مہ ناز
اسپیشل فیچر
ہفتہ 19 جنوری 2013ء کو اچانک خبر ملی کہ پاکستان کی معروف گلوکارہ مہ ناز اب اس دنیا میں نہیں رہیں وہ کراچی سے امریکا جاتے ہوئے بحرین کے منامہ ایئرپورٹ پر انتقال کرگئیں۔ مہ ناز کچھ عرصے سے شوگر اور بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا تھیں۔ اپنے بھائیوں کے پاس امریکا جاتی رہتی تھیں۔ ماہِ محرم میں امریکا سے پاکستان آئیں تھیں اور دو ماہ بعد واپس امریکا جارہی تھیں۔ انہیں کراچی میں سپردخاک کردیا گیا۔مہ ناز کی آواز میں بانکپن ہی نہیں تھا بلکہ گائیکی اور ریاضت کا حُسن بھی تھا۔ اپنے فن کی انہی خوبیوں کی بدولت مہ ناز نے تین دہائیوں تک دنیا ئے موسیقی پرراج کیا۔ انہوںنے جلد ہی ایک ایسا مقام حاصل کیا جس تک پہنچنے کے لیے عموماً فن کاروں کو ایک عمر درکار ہوتی ہے۔ مہ ناز کی اچانک موت نے ان کے پرستاروں کو غم زدہ کردیا ہے۔مہ ناز 1958ء کوکراچی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد اختر مہدی وصی علی ریڈیو پاکستان میں ملازم تھے جن کا کام فن کاروں کو الفاظ کی ادائیگی یعنی تلفّظ درست کروانا تھا۔ اچھی آواز ہونے کی وجہ سے سوزخوانی بھی کرتے تھے۔ انہوں نے ریڈیو پر کئی غزلیں بھی گائیں۔ مہ ناز کے والد اور تایا بہت اچھے خطاط اور آرٹسٹ بھی تھے اور یہ ان کا خاندانی کام تھا، کچھ عرصے بعد انہوںنے ریڈیو پاکستان کی ملازمت ترک کرکے کاروبار شروع کردیا۔ والد اور والدہ کا تعلق لکھنؤ کے نواح سے تھا۔ ان کی والدہ کو ٹھمریاں، دادریں، بندشیں گانے کا شوق تھا۔ کراچی کے پہلے کمشنر سید ہاشم رضا نے ان کی آواز سنی تو ریڈیو پاکستان میں زیڈ اے بخاری سے ان کی تعریف کی اور یہ ریڈیو پر گانے لگیں۔ریڈیو پر ہی سوزوسلام اور مرثیہ بھی پڑھتی تھیں۔ ہرسال محرم الحرام میں پی ٹی وی پر بھی سوزوسلام اور مرثیہ پڑھتی اور ان کے ساتھ ان کی بہن عشرت جہاں، شمیم بانو اور مہ نازبھی ہوتیں۔ مہ ناز گھر میں پانچ بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ ان کے ایک بھائی کا انتقال ہوگیا۔ مہ ناز نے اپنے بھائیوں کی اعلیٰ تعلیم اور اچھے مستقبل کو سنوارنے میں بڑی بہن کا حق ادا کیا اور ساری زندگی شادی نہیں کی۔ آج ان کے چاروں بھائی امریکا میں مقیم ہیں۔ مہ ناز کا اصل نام کنیز فاطمہ تھا۔ کالج میں شاہین اختر کے نام سے پہچانی جاتی تھیں۔معروف کلاسیکل گائیک استاد امرائو بندوخان کے بھتیجے نذیر نے ان کا نام ’’مہ ناز‘‘ تجویز کیا۔ مہ ناز نے ابتدائی تعلیم کراچی جیل روڈ پر واقع بہادر یار جنگ اسکول سے حاصل کی۔مسلم گرلز سیکنڈری اسکول ناظم آباد نمبر 2 سے میٹرک پاس کیا۔ سٹی گرلز کالج سے انٹر اور سرسیّد کالج میں بی اے پارٹ ون میں تھیں لیکن بی اے نہ کرسکیں۔ ریڈیو پاکستان کراچی سے پروگرام ’’بزمِ طلبہ‘‘ میں کُل پاکستان مقابلۂ موسیقی میں تعلیمی اداروں کی طالبات نے حصہ لینا تھا۔ جس لڑکی کا اس مقابلے کے لیے انتخاب ہوا وہ پروگرام کے قریب اچانک بیمار ہوگئی اور جب کالج کی عزت کا مسئلہ آگیا تو کالج پرنسپل نے ایک طالبہ کے کہنے پر مہ ناز کو آگے کردیا۔ مہ نازنے ملی نغمہ’’اے وطن کے سجیلے جوانو‘‘ گایا تو محفل تالیوں سے گونج اٹھی۔ ان کی سریلی اور میٹھی آواز کو سراہا گیا اور ان کو پہلا انعام ملا۔ان کے خالو تراب نقوی ریڈیو میں پروگرام منیجر تھے۔ انہوںنے مہ ناز کو ڈائریکٹر جنرل سلیم گیلانی سے ملوایا۔ انہوںنے مہ ناز کی آواز سننے کے بعد اسے مزید نکھارنے کے لیے گلوکار مہدی حسن (مرحوم) کے بڑے بھائی پنڈت غلام قادر کی شاگردی میں دے دیا۔ مہ ناز کا ریڈیو پر پہلا گانا، نیاز حسین کی موسیقی میں ’’کجراری اَنکھیوں میں نندیا نہ آئے‘‘ تھا۔ جس کو حشمت جعفری نے نشر کیا۔ پنڈت غلام قادر کے ساتھ مہ ناز کا ایک ڈوئیٹ ’’بول رے پپیہا‘‘ بڑا مقبول ہوا۔ پی ٹی وی کے پروگرام ’’نغمہ زار‘‘ کے لیے مہ ناز کو پروڈیوسر امیر امام (مرحوم) نے متعارف کرایا اور موسیقار استاد نذر حسین کی کمپوزیشن میں پہلا گانا ’’ہوا نے بادل سے کہا کہ شہر پھولوں سے سج گیا‘‘ گایا۔ اس پروگرام میں موسیقار سہیل رعناکے ساتھ گانے کافی مقبول ہوئے۔ امیر خسرو کا کلام’’چھاپ تِلک سب چھین لی رے موسے نیناں ملائی کے‘‘ مہ ناز کی پہچان بنا اور ان پر فلم کے دروازے اس وقت کھل گئے جب معروف موسیقار اے حمید کراچی آئے اور مہ ناز کی والدہ سے فلموں میں گانے کی اجازت مانگی۔ 1974ء کا ذکر ہے جب مہ ناز نے کراچی سے لاہور رخصت سفر باندھا۔ ہدایت کار حسن طارق کی فلم ’’جہیز‘‘ میں ان کا پہلا فلمی گانا ریکارڈ ہوا۔ جس کے بول تھے’’پیار تو سے بلما جرور‘‘ اس کو سیف الدین سیف نے لکھا تھا ، اس فلم میں مہ ناز نے مزید چار گانے اور ریکارڈ کرائے لیکن یہ فلم ریلیز نہ ہوسکی۔ ہدایت کار نذر الاسلام کی فلم ’’حقیقت،، مہ ناز کی پہلی ریلیز ہونے والی فلم تھی جس میں انہوںنے گلوکار احمد رشدی (مرحوم) کے ساتھ ایک ڈوئیٹ گایامیں نے تمہیں بلایا تھا کاہے کو گھبرائی ہویہ گانا خواجہ پرویز نے لکھا اور وحید مراد اور بابرہ شریف پر فلم بند کیا گیا۔ ہدایت کار ایم اے علی کی فلم ’’پیسہ‘‘ میں مہ ناز کا ایک گانا موسیقار ناشادنے ریکارڈ کیا۔ جس کے بول تھے ’’اک بار تو پیار سے دیکھ مجھے سو بار جاں لٹادوں گی‘‘ یہ گانا تسلیم فاضلی نے لکھا۔ اس گانے سے مہ ناز کی آواز موسیقار وں کی نظروں میں آگئی۔ ہدایت کار ایس سلیمان کی فلم ’’زینت‘‘ میں گلوکار رجب علی کے ساتھ ڈوئیٹ’’تیری قسم تیرے سر کی قسم‘ ‘ ندیم اور شبنم جیسے مقبول فن کاروں پر فلم بند ہوا۔ اس دوران ایم اشرف نے مہ ناز کو فلم ’’دل نشین‘‘ کے لیے گانا ’’یہ گھر میرے ارمانوں کا سپنا ہے‘‘ اور موسیقار اے حمید نے فلم ’’اک گناہ اور سہی‘‘ کا گانا ’’روح کی پیاس بجھانے کے لیے اک گناہ اور سہی‘‘ گوایا جو سننے والوں میں پسند کیے گئے۔ ہدایت کار پرویز ملک کی فلم ’’پہچان‘‘ کا گانا ’’میرا پیار تیرے جیون کے سنگ رہے گا‘‘ مہ ناز کی فنی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا، اور اس گانے نے انہیں فلمی گلوکارہ کے طور پر صحیح معنوں میں متعارف کرایا۔ جسے مسرور انور نے لکھا اور نثار بزمی نے موسیقی سے سجایا۔ یہی گانا مہدی حسن کی آواز میں بھی ریکارڈ کیا گیا اور یہ دونوں گانے بے حد مشہور ہوئے۔یہ گانا چائلڈ اسٹار پر فلم بند ہوا ۔ فلم ’’مہربانی‘‘ میں ایک مشہور گیت ’’جیون کیا ہے آتی جاتی سانسوں کا افسانہ ہے‘‘ مہ ناز کی گائیکی کا حسین امتزاج ہے۔ مہ ناز کی آوازسن کر واقعی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی آہستہ آہستہ کانوں میں رس گھول رہا ہے اور اسے بار بار سننے کو جی چاہتا ہے یہی وجہ ہے مہ ناز نے فلموں میں جو بھی گایا وہ پسند کیا گیا ۔ چاہے وہ المیہ گانا ہو یا طربیہ، کلب سانگ ہو، یا غزل، حمد ہو یا نعت، مہ ناز کی آواز کا جادو ہمیشہ سرچڑھ کر بولا۔ نام ور موسیقاروں نے مہ ناز سے بھر پور کام لیا۔ ملکۂ ترنم نور جہاں نے مہ ناز پر دست شفقت رکھا اور ان کی حوصلہ افزائی اور تعریف کی او رکہا تھا، میری نظر میں اُس وقت نئی آوازوں میں مہ ناز سے بہتر کوئی اور دوسری آواز اتنی باصلاحیت نہیں۔ موسیقار خواجہ خورشید انور نے مہ ناز کو نور جہاں کے بعد دوسری بڑی آواز کہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب فلم ’’حیدر علی‘‘ کے گانوں کی کمپوزیشن کی تو انہوںنے صرف مہ ناز کی آواز میں فلم کے تمام گانے ریکارڈ کیے جو اپنے دور میں مقبول ہوئے، خاص کر ’’جا جاری کوئیلیا جاجا‘‘ اور ’’کیوں روئے شہنائی‘‘ شامل ہیں۔ 1977ء میں ہدایت کار مسعود پرویز نے فلم ’’انسان‘‘ بنائی تو سات موسیقاروں سے ایک ایک گانا کمپوز کرایا، ان سات موسیقاروں کمال احمد، خواجہ خورشید انور، ماسٹر عنایت حسین‘ نذیر علی، ناشاد، صفدر حسین اور اے حمید کا کہنا تھا کہ مہ ناز سے زیادہ سریلی اور میٹھی آواز اس وقت پوری فلم انڈسٹری میں موجود نہیں یہی وجہ ہے، تمام موسیقاروں نے مہ ناز سے ہی گانے گوائے۔ یہ اعزاز صرف مہ ناز کے ہی حصہ میں آیا۔ فلم ’’حیدر علی‘‘ اور فلم ’’انسان‘‘ کے تمام گانے مہ ناز نے ہی گائے۔ 1980ء میں مصری فلم ’’عابدہ‘‘ کو اُردو زبان میں ڈب کیا گیا موسیقار کریم شہاب الدین نے فلم میں ایک گیت، ایک حمد اور ایک نعت مہ ناز کی آواز میں ریکارڈ کی۔ مہ ناز نے جہاں مہدی حسن، احمد رشدی، مسعودرانا، رجب علی، شوکت علی، جاوید اختر، غلام علی جیسے سینئر گلوکاروں کے ساتھ ڈوئیٹ گائے وہیں اپنے ہم عصر گلوکار غلام عباس، اخلاق احمد، عالمگیر، محمد علی شہکی، اسد امانت علی خان، عمران علی ناشاد، محبوب پرویز، تحسین جاوید، خالد وحید، کے ساتھ بھی ڈوئیٹ گائے۔ مہ نازپہلی گلوکارہ بھی ہیں جن کے گائے ہوئے گانے خواتین گلوکارائوں کے ساتھ بھی ملتے ہیں۔ جیسے مالا، افشاں، ترنم ناز، ناہید اختر، نیرہ نور، شمسہ کنول، شازیہ، مسرت سمیع اور خود ان کی خالہ عشرت ہیں۔ مہ ناز کے کئی گانوں میں ان کا ساتھ اداکاروں نے بھی دیا۔ جس میں اداکارمحمد علی کے ساتھ فلم ’’نصیب‘‘ میں ان کا گانا ’’یہ آرزو ہے کہ عمر میری تمہاری چاہت میں بیت جائے‘‘ اداکار رحمن کے ساتھ فلم ’’لگن‘‘ کا گانا ’’مجھے نیند نہیں آتی ہے‘‘ اداکار غلام محی الدین کے ساتھ فلم آندھی اور طوفان کا گانا’’کیسا انسان ہے تو دشمن جان ہے تو‘‘ شامل ہیں۔ معروف موسیقاروں کے دنیا سے جانے یا پھر فلموں سے کنارہ کشی اختیار کرلینے کے بعد مہ ناز 1994ء میں واپس کراچی آگئیں تھیں، لیکن جب بھی موسیقار ان کو بلواتے یہ لاہور جاکر گانے ریکارڈ کراتی تھیں۔ 1995ء میں ہدایت کار جاوید شیخ کی فلم ’’مشکل‘‘ میں تحسین جاوید اور مہ ناز کا ایک ڈوئیٹ، ’’دل ہوگیا ہے تیرا دیوانہ اب کوئی جچتا نہیں‘‘ بے حد مقبول ہوا اسی فلم کا ایک اور ڈوئیٹ موسیقار امجد بوبی نے مہ ناز کے ساتھ گایا۔ ’’تجھ کو بھول کر زندہ رہنا، تنہائی کے دردکو سہنا مشکل ہے بڑا مشکل ہے‘‘۔ 1999ء میں پاپ سنگر سجاد علی نے فلم ’’ایک اور لَو اسٹوری‘‘ بنائی تو ان کے بھائی موسیقار لکی علی نے مہ ناز سے ایک گانا ’’بھیگے بھیگے موسم میں ہلکی ہلکی وادیاں‘‘ گوایا جس پر ان کو ایوارڈ بھی ملا۔2001ء میں اداکارہ زیبا بختیار نے بحیثیت فلم ساز و ہدایت کارہ فلم ’’بابو‘‘ بنائی تو اس میں مہ ناز کی آواز میں ایک گانا ’’یہ شمع کسی روز سرشام بجھادو‘‘ گوایا جو خود زیبا بختیار پر فلم بند ہوا۔ مہ ناز کا آخری فلمی گانا 2001ء میں ہدایت کار اقبال کشمیری کی فلم ’’سنگرام‘‘ کے لیے ریکارڈ کیا گیا۔ جس کے بول تھے ’’ساتھیا آکھو جائیں، دنیا ہم کو ڈھونڈے لیکن کسی کے ہاتھ نہ آئیں‘‘ یہ گانا اداکارہ نور پر فلم بند کیا گیا اور یہی مہ ناز کا آخری فلمی گانا ہے۔مہ ناز نے اُردو فلموں کے ساتھ ساتھ پچاس سے زائد پنجابی فلموں میں بھی گانے گائے۔ 1975ء میں ہدایت کار مسعود پرویز کی پنجابی فلم ’’میرا ناں پاٹے خان‘‘ میں مہ ناز کی آواز میں پہلا پنجابی گانا ’’رانجھن یار وے‘‘ تھا جس کوحزیںقادری نے لکھا اور موسیقی بخشی وزیر نے دی، یہ گانا بابرہ شریف پر فلم بند ہوا۔ مہ نازکی پنجابی فلموں میں آج دی گل، جوڑتوڑ دا بادشاہ، اتھرا، دو غلا، اَج دی تازہ خبر، طوفان، پنڈی وال، دارا، استاد شاگرد، بدتمیز، غیرت، جٹ کڑیاں توں ڈردا، مفرور،قانون، جبرو، بے گناہ، عالی جاہ، مولاجٹ، امانت، بابرخان،قسمت، یہ آدم، ضدی میراناں، زہرِقاتل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔یہی نہیں کئی سندھی فلموں کے لیے بھی نغمہ سرائی کی۔ ان کا پہلا سندھی گانا فلم دھرتی دل وارن جی‘‘ تھی جس میں موسیٰ کلیم کا لکھا ہوا گانا موسیقار ظفر علی نے کمپوز کیا جس کے بول تھے۔ ’’جندڑی توتاں گوریاں‘‘۔ مہ ناز کے گائے ہوئے گانے سب سے زیادہ بابرہ شریف پر فلم بند ہوئے۔ فلموں کی تمام بڑی اداکارائوں جن میں شبنم، زیبا، رانی، سنگیتا، ممتاز، نشو، دیبا، کویتا، نجمہ، نمی، مسرت شاہین، آسیہ، انجمن شامل ہیں، مہ ناز کی آواز ان پر فلم بند کیے ہوئے گانوں کے لیے موزوں تھی۔ فلم ’’آتش‘‘ کا ایک گانا جو چائلڈ اسٹار علی غفران پر فلم بند ہوا، مہ ناز نے اسے اتنی خوب صورتی سے گایا، لگتا تھا یہ بچہ ہی گارہا ہے۔ اس گانے کے بول تھے ’’آگلے شے لگالے، میلی چھوتی چھوتی بانہوں میں خود کو چھپالے‘‘۔ مہ ناز کے کئی گانے ایسے بھی ہیں جو فلمیں ریلیز نہ ہوسکیں۔ ان میں نغمہ نگار و ہدایت کار شیون رضوی کی فلم ’’نغمات کی رات‘‘ کا گانا’’اس مطلبی دنیا کو کوئی پیار سکھادے‘‘، ہدایت کارہ سنگیتا کی فلم ’’شعلہ اور شبنم‘‘ کا گانا’’نہ تم رہوگے نہ ہم رہیں گے خدا کی بستی یوں ہی رہے گی‘‘ تسلیم فاضلی نے لکھا اور کمال احمدنے کمپوز کیا۔ ہدایت کارہ شمیم آراء کی فلم ’’ہم اور تم‘‘ میں مہ ناز نے اے نیر کے ساتھ دو ڈوئیٹ ’’ہم اور تم، تم اور ہم جرم وفا سو بار کریں گے، مرتے دم تک پیار کریں گے‘‘ اور ’’موسم کوئی آئے موسم کوئی جائے، میں نہ بھولوں گا تجھ کو وعدہ ہے میرا‘‘ تسلیم فاضلی نے ایم اشرف کی موسیقی میں لکھے جو ریڈیو پر مسلسل نشر ہوتے رہے۔ 1988ء میں ناروے میں رہنے والے پاکستانی فلم ساز غفور احمد بٹ نے ہیروئن جیسے نشہ آور زہر پر بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی کے والد شاعر کیفی اعظمی(مرحوم)سے اپنی فلم’’زندگی کے سوداگر‘‘ کے لیے ایک گانا لکھوایا جو موسیقار وجاہت عطرے نے مہ ناز سے گوایا، اس گانے کے بول تھے۔کیسی بھیانک سازش اپنی سرحد کے اُس پار ہوئینشہ آور گولیاں لے کر دشمن کی یلغار ہوئی مہ ناز کو دس نگار ایوارڈ ملے 1977ء سے 1982ء تک مسلسل ساتھ ایوارڈ حاصل کیے جو انہیں فلم سلاخیں، پلے بوائے، بندش، فربانی، بیوی ہو تو ایسی، مہربانی، کبھی الوداع نہ کہنا پر ملے، یہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔ 1987ء میں فلم ’’کندن‘‘،1988ء میں فلم ’’بازار حُسن‘‘،1990ء میں فلم ’’بلندی‘‘ اور 1991ء میں فلم ایک اور لو اسٹوری‘‘ پر دیئے گئے۔ اس کے علاوہ پی ٹی وی نے بہترین گلو کارہ کا ایوارڈ دیا۔ مہ ناز کو دو مرتبہ نیشنل ایوارڈ اور سات مرتبہ گریجویٹ ایوارڈ ملے۔ 2004 ء میں امریکا میں نارتھ کیرولینا کی اُردو یونیورسٹی نے ایوارڈ سے نوازا۔ جب کہ حکومت پاکستان نے ان کو تمغۂ حُسن کارکردگی عطا کیا۔ مہ ناز نے تین سو سے زائد فلموں میں قریباً پانچ سو گانے ریکارڈ کرائے۔ مہ ناز آج اس دنیا میں نہیں لیکن ان کے گائے ہوئے گیت، غزلیں، گانے ان کی آواز کو ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔