15 اگست 1947: بھارتی یوم آزادی اور جوتشی
اسپیشل فیچر
14 اگست کا دن ختم ہونے والا تھا۔ ہال میں موجود ہر کسی کو سوئی پر سوئی چڑھنے کا انتظار تھا۔ اس دن صبح 9 بجے مائونٹ بیٹن قائداعظم کو پاکستان کا گورنر جنرل بنا کر جلدی جلدی واپس نئی دلی آئے تھے۔ 2 بجے دوپہر انہیں نومولود قومی ریاست بھارت کی تشکیل کا اعلان کرنا تھا اور پنڈت نہرو کو اقتدار سونپنا تھا۔ مگر دلی ایئرپورٹ پر ہی انہیں اطلاع ملی کہ جوتشیوں کی آراء کے بعد تقریب ’’شبھ گھڑی‘‘ یعنی رات 12 بجے ملتوی کر دی گئی ہے۔ رات 12 بجے کی تقریب میں سبھی موجود تھے۔ پنڈت جواہرلال نہرو، نئے ملک بھارت کے وزیراعظم بننے کے منتظر تھے۔ اس اہم تقریب میں ایک صحافی میلڈریڈ اے ٹالبوٹ بھی موجود تھا۔ ٹالبوٹ نے جو اس تقریب کے نوٹس لیے وہ مائونٹ بیٹن کی دستاویزات (پیپرز) میں محفوظ ہیں۔ 27 اگست 1947 کو اس نے یہ واقعہ والٹر ایس روجر کو بھی ریکارڈ کروایا۔ ٹالبوٹ کے بیان کو پڑھنے کے بعد مصنفہ لکھتی ہیں ’’گھڑیال رات 12 بجے کا اعلان کرنے ہی والا تھا اور اسی لمحہ پر نہرو کو نئے ملک کا پہلا وزیراعظم بننا تھا۔ ہر کسی کا چہرہ فتح و خوشی کے ملے جلے جذبات سے تمتما رہا تھا مگر اس لمحہ پر سب خاموشی سے شبھ گھڑی کے منتظر تھے۔ اک سکوت تھا کہ سب کی نظریں گھڑیاں پر جمی ہو ئیں تھیں۔اچانک۔۔۔ اک زوردار دھماکہ …عین اس وقت پر ہوا جب سوئی پر سوئی چڑھ چکی تھی۔ مہمان یکدم چونک کر اس طرف متوجہ ہوئے جہاں سے دھماکہ کی آواز آئی تھی۔ بھارتی آئین ساز اسمبلی کے اک ہندوممبر نے ایک کجا زمین پر دے مارا تھا۔ یہ اس بات کی علامت تھا کہ بھگوان نے بھی شبھ گھڑی کو قبول کیا ہے۔ ٹالبوٹ لکھتا ہے ’’جب میں نے نہرو کی طرف دیکھا تو وہ مڑتے ہوئے، اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی ہنسی چھپانے میں مصروف تھے۔‘‘یہ واقعہ مشہور مصنفہ الیکس واں تنزیلمان نے اپنی شہرہ آفاق کتاب انڈین سمر (انگریزی) میں لکھا ہے۔ تنزیلمان داستانی انداز میں تاریخی حقائق پر مبنی واقعات کو ایسے سموتی ہیں کہ پڑھنے والا ہر صفحہ پر چونک جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے، بظاہر معمولی واقعات سے بڑے نتیجے نکالنا ایسا ہی کام ہے جیسے ریت میں سے سونا ڈھونڈنا۔ نوجوان الیکس ایسی ہی تاریخ لکھتی رہتی ہیں۔ ان کے مضامین گارڈین میں چھپتے ہیں سیکولر حکمرانی کے دعویدار جب جوتشیوں اور کجّوں میں الجھ جاتے ہیںتو پھر ’’مودی‘‘ پیدا ہونے پر اچنبھے کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔