نوجوان میں گٹکے کا بڑھتا ہوارجحان

نوجوان میں گٹکے کا بڑھتا ہوارجحان

اسپیشل فیچر

تحریر : وجاہت رضوی


انسان دورِ نوجوانی میں اپنی صحت سے لاپروائی کرتاہے جب کہ اسی دور میں اس پر ماحول اور اس سے زیادہ دوستوں کی صحبت اثر انداز ہوتی ہے۔ انسان جوانی کے دَور میں اچھی بری عادتوں میں جلد مبتلا ہوجاتا ہے۔بری صحبت کی وجہ سے اس کی طبیعت تمباکو نوشی یا دوسرے نشوں کی طرف مائل ہونے لگتی ہے ۔کراچی کے نوجوانوںمیں گٹکے کی وبا عام ہے۔ گٹکے کی تیاری کا طریقہ انتہائی غلیظ اورمہلک ہے ۔ اس کی تیاری میں تیسرے درجے کا چونا، کتھا،تمباکو کا کچرا،بیٹری کا پانی،جانوروں کا خون، پسا ہوا شیشہ،ربڑ کے باریک ٹکڑے ، تھِنر اور پھپھوند لگی چھالیہ استعمال کی جاتی ہے ۔ ان سب چیزوں کا نام سن کر ہی طبیعت خراب ہونے لگتی ہے۔ اس جان لیوا گٹکا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سرپرستی میں خوب ترقی کررہا ہے۔ اسے اب کئی طریقوں سے بنایا جاتا ہے جب کہ اس کے مختلف نام بھی رکھ لیے گئے ہیں مثلاً مین پوری، ماوا وغیرہ۔ افسو س ناک بات یہ ہے کہ ان کے رپیر پرتحریر ہوتا ہے’’ حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق۔‘‘ اگر نوجوان اس کے مضر اثرات کا جائزہ لینا چاہیں تو رات ان میں سے کسی بھی شے کو تھوڑے سے پانی میں ڈال کر اس میں ایک بلیڈ رکھ دیں ۔ صبح آپ کو حیرانی ہوگی کہ بلیڈ گل چکا ہے مگر ہمارا نوجوان اس کے باجوود یہ زہر اپنی رگوں میں انڈیل رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے یہاں منہ کے کینسر سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نوجوان طبقہ اس تیزی سے اس لت کی طرف کیوں راغب ہے ۔ کیا نوجوان اسے صرف مزے کے لیے استعمال کررہے ہیں یا معاشرے کی ناہمواریوں نے انہیں اس جانب راغب کیا ہے؟ اس حوالے سے چندنوجوانوں سے بات کی گئی آپ بھی ان کا نقطۂ نظر ملاحظہ کیجیے۔احسن علی( طالب علم جامعہ کراچی): آج کل جو حالات چل رہے ہیں انسان اس میں اتنا پریشان ہے ۔جس چیز سے اسے سکون ملے اسی کے نزدیک ہوجاتا ہے۔نوجوانوں کو گٹکا کھانے کی عادت کی وجہ سے ان کی صحت تو خراب ہوتی ہی ہے مگر ان کا چہرہ بھی بہت برالگتا ہے۔ سرکاری جامعات میں یہ خطرناک چیز پابندی کے باوجود دستیاب ہے دیکھا گیا ہے کہ غریب طبقہ نشے کی اس عادت میں زیادہ مبتلا ہورہا ہے۔سلمان اعظمی(طالب علم) :ہمارے یہاں ہر نوجوان کسی نہ کسی بری عادت میں مبتلا ہے جس سے وہ آسانی سے جان نہیں چھڑا سکتا کسی چیز یا عمل کو عادت بنانا انسان کے اختیا رمیں ہوتا ہے لیکن اسے ترک کرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا ۔ میری کلاس میں کافی لڑکے گٹکا کھاتے ہیں، جو اپنی ذمے داریوں سے بھاگتے ہیں۔ وہ جواز دیتے ہیں کہ ہم تو اتنے سال سے کھارہے ہیں اب تک تو کچھ نہیں ہوا ، اس کے بغیر دماغ نہیں چلتا ۔ گٹکا کھانے والے عموماً ضدی ہوتے ہیں ۔ یہ خطرناک شے بیماریوں میں مسلسل اضافے کا سبب بن رہی ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ جلد ازجلداس برائی کا خاتمہ کرے۔عارف (آرکیٹکچر): ہمارے معاشرے کی اچھائیاں مخفی او ر برائیاں واضح رہتی ہیں۔ جن میں سے ایک برائی گٹکا اور مین پوری وغیرہ ہے۔ کچی آبادیوں سمیت پوش علاقو ں میں بھی گٹکا دستیاب ہے۔ شاباش ہے ان نوجوانوںکو جو گٹکا کھاتے ہیں اور خود اپنا نقصان کرتے ہیں۔ حالاں کہ اخباروں میں اتنے مضامین اور ٹی وی پر اتنے پروگرام نشر ہوچکے ہیں مگر شاید ہی کوئی ایسا علاقہ ہو جہاں اس گٹکے کی وجہ سے جنازہ نہ اٹھا ہو۔ پوش علاقوں میں کمپنی کا بنایا ہوا اور کچی آبادیوں میں گھروں میں تیار کردہ گٹکا با آسانی فروخت ہوتا ہے۔ دکانوں پر گٹکے کی تھیلیاں لٹکا کر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے۔ وہ نوجوان کم زور اور بزدل ہیں جو گھریلو پریشانیوں سے فرار کے لیے یہ زہر اپنے جسموں میںاتار کر اپنی صلاحیتیں کھورہے ہیں ۔ گٹکا کھا کر پاکستان کی ترقی کی باتیں کرنے والے بھی قابل مذمت ہیں۔فیاض رضا( نجی کمپنی ملازم): سکون کی تلاش تو ہر انسان کو رہتی ہے اور اس کے حصول کے لیے مختلف طریقے ڈھونڈتے ہیں جن سے وقتی طور پر سکون حاصل ہوتا ہے جب کہ بعض لوگ اسی سکون کے لیے نشہ کرتے ہیںاب مہنگائی کے باعث آج کا نوجوان سستے نشے کی طرف راغب ہے گٹکا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ نوجوان گٹکا مین پوری وغیرہ کھا کر خود کو تازہ دم تصور کرنے کی خوش فہمی میں مبتلارہتے ہیں اور اپنی صحت کی طرف سے بالکل لاپروا ہوجاتے ہیں۔عمران متقی(بینک ملازم): نوجوانوںمیں گٹکے کی عادت خطرناک حد تک معاشرے کو برباد کررہی ہے اور گٹکا کھانے والے جوان و بزرگ اپنا وقار کھودیتے ہیں ا س عادت سے ان کی صحت اور شخصیت دونوںمتاثر ہوتی ہیں۔لوگ ایسے لوگوں سے بات کرنا پسند نہیں کرتے کیوں کہ ان کے منہ سے بوآتی ہے جو لوگ گٹکا کھا کر کائونٹر پر آتے ہیں میری کوشش ہوتی ہے کہ ان کا کام جلدی ختم کروں تاکہ وہ جلدی روانہ ہوجائیں ۔میر ا سوال یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ایسی جگہوں پر چھاپے کیوں نہیں مارتے اور گٹکا بنانے والوں کو گرفتار کیوں نہیں کرتے ؟ ایسے دکان دار جو موت بیچنے کے گناہ گار ہیں انہیں سزا کیوں نہیں دی جاتی؟ جمال حیدر( ملازم سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی) : معا شرے میں ویسے ہی کم خرابیاںنہ تھیں جو یہ گٹکا نامی برائی بھی پیدا ہوگئی ۔ ایسے نوجوانوںپر دکھ ہوتاہے جواسے عادت بنا لیتے ہیںجس کی وجہ سے ہر جگہ شرمندگی بھی اٹھاتے ہیں۔کہیں انٹرویو دینے جائیں تو ان میںخود اعتمادی فقدان نظر آتا ہے ۔دراصل اس سے دانت اتنے گندے ہوجاتے ہیں کہ سامنے والا کراہیت محسوس کرتاہے۔میرا تعلق میڈیکل سے ہے مجھے اسی حوالے سے بہت سے مریض نظر آتے ہیں جن کو سرطان ،دانتوں کا سڑنا،آنتوں کا سکڑنا جیسی بیماریاں ہوتی ہیں جن کی سب سے بڑی وجہ گٹکا،مین پوری کا استعمال ہے۔قانون نافذ کرنے والے خو د اس کااستعما ل کر تے ہیںتو وہ روک تھام کیاکریںگے۔ کاشف عباس (ملازم نجی کمپنی): آج کے نوجوان میں تعمیری سو چ کا فقدان ہے ۔ہر طرف برائیا ں ہیںجس میںہمارا نوجوان پھنستا چلا جا رہا ہے۔ملازمت نہ ملنا،کم تن خواہ اورضروریاتِ زندگی پوری نہ ہونے سے زیادہ تر انسان برائی کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔اس لیے یہ برائی بھی معاشرے میں پھیلتی جا رہی ہے۔ پہلے لوگوں سے چھپ کے کھاتے ہیں پھر تو اپنے والدین کے سامنے بھی اس کے استعمال سے گریز نہیں کرتے جب کہ جگہ جگہ پیک تھوک کر گندگی الگ پھیلاتے ہیںاور مختلف بیماریوں میں خود بھی گرفتار ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی مبتلا کرتے ہیں۔ گٹکا کھانے والے جوان ذہنی طور پر کم زور پڑجاتے ہیں ،ان میںقوتِ فیصلہ اورخود اعتمادی بھی ختم ہو جا تی ہے ، یہ عموماً محفلوں میںجانے سے بھی گھبراتے ہیں۔ ہمیں خود بھی اس بیماری کو خاتمے کے لیے کاوشیں کرنی ہوںگی۔ورنہ آہستہ آہستہ یہ برائی ہماری آنے والی نسلوں میں سرائیت کر جائے گی۔مہروزاحسن(حکیم) : گٹکا ،پان،مین پوری ،ماوا،وغیرہ۔ایسے امراض ہیں جن سے نجات ٖنہایت مشکل ہے ۔اس کی تشویش ناک علامات میںمنہ میں چھالے ،گال کی کھال پرابھرنے والے نشانات شامل ہیں۔منہ کا سرطان ،آنتوںکا خشک ہوجانا جیسی جان لیوا بیماریاں اسی وجہ سے ہیں۔جن کاعلاج بہت مشکل اور مہنگا بھی ہے۔اس سے قوتِ مدافعت ختم ہو کر رہ جاتی ہے، نزلے جیسی چھوٹی بیماری بھی ختم ہونے میں وقت لیتی ہے ،لیکن انسان جانتے بوجھتے اس نقصان کو اپنے گلے ڈال رہا ہے۔ بہت سے مریضوں سے وجہ پوچھوتو جوا ب آتا ہے کھا نا ہضم کرنے کے لیے کھاتے ہیں۔اس گٹکے میں پانی ملاکررکھ دیںتو صبح اس میں باریک باریک کیڑے بلبلاتے صاف نظر آئیں گے۔ برانڈوالے گٹکے میں بلیڈ ڈال دیں تو صبح اس کا نام و نشان بھی مٹ جائے گا۔سرکاری اداروںکی سرپرستی میں زہر فروشی کا کام جار ی و ساری ہے اورکوئی روکنے والا نہیں۔جوانوں کو سمجھنا چاہیے کہ گٹکا کھانے سے وقت نہیں گزر رہا بلکہ گٹکا نوجوانوں کو گزار رہا ہے۔ محمد علی(نان لینئر ایڈیٹر ): گٹکاایک لعنت ہے ۔آج کل نوجوان اس کو ختم کرنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں ،اسی لیے طر ہرف کھاتے نظر آتے ہیں۔ہمارے یہاںزیادہ تر ڈرائیور، کنڈیکٹر جگہ جگہ تھوک کے لوگوں کو بھی اس کے زیرِاثر لا رہے ویسے مجھے یاد آرہا ہے کہ اس کے بیچنے اور خریدنے پرپابندی لگی تھی مگر وہ پابندی نظر نہیں آتی۔چھے مہینہ پہلے میں گٹکا کھاتا تھا کیوں کہ تدوین نگاری کے دوران کمپیوٹر کا استعمال رہتا ہے تو منہ چلانے کے لیے گٹکا کھا لیتا تھا ۔وقتی طور پر تو خوب کام ہوتا تھا پھر نیند بھی خو ب آتی تھی اور اگر نہیں کھاتا تو جسم بھاری بھاری لگتا تھا ۔ڈاکٹر کے مشورے کے بعد اس سے نجات ملی۔گٹکا منہ کا اس قدر برا حال کرتا ہے، دانتوںمیں درد ،زبان پر چھا لے او ریہ نہیںکہ صرف غریب آدمی ہی گٹکا کھا رہا ہے۔بلکہ اچھے خاندان کے خوش شکل افراد بھی اس لت میں گرفتار ہیں ۔مجتبیٰ شاہ(پرائیویٹ کالج کے طالبِ علم ): یہ آج کل کا فیشن بن گیا ہے،خاص کر نوجوانوں میںیہ فیشن عام ہے۔ دوستوں کی صحبت میں رہ کر سگریٹ جیسی بری عادت میں مشغول ہوجاتے ہیں۔زیادہ تر افراد مسائل سے گھبرا کر گٹکا کھانے عادت ڈال لیتے ہیںاور اپنی ذمے داریوں سے منہ موڑ لیتے ہیں۔جس طرح سگریٹ پھیپھڑوں کے لیے مضر ہے اسی طرح چھالیہ، گٹکامنہ کے سرطان جیسی جان لیوا بیماری کی بنیادی وجہ ہے لیکن منع کرنے پرنوجوان باز نہیں آتے۔یہ انتہائی خطرناک عادت ہما را مستقبل تباہ کر رہی ہے۔ ہمیں اس برائی کا خا تمہ کرنے کے لیے فوری اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔ سارہ محمود(انٹیریر ڈزائینر): میں کمپیوٹر کے استعمال کرتے وقت پاپ کارن کھاتی رہتی ہوں جب کہ میرے ساتھ کام کرنے والے نوجوان لڑکے گٹکا اورچھا لیہ کا استعمال کرتے ہیں ۔ان میں سے زیادہ تر کو دانتوں کی تکالیف کی شکایت اورکم مرچوں کے کھانے میں بھی مرچیں تیز لگتی ہیں۔افسوس گٹکا پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا اورمخصوص کمیونٹی کی خواتین بھی اس کا ستعمال کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ہر جگہ اس کی پیک نظر آتی ہے۔نوجوان اموات کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ نوجوان جانے کیوں کینسر جیسے جان لیوا مرض کو خرید رہے ہیں؟ اور خودکشی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
بارش سے محروم اور مسلسل برستی بارش والے علاقے

بارش سے محروم اور مسلسل برستی بارش والے علاقے

اس روئے زمین پر نظام قدرت بھی کتنا عجیب ، پیچیدہ اور حیرت انگیز ہے۔اتنا حیرت انگیز کہ بسا اوقات انسانی سوچ بھی جواب دے جاتی ہے۔ بارشوں کو ہی لے لیں دنیا میں دو شہر ایسے بھی ہیں جہاں آج تک بارش کا ایک قطرہ تک نہیں پڑا جبکہ اس کے برعکس ایک خطہ ایسا بھی ہے جہاں سارا سال مسلسل بارش جاری رہتی ہے ، باالفاظ دیگر آج تک رکی ہی نہیں۔مسلسل بارش کا سامنا کرنے والا شہر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ نمی والا مقام یعنی دنیا میں سب سے زیادہ بارشیں بھارتی ریاست میگھالیہ میں ہوتی ہیں۔ ریاست میگھالیہ کا دارالحکومت شیلانگ ہے جو سارا سال بادلوں سے ڈھکا رہتا ہے۔ میگھالیہ سنسکرت کا ایک لفظ ہے جس کے معنی '' بادلوں کا گھر‘‘ کے ہیں۔ میگھالیہ کا گاوں ماسن رام دنیا کا واحد اور منفرد علاقہ ہے جہاں سارا سال مسلسل بارشیں برستی رہتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کو دنیا کی گیلی ترین زمین کہتے ہیں ۔ماہرین کے مطابق خلیج بنگال کی وجہ سے اس جگہ کو دنیا کی سب سے زیادہ نمی والی جگہ کی شہرت حاصل ہے۔اس کی واحد وجہ ہی یہ ہے کہ یہاں تقریباً ہر روز بارش ہوتی رہتی ہے۔ یہ گاوں سطح زمین سے 1491 میٹر بلند پہاڑ پر واقع ہے جبکہ یہاں اوسطاً بارش 11871ملی میٹر ریکارڈ کی گئی ہے۔ ریاست میگھالیہ کی تہذیب ملک کے دوسرے صوبوں سے یکسر مختلف ہے۔ یہ بہت زیادہ سرسبز و شاداب علاقہ ہے جو پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کی بارشوں نے یہاں کے ماحول اور بھی زیادہ سحر انگیز بنا،رکھا ہے جو شاید وہاں کے باسیوں کے لئے تو زیادہ پرکشش نہ ہو لیکن سیاحوں کے لئے یہ منظر مسحور کن ضرور ہوتا ہے۔مسلسل بارشوں کے باعث یہاں چھتریوں کی بجائے لوگوں نے بانس سے بنی خوشنما ٹوپیاں پہن رکھی ہوتی ہیں جسے بیچنے والے سڑک کنارے جابجا ٹھیلے لگائے نظر آتے ہیں۔بارشوں سے محروم بادلوں کے نیچے ایک گاوں سائنسدانوں کے بقول جب پا نی زمین سے بخارات بنکر اڑ جاتا ہے تو زمین کی فضا میں ٹھنڈا ہو کر بادلوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔جب یہ بادل کافی بھاری ہو جاتے ہیں تو وہ ہوا سے ٹھنڈے ہونے پر بارش کی صورت میں زمین پر گرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بارشیں قدرت کی نعمت بھی ہیں اور زحمت بھی۔بارشیں معمول کی ہوں تو نعمت اور اگر غیر معمولی ہوں تو زحمت۔ ایک حد سے زیادہ بارشیں اپنے ساتھ سیلاب ، طوفان اور ژالہ باری جیسی تباہ کاریاں لے کر آتی ہیں۔دنیا کے تقریباً سبھی خطوں پر کہیں کم اور کہیں زیادہ بارشیں معمول کا ایک عمل گردانا جاتا ہے۔ لیکن بہت سارے لوگوں کیلئے شاید یہ انکشاف نیا ہو کہ اس روئے زمین پر ایک ایسا گاوں بھی ہے جہاں آج تک کبھی بارش نہیں برسی۔ ایتھوپیا کا ''دلول‘‘ نامی یہ گائوں ایتھوپیا اور ارٹیریا کی سرحد کے قریب عفر نامی ریجن میں واقع ہے۔لفظ ''دلول‘‘ یہاں صدیوں پہلے آباد قوم عفر قوم نے اسے دیا تھا،جس کے لفظی معنی ''تحلیل‘‘ ہو جانے کے ہیں۔یہ خطہ چونکہ دنیا کے گرم ترین مقامات میں سے ایک ہے اس لئے یہاں کی آبادی بہت کم نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ ایک غیر محفوظ اور نمک کی خوفناک اور گہری کھائیوں پر مشتمل پہاڑی بنجر علاقہ بھی ہے۔بارشوں سے مکمل طور پر محروم اس گائوں کا گرمیوں میں درجہ حرارت 65 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے۔جبکہ یہاں کا اوسط درجہ حرارت 40ڈگری سنٹی گریڈ سے کچھ اوپر ہی ہے۔ یہاں بے شمار آتش فشاں موجود ہیں۔انہی آتش فشانوں میں ''دانا ڈپریشن‘‘ نامی علاقے میں واقع '' ایریا ایلے ‘‘ نامی ایک ایسا آتش فشاں پہاڑ ہے جو دنیا کے ایسے چھ آتش فشان پہاڑوں میں سے ایک ہے جو لاوے کے بڑے بڑے ابلتے تالابوں پر مشتمل ہے۔یہ آتش فشاں سطح زمین سے 613 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ اگرچہ یہاں تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن اس کے باوجود بھی دنیا بھر کے سیاح اور مہم جو جوق در جوق ان خوش رنگ اور منفرد بہتے لاووں کو دیکھنے یہاں چلے آتے ہیں۔ 1926ء میں یہ آتش فشاں دنیا بھر کے سائنس دانوں اور ماہرین کی توجہ کا مرکز اس وقت بنے جب انہوں نے ان آتش فشانوں کے پھٹنے کے بعد یہاں کچھ غیر معمولی تبدیلیاں دیکھیں۔ جس تبدیلی نے ماہرین کو حیران کیا وہ یہاں پر موجود نمک کے ذخائر کا چٹانوں سے 30 میٹر تک ابھر کر سامنے ظاہر ہو جانا تھا۔دراصل یہ علاقہ مقامی نمک سے مالا مال ہے جس کے سبب اسے مقامی طور پر سفید گولڈ کانام بھی دیا جاتا ہے اور یہاں کے باسیوں کا یہ سب سے بڑا ذریعہ معاش بھی ہے۔ دوسری بڑی تبدیلی معمول سے ہٹ کر زلزلوں کا آنا تھا۔ان زلزلوں کے باعث سلفر کے تالابوں میں درجہ حرارت بتدریج بڑھتا ہوا دیکھا جانے لگا۔یہاں پر زیر زمین گرم پانیوں کو زمین کی سطح تک آنے میں پتھر کی متعدد تہوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔نتیجتاًاس عمل کے دوران یہاں نمک، سلفر اور آئرن پیدا ہوتے ہیں ۔دلول گائوں ایک ایسے مقام پر واقع ہے جو دنیا کے سب سے غیر معمولی ہائیڈرو تھرمل علاقوں میں سے ایک ہے۔اس خطے کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ اس کا بیشتر حصہ سطح سمندر سے 125 میٹر نیچے ہے۔ بارشوں سے محروم بادلوں کے اوپر ایک گاوںعام طور پر بارش کے متلاشی آسمان کی طرف رخ کر کے بارش کے آنے یا نہ آنے کا اندازہ کرتے نظر آتے ہیں۔ظاہر ہے بارشیں آسمانوں سے ہی برسا کرتی ہیں لیکن آپ کو سن کر حیرت ہو گی کہ اس روئے زمین پر ایک ایسا گائوں بھی ہے جہاں آج تک بارش کا ایک قطرہ بھی نہیں پڑا لیکن وہ بارش کا منظر دیکھنے کیلئے اوپر کے بجائے نیچے کی جانب دیکھتے نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے گائوں کے نیچے اکثر و پیشتر بارشیں برستی رہتی ہیں۔ ''الحطیب‘‘ نام کا یہ منفرد گاوں ملک یمن کے دارالحکومت صنعا اور الحدیدہ کے درمیان ایک پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔اس گائوں کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ سطح زمین سے لگ بھگ 3200میٹر بلندی پر سرخ رنگ کے پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے لیکن یہاں آج تک بارش کا ایک قطرہ تک نہیں پڑا ۔ اس کی وجہ بڑی دلچسپ ہے۔یہ گائوں چونکہ زمین سے 3200 میٹر کی بلندی پر واقع ہے جبکہ بادل زمین سے 2000 میٹر کی بلندی پر بنتے ہیں۔بالفاظ دیگر بلندی پر رہنے کے سبب یہاں کے باسی بارش کی نعمت سے مستفید نہیں ہو پاتے جبکہ ان بادلوں کے نیچے بسنے والے باسی وقتاً فوقتاً بارش سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں جنہیں ان سے اوپر رہنے والے حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ یہاں کا موسم گرم اور معتدل رہتا ہے تاہم سردیوں میں صبح کے وقت موسم سرد رہتا ہے لیکن سورج کے طلوع ہوتے ہی یہ گرم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔  

سنان ابن ثابت: علم و تحقیق کے آسمان کا روشن ستارہ

سنان ابن ثابت: علم و تحقیق کے آسمان کا روشن ستارہ

حران کے مشہور طبیب ریاضی دان اور مترجم ثابت ابن قرہ(830ء تا 901ء) کا یہ لائق فرزند بغداد میں 880ء کے قریب تولد ہوا، (ایک اور ذرائع کے مطابق اس کا سن پیدائش 850ء ہے)۔ جس طرح اس کے والد نے طب اور ریاضی کے میدان میں نمایاں کارنامے سرانجام دیئے، اسی طرح بلکہ اس سے بہت بڑھ کر اس کا بیٹا بھی علم و تحقیق کے آسمان پر سورج بن کر چمکا۔ یہی نہیں بلکہ آگے سنان ابن ثابت کے بیٹے اور ثابت ابن قرہ کے پوتے ابراہیم ابن سنان نے بھی اپنے دادا اور والد سے حاصل کی ہوئی علمی میراث سے تشنگان علم و تحقیق کو خوب سیراب کیا۔ سائنس کی تاریخ میں شاذو نادر ہی ایسا اتفاق ہوتا ہے۔ مغربی دنیا میں اس کی مثال بیکرل خاندان میں ملتی ہے۔ اے سی بیکرل، اس کا بیٹا اے ای بیکرل اور پھر اس کا پوتا اے ایچ بیکرل تینوں اپنے اپنے دور کے مشہور سائنسدان گزرے ہیں۔سنان ابن ثابت کا والد ثابت ابن قمرہ ممتاز سائنسدان محمد بن موسیٰ بن شاکر کے کہنے پر حران سے بغداد آئے اور پھر یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی ۔یوں سنان ابن ثابت کو آغاز ہی سے بغداد کی علمی فضا میں اپنی صلاحیتیں اجاگر کرنے کا موقع ملا۔ سنان نے ریاضی اور طب کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے ہی حاصل کی۔ مشہور تاریخ نگار المسعودی، سنان ابن ثابت کے حوالے سے عباسی خلیفہ المعتضد (دور خلافت 892 تا 902ء) کے دربار کے طریق زندگی کا نقشہ بیان کرتا ہے۔ بظاہر 908ء سے پہلے سنان کا دربار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پھر المقتدر(دور خلافت 908ء تا 932ء) کے عہد میں اسے دربار کے حکیم اور طبیب کی حیثیت مل گئی اور اسی طرح وہ خلیفہ القاہر(دور خلافت932ء تا 934ء) اور خلیفہ الراضٗی (دور خلافت 934ء تا 940ء) کے دور میں بھی دربار سے منسلک رہا۔ ایک دوسرے مستند ذریعے کے مطابق892ء میں ہی جب معتضد خلیفہ بنا تو سنان کے والد نے جو اس وقت افسر الاطبا کے عہدہ پر متمکن تھا، سنان کو اپنی جگہ مقرر کروا دیا تھا۔ اسی ماخذ کے مطابق 902ء میں معتضد کی وفات کے بعد مکتفی کے دور خلافت میں سنان بن ثابت کو تمام سرکاری شفا خانوں کا مہتمم اعلیٰ بنا دیا گیا۔ اس دور میں اس کے عمل کا دائرہ سفری شفاخانوں اور جیل میں طبی سہولتوں کے بہم پہنچانے تک محدود تھا اور پھر امن کے بعد مقتدر کے دور میں وہ نہ صرف اس عہدے پر فائز رہا بلکہ اب اس کی حیثیت ایک وزیر صحت کی سی ہو گئی۔ اس نے اپنی لیاقت اور قابلیت کی وجہ سے جلد ہی بغداد کے تمام اطباء میں اعلیٰ مقام حاصل کر لیا۔931ء میں جب ایک عطائی کے غلط علاج کے باعث ایک مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تو مقتدر کے حکم کے مطابق سنان نے مطب کرنے والے تمام اطباء کا ایک امتحان لیا اور بغداد کے تقریباً ایک ہزار میں سے صرف سات سو کے قریب اطباء کو مطب کھولنے کی اجازت دی گئی۔ اس امتحان سے صرف ان چند ایک اطباء کو مستثنیٰ رکھا گیا جو پہلے ہی اچھی شہرت رکھتے تھے۔اس کے والد ثابت ابن قرہ نے پیرانہ سالی میں اسلام قبول کر لیا تو سنان بھی مسلمان ہو گیا۔ اس وقت اس کی عمر (تاریخ پیدائش850ء کے لحاظ سے) 40سال تھی، یوں اس کے قبول اسلام کا سال تقریباً 890ء متعین ہوتا ہے۔ راضی کی وفات کے بعد اس نے واسط( کوفہ اور بصرہ کے درمیان ایک شہر کا نام) کے امیر ابوالحسین بحکم کی جسمانی صحت اور اخلاق و کردار کی دیکھ بھال شروع کردی۔ بغداد ہی میں 943ء میں اس کا انتقال ہوا۔سنان کی تصانیف میں سے بدقسمتی سے اب کوئی بھی موجود نہیں۔ ابن القفطی کے بیان کے مطابق سنان کی تصنیفات کو تین سلسلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا تاریخی سیاسی، دوسرا ریاضیاتی اور تیسرا فلکیاتی۔ ابن القفطی کی فہرست میں سنان کی کسی طبی تصنیف کا نام نہیں ملتا۔ پہلی قسم کی کتابوں میں ایک رسالہ وہ ہے جس میں سنان ابن ثابت خلیفہ المعتضد کے دربار کے طریق زندگی کے بارے میں معلومات پیش کرتا ہے۔ اس رسالے میں وہ دوسری بہت سی باتوں کے علاوہ افلاطون کی کتاب ''ری پبلک‘‘ کے مطابق ایک فلاحی مملکت کا ڈھانچہ متعین کرکے دیتا ہے۔ السعودی اس کی اس پیشکش پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ سنان کو چاہئے تھا کہ وہ خود کو اپنی قابلیت کے دائرے سے متعلق مضامین تک ہی محدود رکھتا۔ مثلاً اس کو اقلیدس کے علوم، المجسط، فلکیات، موسمیاتی، مظاہر، منطق، مابعد الطبیعیات اور سقراط، افلاطون اور ارسطو کے نظام فلسفہ تک محدود رہنا چاہئے تھا۔دوسرے سلسلے کی کتابوں میں چار ریاضیاتی رسالے ہیں۔ ان میں ایک ''عضد الدولہ‘‘ کے نام منسوب کی گئی ہے۔ عضد الدولہ کی درخواست پر ابوسہل القوہی نے اس کی اس تصنیف کی ایک تفسیر کی اصلاح کی ہے۔ ریاضیاتی سلسلے کی دوسری کتاب ارشمیدس کی ''on triangles‘‘سے متعلق ہے سا سلسلے کی تیسری کتاب افلاطون کی کتاب''on Elements of Geometry‘‘کی تصحیح و اضافے کے بعد لکھی گئی ہے۔ یہاں ایک حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ افلاطون کی یہ کتاب کہیں وہی تو نہیں جوآیا صوفیہ میں ''المفردات‘‘ کے نام سے پڑی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اوپر بیان کئے گئے پہلے دو رسالے سنان کے نہیں ہو سکتے کیونکہ ان میں مخاطب کی گئی شخصیات دسویں صدی کے دوسرے نصف میں بامِ عروج کو پہنچیں جبکہ سنان دسویں صدی کے پہلے نصف ہی میں انتقال کر گیا تھا۔تیسرے سلسلے کی کتابوں میں سے ''کتاب الانواع‘‘ ( منسوب بہ المعتضد) کے مندرجات کے بارے میں صرف البیرونی کے اقتباسات کے ذریعے کچھ معلوم ہوا ہے۔ موخر الذکر کتاب کا حوالہ ابن القفطی نے اور ابن الندیم نے اپنی کتاب 'الفہرست‘ میں دیا ہے۔ محققین ان کی وجوہات پر مختلف رائے رکھتے ہیں۔ کچھ کے نزدیک یہ موسمیاتی خصوصیات ستاروں کے طلوع و غروب سے پیدا ہوتی ہیں۔ کچھ دوسرے محققین اس کو گزرے ہوئے ایام کے موسم کے تقابل کے لحاظ سے لیتے ہیں۔

آج کا دن

آج کا دن

K-19کی روسی بحریہ میں شمولیت1961ء میں آج کے دن روسی نیوکلیئر آبدوز''K-19‘‘ کو بحریہ میں شامل کیا گیا۔ یہ سوویت آبدوزوں کی پہلی جنریشن تھی جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس تھی۔ یہ آبدوز امریکی آبدوزوں کے جواب میںبنائی گئی تھی۔ اس کی تیاری کے دوران 10 سویلین ورکرز اور ایک ملاح مختلف حادثات میں ہلاک ہوئے۔'' K-19‘‘ کے شروع ہونے کے بعد، آبدوز میں متعدد خرابیاں سامنے آئیں ،کئی مرتبہ تو آبدوز کے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔امریکہ کا عالمی میلہ1939ء میں آج کے دن امریکہ میں عالمی میلے کا انعقاد کیا گیا ۔یہ اس وقت کا سب سے مہنگا امریکی میلہ تھا۔ اس میلے میں دنیا کے بہت سے ممالک نے شرکت کی۔ حیران کن بات یہ تھی کہ صرف دو سیزنز میں اس میلے میں 44 ملین (4کروڑ40لاکھ )افراد نے شرکت کی۔اس نمائش کا مقصد لوگوں کو مستقبل میں ہونے والی تبدیلیوں سے متعارف کروانا تھا ۔ اس میں ''نئے دن کی صبح‘‘ اور '' کل کی دنیا‘‘ کے عنوان سے لوگوں کیلئے مختلف اشیاء کی نمائش کی گئی۔عالمی میلے کے شروع ہونے کے چار ماہ بعد عالمی جنگ شروع ہو گئی جس کی وجہ سے بہت سی نمائشیں متاثر ہوئیں۔ 1940ء میں میلے کے اختتام کے بعد، بہت سی نمائش گاہوں کو منہدم کر دیا گیا تھا۔یورپی یونین میں دس ممالک کی شمولیتیورپی یونین کی تاریخی توسیع کے دوران 30اپریل2004ء کو دس ممالک یورپی یونین میں شامل ہوئے۔ یہ ممالک کئی دہائیوں سے سوویت نظریات کی وجہ سے مغربی ممالک سے الگ ایک خطے کے طور پر موجود تھے۔ ان ممالک کی شمولیت کو یورپی یونین کی تاریخ کی سب سے بڑی توسیع اس لئے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ان 10ممالک کی شمولیت سے یورپی یونین کی آبادی450ملین تک پہنچ گئی۔شامل ہونے والے ممالک میں قبرص ،مالٹا،چیک، ایسٹونیا، ہنگری، لٹویا، لتھوانیا، پولینڈ، سلواکیہ اور سلونیا شامل تھے۔''سٹالگ لوفٹ‘‘ سے قیدیوں کی آزادی''سٹالگ لوفٹ‘‘ قیدیوں کیلئے بنایا گیا جرمن کیمپ تھا۔یہ کیمپ بارتھ، ویسٹرن پومیرانیا، جرمنی میں گرفتار ہونے والے اتحادی فضائیہ کے اہلکاروں کیلئے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جیل کیمپ کی موجودگی نے بارتھ قصبے کو اتحادیوں کی بمباری سے بچا لیا تھا۔ تقریباً 9 ایئر مین7ہزار 588 امریکی اور ایک ہزار351 برطانوی اور کینیڈین قیدی وہاں موجود تھے۔ ان قیدیوں کو 30 اپریل 1945ء کی رات کو روسی افواج نے آزاد کروایا تھا۔ قیدیوں کو سوویت فوج کی پیش قدمی کے پیش نظر کیمپ خالی کرنے کا حکم دیا گیا۔ زیم کے اور کمانڈنٹ کے درمیان گفت و شنید کے بعد، اس بات پر اتفاق ہوا کہ بیکار خونریزی سے بچنے کیلئے محافظ جنگجوؤں کو پیچھے چھوڑ کر جائیں گے لیکن ان اقدامات کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور روسی افواج نے قیدیوں کو آزاد کروا لیا۔  

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور صنفی تفریق اور تضادات

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور صنفی تفریق اور تضادات

اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے سیکھنے سکھانے کے عمل کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے لیکن اس سے صارفین کی معلومات کے غلط استعمال اور تعلیم سے توجہ ہٹنے کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔یونیسکو کی جاری کردہ ایک نئی رپورٹ ''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز 2024ء‘‘ (Technology on her terms-2024)کے مطابق الگورتھم کے ذریعے چلائے جانے والے ڈیجیٹل پلیٹ فارم صنفی حوالے سے منفی تصورات کو پھیلاتے اور خاص طور پر لڑکیوں کی ترقی کو منفی طور سے متاثر کرتے ہیں۔یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے نے کہا ہے کہ ایسے پلیٹ فارم کی تیاری میں اخلاقی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ سوشل میڈیا کو تعلیم اور کریئر کے حوالے سے لڑکیوں کی خواہشات اور امکانات کو محدود کرنے کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے۔ انسٹا گرام اور ٹک ٹاک کا مسئلہ ''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز 2024ء‘‘ (Technology on her terms-2024 ) رپورٹ کے مطابق الگورتھم کے ذریعے خاص طور پر سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے تصویری مواد سے لڑکیوں کیلئے غیرصحتمند طرزعمل یا غیر حقیقی جسمانی تصورات کو قبول کرنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس سے ان کی عزت نفس اور اپنی جسمانی شبیہ کے بارے میں سوچ کو نقصان ہوتا ہے۔رپورٹ میں فیس بک کی اپنی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 20 سال سے کم عمر کی 32 فیصد لڑکیوں نے بتایا کہ جب وہ اپنے بارے میں برا محسوس کرتی ہیں تو انسٹاگرام انہیں اس کی مزید بری شبیہ دکھاتا ہے۔ دوسری جانب ٹک ٹاک پر مختصر اور دلفریب ویڈیوز سے صارفین کا وقت ضائع ہوتا ہے اور ان کی سیکھنے کی عادات متاثر ہوتی ہیں۔ اس طرح متواتر توجہ کے طالب تعلیمی اور غیرنصابی اہداف کا حصول مزید مشکل ہو جاتا ہے۔سائبرہراسگی اور ڈیپ فیکرپورٹ کے مطابق لڑکیوں کو آن لائن ہراساں کئے جانے کا سامنا لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ معاشی تعاون و ترقی کی تنظیم (OECD) میں شامل ممالک سے متعلق دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 12 سے 15 سال تک کی لڑکیوں نے بتایا کہ انہیں کبھی نہ کبھی سائبر غنڈہ گردی کا سامنا ہو چکا ہے۔ یہ اطلاع دینے والے لڑکیوں کی تعداد آٹھ فیصد تھی۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے بنائی جانے والی جعلی تصویروں، ویڈیوز اور جنسی خاکوں کے آن لائن اور کمرہ ہائے جماعت میں پھیلاؤ نے اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔اس رپورٹ کی تیاری کے عمل میں بہت سے ممالک کی طالبات نے بتایا کہ انہیں آن لائن تصاویر یا ویڈیوز سے واسطہ پڑتا ہے جنہیں وہ دیکھنا نہیں چاہتیں۔اس جائزے کے نتائج سے تعلیم بشمول میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سے گزشتہ نومبر میں ڈیجیٹل سماج کے انتظام سے متعلق یونیسکو کی رہنمائی کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل سماجی رابطوں کو بہتر اور باضابطہ بنانے کی ضرورت بھی سامنے آتی ہے۔خواتین کی ترقی میں ڈیجیٹل رکاوٹ''گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ‘‘ (Global education monitoring report) میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والے منفی صنفی تصورات لڑکیوں کیلئے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کی تعلیم میں بھی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ان شعبوں پر زیادہ تر مردوں کا اجارہ ہے، جس کے باعث لڑکیاں ایسے ڈیجیٹل ذرائع کی تخلیق کے مواقع سے محروم رہتی ہیں جو ان دقیانوسی تصورات کے خاتمے میں مدد دے سکتے ہیں۔یونیسکو کے مطابق 10 برس سے دنیا بھر میں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے مضامین میں گریجویٹ خواتین کی شرح 35 فیصد پر برقرار رہی۔ حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ رائج صنفی تعصبات خواتین کو ان شعبہ جات میں کریئر بنانے سے روکتے ہیں اور اس طرح ٹیکنالوجی کے شعبے کی افرادی قوت میں خواتین کا تناسب بہت کم رہ جاتا ہے۔دنیا بھر میں سائنس، انجینئرنگ اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے متعلق نوکریوں میں خواتین کا تناسب 25 فیصد سے بھی کم ہے۔ دنیا کی بڑی معیشتوں کو دیکھا جائے تو ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں ان کی تعداد 26 فیصد، انجینئرنگ میں 15 فیصد اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ میں 12 فیصد ہے۔ اسی طرح نئی ایجادات کے حقوق ملکیت کی درخواست دینے والوں میں خواتین کا تناسب صرف 17 فیصد ہے۔پالیسی سازی کی ضرورتاس جائزے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں آنے والی ڈیجیٹل تبدیلی میں مردوں کا کردار نمایاں ہے۔ اگرچہ 68 فیصد ممالک نے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں کی ترقی کیلئے پالیسیاں بنا رکھی ہیں لیکن ان میںآدھی کے قریب لڑکیوں اور خواتین کیلئے مددگار نہیں۔یونیسکو کا کہنا ہے کہ ان پالیسیوں میں کامیابی کی نمایاں مثالوں کو اجاگر کرنا ضروری ہے جس کیلئے سوشل میڈیا سے بھی کام لیا جانا چاہیے۔ لڑکیوں کی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبے اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ معاشروں کی ڈیجیٹل تبدیلی میں خواتین کا مساوی کردار یقینی بنانے اور ٹیکنالوجی کی تیاری کیلئے ایسا کئے بغیر اب کوئی چارہ نہیں۔ ''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز2024ء‘‘ (Technology on her terms 2024ء‘‘ رپورٹ کے مطابق تعلیم میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے متعلق ڈیزائن، رسائی، تدریس اور مہارتوں میں عدم مساوات کو دور کیا جانا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہر لڑکی ان مواقع سے مستفید ہو سکے جو اس طرح کی ٹیکنالوجی فراہم کر سکتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے فوائد کو ان طریقوں سے استعمال کیا جانا چاہیے جو واضح طور پر صنفی تفریق کو دور کریں۔رپورٹ کے مطابق خواتین اور لڑکیوں کیلئے ڈیجیٹل ٹولز کی ملکیت اور انہیں استعمال کرنے اورٹیکنالوجی میں کریئر کو آگے بڑھانے کیلئے ایک معاون ماحول کو یقینی بنانا ایک ایسی ڈیجیٹل تبدیلی کا باعث بنے گا جو تعلیم اور اس سے آگے صنفی معیار کو فروغ دے گا اور اس میں اضافی رکاوٹیں پیدا نہیں کرے گا۔  

وادی ڈومیل اور رینبو جھیل

وادی ڈومیل اور رینبو جھیل

استور سے چھ گھنٹے کی جیپ مسافت گوری کوٹ سے ہوتے ہوئے چلم چوکی اور برزل پاس کی 13500 فٹ بلندی کے بعد ہمیں منی مرگ لے گئی۔ اور منی مرگ کی وادی ڈومیل میں رینبو جھیل کے لمس سے آشنا کیا۔ اس پاک سرزمین پر کہیں وادی ڈومیل بھی ہے ؟ہے بھی یا نہیں کہ ایسی وادیاں صرف کہانیوں میں ہی ہوتی ہیں جہاں بلند درختوں سے کھیلتی ہوائیں پہاڑی درے سے گزرتی ہیں تو جنات کی طرح بے شمار کنکر اڑاتی جاتی ہیں۔ انگنت ندیاں گمنام چشموں سے پھوٹ کر پہلے جوان ہوتی ہیں اور پھر بے نام دریاؤں کا رزق بن جاتی ہیں۔کائنات کی سانس کی طرح دریا بھی بہتے چلے جاتے ہیں۔ چاند راتوں میں آسمان کی طرف اٹھنے کی ناکام کوشش میں ہلکان ہوتے ہیں اور پھر کسی اور دریا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان دریاؤں کا ایک ایک قطرہ وقت کی اکائی کی طرح زندگی بھر ایک مقام سے صرف ایک ہی بار گزرتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے۔وادیٔ ڈومیل ہے بھی یا نہیں؟ یہی دیکھنے کیلئے کتنی بے شمار وادیوں سے گزرے اور کتنے سورج ہمارے سامنے پہلے تانبے کے تھال بنے اور پھر برف کے پاتال میں اتر گئے۔۔ سفر بہر حال جاری رہا۔ ڈومیل سے پہلے پرستان میں داخل ہونے جیسی مشکلات کئی ندیوں اور سفید جہانوں کی صورت میں جھیلنی پڑیں۔ برزل کے سفید معبد کو عبور کیا تو یقین ہوا کہ اس کے پار جو کچھ بھی ہے وہ قدرت کا ایسا عجوبہ ہے جس سے ڈومیل کے حسن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارا مقصد بھی سفر کرنا تھا۔ منزل کی جستجو میں تمام کشش تھی۔ ڈومیل کا ہونا یا نہ ہونا اہم نہیں تھا ، اس لئے ہم آگے بڑھتے چلے گئے۔دو جیپوں پر مشتمل ہمارا قافلہ منی مرگ سے نکل کر سبز قالین بچھے فرش والے رستوں کے بیچ بنی پختہ راہداری پر چل نکلا۔ قدم قدم حیرت تھی، حسن تھا، فطرت تھی۔ درخت آسمان کو چھونے کی کوشش میں نیم رقصاں تھے اور ہوا میں نمی تھی۔ ڈومیل نالے کے اس پار بلندی تھی۔ ڈھلوان سطح پر جو پھول تھے ان کا کوئی نام نہ تھا ، خود رو پھولوں کا کوئی نام ہوتا بھی نہیں۔ منی مرگ سے ڈومیل جاتے ہوئے پھر ایک رکاوٹ آ گئی۔ ایک ندی دیوسائی کے بلند میدانوں سے یا منی مرگ کی آبشاروں سے ادھر آ نکلی تھی اور ڈومیل نالے میں خود کشی کئے جاتی تھی۔ ڈومیل نالے میں ضم ہونے سے پہلے وہ ہمارا راستہ بھی بہا لے گئی تھی۔ ہم رک گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اک جہان ہمارے ساتھ رک گیا۔ شام سے پہلے کچھ سیاح واپس منی مرگ چلے گئے اور کچھ منتظر تھے مگر ہم ہر قیمت پر رینبو جھیل تک جانا چاہتے تھے۔ راستہ کاٹتے پانی کی شدت تو کم نہ ہوئی مگر جیپیں نکل گئیں۔ہمارے اطراف میں جنگل تھا، ندیاں تھیں اور ڈوبتے سورج کی شکست کھاتی تپش تھی۔ پھر ہم ایک فوجی علاقے میں داخل ہوئے۔ خوش آمدید ڈومیل ، والے بورڈ کے ساتھ بہت سارے تعارفی تختے اور استقبالی جملے نمایاں تھے۔ چھوٹے چھوٹے پتھروں پر سفید اور نیم سرخ رنگ کا چھڑکاؤ اس پورے علاقے کو سرکاری رعب عطا کرتا تھا۔یہ وادی لائن آف کنٹرول پر واقع ہے، جس پر سفر کرنے والے سری نگر کشمیر اور گلگت تک، براستہ استور اپنا سفر کرتے تھے۔ ڈومیل میں فوجی چھاؤنی اور چند دفاتر ہیں جن کا مقصد وطن عزیز کی حفاظت کیلئے چوکس رہنا ہے۔ ہم جب ڈومیل کی آخری ندی پر ایستادہ پل عبور کر رہے تھے تو حیرتوں کا جہان کھلتا جا رہا تھا۔ شام سے کچھ پہلے کا منظر ، ہوا میں نمی، درختوں کی بھیگی خوشبو اور پس منظر سے اٹھتی آبشاروں کی مدھر آواز، وادی ڈومیل کو ہماری یادداشت میں امر کرتی جاتی تھی۔ ہم برزل پاس کے برفیلے جہانوں کو پیچھے چھوڑ کر جس حسن کا لمس لینے آئے تھے وہ اس قابل تھا کہ اس کیلئے ایسی مشکلات جھیلی جائیں۔ سامنے ایک راستہ رینبو جھیل کی طرف جاتا تھا۔ پارکنگ کے ساتھ یادگار شہدا تعمیر کی گئی تھی۔ حوالدار لالک جان شہید اور کیپٹن کمال شیر خان شہید کی تعارفی تختیاں نصب تھیں اور 80 برگیڈ 2016 کی افتتاحی پلیٹ بھی بہت اہتمام سے بنائی گئی تھی۔ ہم جھیل کی طرف جانے لگے تو پاک فوج کے ایک جوان نے شائستہ لہجے میں فرمایا کہ ‘‘ اندھیرا ہونے سے پہلے واپس چلے جائیے گا ، رات کو جنگلی جانور حملہ آور ہو سکتے ہیں ‘‘۔ہم ہمالیہ رینج میں وادیٔ ڈومیل کی بارہ ہزار تین سو پچاسی فٹ بلند رینبو جھیل کے کنارے پر کھڑے تھے اور نیلگوں سبزی مائل رنگ والی یہ گول جھیل کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ کچھ لوگ اس جھیل کو مصنوعی جھیل کا الزام دے کر حاسدین فطرت میں شمار ہوتے ہیں مگر رینبو لیک کہیں سے بھی مصنوعی نہ تھی۔ اس میں جو پانی تھے وہ کسی ٹیوب ویل سے بھر کر نہیں لائے تھے۔ جھیل کے اطراف میں جو دیواریں اور بند تھے وہ ہمالیہ کے پتھروں کے تھے۔ ایک طرف سے داخل ہونے والا پانی دوسری جانب ایک نالے کی نذر ہوتا تھا جو اس جھیل کو زندہ لیک کی گواہی دیتا تھا۔ اگر کچھ مصنوعی تھا تو وہ کیفے تھا اور بیٹھنے کیلئے اوپن ایریا تھا۔ رینبو جھیل قدرتی حسن کا منبع تھی۔ ہم نے اس جھیل کے کنوارے پانی کو چھوا تو ایک لمحے میں سر سے پاؤں تک سردی کی لہر دوڑ گئی۔جھیل کا طواف مکمل کیا اور وہیں پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے۔   

29اپریل رقص کا عالمی دن

29اپریل رقص کا عالمی دن

آج سے کئی ہزار سال قبل اس خطے میں آباد ، موہن جو دڑو کے شہری بھی رقص کے شوقین تھے جس کا ثبوت کھدائی میں برآمد ہونے والا رقاصہ کا ایک کانسی کا مجسمہ ہے۔ بعض قوموں کے نزدیک رقص ایک دینی فریضہ تھا بلکہ اب بھی ہے ۔اس کا ایک محرک ''روحانی جذبہ‘‘ بھی ہے ۔ ہمارے ہاں یہ صوفیاء میں ''وجد‘‘ کی شکل میں ملتا ہے۔پوری دنیا میں درجنوں اقسام کے رقص ہیں۔ ہمارے ملک میں کلاسیکی اور لوک رقص کا ایک خاص مقام ہے ۔ حقیقت میں دیگر بہت سے فنون کی طرح '' اصل رقص‘‘ خاتمہ کے قریب ہے اور رقاص (جو رقص کر رہے ہیں وہ اصل میں) اس کی اس حالت پر نوحہ کناں ہیں۔ہماری فلموں خاص کر پاکستان ا ور بھارت کی فلموں میں رقص(ڈانس) کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔دیگر ملکوں میں ڈانس یا گانے کے بغیر فلم بن سکتی ہے لیکن یہاں کامیاب ہونا مشکل ہے ۔بلکہ موسیقی ،رقص فلموں کی کامیابی کا ضامن سمجھا جاتا ہے ۔ اب جو پاکستانی فلموں میں رقص ہو رہا ہے وہ ہماری تہذیب اور ثقافت سے مطابقت نہیں رکھتا بلکہ اسے رقص کہنا ہی نہیں چائیے ۔یہ کوئی بے ہنگم سی چیز ہے جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔صرف بے حیائی کا فروغ ہے اور کچھ بھی نہیں ہے ۔پاکستانی معاشرے میں اگرچہ رقص کو اتنی پذیرائی نہیں مل سکی ۔(حالانکہ رقص کے نام پر مجروں میں جو بے ہودگی پائی جاتی ہے اس سے کون واقف نہیں ۔ رقص کو پاکستان میں مقبولیت نہ ملنے کے اسباب میں شائد سب سے بڑا سبب بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوںذلیل ہوتی عوام، دفتروں، سڑکوں، پٹرول پمپوںپر ''حالت رقص ‘‘ میں ہی ہیں۔ رہنما بدل بدل کر عوام،جلسے جلوس میں،کبھی انقلاب،کبھی جمہوریت،کبھی آمریت، کبھی خوشحال اور کبھی نیا پاکستان بنانے کیلئے ''محو رقص ‘‘ ہیں۔ حبیب جالب کے بقول!تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھیرقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے رقص کا عالمی دن29اپریل 1982ء کو انٹرنیشنل ڈانس کمیٹی آف دی انٹرنیشنل تھیٹر انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے پہلی بار منایا گیا تھا۔ بعدازاںیونیسکو نے اس کی تائید کی ۔اب یہ دنیا بھر میں ہر سال29اپریل کو بھر پور طریقے سے منایا جاتا ہے ۔اس دن کو منانے کا مقصد مختلف قوموں کے علاقائی ،ثقافتی سرمائے (رقص ) کو محفوظ کرنا ہے کیونکہ ہر ملک میں رقص کے طریقے الگ الگ ہیں۔رقص مختلف قسم کی بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بڑھانے میں مدد بھی دیتا ہے ۔ارسطو نے اس کو فنونِ لطیفہ میں شمار کیا ہے ۔رقص کو اعضاء کی شاعری بھی کہا جاتا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ رقص تو پوری کائنات میں ہے ۔''ہم چلتے ہیں، دوڑتے ہیں ، مختلف کام کرتے ہیں تو اس میں ایک ردھم ہوتا ہے ، ہوائیں چلتی ہیں اور پیڑ پودے اس پر جھومتے ہیں تو یہ سب ایک طرح کا رقص ہی تو ہے‘‘۔ پاکستان میں ہر صوبے میں کئی کئی اقسام کے لوک رقص مقبول ہیں اور وہ بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔پنجاب کے لوک رقص میں، بھنگڑا، لڈی، سمی، گدا شامل ہیں ۔بھنگڑایہ پاکستان بھر میں عام رقص ہے جس کی ابتدا پنجاب کے خطے سے شروع ہوئی اور یہ اب ملک کے مقبول ترین لوک رقصوں میں سے ایک ہے۔لڈی پاکستان بھر میں شادی بیاہ کی تقریبات میں کیا جانے والا رقص ہے۔یہ آج کا نہیں صدیوں پرانا لوک رقص ہے ۔سمی پوٹھوہاری خطے سے شروع ہونے والا یہ لوک رقص بنیادی طور پر پنجاب کی قبائلی برادریوں کا روایتی ڈانس ہے۔ گدایہ بھنگڑے کی طرح انتہائی پرجوش رقص ہے، رقص کرنے والا عام طور پر تالیوں کی آواز کے ساتھ تیز ہوتا چلا جاتا ہے۔بلوچستان کے لوک رقص میںلیوا، چاپ، جھومرشامل ہے۔لیوا نامی رقص عام طور پر شادی بیاہ کے موقع پر لوگوں کی خوشی کے اظہار کے طور پر کیا جاتا ہے۔چاپ یہ بھی شادی بیاہ کے موقع پر کیا جانے والا لوک رقص ہے۔ اس میں ایک قدم آگے بڑھا کر پیچھے کیا جاتا ہے ۔ جھومرکو سرائیکی رقص بھی مانا جاتا ہے اور بلوچستان میں بھی بہت عام ہے ۔خیبر پختونخوا کے لوک رقص میں اٹن ،خٹک ،چترالی ڈانس قابل ذکر ہیں۔اٹن یہ ایسا لوک رقص ہے جو افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقوں میں عام ہے ۔عام طور پر ایک ہی دھن پر یہ رقص 5 سے25 منٹ تک جاری رہتا ہے۔ خٹک ڈانس تلواروں کے ساتھ انتہائی تیز رفتاری سے کیا جانے والا یہ ڈانس مقبول ترین ہے ۔چترالی ڈانس یہ خیبرپختونخوا کے ساتھ گلگت بلتستان میں کیا جاتا ہے اور یہ کچھ لوگوں کے گروپ میں کیا جاتا ہے ، جس میں سے ہر ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس رقص کا مظاہرہ کرتا ہے ۔سندھ کے لوک رقص، دھمال اور ہو جمالو ہیں۔ دھمال یہ عام طور پر صوفی بزرگوں کے مزارات یا درگاہ پر کیا جانے والا رقص ہے ۔جو انتہائی مستی کے عالم میں کیا جاتا ہے ۔ہو جمالویہ سندھ کا مشہور ترین لوک رقص ہے ، درحقیقت ہو جمالو ایک بہت پرانا گیت بھی ہے۔