ان کے اَن گنت شاگرد تھے۔ میں ان کے دفتر ان سے ملنے گیا تو انہوں نے ’محفل‘ کے کچھ پرانے نمبر بھی مجھے دئیے۔ یونیورسٹی آف پنجاب میں ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی حمد و نعت کا ایک مشاعرہ ہر برس کرواتے تھے۔ طفیل صاحب بھی ان شعراء میں شامل تھے جنہیں لانا میری ذمہ داری تھی۔ کیفے ٹیریا میں پرتکلف کھانا ہوتا۔ طفیل صاحب اپنی چھڑی ٹکاتے ہوئے ہال میں داخل ہوتے۔ وہ خوش خوراک بھی تھے۔ خاص طورپر عطاء الحق قاسمی اور امجد اسلام امجد اس حوالے سے ان کے ساتھ چھیڑ خوانی کر لیا کرتے تو وہ ان پر چھڑی اٹھا لیتے۔ بڑے مزے کے دن تھے۔ ان کی شاعری میں موسیقیت اور تغزل بدرجہ اتم موجود تھا او پرسے ان کی خوش الحانی غزل کو چار چاند لگا دیتی۔ ان کے کئی اشعار زبان زد خاص و عام ہوئے۔ مثلاً یہ شعر تو لاجواب ہے:شمع نے لے لیا آغوش میں پروانے کوجب یہ دیکھا مرے معیار تک آ پہنچا ہےاس دور میں فلم کے لیے لکھنا شاید رواج تھا۔ منیر نیازی‘ مظفر وارثی‘ قتیل شفائی‘ ساحر لدھیانوی اور سیف الدین سیف کی طرح طفیل ہوشیار پوری نے بھی فلم کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو شاعری میں بھی زندہ رکھا کہ ان کے گیتوں میں بھی شعریت نظر آتی ہے۔ انہوں نے مشہور نغمے بھی لکھے مثلاًاللہ کی رحمت کا سایاتوحید کا پرچم لہرایااے مردِ مجاہد جاگ ذرااب وقتِ شہادت ہے آیااب ویسے لوگ کہاں! ان کی توانائی پر حیرت ہوئی تھی۔ گیت لکھ رہے ہیں‘ غزل کہہ رہے ہیں‘ شہر کی تقاریب اور مشاعروں میں ہر صورت میں موجود ہوتے اور ساتھ ہی ساتھ ماہنامہ ’محفل‘ بھی نکال رہے ہیں۔ وہ حقیقتاً راست اور مثبت دھڑے کے نمائندہ تھے اور انہوں نے اپنے اصولوں پر پوری زندگی بتا دی۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔ آمین