بول کہ لب ... آزاد ہیں تیرے
اسپیشل فیچر
اپنے بارے میں باتیں کرنے سے مجھے سخت وحشت ہوتی ہے۔اس لیے کہ سب سے’ بور‘ لوگوں کا مرغوب شغل یہی ہے۔ اس انگریزی لفظ کے لیے معذرت چاہتا ہوں ،لیکن اب تو ہمارے ہاں اس کے مشتقات بوریت وغیرہ بھی استعمال میں آنے لگے ہیں۔ اس لیے اب اسے اُردو روز مرہ میں شامل سمجھنا چاہیے ،تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ مجھے اپنے بارے میں قیل و قال بری لگتی ہے بل کہ میں تو شعر میں بھی حتی الامکان واحد متکلم کاصیغہ استعمال نہیں کرتااور’ میں‘ کے بجائے ہمیشہ سے’ہم‘ لکھتا آیا ہوں ۔چناں چہ جب ادبی سراغ رساں حضرات مجھ سے یہ پوچھنے بیٹھتے ہیں کہ تم شعر کیوں کہتے ہو، تو بات کو ٹالنے کے لیے جو دل میں آئے کہہ دیتا ہوں، مثلاً یہ کہ بھئی میں جیسے بھی کہتا ہوں ،جس لیے بھی کہتا ہوں ،تم شعر میں خود ڈھونڈ لو، میرا سر کھانے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن اُن میں سے ڈھیٹ قسم کے لوگ جب بھی نہیں مانتے۔ چناں چہ آج کی گفت گو کی سب ذمہ داری اُن حضرات کے سر ہے، مجھ پر نہیں ۔شعر گوئی کا واحد عذرِ گناہ تو مجھے نہیں معلوم۔ اس میں بچپن کی فضائے گر دوپیش میں شعر کا چرچا، دوست احباب کی ترغیب اور دل کی لگی سبھی کچھ شامل ہے۔ یہ ’ نقشِ فریادی‘ کے پہلے حصے کی بات ہے، جس میں28تا29 سے34تا35 تک کی تحریریں شامل ہیں، جو ہماری طالب علمی کے دن تھے۔ یوں تو اُن سب اشعار کا قریب ایک ہی ذہنی اور جذباتی واردات سے تعلق ہے اور اس واردات کا ظاہری محرک تو وہی ایک حادثہ ہے، جو اُس عمر میں اکثر نوجوان دلوں پر گزر جایا کرتا ہے،لیکن اب جو دیکھتا ہوں، تو یہ دَور بھی ایک دَور نہیں تھا بل کہ اُس کے بھی دو الگ الگ حصے تھے، جن کی داخلی اور خارجی کیفیت کافی مختلف تھی۔ وہ یوں ہے کہ20 سے30 سال تک کا زمانہ ،ہمارے ہاں معاشی اور سماجی طور سے کچھ عجب طرح کی بے فکری، آسودگی اور ولولہ انگیزی کا زمانہ تھا، جس میں اہم قومی اور سیاسی تحریکوں کے ساتھ ساتھ نثر و نظم میں بیشتر سنجیدہ فکر و مشاہدہ کے بجائے کچھ رنگ رلیاں منانے کا سا انداز تھا۔ شعر میں اولاً حسرت ؔموہانی اور اُن کے بعد جوشؔ، حفیظؔ جالندھری اور اخترؔ شیرانی کی ریاست قائم تھی۔ افسانے میں یلدرم اور تنقید میں’ حسن برائے حسن ‘اور ’ادب برائے ادب‘ کا چرچا تھا۔ ’نقشِ فریادی‘ کی ابتدائی نظمیں: ’خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو‘،’ مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو‘،’ تہہ نجوم کہیں چاندنی کے دامن میں‘ وغیرہ وغیرہ اُسی ماحول کے زیر اثر مرتب ہوئیں اور اُس فضا میں ابتدائے عشق کا تحیر بھی شامل تھا ،لیکن ہم لوگ اس دَور کی ایک جھلک بھی ٹھیک سے نہ دیکھ پائے تھے کہ صحبت یار آخر شد۔ پھر دیس پر عالمی کساد بازاری کے سائے ڈھلنے شروع ہوئے۔ کالج کے بڑے بڑے بانکے تیس مارخاں تلاشِ معاش میں گلیوں کی خاک پھانکنے لگے۔ یہ وہ دن تھے، جب یکا یک بچوں کی ہنسی بجھ گئی، اُجڑے ہوئے کسان کھیت کھلیان چھوڑ کر شہروں میں مزدوری کرنے لگے ۔ گھر کے باہر جب یہ حال تھا اور گھر کے اندر مرگِ سوزِ محبت کا کہرام مچا تھا۔ یکایک یوں محسوس ہونے لگا کہ دل و دماغ پر سبھی راستے بند ہوگئے ہیں اور اب یہاں کوئی نہیں آئے گا۔ اس کیفیت کا اختتام جو ’نقشِ فریادی‘ کے پہلے حصے میں آخری نظموں کی کیفیت ہے۔ ایک نسبتاً غیر معروف نظم پر ہوتا ہے، جسے میں نے ’’یاس‘‘ کا نام دیا تھا، وہ یوں ہے:بربطِ دل کے تار ٹوٹ گئےہیں زمیں بوس راحتوں کے محلمٹ گئے قصہ ہائے فکر و عملبزمِ ہستی کے جام پھوٹ گئےچھن گیا کیفِ کوثر و تسنیمزحمتِ گریہ و بکا بے سودشکوہ بختِ نارسا بے سودہو چکا ختم رحمتوں کا نزولبند ہے مدتوں سے باب قبولبے نیاز دعا ہے ربّ کریمبجھ گئی شمعِ آرزوئے جمیلیاد باقی ہے بے کسی کی دلیلانتظارِ فضول رہنے دےرازِ اُلفت نباہنے والےبارِ غم سے کراہنے والےکاوشِ بے حصول رہنے دے34ء میں ہم لوگ کالج سے فارغ ہوئے اور35ء میں، میَں نے ایم اے او کالج امرتسر میں ملازمت کرلی۔ یہاں سے میری اور میرے بہت سے ہمعصر لکھنے والوں کی ذہنی اور جذباتی زندگی کا نیا دَور شروع ہوتا ہے۔ اس دوران کالج میں اپنے رفقا:صاحب زادہ محمود الظف مرحوم اور اُن کی بیگم رشید جہاں سے ملاقات ہوئی۔ پھر ترقی پسند تحریک کی داغ بیل پڑی، مزدور تحریکوں کا سلسلہ شروع ہوا اور یوں لگا کہ جیسے گلشن میں ایک نہیں، کئی دبستان کھل گئے ہیں۔ اس دبستان میں سب سے پہلا سبق جو ہم نے سیکھا تھا کہ اپنی ذات باقی دنیا سے الگ کر کے سوچنا اوّل تو ممکن ہی نہیں، اس لیے کہ اس میں بہ ہر حال گردوپیش کے سبھی تجربات شامل ہوتے ہیں اور اگر ایسا ممکن ہو بھی تو انتہائی غیر سود مند فعل ہے کہ ایک انسانی فرد کی ذات اپنی سب محبتوں اور کدورتوں یا مسرتوں اور رنجشوں کے باوجود بہت ہی چھوٹی سی بہت ہی محدود اور حقیر شے ہے۔ اس کی وسعت اور پہنائی کا پیمانہ تو باقی عالم موجودات سے اس کے ذہنی اور جذباتی رشتے ہیں۔ خاص طور پر انسانی برادری کے مشترکہ دکھ درد کے رشتے۔ چناں چہ غمِ جاناں اور غمِ دوراں تو ایک ہی تجربے کے دو پہلو ہیں۔ اس نئے احساس کی ابتدا ’نقش ِفریادی‘ کے دوسرے حصے کی پہلی نظم سے ہوتی ہے۔ اس نظم کا عنوان ہے’ مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘ اور اگر آپ خاتون ہیں، تو ’مرے محبوب نہ مانگ‘:میں نے سمجھا تھا کہ تُو ہے تو درخشاں ہے حیاتتیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہےتیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثباتتیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائےیوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائےاور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سواراحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوااَن گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسمریشم و اطلس و کم خاب میں بنوائے ہوئےجا بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسمخاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئےجسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سےپیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سےلوٹ جاتی ہے اُدھر کو بھی نظر کیا کیجیےاب بھی دلکش ہے ترا حسن، مگر کیا کیجیےاور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سواراحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوامجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگاس کے بعد تیرہ چودہ برس’ کیوں نہ جہاں کا غم اپنالیں‘میں گزرے اور پھر فوج، صحافت، ٹریڈ یونین وغیرہ میں گزارنے کے بعد ہم چار برس کے لیے جیل خانے چلے گئے۔’ نقش ِفریادی‘ کے بعد کی دو کتابیں’دست صبا‘ اور’زنداں نامہ‘ اسی جیل خانے کی یادگاریں ہیں۔ بنیادی طور سے تو یہ تحریریں اُنھی ذہنی محسوسات اور معمولات سے منسلک ہیں ،جن کا سلسلہ’ مجھ سے پہلی سی محبت‘ سے شروع ہواتھا ،لیکن جیل خانہ عاشقی کی طرح خود ایک بنیادی تجربہ ہے، جس میں فکر و نظر کا ایک آدھ نیا دریچہ خود بخود کھل جاتا ہے۔ چناں چہ اوّل تو یہ ہے کہ ابتدائے شباب کی طرح تمام حسیات یعنیSensations پھر تیز ہوجاتی ہیں اورصبح کی پو، شام کے دھند لکے، آسمان کی نیلاہٹ، ہوا کے گداز کے بارے میں وہی پہلا سا تحیر لوٹ آتا ہے۔ دوسرے یوں ہوتا ہے کہ باہر کی دنیا کا وقت اور فاصلے دونوں باطل ہوجاتے ہیں۔ نزدیک کی چیزیں بھی بہت دُور ہوجاتی ہیں اور دُور کی نزدیک اور فرداودی کا تفرقہ کچھ اس طور سے مٹ جاتا ہے کہ کبھی ایک لمحہ قیامت معلوم ہوتا ہے اور کبھی ایک صدی کل کی بات۔ تیسری بات یہ ہے کہ فراغت ہجراں میں فکر و مطالعہ کے ساتھ عروس سخن کے ظاہری بناو سنگھار پر توجہ دینے کی زیادہ مہلت ملتی ہے۔ جیل خانے کے بھی دو دَور تھے، ایک حیدر آباد جیل جو اس تجربے کے انکشاف کے تحیر کا زمانہ تھا، ایک منٹگمری جیل کا ،جو اُس تجربے سے اُکتاہٹ اور تھکن کا زمانہ تھا۔ اس کیفیت کی نمایندہ نظم ،جو’دست صبا‘ میں شامل ہے:شام کے پیچ و خم ستاروں سےزینہ زینہ اُتر رہی ہے راتیوں صبا پاس سے گزرتی ہےجیسے کہہ دی کسی نے پیار کی باتصحنِ زنداں کے بے وطن اشجارسرنگوں، محو ہیں بنانے میںدامنِ آسماں پہ نقش و نگارشانہ بام پر دمکتا ہےمہرباں چاندنی کا دستِ جمیلخاک میں گل گئی ہے آبِ نجومنور میں گھل گیا ہے عرش کا نیلسبز گوشوں میں نیلگوں سائےلہلہاتے ہیں جس طرح دل میںموج دردِ فراقِ یار آئے……………دل سے پیہم خیال کہتا ہےاتنی شیریں ہے زندگی اس پلظلم کا زہر گھولنے والےکامراں ہو سکیں گے آج نہ کلجلوہ گاہِ وصال کی شمعیںوہ بجھا بھی چکے اگر تو کیاچاند کو گل کریں تو ہم جانیںاس کے بعد کازمانہ کچھ ذہنی افراتفری کا زمانہ ہے، جس میں اپنا اخباری پیشہ چھُٹا، ایک بار جیل خانے گئے، مارشل لاکا دَور آیا اور ذہنی اور گردوپیش کی فضا میں پھر سے کچھ انسداد راہ اور کچھ نئی راہوں کی طلب کا احساس پیدا ہوا۔ اس سکوت اور انتظار کی آئینہ دار ایک نظم :ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئےتیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہمدار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئےتیرے ہاتوں کی شمعوں کی حسرت میں ہمنیم تاریک راہوں میں مارے گئےسولیوں پر ہمارے لبوں سے پرےتیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہیتیری زلفوں کی مستی برستی رہیتیرے ہاتھوں کی چاندنی دمکتی رہیجب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستمہم چلے آئے، لائے جہاں تک قدملب پہ حرفِ غزل، دل میں قندیلِ غماپنا غم تھا گواہی ترے حسن کیدیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہمہم جو تاریک راہوں میں مارے گئےنارسائی اگر اپنی تقدیر تھیتیری اُلفت تو اپنی ہی تدبیر تھیکس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلےہجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملےقتل گاہوں سے چُن کر ہمارے عَلماور نکلیں گے عُشّاق کے قافلےجن کی راہِ طلب سے ہمارے قدممختصر کر چلے درد کے فاصلےکر چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہمجاں گنوا کر تری دلبری کا بھرمہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے٭…٭…٭