مرزا غالب کے مسائل اور موبائل
اسپیشل فیچر
کہتے ہیں ایک کام یاب مرد کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور کام یاب شاعری کے پیچھے کسی ناکامی کا۔ عموماً یہ ناکامی محبت میں ہوتی ہے جو اسے ایک اچھا شاعر بناتی ہے۔ اب اگر کوئی اچھا شاعر یا شاعرہ نہ بن سکے تو اسے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے بل کہ کسی ناکامی (محبت میں) کا انتظار کرنا چاہیے۔شاعر حضرات عموماً فکرمند، پریشان اور بہت سارے مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ غمِ جہاں، غمِ جاناں اور غمِ روزگار سب ہی سے نبرد آزما رہتے ہیں۔ بہت حسّاس ہوتے ہیں لیکن شاعرات اس سے مستثنیٰ ہیں۔ہمارے بہت ہی عظیم شاعر مرزا غالب بھی ساری عمر غم، پریشانی اور مسائل جھیلتے رہے اور ان میں اتنا الجھے کہ رب سے ہی شکوہ کر بیٹھے…میری قسمت میں غم گر اتنا تھادل بھی یارب کئی دیے ہوتےمرزا غالب کو کئی دلوں کی ضرورت ہرگز نہ ہوتی اگر وہ آج کے زمانے میں پیدا ہوئے ہوتے یا ان کے زمانے میں موبائیل فون ایجاد ہوچکا ہوتا۔ سارے غم‘ آزار‘ مسائل اور پریشانیاں اس سے دور ہو سکتی تھیں۔سب سے بڑا مسئلہ جو مرزا کو درپیش تھا وہ تھا ’’صبح کرنا شام کا‘‘ یعنی شام سے صبح تک کا وقت بڑی مشکل سے جاگ جاگ کر گزارا کرتے تھے۔ بہت فراغت اور فرصت تھی۔ نیند بھی رات بھر نہیں آتی تھی۔ اچھے حکیم یا تو اس وقت تھے نہیں یا مرزا حکماء کے پاس جانے سے اس لیے گریز کرتے تھے کہ انہیں یقین تھا کہ ان کے دُکھ کی دوا کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ تبھی تو وہ کہتے تھے… بلکہ یہ ان کا چیلنج تھا…ابنِ مریم ہوا کرے کوئیمیرے دکھ کی دوا کرے کوئیشاید اس وقت خواب آور گولیاں بھی ایجاد نہیں ہوئی تھیں کہ مرزا کو اس کے استعمال سے آرام آجاتا۔ ان پریشانیوں میں مرزا ایسے ایسے شعر کہہ گئے جس کو پڑھ کر آج کل کے عدیم الفرصت لوگ رشک و حسد کے جذبات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان کے دیوان کی پہلی غزل کا ایک شعر یوں ہے…کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھصبح کرنا شام کا‘ لانا ہے جوئے شیر کااس طرح کے مسئلے سے تعلق رکھنے والے بہت سارے اشعار ہیں لیکن میں یہاں صرف ایک شعر پر ہی اکتفا کر رہی ہوں…موت کا ایک دن معیّن ہےنیند کیوں رات بھر نہیں آتیمرزا غالب کی نیند کا مسئلہ سو فیصد حل ہو جاتا اگر ان کے پاس موبائل فون ہوتا۔تنہائی کا علاج بھی ہو جاتا اور رات بھی آنکھوں میں نہیں بلکہ چٹکیوں میں کٹ جاتی۔ موبائل میں بچّوں اور بڑوں کے لیے سارے کھیل موجود ہیں۔ کھیل کھیل میں شام کو صبح کرنا آسان ہو جاتا۔مرزا کا دوسرا مسئلہ محبوب سے ملاقات کا تھا۔ مدّتوں اس کی دید سے محروم رہتے نہ دیدار ہوتا نہ بات چیت۔ بستر پر لیٹے رہتے اور یہ مصرعہ گنگناتے رہتے…’’مدّت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے‘‘محبوب سے جدائی کے باعث مرزا بیمار رہنے لگے تھے اور یہ بیماریِ دل ان کا کام تمام کرنے پر تُلی ہوئی تھی۔ طبیبوں نے اس کاعلاج شربتِ دیدار تجویز کیا تھا۔ جوکہ نایاب تھا۔ لیکن اگر کبھی مل جاتا یعنی محبوب کی دید ہوجاتی تو ان کے منہ پر رونق آجاتی اور ایسے موقع پر مرزا چہکتے ہوئے یہ شعر کہتے ۔ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونقوہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہےلیکن یہ رونق وقتی ہوتی۔ حقیقتاً وہ بیمار ہی ہوتے۔ مرزا کے یہ نازک مسئلے بھی حل ہو جاتے اگر ان کے پاس موبائل ہوتا۔ وہ جب چاہتے موبائل میں محبوب کو ہنستا بولتا، چلتا پھرتا دیکھ لیتے اور جب چاہتے باتیں کرکے دل بہلاتے۔ اپنا حالِ دل سناتے، کیسا بخار، کیسی بیماری چہرے پر رونق ہی رونق ہوتی۔یہ تھوڑی کے بس کبھی کبھی دیکھ لیا‘ چہرے پر تھوڑی سی رونق آ گئی اور پھر وہی حال پتلا۔ اگلی دفعہ دیکھنے کے لیے طویل انتظار اور اسی حسرت میں بستر سے لگ گئے۔ لگتا ہے مرزا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا جبھی تو وہ کہتے ہیں…کہتے تو ہو تم سب کے بُتِ غالیہ مو آئےاک مرتبہ گھبرا کے کہو کوئی کہ ’’وہ آئے‘‘ہوں کشمکشِ نزع میں‘ ہاں‘ جذبِ محبتکچھ کہہ نہ سکوں‘ پر وہ مرے پوچھنے کو آئےشکر ہے کہ مرزا کے محبوب ان کو پوچھنے کے لیے آ گئے۔ ہاں اگر ان کے وقتوں میں موبائل ہوتا تو کیا بات تھی۔ محبوب سے فوری رابطہ، فاصلے کچھ نہیں۔پہلے زمانے میں پیغام رسانی کے لیے قاصد ہوا کرتے تھے۔ مرزا بھی قاصد کے ذریعہ محبوب کو پیغام بھیجا کرتے تھے۔ لیکن اس میں دو قسم کے خطرات تھے۔ ایک خطرہ تو قاصد کی جان کو لاحق ہوتا تھا کیوں کہ کسی کسی شاعر کے محبوب اس قدر خوں خوار ہوا کرتے تھے کہ خط کے جواب میں قاصد کی لاش بھیج دیا کرتے تھے۔ مرزا اس بات سے خوف زدہ تو ضرور تھے لیکن وہ اپنے محبوب کو بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قاصد کی واپسی تک ایک اور خط تیار ہو جاتا تھا۔قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوںمیں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میںدوسرا خطرہ جو مرزا غالب کو قاصد یعنی نامہ بر کی طرف سے تھا وہ بہت سنگین تھا۔ مستقل تشویش۔ ایک تلوار سی لٹکتی رہتی تھی۔ لیکن ہوا وہی جس کا دھڑکا تھا۔ یعنی رقیبوں میں اضافہ ہوگیا۔ جس کی وجہ صاف ظاہر تھی۔ آخر کو صبر کرتے ہوئے دل کو راضی کر لیا…دیا ہے دل اگر اس کو، بشر ہے، کیا کہیےہوا رقیب تو ہو، نامہ بر ہے، کیا کہیےاگر اس زمانے میں موبائل ہوتا تو مرزا ایسے خطرات سے دوچار نہ رہتے۔ ایس ایم ایس کے ذریعے پیغام رسانی کا مسئلہ حل ہو جاتا۔ اگر نائٹ پیکج کروا لیتے تو کھٹاکھٹ پیغام آتے جاتے۔ نہ قاصدوں کی جان کو خطرہ، نہ رقیب بننے کی فکر…مرزا کو غمِ جاناں کے علاوہ غمِ روزگار بھی پریشان کیے رکھتا تھا۔ اکثر گھر میں تنگ دستی کا ڈیرا ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے سارے نوکر چاکر ان کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ بس ایک ہی خادمہ رہ گئی تھی جو اندر باہر کے سارے کام کیا کرتی تھی، گھر چلا رہی تھی اس کا نام شمع تھا۔ بہت خاموش رہا کرتی تھی۔ اس کی خاموشی کو دیکھتے ہوئے مرزا نے یہ مصرعہ کہا تھا…’’اِک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے‘‘اگر اس زمانے میں موبائل ہوتا تو اس کی خموشی ختم ہو جاتی۔ وہ دن رات سہیلیوں سے گفتگو کرتی، ہنستی، بولتی، مسکراتی، کبھی اچانک بیٹھے بیٹھے قہقہے لگاتی، خوب رونق ہوتی۔ چینلز بدل بدل کر گانے سنتی، کالیں کرتی اور خوش رہتی۔ایک دفعہ مرزا غالب کی بیگم ان سے ناراض ہو گئیں۔ ان کو مرزا سے تغافل کا گلہ تھا۔ کئی دنوں سے گھڑی کا الارم ٹھیک کروانے کا تقاضا کر رہی تھیں۔ لیکن مرزا کی لاپروائی اور سستی آڑے تھی۔ ویسے تو بیوی کی ناراضگی کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھی لیکن آج الارم نہ بجنے کی وجہ سے ان کی فجر کی نماز قضا ہوگئی تھی۔ اس لیے نہ وہ صرف ناراض تھیں بلکہ اداس بھی تھیں۔ مرزا بہت شرمندہ ہو رہے تھے تأسّف سے ہاتھ ملتے ہوئے بڑبڑانے لگے…کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالبؔشرم تم کو مگر نہیں آتیکچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شعر اسی موقع پر ان کی بیگم نے کہا تھا، حالاں کہ ان کی بیگم ایسی ہرگز نہیں تھیں اور نہ ہی ان کا اندازِ گفتگو ایسا تھا۔ حقیقتاً یہ شعر غالب کا ہی ہے۔ ہاں اگر اس وقت موبائل ہوتا تو بیگم اس میں الارم لگانا ہرگز نہیں بھولتیں۔ نہ مسئلہ نہ ناراضگی…فارغ اوقات میں مرزا غالب اکثر باغ کی سیر کو چلے جاتے تھے اور سایۂ گل میں بیٹھ کر بلبل کے کاروبار پر غور وفکر کرتے تھے۔ سوچتے سوچتے آخر انہوں نے کہہ ہی ڈالا…بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گللیکن اگر ان کے پاس موبائل ہوتا تو وہ موبائل کانوں سے لگائے اپنے کاروبار پہ گفتگو کرتے ہوتے۔۔انہیں وصالِ یار کی فکر نہ ہوتی بلکہ ان کا اپنا کاروبار ہوتا، خوش حالی ہوتی، تنگ دستی اور مالی پریشانیوں سے نجات مل جاتی۔ لیکن پھر غالب نہ عظیم شاعر ہوتے نہ دیوانِ غالب ہوتا… خدانخواستہ پھر کیا ہوتا… اردو ادب ایک بیش بہا، گراں قدر سرمائے سے محروم رہ جاتا۔