عیدوں کی عید، عیدمیلادالنبی ﷺ

عیدوں کی عید، عیدمیلادالنبی  ﷺ

اسپیشل فیچر

تحریر : مولانامحمد ناصر خان چشتی


موسمِ بہار کی ایک دل آویز اور نورانی صبح تھی۔ ماہِ ربیع الاوّل کی بارہویں تاریخ دو شنبہ (پیر)کی مبارک صبح تھی،جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کاچاند۔یعنی حضرت عبداللہؓ کے مبارک گھر میں حضرت بی بی آمنہ ؓکے بطن اطہر سے تاج دارِ عرب وعجم، محسن کائنات، روحِ کائنات، سیّدالانبیا والمرسلین، تاج دارِ ختمِ نبوت پیغمبر انقلاب حضرت محمدمصطفیٰ ؐ اس بزم ِ عالم میں جلوہ گر ہوئے۔ آمدِ مصطفیٰؐسے ہر طرف نُور پھیل گیا …ہر جانب روشنی چھا گئی… ہر سمت اُجالا ہو گیا … چہار سُو توحیداور رسالت کے چاند جگمگانے لگے…آپؐ آئے تو سارے جہاں کونورِ نبوت اور شمع رسالت سے روشن ومنور کردیا… جس سے کائنات ِ ارض وسماء کا کونا کونا بقعۂ نور بن گیا۔جس سُہانی گھڑی چمکا طیبہ کاچانداُس دِل افروز ساعت پہ لاکھوں سلامعید کا معنی اور مفہوم بیان کر تے ہوئے امام راغب اصفہانی (متوفی 502ھ) ر قم طراز ہیں کہ ’’عید‘‘ لغت کے اعتبارسے’’ اُس دن کو کہتے ہیں کہ جو بار بار لوٹ کر آئے‘‘ اور اصطلاحِ شریعت میں عید الفطر اور عید الا ضحی کو کہتے ہیں اور یہ دن شر یعت میںخوشی منانے کے لیے مقرر کیا گیاہے۔(المفردات)علامہ غلام رسول سعیدی کے الفاظ میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شر عی اور اصطلا حی عیدیں تو صرف عید الفطر اور عید الا ضحی ہیں اور یوم عر فہ اور یوم جمعہ عر فاً عید ہیںاور جس دن کوئی نعمت اور خوشی حاصل ہو، وہ بھی عر فاًعید کا دن ہے اور تمام نعمتوں کی اصل سیّد نا محمد مصطفی ﷺ کی ذات گرامی ہے۔سو جس دن یہ عظیم نعمت حاصل ہوئی۔ وہ تمام عیدوں سے بڑھ کر عید ہے اور یہ بھی عر فاً عید ہے، شرعاً عید نہیں ہے۔ اس لیے مسلمان ہمیشہ سے اپنے نبی کریمﷺ کی ولادت کے دن یعنی بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی ﷺ مناتے ہیں۔(تفسیر تبیان القرآن،جلد3)میلادُ النبی ﷺ…’’حضور نبی کریمﷺ کی ولادت باسعادت کا دن‘‘۔ عید اور خوشی کا یہ دن مسلمانوں کا عظیم تہوار ہے،جو سال کے بارہ مہینوں میں بالعموم اورماہ ِ ربیع الاوّل میں بالخصوص اوربارہ ربیع الاوّل کو خصوصاً انتہائی عقیدت ومحبت، جوش وخروش اور ذوق وشوق کے ساتھ منایاجاتا ہے اور اس دن خصوصی اجتماعات اور دینی محافل کااہتمام کیاجاتا ہے، جن میں حضور سیّد عالمؐ کی ولادت مبارکہ، آپ ؐ کی سیرت طیبہ،آپؐ کے خصائص وشمائل ، آپ ؐکے معجزات اور آپ ؐ کی عظمت وفضائل بیان کیے جا تے ہیں اور آپؐ کی بارگاہ میں بہ کثرت درودشریف، نعتیں اورصلوٰۃ وسلام کا نذرانہ پیش کیا جاتاہے اور فقیروں اور مسکینوں میں کھانا وغیرہ تقسیم کیا جاتاہے، ان محافل کو عرفِ عام میں ’’میلاد‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ہر خوشی اور مسرت حاصل ہونے کے دن کے لیے لفظ ’’عید‘‘استعمال ہو تا ہے اور جس دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نعمت ورحمت نازل ہو تو وہ بدرجہ اولیٰ عید کا دن ہو تاہے اور بارہ ربیع الاوّل کو تمام اہل ایمان عید کہتے ہیںاور اس دن کو عید اس لیے کہتے ہیں کہ اس دن اللہ تعالیٰ کی سب سے عظیم ترین نعمت (حضور رحمت ِدوعالمؐ)کا نزول ہوا، جس دن اللہ تعالیٰ کے محبوب، روح کائنات اور تمام نعمتوں کی جان یعنی حضور سیّد عالم ؐ اس گلشن ِہستی میں رونق افروز ہوئے، وہ دن اگر عید کانہیں تو پھر کون سا دن عید کا ہو گا…بلا شبہ! یومِ میلادُ النبیؐ، اہل ایمان کے لیے یقیناًتما م عیدوں (یعنی عیدالفطر، عیدالاضحی ،یوم الجمعہ، یوم عرفہ وغیرہ) سے بڑھ کر عید کادن ہے، کیوں کہ باقی تمام عیدیں اور اللہ تعالیٰ کی تمام ترنعمتیں (یعنی اسلام، قرآن، آل اولاد، مال ومتاع،ہاتھ پائوں، آنکھیں وغیرہ)سب اسی نعمت کے صدقے سے ہمیں نصیب ہوئی ہیں۔ نثار تیری چہل پہل پہ ہزار عیدیں ربیع الاوّلسوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منارہے ہیںنعمت حاصل ہونے کے دن کو عید کہنا، قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عر ض کی کہ اے اللہ ! ہم پراپنی نعمتوں کا دسترخوان اُتار، تاکہ وہ ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے عید کا دن ہوجائے ۔ چناں چہ قرآن مجید میں ارشاد خداوند کریم ہے’’ عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی ،اے اللہ! اے ہمارے پر ور دگا ر! ہم پر آسمان سے خوان (نعمت ِطعام) نازل فر ما دے تاکہ (اس کے اُترنے کا دن ) ہمارے لیے عید ہوجائے، ہمارے اگلوں کے لیے بھی اور ہمارے پچھلوں کے لیے بھی اور خوانِ نعمت تیری طرف سے (تیری قدرت کی اور میری نبوت کی) نشانی ہو اور ہمیں رزق عطا کر اور تُو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔‘‘(سورۃ المائدہ)اس آیت مبارکہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس دن کو اپنی تمام اُمت کے لیے عید قرار دے رہے ہیں جس دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت (خوان طعام) نازل ہوگی۔ پھر آپ اندازہ کیجیے کہ جس دن اللہ تعالیٰ کے محبوب، روحِ کائنات اور تمام نعمتوں کی جان یعنی حضورسید عالم ﷺ اس گلشن ہستی میں جلوہ گر ہوئے، وہ دن اگر عید کا نہیں تو پھر کون سا دن عید کا ہوگا؟ بلا شبہ یوم میلاد النبی ﷺ ! اہل ایمان کے لیے یقینا تمام عیدوں (یعنی عید الفطر، عید الاضحی ، یوم الجمعہ ، یومِ عرفہ وغیرہ) سے بڑھ کر عید ہے، کیوں کہ باقی تمام عیدیں بھی تو اسی دن کے صدقے ہمیں نصیب ہوئی ہیں۔صدر الا فاضل مولانا سیّدمحمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمتہ (متوفی 1367ھ) اس آیت کریمہ کے تحت لکھتے ہیں ’’یعنی ہم اس (خوان طعام) کے نزول کے دن کو عید منائیں، اس کی تعظیم کریں ، خوشیاں منائیں، تیری عبادت کریں، شکر بجا لائیں ۔اس سے معلوم ہوا کہ جس روز اللہ تعالیٰ کی کوئی خاص رحمت نازل ہو، اس دن کو عید منانا اور خوشیاں منانا، شکر الہٰی بجا لانا طریقۂ صالحین ہے اور کچھ شک نہیں کہ حضور سیّد عالم ﷺ کی تشریف آوری اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت اوربزرگ ترین رحمت ہے، اس لیے حضور اکرم ﷺ کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکر الہٰی بجا لانا اور اظہارِ فرحت و سرور کر نا مستحسن و محمود اور اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے‘‘۔(تفسیرخزائن العرفان)اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب امام الا نبیا ، تاج دار ختم نبوت حضرت محمد مصطفی ﷺکو مبعوث فر ما کر تمام صاحبان ایمان پر احسان جتایا۔ چناںچہ ارشادباری تعالیٰ ہے، ’’ بلاشبہ اللہ نے مومنوں پربڑا احسان فرمایا،جب اس نے ان میںایک عظمت والا رسولﷺ بھیجا انہی میں سے جو اُن پر اس کی آیات پڑھتا ہے اور ان (کے باطن) کو پاک کر تا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اوراس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘( آل عمران)اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے رسولؐ اللہ کی تشریف آوری کو احسان کے طور پر ذکر فر مایا ہے۔بلاشبہ حضور رحمت دوعالمؐ کی ولادت باسعادت عالم انسانیت پراحسان عظیم ہے۔ واضح رہے کہ احسان نعمت کے نزول وحصول پرہو تا ہے، لہٰذا حضور سیّد عالمؐ کی ذات گرامی نعمت قرار پائی۔ اللہ تعالیٰ کی جتنی نعمتیں ہیں، ان کا ذکر کر نا با عث فلاح و نجات اور ان نعمتوں کا شکر بجا لانا اور تحدیث نعمت کر نا ضروری ہے اور حضور اکرم ؐ چوں کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں عظیم ترین نعمت ہیں۔اس لیے آپ ؐ کا ذکر خیر کرنا دنیا و آخرت میںکامیابی کا ذریعہ ہے اور محافلِ میلاد کا انعقاد ، حضور اکرم ؐ کے ذکرِ پاک کی ایک عظیم اوربہترین صورت ہے۔احسان اس لیے جتایا جاتا ہے تاکہ اس احسان ونعمت کو یادر کھا جائے ، اس کا تذکرہ کیا جائے، اسے کبھی فراموش نہ کیا جائے بلکہ اس نعمت و رحمت اور اس فضل واحسان کا خوب چر چا کیا جائے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فر مان ہے’’ اور تم اپنے رب کی نعمت کا خوب چر چا کرو۔‘‘ (سورۃ الضحیٰ:آیت11)پھر اللہ تعالیٰ نے اس فضل و رحمت اور نعمت و احسان کے چر چے کے ساتھ اس پر خوشیاں منانے کا بھی حکم فر مایا ہے۔چناں چہ ار شاد باری تعالیٰ ہے ’’(اے رسول محترمؐ) آپ فرما دیجیے کہ (یہ سب کچھ ) محض اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت سے ہے۔ پس تم (سب مومنوں ) کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال ودولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کر تے ہیں۔‘‘(سورئہ یونس: آیت58)اس آیت مبارکہ سے یہ واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہر فضل و کر م اور اس کی نعمت و رحمت کے حصول پر فرحت وخوشی کا اظہار کر نا چاہیے اور خوشی و مسرت کا اظہار کر نے کے کئی طریقے ہوتے ہیں ،مثلاً اُس نعمت اور رحمت کا خوب ذکرکر نا، اللہ تعالیٰ کی راہ میں صد قہ و خیرات کر نا، محفلیں منعقد کر نا (مثلاً بچے کی ولادت پر عقیقہ ، نکاح کی خوشی میں دعوتِ ولیمہ وتقریب طعام کااہتمام کرنا )و غیرہ ۔ چوںکہ حضور سیّد عالم ﷺ کی ذات گرامی، تمام مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ورحمت ہے، اس لیے آپ ﷺ کی آمد کا دن مسلمانوں کے لیے تمام عیدوں سے بڑھ کر عید کا دن ہے ۔ لہٰذا آپ ﷺ کی آمدمبارکہ پر مومنوںکو بے پناہ خوشی و مسرت منانی چاہیے اور محفل میلاد النبی ﷺ منعقد کر نا اجتماعی طور پر خوشی کے اظہار کی ایک بہترین اور عظیم صورت اور روایت ہے۔حضور سیّد عالم ﷺ اس بزم جہاں میں ’’پیر‘‘ کے دن تشریف لائے، اس لیے آپ ﷺ اظہارِ تشکر کے لئے ہر ’’پیر‘‘ کے دن روزہ رکھتے تھے۔ چناں چہ حضرت ابو قتا دہ ؓسے روایت ہے کہ جب رسولؐ اللہ سے پوچھا گیا کہ یارسولؐ اللہ!آپ ہر پیر کے دن روزہ کیوں رکھتے ہیں؟ تو آپ ؐ نے ارشاد فر مایا ’’ یہ وہ دن ہے جس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی الہٰی نازل(ہونے کی ابتدا) ہوئی۔‘‘(صحیح مسلم، مشکوٰۃ المصابیح)اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ رسولؐ اللہ ہر پیر کے دن روزہ رکھتے تھے۔ نیز یہ کہ آپ ؐ نے خود اپنے یومِ میلاد کی عظمت و اہمیت کو اجاگر بھی کیا اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو ظاہر کر تے ہوئے تحدیثِ نعمت کے طور پر اللہ تعالیٰ کا (روزے کی صورت میں) شکربھی اد اکیا۔احادیث مبارکہ کی کتب میںیہ روایت منقول ہے کہ ابو لہب جو ایک مشہور کافراور حضور سیّد عالمؐ کے نسبی رشتے میں چچا تھا۔جب حضور نبی کریمؐ کی ولادت مبارک ہو ئی تو ابو لہب کی لونڈی( کنیز) ثویبہ نے آپؐ کی ولادت کی خوشخبری اپنے مالک ابو لہب کو سنائی تو ابولہب نے اسی وقت حضور اکرمؐ کی ولادت کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو اپنی غلامی سے آزاد کر دیا۔جب ابو لہب مر گیا تو اس کے گھر والوں میں سے حضرت عباس ؓنے اُسے خواب میں دیکھا اوراُس کا حال دریافت کیا، تو اُس نے کہاکہ کفر کی وجہ سے دوزخ کے عذاب میں مبتلا ہوں مگرہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ہر پیر کے دن میرے عذاب میں کچھ تخفیف(کمی) ہوجاتی ہے اور جس انگلی سے میں نے اشارہ کرکے اپنی لونڈی ثویبہ کو غلامی سے آزادکیاتھا،اس انگلی سے مجھے(پانی وغیرہ) پلایا جاتاہے۔( صحیح بخاری، فتح الباری)٭علّامہ ابن الجزری (متوفی 833ھ) فرماتے ہیں کہ جب ابولہب ایسے کافر، جس کی مذمت میں قرآن مجید کی ایک سورت (سورۃ اللہب)نازل ہوئی، اُسے (حضور اکرمﷺ کے میلاد کی خوشی منانے پر)یہ انعام ملاتو اُس مسلمان کو کیا صلہ ملے گا جو اپنے رسول کریمﷺ کی ولادت کی خوشی مناتا ہے، مجھے میری عمر کی قسم! اُس کی جزایقینایہی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اسے جنتِ نعیم میں داخل فرمائے گا۔ (المواھب اللدنیہ)٭محقق علی الاطلاق حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ (متوفی 1052ھ) ثویبہ کوآزاد کرنے اور ابولہب کے عذاب میں تخفیف کا ذکر کرنے کے بعداپنی مایہ ناز کتاب ’’مدارج النبّوت‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں ’’ اس حدیث میں رسول ؐاللہ کی ولادت کی شب’’ محفل میلاد‘‘ منعقد کرنے والوں اور اس پر خوشیاںمنانے والوں کے لیے دلیل ہے کہ وہ اس پر مال ومتاع خرچ کرتے ہیں کیوں کہ ابولہب جو کافر تھا اور ا س کی مذمت میں قرآنی سُورہ نازل ہوا، جب اُسے بھی میلاد النبی ؐ کی خوشی منانے اور اپنی لونڈی (ثویبہ) کے دودھ کوآنحضرت ؐکے لیے خرچ کرنے کی وجہ سے جزا دی گئی تو اس مسلمان وموحدکی جزا کا عالم کیا ہوگاجو محبت اور خوشی سے لبریز ہوکر اپنا مال ومتاع خرچ کرتا ہے۔‘‘ (مدارج النبوت)حاصل ِکلام یہ ہے کہ حضور رحمت دوعالمؐ کے میلاد شریف کی برکت سے نہ صرف حضرت ثویبہ کو غلامی سے آزادی ملی بلکہ لاتعداد غلاموں کونعمت ِ آزادی ملی …ابو لہب ایسے کافر کو عذاب ِ دوزخ میں تخفیف ملی …اہل ِکفر کوایمان کی دولت ملی…اہل ضلالت کو رشد وہدایت کی سعادت ملی… تمام مخلوقات کو رحمت ِ مصطفوی ؐ میسر آئی… اہلِ قرن (زمانہ)کو افضل ترین زمانہ ملا…بے زبانوں اور بے جانوں کوبھی سلام وکلام اور کلمہ پڑھنے کا شرف ملا… اہل لسان کو فصاحت و بلاغت کا عظیم شاہکار ملا … اہل ایمان صحبت یافتہ کو ’’صحابیت‘‘ ایسی انمول ترین نعمت وسعادت حاصل ہوئی … اور ان شاء اللہ! میلادُ النبی ؐ کی برکت سے تمام صاحبان ایمان کو دنیوی اور اُخروی نعمتیں، سعادتیں، جنت الفردوس کی اعلیٰ ترین دولت، رفاقت مصطفوی ؐ اور دیدار ِ خداوندی ایسی لازوال اورعظیم الشان نعمتیں ملیں گی، جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے والد محترم حضرت شاہ عبدالرحیم ؒ فرماتے ہیںکہ’’ میں میلاد شریف کے دنوں میں ہرسال حضورنبی کریمؐ کے میلاد شریف کی خوشی میں کھانا پکوایاکرتا تھالیکن ایک سال مجھے سوائے بھنے ہوئے چنوںکے اور کچھ مجھے میسرنہیں ہوا۔ چناں چہ میں نے وہی بھنے ہوئے چنے لوگوں میں تقسیم کردیے۔اسی رات کو خواب میں مجھے حضور نبی کریمؐ کی زیارت نصیب ہوئی تو میں نے دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے حضورسیّد عالم ؐ کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اورحضوراکرمؐ اُن سے بہت خوش نظر آرہے ہیں۔‘‘ (الدرالثمین)٭ شیخ المشائخ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی علیہ الرحمۃ(متوفی1317ھ) فرماتے ہیںکہ’’اور مشرب(طریقہ) فقیر کایہ ہے کہ محفل مولد(میلاد) میں شریک ہوتا ہوں بلکہ ذریعہ برکات سمجھ کرہر سال منعقد کرتا ہوں اور قیام میں لطف ولذت پاتاہوں۔‘‘(فیصلہ ہفت مسئلہ)٭ حضرت علامہ عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں… ’’جس وقت بھی محفل میلاد کی جائے ، باعثِ ثواب ہے اور حرمین شریفین ، بصرہ ، شام ، یمن اور دوسرے ممالک کے لوگ بھی ربیع الاوّل کا چاند دیکھ کر میلاد کا اہتمام کرتے ہیں ، چراغاں کرتے ہیں ، خوشی کا اظہار کرتے ہیں ، کارِ خیر کرتے ہیں ، قرآن پڑھتے ہیں،نعت اور سماعت میلاد کا اہتمام کرتے ہیں اور روح پر ور محافل کا انعقاد کرتے ہیں ، یہ ان کے معمولات میں شامل ہیں‘‘۔(مجموعۃالفتاویٰ)حاصلِ کلام یہ ہے کہ تمام عالم اسلام میں ماہ ربیع الاوّل میں محافل ِمیلادکا انعقاد اور خوشی ومسرت کا اظہار کرنا،انواع واقسام کے صدقہ وخیرات کرنااور دعوت طعام کا اہتمام کرناوغیرہ ہمیشہ سے مسلمانوں کا محبوب طرزِعمل رہاہے۔اور میلاد شریف کے خواص میں سے یہ ہے کہ میلاد شریف کی برکت سے ہر سال اللہ تعالیٰ کاخاص فضل وکرم ہوتا ہے۔وہ لوگ خدا شاہد قسمت کے سکندر ہیںجو سرورِ عالمؐ کا میلاد مناتے ہیںعالم اسلام کے تمام مسلمان بارہ ربیع الاوّل کو یہ عظیم الشان اور ایمان افروز تہوار جشن عید میلادُ النبیؐ ہمیشہ سے مناتے چلے آرہے ہیں اور جب تک یہ دُنیا قائم ودائم ہے اور ایک بھی مسلمان روئے زمین پرباقی ہے، یہ جشن عید میلادُ النبیؐ اسی طرح عقیدت ومحبت، خوشی ومسرت اورمکمل آب وتاب کے ساتھ منایاجاتا رہے گا اور اہل ایمان میلاد شریف کی برکتوں، رحمتوں اور دنیوی واُخروی سعادتوں سے فیض یاب ہوتے رہیں گے۔حضور رحمتِ دوعالمؐ کی حیاتِ مبارکہ کے بارے میں اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ یقین و یمین کے ساتھ کہاجا سکتا ہے کہ اتنا کسی اور شخصیت کے بارے میں نہیں لکھا گیا۔آپ ؐ کی انقلاب وحیات آفرین سیرت کا ایک ایک گوشہ… ایک ایک انگ…ایک ایک جہت… ایک ایک پہلو … ایک ایک پیش گوئی اورایک ایک معجزے کو مؤرخین ، اہلِ سیر علماء اورمحدثینِ کرام نے اقوامِ عالم کے سامنے اجاگر کیا اور دنیوی واُخروی سعادتیں پائیں اور حقیقت یہ ہے کہ حضور سیّدعالمؐ کی سیرت نگاری کبھی کم ہونے والی نہیں ہے،لیکن اس عظیم صف میں جگہ پانا باعث ِ سعادت اورذریعۂ نجات ہے۔اوراسی طرح آپؐ کے سوانح نگاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے ،جس کا کم ہونابھی ناممکن ہے ،لیکن اس میں جگہ پالینا قابل عزت وعظمت اورباعث فخرو سعادت ہے۔ چناں چہ میں نے بھی حضورِ رحمت ِدوعالمؐ کی سیرتِ طیبہ پرکچھ لکھنے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے یہ چند سطوررقم کی ہیں۔اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبول ومنظور فرمائے اور میرے لیے باعث شفاعتِ مصطفی ﷺ اور ذریعۂ نجات بنائے اور اللہ جل شانہ کے پیارے حبیب آقائے دوعالمﷺ کی بارگاہ اقدس میں عاجزانہ التجا ہے کہچمک تجھ سے پاتے ہیں، سب پانے والےمیرا دل بھی چمکا دے ، چمکانے و الےعلّامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کی دُعا’’اے اللہ! میرا کوئی عمل ایسا نہیں ہے جسے تیرے دربار میں پیش کرنے کے لائق سمجھوں۔ میرے تمام اعمال فسادِ نیت کا شکار ہیں، البتہ مجھ فقیرکا ایک عمل صرف تیری ذاتِ پاک کی عنایت کی وجہ سے بہت شاندار ہے اور وہ یہ ہے کہ مجلسِ میلاد کے موقع پر میں کھڑے ہو کر سلام پڑھتاہوں اور بہت ہی عاجزی وانکساری اور خلوص ومحبت کے ساتھ تیرے حبیب پاک ﷺ پردُرودوسلام بھیجتا ہوں… اے اللہ! وہ کون سا مقام ہے جہاں میلادمبارک سے زیادہ تیری خیر وبرکت کا نزول ہو تا ہے۔ اس لیے اے ارحم الراحمین! مجھے پختہ یقین ہے کہ میرا یہ عمل کبھی بے کار نہیں جائے گا بلکہ یقیناتیری بارگاہ میں قبول ہو گا اور جو کوئی درود وسلام پڑھے اور اس کے ذریعے دعا کرے وہ کبھی مسترد نہیں ہوسکتی۔ (اخبارالاخیار)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
 سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

رواں ماہ کی ایک صبح جب آسٹریلوی نوجوانوں نے اپنے انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور فیس بک کے نوٹیفیکیشن کھولے تو انہیں ایک عجیب سا احساس ہوا کہ شاید آن لائن زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ حقیقت یہی ہے ۔آسٹریلیا نے 16 سال سے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس رکھنے اور نئے اکاؤنٹس بنانے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ قانون جسےThe Online Safety Amendment (Social Media Minimum Age) Act 2024 کہا جاتا ہے، نومبر 2024ء میں پارلیمنٹ سے منظور ہوا اور اس سال 10 دسمبرسے نافذ العمل ہو گیا۔ اس کے تحت میٹا، ٹک ٹاک، یوٹیوب، سنیپ چیٹ، ریڈیٹ، ٹویچ اور دیگر بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کو حکم دیا گیاہے کہ وہ 16 سال سے کم عمر صارفین کے اکاؤنٹس بلاک کریں یا انہیں حذف کردیں ورنہ بھاری جرمانے کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہیں۔ آسٹریلوی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے الگورتھم بچوں کی کمزور نفسیات، خود اعتمادی اور ذہنی صحت کو نشانہ بناتے ہیں، اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بجائے والدین کے کمپنیوں کو اس نقصان دہ ماحول سے بچوں کو بچانے کا حکم دیا جائے۔ سوشل میڈیا سکرین ایڈکشن، تنقیدی سوچ میں کمی اور آن لائن ہراسانی جیسی مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔چھوٹے بچے غلط معلومات، غیر اخلاقی مواد اور پرائیویسی خطرات کے سامنے بے بس ہوتے ہیں جبکہ والدین تکنیکی اور ثقافتی دباؤ کے سامنے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔لگتا ہے کہ یہ قانون سوشل میڈیا کی دنیا کے پیٹرن تبدیل کردے گا۔ آسٹریلیا کا یہ اقدام دنیا بھر میں سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ مختلف ممالک نے اس کے متوازی یا مختلف ماڈل پر غور شروع کر دیا ہے جیسا کہ یورپی پارلیمنٹ نے 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پابندی کی حمایت کی ہے، کیو نکہ کمپنیاں الگورتھمز کے ذریعے بچوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ نیوزی لینڈ نے ایک پارلیمانی کمیٹی رپورٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو جلد اسی موضوع پر قانون سازی کے لیے سفارشات دے گی۔ ملائیشیا 2026ء میں اسی طرح کی پابندی نافذ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ سپین نے سوشل میڈیا کے لیے عمر کی حد 14 سے بڑھا کر 16 کرنے یا والدین کی رضا مندی کے ساتھ رسائی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ فرانس اور ناروے بھی مختلف مدتوں اور حدود کے ساتھ اسی معاملے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک عالمی تحریک اب بچوں کی ڈیجیٹل حفاظت کے لیے شروع ہو چکی ہے۔ جیسے جیسے حکومتیں اس موضوع پر غور کریں گی ہر ملک کے اپنے ثقافتی اور سیاسی پیمانے سامنے آئیں گے۔تاہم سوشل میڈیا کے حوالے سے کچھ ملک نرم رویہ اختیار کر رہے ہیں جیسا کہ جنوبی کوریا، جہاں سوشل میڈیا بلیک آؤٹ کی بجائے کلاس رومز میں موبائل فونز کی پابندی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تعلیم میں خلل نہ آئے اور جاپان کے ایک شہر نے سب کے لیے دن میں دو گھنٹے انٹر نٹ استعمال کی حد متعارف کرائی ہے، جسے ڈیجیٹل وقت کا متوازن استعمالکہا جارہاہے۔ ڈنمارک نے سب سے مختلف حکمت عملی اپنائی ہے ، وہاں 15 سال سے کم عمر صارفین کو سوشل میڈیا تک محدود رسائی دینے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، مگر والدین کو 13،14 سال کے بچوں کو اجازت دینے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ہر ملک اور سماج کے لیے ایک ہی حل نہیں ہے۔ بعض جگہوں پر سختی ہے، بعض جگہوں پر لچک اور بعض میں تعلیمی انداز اپنایا جا رہا ہے۔آسٹریلیا کی پابندی نے شدید ردعمل بھی پیدا کیا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں، حقوقِ اظہار کے حامیوں اور نوجوانوں نے حکومت کی اس حد تک مداخلت پر سوالات اٹھائے ہیں مثال کے طور پر،یہ آزادی اظہار کا حق چھیننے جیسا تو نہیں؟ بچے دیگر انٹرنیٹ پلیٹ فارمز یا وی پی این کے ذریعے پابندی کو توڑ سکتے ہیں؟ کیا اس سے نوجوانوں کی سماجی تعاملات اور تعلیمی صلاحیتوں کو نقصان نہیں ہوگا؟انہی نکات کو لے کر آسٹریلیا کی اعلیٰ عدالت میں اس قانون کو چیلنج بھی کیا گیا ہے جس میں 15 سال کے دو بچوں نے کہا ہے کہ ان کا آزادانہ اظہار اور سیاسی معلومات تک رسائی کا حق محدود ہوا ہے۔ آج کا ڈیجیٹل منظرنامہ وہ نہیں رہا جو پانچ سال پہلے تھا۔ سوشل میڈیا صرف تفریح نہیں بلکہ تعلیم، معلومات اور معاشرتی رابطے کا ذریعہ بھی ہے، اسی لیے کوئی بھی پابندی اپنے آپ میں اچھی بری نہیں ہے ۔آسٹریلیا نے اپنی پالیسی کے ذریعے دنیا کو ایک چیلنج دیا ہے کہ بچوں کے تحفظ اور آزادی کے درمیان توازن کہاں ہے؟یہ سوال نہ صرف قانون سازوں کو درپیش ہے بلکہ والدین، اساتذہ اور خود نوجوانوں کے لیے بھی ایک آئینہ ہے۔ کیا دنیا آسٹریلیا کے نقش قدم پر چلتی ہے؟ کیا ہم ایک نئے ڈیجیٹل سماجی معاہدے کی طرف بڑھیں گے؟وقت ہی بتائے گا کہ یہ قدم محفوظ مستقبل کی بنیاد بنتا ہے یا نئی حدود کی کنجی۔

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ایشیا میں پرندوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ، ہالیجی جھیل کراچی سے 82 کلومیٹر اور ٹھٹھہ سے شمال مغرب میں 24 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہالیجی جھیل نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی ماحولیاتی اہمیت کی حامل ہے اور اپنی قدرتی خوبصورتی، میٹھے پانی کے ذخیرے اور بالخصوص آبی پرندوں کے مسکن کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔یہاں تقریباً 200 سے زائد اقسام کے پرندے آتے ہیں ۔کسی زمانے میں مہمان پرندوں کی 500 سے زائد اقسام ہوتی تھی تاہم وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں پرندوں کی تعداد اور اقسام کم ہوتی چلی گئیں۔اس کی ایک بڑی وجہ جھیل کے پانی کی آلودگی بھی ہے۔ اس جھیل سے کراچی شہر کو پانی فراہم کیا جاتا تھا لیکن جب پانی کی یہ سپلائی یہاں سے بند کر کے کینجھرجھیل سے شروع ہوئی تو ہالیجی جھیل کا پانی آلودہ ہونے لگا اور آبی حیات کے لیے یہ مسکن ناقابلِ رہائش ہو گیا اور افزائش نسل کے لیے بھی مناسب نہ رہا۔ہالیجی جھیل کے قیام کا تاریخی پس منظر یوں ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران اتحادی افواج کی کثیر تعداد کراچی میں قیام پذیر ہوئی اور پانی کی ضرورت کے پیشِ نظر ہالیجی جھیل بنانے کا فیصلہ کیا گیا، یوں ایک مصنوعی جھیل وجود میں آئی جو کہ 1943ء میں مکمل ہوئی۔ جھیل کے انسپکٹر کی رہائش گاہ پر آج بھی 1943ء کی تختی لگی ہوئی ہے۔جھیل تقریباً 18 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کی گہرائی مختلف مقامات پر 17 سے 30 فٹ تک ہے۔ اس جھیل کے دلدلی حصے میں مگر مچھوں کی ایک کثیر تعداد ہوا کرتی تھی جوبتدریج کم ہوتے جارہے ہیں ۔ہالیجی جھیل کو رامسر کنونشن کے تحت عالمی اہمیت کی حامل آب گاہ (Wetlands of International Importance) قرار دیا گیا، جو اس کی ماحولیاتی قدر و قیمت کا واضح ثبوت ہے۔رامسر کنونشن عالمی معاہدہ ہے جو دو فروری 1971 ء کو ایران کے شہر رامسر میں آب گاہوں کے تحفظ کے اجلاس دوران طے پایااور 76-1975ء میں مکمل طور پر نافذ کیاگیا ۔ اُس وقت پاکستان میں آٹھ رامسر آب گاہیں تھیں اور اس وقت ان کی تعداد 19 ہوگئی ہے۔ہالیجی بنیادی طور پر بارشوں اور قریبی ندی نالوں کے پانی سے وجود میں آئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جھیل ایک متوازن ماحولیاتی نظام میں تبدیل ہو گئی جہاں پانی، نباتات، مچھلیاں اور پرندے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جھیل کے اردگرد پائے جانے والے آبی پودے، سرکنڈے اور گھاس پرندوں کے لیے قدرتی پناہ گاہ اور افزائشِ نسل کا ذریعہ فراہم کرتے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہالیجی جھیل کو آبی اورمہاجر پرندوں کے لیے ایک محفوظ مسکن سمجھا جاتا ہے۔ہالیجی جھیل انڈس فلائی وے زون کے راستے میں ہونے کے باعث ہر سال سردیوں کے موسم میں سائبیریا، وسطی ایشیا اور یورپ کے مختلف علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کا مسکن بنتی ہے ۔ ان میں فلیمنگو، پیلیکن، بطخوں کی مختلف اقسام، ہیرون، ایگریٹ اور کوٹ شامل ہوتے ہیں۔ یہ پرندے یہاں نہ صرف قیام کرتے ہیں بلکہ خوراک حاصل کرتے اور بعض اقسام افزائشِ نسل بھی کرتی ہیں۔ ہالیجی جھیل کا پرامن ماحول اور وافر خوراک ان پرندوں کے لیے ایک مثالی پناہ گاہ بناتا ہے۔رامسر کنونشن کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں آب گاہوں کا تحفظ، ان کا دانشمندانہ استعمال اور حیاتیاتی تنوع کی بقا کو یقینی بنانا ہے۔ ہالیجی جھیل اس کنونشن کے اصولوں کی عملی مثال ہے کیونکہ یہ جھیل پرندوں کے مسکن کے ساتھ ساتھ مقامی ماہی گیروں، نباتات اور آبی حیات کے لیے بھی ناگزیر اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم ہالیجی جھیل کو درپیش خطرات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی، صنعتی آلودگی، غیر قانونی شکار، پانی کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے عوامل اس جھیل کے قدرتی توازن کو متاثر کر رہے ہیں۔ خاص طور پر پرندوں کے غیر قانونی شکار نے ماضی میں اس مسکن کو شدید نقصان پہنچایا۔ اگرچہ حکومت اور محکمہ جنگلی حیات نے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں لیکن مؤثر عمل درآمد اور عوامی آگاہی کی اب بھی شدید ضرورت ہے۔ہالیجی جھیل کی حفاظت دراصل پرندوں ہی نہیں بلکہ پورے ماحولیاتی نظام کی حفاظت ہے۔ یہ جھیل ہمیں یاد دلاتی ہے کہ آب گاہیں قدرت کا وہ نازک تحفہ ہیں جو انسانی غفلت کی صورت میں تیزی سے تباہ ہو سکتی ہیں۔ رامسر کنونشن کے تحت ہالیجی جھیل کی حیثیت ہمیں یہ ذمہ داری سونپتی ہے کہ ہم اس قدرتی ورثے کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنائیں۔ ہالیجی جھیل پاکستان کے ماحولیاتی خزانے کا ایک قیمتی حصہ ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ، پانی کی سطح پر تیرتے رنگ برنگے پرندے اور قدرتی خاموشی اس جھیل کو ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ اگر ہالیجی جھیل کا تحفظ سنجیدگی سے کیا جائے تو یہ نہ صرف پرندوں کا محفوظ مسکن بنی رہے گی بلکہ رامسر کنونشن کے مقاصد کی تکمیل میں بھی پاکستان کے مثبت کردار کو اجاگر کرے گی۔

آج کا دن

آج کا دن

پہلی کامیاب پرواز 17 دسمبر 1903ء کو امریکی ریاست نارتھ کیرولائنا کے مقام کِٹی ہاک پر اورول رائٹ اور ولبر رائٹ نے پہلی مرتبہ ایک ایسا ہوائی جہاز کامیابی سے اڑایا جو انجن سے چلتا تھا، کنٹرول کیا جاتا تھا اور انسان کو فضا میں لے جانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس طیارے کا نام فلائر ون تھا جس نے تقریباً 12 سیکنڈ تک پرواز کی اور 120 فٹ کا فاصلہ طے کیا۔یہ کارنامہ محض ایک سائنسی تجربہ نہیں تھا بلکہ انسانی تہذیب میں ایک انقلابی قدم تھا۔ رائٹ برادران کی اس کامیابی نے بعد میں ہوابازی، جنگی طیاروں، مسافر بردار جہازوں اور عالمی رابطوں کے پورے نظام کی بنیاد رکھی۔ سیمون بولیوار کا انتقال 17 دسمبر 1830ء کو لاطینی امریکا کے عظیم انقلابی رہنما سیمون بولیوار کا انتقال ہوا۔ بولیوار کو'' لبریٹر‘‘یعنی آزادی دلانے والا کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے سپین کی نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے وینزویلا، کولمبیا، ایکواڈور، پیرو اور بولیویا کو آزادی دلوانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔بولیوار نہ صرف ایک فوجی کمانڈر تھے بلکہ ایک ویژنری سیاسی رہنما بھی تھے۔ ان کا خواب تھا کہ آزاد ہونے والے لاطینی امریکی ممالک ایک مضبوط وفاق کی صورت میں متحد رہیں مگر اندرونی اختلافات، علاقائی سیاست اور اقتدار کی کشمکش نے ان کے خواب کو پورا نہ ہونے دیا۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ مایوسی، بیماری اور تنہائی کا شکار رہے۔ مالمدی قتلِ عام دوسری عالمی جنگ کے دوران 17 دسمبر 1944ء کو یورپ میں ایک انتہائی ہولناک واقعہ پیش آیا جسے مالمدی قتلِ عام کہا جاتا ہے۔ یہ واقعہ بلجیم کے علاقے مالمدی کے قریب پیش آیا جہاں نازی جرمن فوج کے ایس ایس دستوں نے امریکی فوج کے تقریباً 84 جنگی قیدیوں کو گولی مار کر قتل کر دیا۔یہ واقعہBattle of the Bulge کے دوران پیش آیا۔ بعد ازاں یہ واقعہ جنگی جرائم کی ایک نمایاں مثال کے طور پر سامنے آیا۔جنگ کے بعد نیورمبرگ طرز کے مقدمات میں اس قتلِ عام میں ملوث جرمن افسران پر مقدمات چلائے گئے اور کئی کو سزائیں سنائی گئیں۔عرب بہار کا آغاز17 دسمبر 2010ء کو تیونس کے ایک نوجوان پھل فروش محمد بوعزیزی نے پولیس کی بدسلوکی، بے روزگاری اور حکومتی ناانصافی کے خلاف احتجاجاً خود سوزی کرلی۔ یہ واقعہ بظاہر ایک فرد کی ذاتی اذیت کا اظہار تھا مگر اس نے پوری عرب دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔بوعزیزی کی خودسوزی کے بعد تیونس میں عوامی احتجاج شروع ہوا جو جلد ہی ایک عوامی انقلاب میں تبدیل ہو گیا۔ چند ہفتوں میں صدر زین العابدین بن علی اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہو گئے۔ یہی تحریک آگے چل کر عرب بہار کہلائی جس نے مصر، لیبیا، یمن اور شام سمیت کئی ممالک میں سیاسی ہلچل پیدا کی۔

روبوٹک لیمپ:ٹیکنالوجی کا نیا شاہکار

روبوٹک لیمپ:ٹیکنالوجی کا نیا شاہکار

دنیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی میں اب ایک اور حیران کن ایجاد شامل ہو گئی ہے۔ پکسر کے مشہور اچھلتے لیمپ سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا ایک دلچسپ روبوٹک ڈیسک لیمپ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے، جو نہ صرف حرکت کرتا ہے بلکہ دیکھنے، سننے اور بات کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ کیلیفورنیا کی کمپنی ''Interaction Labs‘‘ کی جانب سے تیار کردہ ''اونگو‘‘(Ongo) نامی یہ سمارٹ لیمپ گھروں اور دفاتر کیلئے ایک نئے طرز کی ڈیجیٹل رفاقت پیش کرتا ہے۔ پرومو ویڈیو میں یہ روبوٹ اشیاء اور انسانوں کو تجسس بھری نظروں سے دیکھتا، مدد فراہم کرتا اور ماحول سے تعامل کرتا نظر آتا ہے، جبکہ اس کی رازداری کے تحفظ کیلئے سن گلاسز تک مہیا کیے گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے شوقین افراد اس جدت کو روبوٹکس کے مستقبل کی ایک دلکش جھلک قرار دے رہے ہیں۔کمپنی کے شریک بانی اور سی ای او کریم رخا چاہم (Karim Rkha Chaham) نے بتایا کہ یہ ''جذبات کا اظہارِ کرنے والا‘‘ روبوٹ صارفین کو یاد بھی رکھ سکتا ہے اور ان کی ضروریات کا اندازہ بھی لگا لیتا ہے۔ اسے یوں سمجھیں جیسے کسی بلی کو ایک ڈیسک لیمپ کے جسم میں قید کر دیا گیا ہو‘‘۔سماجی پلیٹ فارم ''ایکس‘‘ پر تبصرہ کرنے والوں نے اس ڈیزائن کو ناقابلِ یقین، شاندار، بہت زبردست اور حیرت انگیز ٹیکنالوجی کا نمونہ قرار دیا ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ ''یہ یقینی طور پر وہ چیز ہے جو میں گھر میں رکھ سکتا ہوں، کسی خوفناک انسانی نما روبوٹ کے مقابلے میں‘‘۔ جبکہ ایک اور نے لکھا کہ ''یہ شاید مارکیٹ کا سب سے پیارا روبوٹ ہو سکتا ہے‘‘۔''اونگو‘‘ کی حرکات ایلیک سوکولو نے ڈیزائن کی ہیں، جو پکسر کی فلم ''ٹوائے سٹوری‘‘، ''گارفیلڈ: دی مووی‘‘ اور ''ایون المائٹی‘‘ کے آسکر کیلئے نامزد سکرین رائٹر ہیں۔ پرومو ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ''اونگو‘‘ اپنے بیس پر گھومتا ہے اور اپنی محور کو خودبخود ایڈجسٹ کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے Pixar کا مشہور کردار کرتا تھا۔صارف کی ضرورت کے مطابق ''اونگو‘‘ اپنی آنکھوں سے نکلنے والی روشنی کی شدت کو کم یا زیادہ کرسکتا ہے اور انہیں قریب بھی لا سکتا ہے، مثلاً رات کے وقت کتاب پڑھنے کیلئے۔یہ خوشگوار انداز میں سلام کرتا ہے، مفید مشورے دیتا ہے اور ہدایات بھی دیتا ہے جیسے: ''ارے! اپنی چابیاں بھولنا مت‘‘۔ایک اور دلکش منظر میں دکھایا گیا ہے کہ جب گھر میں پارٹی ہو رہی ہوتی ہے تو ''اونگو‘‘ پاس والے کمرے میں چلنے والی موسیقی کی دھن پر جھومتا ہے۔کمپنی کے مطابق، یہ ڈیسک لیمپ آپ کے ڈیسک اور آپ کے دن کو روشن کرتا ہے اور آپ کے گھر میں ''جادو جیسی مانوس موجودگی‘‘ لے کر آتا ہے۔کمپنی اپنی ویب سائٹ پر کہتی ہے: ''یہ آپ کی جگہ کو حرکت، شخصیت اور جذباتی ذہانت کے ساتھ زندہ بناتا ہے۔یہ اُن باتوں کو یاد رکھتا ہے جو آپ کیلئے اہم ہیں، آپ کے احساسات کو محسوس کرتا ہے اور دن بھر چھوٹی چھوٹی، خیال رکھنے والی حرکات کے ذریعے آپ کا ساتھ دیتا ہے۔ اونگو آپ کے دن کی رفتار کو محسوس کرتا ہے اور ماحول میں آنے والی لطیف تبدیلیوں کو خاموشی سے سمجھتے ہوئے ان کا جواب دیتا ہے۔ سمارٹ مصنوعات کی طرح جن میں کیمرے شامل ہوتے ہیں، اونگو بھی اپنے اردگرد کے ماحول کا ادراک رکھتا ہے، لیکن وہ ویژول ڈیٹا کو اپنی ڈیوائس ہی پر پروسیس کرتا ہے اور کسی بھی قسم کی ویڈیو کلپس کلاؤڈ پر نہیں بھیجتا، تاکہ کمپنی کا کوئی فرد انہیں نہ دیکھ سکے۔ جب صارفین مکمل پرائیویسی چاہتے ہوں اور نہیں چاہتے کہ اونگو ان پر نظر رکھے، تو وہ اس کی آنکھوں پر غیر شفاف چشمے لگا سکتے ہیں، جو مقناطیس کی مدد سے فوری طور پر چپک جاتے ہیں۔ایکس (X) پر کئی صارفین نے کہا کہ انہیں اونگو کی آواز ''پریشان کن‘‘ اور ''چبھن بھری‘‘ لگتی ہے، لیکن چہام (Chaham) کا کہنا ہے کہ اس کی آواز کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت بھی حسبِ ضرورت کسٹمائز کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ پرومو ویڈیو کمپیوٹر جنریٹڈ ہے، لیکن یہ صارفین کو ایک واضح اندازہ دیتی ہے کہ وہ کیا توقع رکھ سکتے ہیں، کیونکہ فی الحال پروٹوٹائپ پر کام جاری ہے، یعنی یہ ابھی مکمل طور پر تیار نہیں۔اونگو کو کمپنی کی ویب سائٹ پر پری آرڈر کیا جا سکتا ہے، جس کیلئے 49 ڈالر یا 38.38 پاؤنڈ کی مکمل طور پر قابلِ واپسی ''پرائیویٹی ایکسس ڈپازٹ‘‘ درکار ہے۔ یہ ڈپازٹ صارف کیلئے پہلے بیچ سے ایک یونٹ محفوظ کر دیتا ہے اور یہ رقم پروڈکٹ کی آخری قیمت میں سے منہا ہوجائے گی،جس کے بارے میں چہام نے بتایا کہ یہ تقریباً 300 ڈالر (225 پاؤنڈ) ہوگی۔ جو صارفین ابھی ادائیگی کریں گے انہیں اونگو کی ترسیل اگلے سال موسمِ گرما میں شروع ہونے پر پہلے فراہم کی جائے گی۔اونگو بلاشبہ پکسر کے اصل لیمپ ''لکسو جونیئر‘‘ (Luxo.Jr) کی طرف ایک واضح اشارہ ہے، جو 1995ء میں ''ٹوائے سٹوری‘‘ سے لے کر اب تک ہر پکسر فلم کے پروڈکشن لوگو میں دکھائی دیتا ہے۔

پلاسٹک کی بوتلوں سے محل تعمیر

پلاسٹک کی بوتلوں سے محل تعمیر

کینیڈین فنکارکا کارنامہ گنیز گیئربک میں شامل کر لیا گیاپلاسٹک آلودگی کے بڑھتے ہوئے بحران کے اس دور میں، دنیا بھر میں جب ماحولیاتی ماہرین سر پکڑے بیٹھے ہیں، ایک شخص نے تخلیقی سوچ اور عزم کے ساتھ وہ کام کر دکھایا جس کا تصور بھی مشکل ہے۔ ''پلاسٹک کنگ‘‘ کے نام سے مشہور اس باہمت فرد نے 40 ہزار استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ضائع ہونے نہیں دیا، بلکہ انہیں جوڑ کر ایک شاندار چار منزلہ محل تعمیر کر ڈالا۔ یہ منفرد منصوبہ نہ صرف ماحول دوستی کی ایک روشن مثال ہے بلکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ تخلیق اور جدت انسان کو ناممکن کو بھی ممکن بنانے کی طاقت عطا کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں کے تناظر میں یہ کارنامہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو ایک پھینکی ہوئی پلاسٹک کی بوتل بھی تعمیر وطن اور خدمت انسانیت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔یہ چند سال پہلے کی بات ہے کہ دنیا کو بے کار کچرے سے پاک کرنے کے خواہش مند ایک کینیڈین شخص نے پاناما کے لوگوں میں حیرت انگیز جوش پیدا کر دیا۔ اس نے ساحلوں اور شاہراہوں پر بکھری ہزاروں پلاسٹک کی بوتلیں اکٹھی کروائیں اور اسی ''کچرے‘‘ کو استعمال کر کے ایک ایسا شاندار محل تعمیر کر ڈالا جو کیریبین سورج کی روشنی میں جگمگاتا ہے۔ یہ کوئی کہانی نہیں ہے بلکہ مونٹریال سے تعلق رکھنے والے رابرٹ بیزو کی حقیقی زندگی کا وہ کارنامہ ہے جس نے انہیں درست طور پر ''پلاسٹک کنگ‘‘ کا لقب دلایا۔ 2012ء میں رابرٹ پاناما کے علاقے بوکاس ڈیل ٹورو کے ایسلا کولون میں رہائش پذیر تھے اور اپنا وقت بوکاس ری سائیکلنگ پروگرام کے ساتھ گزار رہے تھے، جو ملک کے ساحلوں اور بستیوں سے کچرا صاف کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ مگر کینیڈین شہری اس بات پر سخت حیران ہوا کہ صرف ڈیڑھ سال کے دوران انہوں نے دس لاکھ سے زائد پلاسٹک کی بوتلیں جمع کیں جو ری سائیکل ہونے والے کچرے کے بڑے بڑے ڈھیر کی صورت جمع ہو رہی تھیں۔ اس آلودگی کو کم کرنے کیلئے رابرٹ کے ذہن میں ایک بہت ہی غیر معمولی خیال آیا۔ کیا ہو اگر ان بوتلوں کو ری سائیکل کرنے کے بجائے براہ راست استعمال کر کے کوئی بڑا ڈھانچہ بنایا جائے، ایسا جو رہائش بھی فراہم کرے اور انسانی فضلے اور ماحول دوست حل کی ایک علامت بھی بن جائے۔اسی خیال کے بیج سے دنیا کا سب سے بڑا پلاسٹک بوتلوں سے بنا قلعہ وجود میں آیا۔ چار منزلہ، 46 فٹ (14 میٹر) بلند کاسٹیلو اِن اسپیریسیون، جو تقریباً 40 ہزار بوتلوں سے تیار کیا گیا۔رابرٹ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ شروع میں جزیرے کے رہائشیوں اور حکام کو لگا کہ میں پاگل ہوں حتیٰ کہ میری بیوی اور میرا بیٹا بھی یہی سمجھتے تھے۔ پھر انہیں تجسس ہوا اور انہوں نے مجھے یہ دیکھنے کیلئے کام جاری رکھنے دیا کہ آخر میں کیا کرنے والا ہوں۔ جیسے جیسے عمارت بڑھتی گئی، ان کی دلچسپی بھی بڑھتی گئی۔ کچھ ہی عرصے میں عمارت نے واضح شکل اختیار کرنا شروع کر دی۔ کنکریٹ اور اسٹیل کے مضبوط ڈھانچے کے گرد بنائی گئی اس تعمیر میں رابرٹ اور ان کی ٹیم نے پلاسٹک کی بوتلوں کو ''ماحول دوست تعمیراتی مواد‘‘ یا انسولیشن کے طور پر استعمال کیا۔ بوتلوں کی ساخت نے قلعے کو موسمی اثرات سے محفوظ رکھا اور اسے ایک منفرد حسن بخشا جس کی جھلک کسی پلاسٹک گلاس جیسی دکھائی دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ چیلنج یہ تھا کہ ہمارے پاس کوئی منصوبہ نہیں تھا، ہم روزانہ کی بنیاد پر کام میں جدت لاتے تھے۔ یہ ایک دن، ایک منزل کر کے اوپر اٹھتا گیا، یہاں تک کہ ہم چار منزلوں تک پہنچ گئے! مجموعی طور پر قلعے میں چار مہمان کمرے، ضیافت کیلئے ایک بڑا ہال اور چھت پر ایک دیدہ زیب مشاہدہ گاہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ وہاں آنے والے زائرین کیلئے متعدد تعلیمی مواد بھی رکھا گیا ہے، تاکہ لوگ پلاسٹک کے کچرے کے اثرات اور رابرٹ کی اس منفرد تخلیق کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکیں۔اس تمام عمل کے دوران، رابرٹ ری سائیکلنگ کے بجائے اپ سائیکلنگ کی اہمیت کو اجاگر کرتے رہے۔ اپ سائیکلنگ سے مراد یہ ہے کہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ان کی کیمیائی ساخت بدلے بغیر کسی نئے مقصد کیلئے دوبارہ استعمال کیا جائے۔ جبکہ روایتی ری سائیکلنگ کے نتیجے میں عموماً پلاسٹک کے ذرات ماحول کے نظام میں داخل ہو جاتے ہیں، اپ سائیکلنگ کو کچرے کے زیادہ ماحول دوست استعمال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ رابرٹ نے ایک بار کہا تھا: ''ایک شخص کا کچرا، دوسرے انسان کا محل بن سکتا ہے۔ ڈائنوسار ایک شہابِ ثاقب سے ختم ہوئے تھے، اور انسانیت پلاسٹک سے ختم ہوگی‘‘۔ چند سال بعد جب رابرٹ نے یہ محل تعمیر کیا، انہیں '' انرجی گلوب ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا، جو ان کے پائیدار منصوبوں کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایوارڈ انہیں ''ناقابل یقین احساس‘‘ دلانے والا تھا۔مگر اس اعزاز کے باوجود، وہ یہاں رکنے والے نہیں تھے۔ 2021ء میں، انہوں نے اپنے منصوبے کو وسعت دیتے ہوئے پورا پلاسٹک بوتلوں کا گاؤں تعمیر کیا، جس میں کئی دیگر عمارتیں بھی شامل ہیں۔ ان گھروں میں بوتلیں انسولیشن کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں اور ان کے باہر کنکریٹ کی تہہ دی گئی ہے۔

پومپیئی:ایک قدیم شہر جو لمحوں میں تاریخ بن گیا

پومپیئی:ایک قدیم شہر جو لمحوں میں تاریخ بن گیا

دنیا کی قدیم تہذیبوں میں اگر کوئی شہر عبرت، حیرت اور تاریخ کے سنگم کے طور پر یاد کیا جاتا ہے تو وہ پومپیئی ہے۔ اٹلی کے جنوب میں واقع یہ رومن شہر 79ء میں آتش فشاں ماؤنٹ ویسوویس کے اچانک پھٹنے سے لمحوں میں مٹ گیا۔ مگر اس شہر کی حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مٹی نہیں بلکہ راکھ میں محفوظ ہوگیا۔ ایسے جیسے وقت رک گیا ہو اور زندگی ایک ٹھہرے ہوئے منظر کی صورت ہمیشہ کیلئے نقش ہو گئی ہو۔تاریخی پس منظرپومپیئی بحیرہ روم کے کنارے واقع ایک خوشحال رومن شہر تھا جس کی بنیاد غالباً چھٹی یا ساتویں صدی قبل مسیح میں رکھی گئی۔ یہ شہر ایک اہم تجارتی مرکز تھا جہاں رومی طرزِ زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری تھی۔ پتھروں کی پختہ گلیاں، شاندار گھروں کے صحن، حمام، تھیٹر، بازار اور شراب خانے سب پومپیئی کی بھرپور تہذیب اور سماجی زندگی کی عکاسی کرتے تھے۔24 اگست 79ء کی صبح اچانک ماؤنٹ ویسوویس نے زبردست دھماکے کے ساتھ آگ اگلی۔ آسمان سیاہ ہو گیا، زہریلی گیسوں اور راکھ نے فضا بھر دی۔ چند ہی گھنٹوں میں گرم لاوے کا سیلاب، راکھ اور پتھروں کی بارش اور زہریلی گیسوں کے بادل نے پورے شہر کو ڈھانپ لیا۔ پومپیئی کے تقریباً 20 ہزار باشندوں میں سے بہت سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے، مگر ہزاروں لوگ وہیں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ شہر 6 سے 7 میٹر موٹی آتش فشانی راکھ کے نیچے دفن ہوگیا۔پومپیئی 17 صدیوں تک زمین کے نیچے چھپا رہا۔ 1748ء میں جب کھدائی شروع ہوئی تو آثارِ قدیمہ کے ماہرین ششدر رہ گئے کیونکہ شہر کے گھر، فرنیچر، برتن، دیواروں پر بنے رنگین نقش و نگار، فریسکوز، حتیٰ کہ انسانوں اور جانوروں کے آخری لمحات تک حیرت انگیز طور پر محفوظ تھے۔راکھ میں دبے جسم وقت کے ساتھ گل گئے، مگر ان کے خالی خول برقرار رہے۔ ماہرین نے ان میں پلاسٹر بھر کر انسانوں کے آخری لمحات کو شکل دے دی۔کوئی بھاگ رہا تھا،کوئی اپنے بچے کو تھامے ہوئے تھا اور کوئی گھٹنوں کے بل جھکا امداد کا منتظر تھا۔ یہ مناظر آج بھی دیکھنے والوں کے دل دہلا دیتے ہیں۔پومپیئی کی گلیاں، پتھریلے فٹ پاتھ، دوکانوں کے کاؤنٹر، شہریوں کے گھر اور شاہی ولا آج بھی اسی طرح موجود ہیں جیسے 79ء کی صبح تھے۔رنگین دیواری تصویریں رومی آرٹ کی بہترین مثال ہیں جن میں اساطیری مناظر، رقص، کھانے پینے کی محفلیں اور روزمرہ زندگی کی جھلکیاں شامل ہیں۔رومی تہذیب کا آئینہپومپیئی آج روم کی قدیم تہذیب کا سب سے بڑا کھلا میوزیم ہے۔ یہاں سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ لوگ کیسے رہتے تھے، کیا کھاتے تھے، تفریح کیسے کرتے تھے، تجارت کیسے ہوتی تھی اور مذہبی رسومات کیا تھیں۔ گھروں میں ملنے والے فرنیچر کے نشانات، بیکریوں کے تنور، حمام کے کمرے، اسٹیڈیم، تھیٹر اور مندر سب کچھ اس قدیم شہر کے سماجی ڈھانچے کو زندہ کر دیتے ہیں۔آج کا پومپیئیآج پومپیئی دنیا کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے آثارِ قدیمہ مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ یہ مقام نہ صرف سیاحوں کیلئے پرکشش ہے بلکہ ماہرین آثارِ قدیمہ کیلئے بھی ایک زریں خزانہ ہے جہاں نئی دریافتیں آج بھی جاری ہیں۔ جدید تحقیق آتش فشانی تباہی، قدیم فنون اور رومی طرزِ زندگی کے بارے میں نئی روشنی ڈال رہی ہے۔اطالوی حکومت اور یونیسکو مل کر اس تاریخی مقام کے تحفظ کیلئے بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں تاکہ یہ ورثہ آئندہ نسلوں تک محفوظ رہے۔پومپیئی صرف ایک تباہ شدہ شہر نہیں، بلکہ وقت کے رُک جانے کی داستان ہے۔ یہ ہمیں انسان کی طاقت، کمزوری، فخر، خوشیوں، غموں اور قدرت کی بے رحم قوتوں کے بارے میں سبق دیتا ہے۔ یہاں کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ تہذیبیں کیسے بستی ہیں اور لمحوں میں کیسے مٹ سکتی ہیں لیکن ان کے نقوش صدیوں بعد بھی انسان کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔