عیدوں کی عید، عیدمیلادالنبی ﷺ
اسپیشل فیچر
موسمِ بہار کی ایک دل آویز اور نورانی صبح تھی۔ ماہِ ربیع الاوّل کی بارہویں تاریخ دو شنبہ (پیر)کی مبارک صبح تھی،جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کاچاند۔یعنی حضرت عبداللہؓ کے مبارک گھر میں حضرت بی بی آمنہ ؓکے بطن اطہر سے تاج دارِ عرب وعجم، محسن کائنات، روحِ کائنات، سیّدالانبیا والمرسلین، تاج دارِ ختمِ نبوت پیغمبر انقلاب حضرت محمدمصطفیٰ ؐ اس بزم ِ عالم میں جلوہ گر ہوئے۔ آمدِ مصطفیٰؐسے ہر طرف نُور پھیل گیا …ہر جانب روشنی چھا گئی… ہر سمت اُجالا ہو گیا … چہار سُو توحیداور رسالت کے چاند جگمگانے لگے…آپؐ آئے تو سارے جہاں کونورِ نبوت اور شمع رسالت سے روشن ومنور کردیا… جس سے کائنات ِ ارض وسماء کا کونا کونا بقعۂ نور بن گیا۔جس سُہانی گھڑی چمکا طیبہ کاچانداُس دِل افروز ساعت پہ لاکھوں سلامعید کا معنی اور مفہوم بیان کر تے ہوئے امام راغب اصفہانی (متوفی 502ھ) ر قم طراز ہیں کہ ’’عید‘‘ لغت کے اعتبارسے’’ اُس دن کو کہتے ہیں کہ جو بار بار لوٹ کر آئے‘‘ اور اصطلاحِ شریعت میں عید الفطر اور عید الا ضحی کو کہتے ہیں اور یہ دن شر یعت میںخوشی منانے کے لیے مقرر کیا گیاہے۔(المفردات)علامہ غلام رسول سعیدی کے الفاظ میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شر عی اور اصطلا حی عیدیں تو صرف عید الفطر اور عید الا ضحی ہیں اور یوم عر فہ اور یوم جمعہ عر فاً عید ہیںاور جس دن کوئی نعمت اور خوشی حاصل ہو، وہ بھی عر فاًعید کا دن ہے اور تمام نعمتوں کی اصل سیّد نا محمد مصطفی ﷺ کی ذات گرامی ہے۔سو جس دن یہ عظیم نعمت حاصل ہوئی۔ وہ تمام عیدوں سے بڑھ کر عید ہے اور یہ بھی عر فاً عید ہے، شرعاً عید نہیں ہے۔ اس لیے مسلمان ہمیشہ سے اپنے نبی کریمﷺ کی ولادت کے دن یعنی بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی ﷺ مناتے ہیں۔(تفسیر تبیان القرآن،جلد3)میلادُ النبی ﷺ…’’حضور نبی کریمﷺ کی ولادت باسعادت کا دن‘‘۔ عید اور خوشی کا یہ دن مسلمانوں کا عظیم تہوار ہے،جو سال کے بارہ مہینوں میں بالعموم اورماہ ِ ربیع الاوّل میں بالخصوص اوربارہ ربیع الاوّل کو خصوصاً انتہائی عقیدت ومحبت، جوش وخروش اور ذوق وشوق کے ساتھ منایاجاتا ہے اور اس دن خصوصی اجتماعات اور دینی محافل کااہتمام کیاجاتا ہے، جن میں حضور سیّد عالمؐ کی ولادت مبارکہ، آپ ؐ کی سیرت طیبہ،آپؐ کے خصائص وشمائل ، آپ ؐکے معجزات اور آپ ؐ کی عظمت وفضائل بیان کیے جا تے ہیں اور آپؐ کی بارگاہ میں بہ کثرت درودشریف، نعتیں اورصلوٰۃ وسلام کا نذرانہ پیش کیا جاتاہے اور فقیروں اور مسکینوں میں کھانا وغیرہ تقسیم کیا جاتاہے، ان محافل کو عرفِ عام میں ’’میلاد‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ہر خوشی اور مسرت حاصل ہونے کے دن کے لیے لفظ ’’عید‘‘استعمال ہو تا ہے اور جس دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نعمت ورحمت نازل ہو تو وہ بدرجہ اولیٰ عید کا دن ہو تاہے اور بارہ ربیع الاوّل کو تمام اہل ایمان عید کہتے ہیںاور اس دن کو عید اس لیے کہتے ہیں کہ اس دن اللہ تعالیٰ کی سب سے عظیم ترین نعمت (حضور رحمت ِدوعالمؐ)کا نزول ہوا، جس دن اللہ تعالیٰ کے محبوب، روح کائنات اور تمام نعمتوں کی جان یعنی حضور سیّد عالم ؐ اس گلشن ِہستی میں رونق افروز ہوئے، وہ دن اگر عید کانہیں تو پھر کون سا دن عید کا ہو گا…بلا شبہ! یومِ میلادُ النبیؐ، اہل ایمان کے لیے یقیناًتما م عیدوں (یعنی عیدالفطر، عیدالاضحی ،یوم الجمعہ، یوم عرفہ وغیرہ) سے بڑھ کر عید کادن ہے، کیوں کہ باقی تمام عیدیں اور اللہ تعالیٰ کی تمام ترنعمتیں (یعنی اسلام، قرآن، آل اولاد، مال ومتاع،ہاتھ پائوں، آنکھیں وغیرہ)سب اسی نعمت کے صدقے سے ہمیں نصیب ہوئی ہیں۔ نثار تیری چہل پہل پہ ہزار عیدیں ربیع الاوّلسوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منارہے ہیںنعمت حاصل ہونے کے دن کو عید کہنا، قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عر ض کی کہ اے اللہ ! ہم پراپنی نعمتوں کا دسترخوان اُتار، تاکہ وہ ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے عید کا دن ہوجائے ۔ چناں چہ قرآن مجید میں ارشاد خداوند کریم ہے’’ عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی ،اے اللہ! اے ہمارے پر ور دگا ر! ہم پر آسمان سے خوان (نعمت ِطعام) نازل فر ما دے تاکہ (اس کے اُترنے کا دن ) ہمارے لیے عید ہوجائے، ہمارے اگلوں کے لیے بھی اور ہمارے پچھلوں کے لیے بھی اور خوانِ نعمت تیری طرف سے (تیری قدرت کی اور میری نبوت کی) نشانی ہو اور ہمیں رزق عطا کر اور تُو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔‘‘(سورۃ المائدہ)اس آیت مبارکہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس دن کو اپنی تمام اُمت کے لیے عید قرار دے رہے ہیں جس دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت (خوان طعام) نازل ہوگی۔ پھر آپ اندازہ کیجیے کہ جس دن اللہ تعالیٰ کے محبوب، روحِ کائنات اور تمام نعمتوں کی جان یعنی حضورسید عالم ﷺ اس گلشن ہستی میں جلوہ گر ہوئے، وہ دن اگر عید کا نہیں تو پھر کون سا دن عید کا ہوگا؟ بلا شبہ یوم میلاد النبی ﷺ ! اہل ایمان کے لیے یقینا تمام عیدوں (یعنی عید الفطر، عید الاضحی ، یوم الجمعہ ، یومِ عرفہ وغیرہ) سے بڑھ کر عید ہے، کیوں کہ باقی تمام عیدیں بھی تو اسی دن کے صدقے ہمیں نصیب ہوئی ہیں۔صدر الا فاضل مولانا سیّدمحمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمتہ (متوفی 1367ھ) اس آیت کریمہ کے تحت لکھتے ہیں ’’یعنی ہم اس (خوان طعام) کے نزول کے دن کو عید منائیں، اس کی تعظیم کریں ، خوشیاں منائیں، تیری عبادت کریں، شکر بجا لائیں ۔اس سے معلوم ہوا کہ جس روز اللہ تعالیٰ کی کوئی خاص رحمت نازل ہو، اس دن کو عید منانا اور خوشیاں منانا، شکر الہٰی بجا لانا طریقۂ صالحین ہے اور کچھ شک نہیں کہ حضور سیّد عالم ﷺ کی تشریف آوری اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت اوربزرگ ترین رحمت ہے، اس لیے حضور اکرم ﷺ کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکر الہٰی بجا لانا اور اظہارِ فرحت و سرور کر نا مستحسن و محمود اور اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے‘‘۔(تفسیرخزائن العرفان)اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب امام الا نبیا ، تاج دار ختم نبوت حضرت محمد مصطفی ﷺکو مبعوث فر ما کر تمام صاحبان ایمان پر احسان جتایا۔ چناںچہ ارشادباری تعالیٰ ہے، ’’ بلاشبہ اللہ نے مومنوں پربڑا احسان فرمایا،جب اس نے ان میںایک عظمت والا رسولﷺ بھیجا انہی میں سے جو اُن پر اس کی آیات پڑھتا ہے اور ان (کے باطن) کو پاک کر تا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اوراس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘( آل عمران)اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے رسولؐ اللہ کی تشریف آوری کو احسان کے طور پر ذکر فر مایا ہے۔بلاشبہ حضور رحمت دوعالمؐ کی ولادت باسعادت عالم انسانیت پراحسان عظیم ہے۔ واضح رہے کہ احسان نعمت کے نزول وحصول پرہو تا ہے، لہٰذا حضور سیّد عالمؐ کی ذات گرامی نعمت قرار پائی۔ اللہ تعالیٰ کی جتنی نعمتیں ہیں، ان کا ذکر کر نا با عث فلاح و نجات اور ان نعمتوں کا شکر بجا لانا اور تحدیث نعمت کر نا ضروری ہے اور حضور اکرم ؐ چوں کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں عظیم ترین نعمت ہیں۔اس لیے آپ ؐ کا ذکر خیر کرنا دنیا و آخرت میںکامیابی کا ذریعہ ہے اور محافلِ میلاد کا انعقاد ، حضور اکرم ؐ کے ذکرِ پاک کی ایک عظیم اوربہترین صورت ہے۔احسان اس لیے جتایا جاتا ہے تاکہ اس احسان ونعمت کو یادر کھا جائے ، اس کا تذکرہ کیا جائے، اسے کبھی فراموش نہ کیا جائے بلکہ اس نعمت و رحمت اور اس فضل واحسان کا خوب چر چا کیا جائے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فر مان ہے’’ اور تم اپنے رب کی نعمت کا خوب چر چا کرو۔‘‘ (سورۃ الضحیٰ:آیت11)پھر اللہ تعالیٰ نے اس فضل و رحمت اور نعمت و احسان کے چر چے کے ساتھ اس پر خوشیاں منانے کا بھی حکم فر مایا ہے۔چناں چہ ار شاد باری تعالیٰ ہے ’’(اے رسول محترمؐ) آپ فرما دیجیے کہ (یہ سب کچھ ) محض اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت سے ہے۔ پس تم (سب مومنوں ) کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال ودولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کر تے ہیں۔‘‘(سورئہ یونس: آیت58)اس آیت مبارکہ سے یہ واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہر فضل و کر م اور اس کی نعمت و رحمت کے حصول پر فرحت وخوشی کا اظہار کر نا چاہیے اور خوشی و مسرت کا اظہار کر نے کے کئی طریقے ہوتے ہیں ،مثلاً اُس نعمت اور رحمت کا خوب ذکرکر نا، اللہ تعالیٰ کی راہ میں صد قہ و خیرات کر نا، محفلیں منعقد کر نا (مثلاً بچے کی ولادت پر عقیقہ ، نکاح کی خوشی میں دعوتِ ولیمہ وتقریب طعام کااہتمام کرنا )و غیرہ ۔ چوںکہ حضور سیّد عالم ﷺ کی ذات گرامی، تمام مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ورحمت ہے، اس لیے آپ ﷺ کی آمد کا دن مسلمانوں کے لیے تمام عیدوں سے بڑھ کر عید کا دن ہے ۔ لہٰذا آپ ﷺ کی آمدمبارکہ پر مومنوںکو بے پناہ خوشی و مسرت منانی چاہیے اور محفل میلاد النبی ﷺ منعقد کر نا اجتماعی طور پر خوشی کے اظہار کی ایک بہترین اور عظیم صورت اور روایت ہے۔حضور سیّد عالم ﷺ اس بزم جہاں میں ’’پیر‘‘ کے دن تشریف لائے، اس لیے آپ ﷺ اظہارِ تشکر کے لئے ہر ’’پیر‘‘ کے دن روزہ رکھتے تھے۔ چناں چہ حضرت ابو قتا دہ ؓسے روایت ہے کہ جب رسولؐ اللہ سے پوچھا گیا کہ یارسولؐ اللہ!آپ ہر پیر کے دن روزہ کیوں رکھتے ہیں؟ تو آپ ؐ نے ارشاد فر مایا ’’ یہ وہ دن ہے جس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی الہٰی نازل(ہونے کی ابتدا) ہوئی۔‘‘(صحیح مسلم، مشکوٰۃ المصابیح)اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ رسولؐ اللہ ہر پیر کے دن روزہ رکھتے تھے۔ نیز یہ کہ آپ ؐ نے خود اپنے یومِ میلاد کی عظمت و اہمیت کو اجاگر بھی کیا اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو ظاہر کر تے ہوئے تحدیثِ نعمت کے طور پر اللہ تعالیٰ کا (روزے کی صورت میں) شکربھی اد اکیا۔احادیث مبارکہ کی کتب میںیہ روایت منقول ہے کہ ابو لہب جو ایک مشہور کافراور حضور سیّد عالمؐ کے نسبی رشتے میں چچا تھا۔جب حضور نبی کریمؐ کی ولادت مبارک ہو ئی تو ابو لہب کی لونڈی( کنیز) ثویبہ نے آپؐ کی ولادت کی خوشخبری اپنے مالک ابو لہب کو سنائی تو ابولہب نے اسی وقت حضور اکرمؐ کی ولادت کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو اپنی غلامی سے آزاد کر دیا۔جب ابو لہب مر گیا تو اس کے گھر والوں میں سے حضرت عباس ؓنے اُسے خواب میں دیکھا اوراُس کا حال دریافت کیا، تو اُس نے کہاکہ کفر کی وجہ سے دوزخ کے عذاب میں مبتلا ہوں مگرہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ہر پیر کے دن میرے عذاب میں کچھ تخفیف(کمی) ہوجاتی ہے اور جس انگلی سے میں نے اشارہ کرکے اپنی لونڈی ثویبہ کو غلامی سے آزادکیاتھا،اس انگلی سے مجھے(پانی وغیرہ) پلایا جاتاہے۔( صحیح بخاری، فتح الباری)٭علّامہ ابن الجزری (متوفی 833ھ) فرماتے ہیں کہ جب ابولہب ایسے کافر، جس کی مذمت میں قرآن مجید کی ایک سورت (سورۃ اللہب)نازل ہوئی، اُسے (حضور اکرمﷺ کے میلاد کی خوشی منانے پر)یہ انعام ملاتو اُس مسلمان کو کیا صلہ ملے گا جو اپنے رسول کریمﷺ کی ولادت کی خوشی مناتا ہے، مجھے میری عمر کی قسم! اُس کی جزایقینایہی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اسے جنتِ نعیم میں داخل فرمائے گا۔ (المواھب اللدنیہ)٭محقق علی الاطلاق حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ (متوفی 1052ھ) ثویبہ کوآزاد کرنے اور ابولہب کے عذاب میں تخفیف کا ذکر کرنے کے بعداپنی مایہ ناز کتاب ’’مدارج النبّوت‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں ’’ اس حدیث میں رسول ؐاللہ کی ولادت کی شب’’ محفل میلاد‘‘ منعقد کرنے والوں اور اس پر خوشیاںمنانے والوں کے لیے دلیل ہے کہ وہ اس پر مال ومتاع خرچ کرتے ہیں کیوں کہ ابولہب جو کافر تھا اور ا س کی مذمت میں قرآنی سُورہ نازل ہوا، جب اُسے بھی میلاد النبی ؐ کی خوشی منانے اور اپنی لونڈی (ثویبہ) کے دودھ کوآنحضرت ؐکے لیے خرچ کرنے کی وجہ سے جزا دی گئی تو اس مسلمان وموحدکی جزا کا عالم کیا ہوگاجو محبت اور خوشی سے لبریز ہوکر اپنا مال ومتاع خرچ کرتا ہے۔‘‘ (مدارج النبوت)حاصل ِکلام یہ ہے کہ حضور رحمت دوعالمؐ کے میلاد شریف کی برکت سے نہ صرف حضرت ثویبہ کو غلامی سے آزادی ملی بلکہ لاتعداد غلاموں کونعمت ِ آزادی ملی …ابو لہب ایسے کافر کو عذاب ِ دوزخ میں تخفیف ملی …اہل ِکفر کوایمان کی دولت ملی…اہل ضلالت کو رشد وہدایت کی سعادت ملی… تمام مخلوقات کو رحمت ِ مصطفوی ؐ میسر آئی… اہلِ قرن (زمانہ)کو افضل ترین زمانہ ملا…بے زبانوں اور بے جانوں کوبھی سلام وکلام اور کلمہ پڑھنے کا شرف ملا… اہل لسان کو فصاحت و بلاغت کا عظیم شاہکار ملا … اہل ایمان صحبت یافتہ کو ’’صحابیت‘‘ ایسی انمول ترین نعمت وسعادت حاصل ہوئی … اور ان شاء اللہ! میلادُ النبی ؐ کی برکت سے تمام صاحبان ایمان کو دنیوی اور اُخروی نعمتیں، سعادتیں، جنت الفردوس کی اعلیٰ ترین دولت، رفاقت مصطفوی ؐ اور دیدار ِ خداوندی ایسی لازوال اورعظیم الشان نعمتیں ملیں گی، جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے والد محترم حضرت شاہ عبدالرحیم ؒ فرماتے ہیںکہ’’ میں میلاد شریف کے دنوں میں ہرسال حضورنبی کریمؐ کے میلاد شریف کی خوشی میں کھانا پکوایاکرتا تھالیکن ایک سال مجھے سوائے بھنے ہوئے چنوںکے اور کچھ مجھے میسرنہیں ہوا۔ چناں چہ میں نے وہی بھنے ہوئے چنے لوگوں میں تقسیم کردیے۔اسی رات کو خواب میں مجھے حضور نبی کریمؐ کی زیارت نصیب ہوئی تو میں نے دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے حضورسیّد عالم ؐ کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اورحضوراکرمؐ اُن سے بہت خوش نظر آرہے ہیں۔‘‘ (الدرالثمین)٭ شیخ المشائخ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی علیہ الرحمۃ(متوفی1317ھ) فرماتے ہیںکہ’’اور مشرب(طریقہ) فقیر کایہ ہے کہ محفل مولد(میلاد) میں شریک ہوتا ہوں بلکہ ذریعہ برکات سمجھ کرہر سال منعقد کرتا ہوں اور قیام میں لطف ولذت پاتاہوں۔‘‘(فیصلہ ہفت مسئلہ)٭ حضرت علامہ عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں… ’’جس وقت بھی محفل میلاد کی جائے ، باعثِ ثواب ہے اور حرمین شریفین ، بصرہ ، شام ، یمن اور دوسرے ممالک کے لوگ بھی ربیع الاوّل کا چاند دیکھ کر میلاد کا اہتمام کرتے ہیں ، چراغاں کرتے ہیں ، خوشی کا اظہار کرتے ہیں ، کارِ خیر کرتے ہیں ، قرآن پڑھتے ہیں،نعت اور سماعت میلاد کا اہتمام کرتے ہیں اور روح پر ور محافل کا انعقاد کرتے ہیں ، یہ ان کے معمولات میں شامل ہیں‘‘۔(مجموعۃالفتاویٰ)حاصلِ کلام یہ ہے کہ تمام عالم اسلام میں ماہ ربیع الاوّل میں محافل ِمیلادکا انعقاد اور خوشی ومسرت کا اظہار کرنا،انواع واقسام کے صدقہ وخیرات کرنااور دعوت طعام کا اہتمام کرناوغیرہ ہمیشہ سے مسلمانوں کا محبوب طرزِعمل رہاہے۔اور میلاد شریف کے خواص میں سے یہ ہے کہ میلاد شریف کی برکت سے ہر سال اللہ تعالیٰ کاخاص فضل وکرم ہوتا ہے۔وہ لوگ خدا شاہد قسمت کے سکندر ہیںجو سرورِ عالمؐ کا میلاد مناتے ہیںعالم اسلام کے تمام مسلمان بارہ ربیع الاوّل کو یہ عظیم الشان اور ایمان افروز تہوار جشن عید میلادُ النبیؐ ہمیشہ سے مناتے چلے آرہے ہیں اور جب تک یہ دُنیا قائم ودائم ہے اور ایک بھی مسلمان روئے زمین پرباقی ہے، یہ جشن عید میلادُ النبیؐ اسی طرح عقیدت ومحبت، خوشی ومسرت اورمکمل آب وتاب کے ساتھ منایاجاتا رہے گا اور اہل ایمان میلاد شریف کی برکتوں، رحمتوں اور دنیوی واُخروی سعادتوں سے فیض یاب ہوتے رہیں گے۔حضور رحمتِ دوعالمؐ کی حیاتِ مبارکہ کے بارے میں اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ یقین و یمین کے ساتھ کہاجا سکتا ہے کہ اتنا کسی اور شخصیت کے بارے میں نہیں لکھا گیا۔آپ ؐ کی انقلاب وحیات آفرین سیرت کا ایک ایک گوشہ… ایک ایک انگ…ایک ایک جہت… ایک ایک پہلو … ایک ایک پیش گوئی اورایک ایک معجزے کو مؤرخین ، اہلِ سیر علماء اورمحدثینِ کرام نے اقوامِ عالم کے سامنے اجاگر کیا اور دنیوی واُخروی سعادتیں پائیں اور حقیقت یہ ہے کہ حضور سیّدعالمؐ کی سیرت نگاری کبھی کم ہونے والی نہیں ہے،لیکن اس عظیم صف میں جگہ پانا باعث ِ سعادت اورذریعۂ نجات ہے۔اوراسی طرح آپؐ کے سوانح نگاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے ،جس کا کم ہونابھی ناممکن ہے ،لیکن اس میں جگہ پالینا قابل عزت وعظمت اورباعث فخرو سعادت ہے۔ چناں چہ میں نے بھی حضورِ رحمت ِدوعالمؐ کی سیرتِ طیبہ پرکچھ لکھنے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے یہ چند سطوررقم کی ہیں۔اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبول ومنظور فرمائے اور میرے لیے باعث شفاعتِ مصطفی ﷺ اور ذریعۂ نجات بنائے اور اللہ جل شانہ کے پیارے حبیب آقائے دوعالمﷺ کی بارگاہ اقدس میں عاجزانہ التجا ہے کہچمک تجھ سے پاتے ہیں، سب پانے والےمیرا دل بھی چمکا دے ، چمکانے و الےعلّامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کی دُعا’’اے اللہ! میرا کوئی عمل ایسا نہیں ہے جسے تیرے دربار میں پیش کرنے کے لائق سمجھوں۔ میرے تمام اعمال فسادِ نیت کا شکار ہیں، البتہ مجھ فقیرکا ایک عمل صرف تیری ذاتِ پاک کی عنایت کی وجہ سے بہت شاندار ہے اور وہ یہ ہے کہ مجلسِ میلاد کے موقع پر میں کھڑے ہو کر سلام پڑھتاہوں اور بہت ہی عاجزی وانکساری اور خلوص ومحبت کے ساتھ تیرے حبیب پاک ﷺ پردُرودوسلام بھیجتا ہوں… اے اللہ! وہ کون سا مقام ہے جہاں میلادمبارک سے زیادہ تیری خیر وبرکت کا نزول ہو تا ہے۔ اس لیے اے ارحم الراحمین! مجھے پختہ یقین ہے کہ میرا یہ عمل کبھی بے کار نہیں جائے گا بلکہ یقیناتیری بارگاہ میں قبول ہو گا اور جو کوئی درود وسلام پڑھے اور اس کے ذریعے دعا کرے وہ کبھی مسترد نہیں ہوسکتی۔ (اخبارالاخیار)