بھارتی فلمی صنعت کاجادو ہماری اداکارائوں کے سرچڑھ کر بول رہا ہے
اسپیشل فیچر
بھارتی فلمی صنعت کاجادو ہماری اداکارائوں کے سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کے مقابلے میں بالی وڈ رومانوی اور ایکسپوزنگ کے لیے کھلا ماحول فراہم کرتاہے، وہاں ایکسپوزنگ کرنا کوئی بڑی بات نہیں اور یہ شروع سے بالی وڈ کا حصہ رہا ہے اس کے مقابلے میں پاکستان کا کلچر مختلف ہے۔ ایکسپوزنگ بھارت میں بڑی بات نہیں لیکن پاکستان میں بہت بڑی بات بھی ہے اور بری بات بھی ۔۔۔بھارتی فلموں میں کام کرنا کوئی جرم نہیں ، فنکار کیلئے کوئی حد نہیں ہوتی اسے جہاں موقع ملے اپنے فن کو اجاگر کرنا چاہئے لیکن فنکار اخلاقی حدودو قیود سے بالاتر نہیں ہوتے اور نہ ہی انہیں خود کواخلاقی اور معاشرتی اقدار سے بلند تر سمجھنا چاہئے ۔ عزت ، شہرت اور دولت کمانے کا شوق پورا کرنے کا حق ہر کسی کو حاصل ہے لیکن ملک وملت کی روایات اور اخلاق کی پاسداری کرتے ہوئے یہ سب کچھ کیا جائے تو کوئی ہرج نہیں ۔ اگر ایکسپوزنگ کرنے سے اداکارائوں کو کامیابی ملتی ہے تو پھر بہت سی بھارتی اداکارائیں جن میں نیشا کوٹھاری‘ نیہا دھوپیا‘ ملکہ شیراوت اور راکھی ساونت جیسی درجنوں ہیں جنہوں نے فلموں میں ’’ایکسپوزنگ‘‘ کی انتہا کردی مگر آج وہ بھی اپنا فلمی کیریئر بچانے کے لئے بالی وڈ کے علاوہ دیگر علاقائی فلموں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔بالی وڈ بلاشبہ دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری ہے اس کی چمک نئے اداکاروں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یہ انڈسٹری پاکستانی ٹیلنٹ کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتی ہے لیکن کھلے دل سے نہیں ۔ موسیقی کے میدان میں پاکستانی گلوکار ایسے چھائے ہیں کہ انڈین گلوکار کہیں نظر ہی نہیں آ رہے راحت فتح علی خان اور عاطف اسلم کے گانے فلموں کی کامیابی سمجھے جاتے ہیں۔ان کے علاوہ علی عظمت ‘ نجم شیراز‘ رفاقت علی خان ‘ شفقت امانت علی خان‘ جواد احمد سمیت دیگر پاکستانی گلوکاروں نے بھی اپنا آپ منوایا۔ ایسے میں خواتین آرٹسٹ کیوں پیچھے رہتیں ۔ آج ہم بات کریں گے لالی وڈ کی چند ایسی اداکارائوں کی جنہوں نے نام ، کام اوردولت کی خاطر بالی وڈ کا سفر کیا ۔ ان کا یہ سفر کیسا رہا اس کے بارے میں بہتر فیصلہ کرنے کا اختیار صرف اور صرف عوام کے پاس ہے ۔ ہم تو ان کی کارکردگی کا مختصراًجائزہ لیں گے ۔ بالی وڈ فلموں میں ایکٹنگ کی بات کی جائے تو اس میں پاکستانی فنکاروںکی حوصلہ افزائی نہیں بلکہ حوصلہ شکنی کی گئی۔ یہ سلسلہ شروع ہوا تھا محمد علی اور زیبا کے منوج کمار کی فلم ’’ کلرک ‘‘ میں کام کرنے سے ۔شوٹنگ کے دوران تو دونوں اداکاروں کو پرفارمنس کا خوب موقع دیا گیا مگر جب فلم ریلیز ہوئی تو اس میں محمد علی اور زیبا کا کام برائے نام ہی تھا جس سے انہیں انڈین فلمی صنعت کی دوغلی پالیسی کا اندازہ ہوا اور پھر انہوں نے کبھی بالی وڈ فلموںکا رخ نہیں کیا ۔1993ء میں پاکستانی ماڈل و اداکارہ انیتاایوب نے دیو آنند کی فلم ’’پیار کا ترانہ‘‘ کی جس میں ایسے قابل اعتراض سین عکسبند کرائے کہ پاکستانی میڈیا اور سنجیدہ حلقوں نے شدید احتجاج کیا ‘ مگر اداکارہ نے اس حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کئے رکھی۔پاکستانی اداکارہ و گلوکارہ سلمیٰ آغا نے بھی چند ایک فلمیں کیں ‘ جن میں ’’نکاح‘‘ کے علاوہ دیگر فلموں میں اداکاری کم اور دوسرے ’’معاملات‘‘ پر زیادہ فوکس کیا گیا۔ سلمیٰ آغا کی بیٹی شاشا آغا اب بالی وڈ میں اپنا کیرئیر شروع کرنے والی ہیں، 1982ء کی فلم ’’نکاح‘‘ سے شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ کی بیٹی اپنے خاندان کی چوتھی نسل ہوں گی جو سلورسکرین پر نظر آئیں گی۔ اس سے قبل ان کے دادا جگل کشور مہرہ اور ان کی اہلیہ انوار بیگم نے ’’ہیر رانجھا‘‘ میں کردار ادا کیے تھے۔ سلمیٰ کی والدہ نسرین نے کے ایل سہگل کے ساتھ اے آر کار دار کی فلم ’’شاہجہاں‘‘ میں روحی کا کردار ادا کیا تھاجب کہ سلمیٰ آغا نے جو سرخ وسفید رنگ اور نیلی آنکھوں کی بدولت سب سے منفرد تھیں، نے بی آر چوپڑا کی فلم ’’نکاح‘‘ میں کام کیا اور ان کے گائے ہوئے نغمے ’’دل کے ارماں‘‘ نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی ، تاہم وہ بالی وڈ میں خود کو سمو نہیں سکیں۔ اب شاشا اپنی والدہ کے نقش قدم پر چل کر فلموں میں آرہی ہیں ،جو اپنی والدہ سے خاصی مشابہت بھی رکھتی ہیں۔سلمیٰ آغا لندن میں پیدا ہوئیں تھیں اور وہ لندن سے بالی وڈ تک پہنچیں لیکن اس سفر کے درمیان میں پاکستان بھی آتا ہے اور سلمیٰ آغا کا تعلق لندن اور بالی وڈ سے زیادہ پاکستان سے ہے اداکارہ زیبا بختیار کسی حد تک اپنا دامن بچانے میں کامیاب رہیں۔زیبا بختیار 5نومبر 1964ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوئیں ۔ وہ معروف بیوروکریٹ ، سابق اٹارنی جنرل اور ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی یحییٰ بختیار کی بیٹی ہیں ۔زیبا کی بہن وکیل جبکہ دو بھائی ڈاکٹر اور امریکہ میں مقیم ہیں ۔ زیبا نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ کے کونوینٹ سکول جبکہ اعلیٰ تعلیم لاہور میں کنیئرڈ کالج سے حاصل کی۔ زیبا نے اپنے فنی کیرئیر کا آغازچھوٹی سکرین یعنی ٹی وی ڈراموں سے کیا۔ ڈرامہ ’’ انارکلی ‘‘ میں شاندار پرفارمنس نے زیبا کو مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ۔مقبولیت کے چرچے بالی وڈ تک جا پہنچے اور راج کپور بینر نے انہیں اپنی فلم ’’ حنا ‘‘ کی ہیروئن بننے کی دعوت دی ۔ زیبا نے یہ دعوت قبول کی اس طرح وہ پہلی لالی وڈ اداکارہ تھیں جس نے بطور ہیروئن بالی وڈ کاسفر کیا ۔ ’’ حنا ‘‘ میں زیبا کی پرفارمنس نے وہ رنگ دکھایاکہ سب ان کے گرویدہ ہو گئے ۔ پھر کیا تھا ان کیلئے بالی وڈ فلموں کی لائن لگ گئی ۔ 1991ء میں ان کی فلم’’ دیش واسی ‘‘ریلیز ہوئی ۔ زیبا نے بالی وڈ جا کر بھی لالی وڈ سے ناطہ نہیں توڑا ۔ 1995ء میں عدنان سمیع خان کے ساتھ لالی وڈ میں ان کی مشہورو معروف فلم ’’ سرگم ‘‘آئی جس میں انہوں نے زیب النساء کا کردار بڑی خوبی سے نبھایا۔پھر بالی وڈ میں ان کی دو فلمیں ریلیز ہوئیں جن کے نام تھے ’’ سٹنٹ مین ‘‘ اور ’’ محبت کی آرزو ‘‘ ۔ ’’ سٹنٹ مین ‘‘ میں ان کے ساتھ ہیرو کا کردار نبھایا تھا جیکی شروف نے ۔ جنہیں بالی وڈ میں جیکی دادا کہا جاتا ہے۔ اس فلم کا گانا ’’ اماں دیکھ تیرا منڈا بگڑا جائے ‘‘ اس دور میں کافی ہٹ ہوا تھا ۔ 1995ء میں ان کی فلم ’’ جے وکرانتہ ‘‘ ریلیز ہوئی جس میں وہ نرملا (نمو ) بنیں ۔ 1996ء میں ان کی مزید3 فلمیں پردہ سیمیں پر آئیں جن کے نام تھے ’’ مقدمہ ‘‘ ، ’’ چیف صاحب ‘‘،اور ’’ قائد ‘‘ ۔ ’’ مقدمہ ‘‘ میں ان کے کردار کا نام چنچل سنگھ تھا ۔ 2001ء میں ان کی فلم ’’ بابو ‘‘ر یلیز ہوئی ۔ فلموں کے ساتھ ساتھ وہ ٹی وی سیریلز میں بھی کام کرتی رہیں اور اہم کردار نبھانے کی روایت کوبرقرار رکھا ۔مقبوضہ کشمیر میں جاری مجاہدین کی تحریک آزادی پر بننے والا ان کا ڈرامہ ’’ لاگ ‘‘ عوام میں خاصا مقبول ہوا ۔ زیبا بختیار نے چار شادیاں کیں ۔ سلمان ولیانی ، جاوید جعفری اور عدنان سمیع خان کے بعد اب سہیل خان لغاری انکے ہم سفر ہیں۔ زیباوہ واحد اداکارہ ہیں جنہوں نے بالی وڈ میں ہیروئن کا کردار اس اندازسے نبھایا کہ اخلاقی اقدار کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑاوگرنہ آج کے دور میںہیروئنز شہرت کی خاطر بولڈ سین کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں ۔ یہ بھی کچھ دور کی بات نہیں ہے جب اداکارہ میرا نے بھی یکے بعد دیگرے بھارت کی دو فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ان کی ایک فلم ’’نظر‘‘ میں عکس بند کئے گئے گیتوں اور بعض مناظر کے حوالے سے جب پاکستانی اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں تو میرا نے موقف اختیار کیا تھا کہ انہوں نے اس فلم میں بڑی صاف ستھری اور پاکیزہ اداکاری کی ہے لیکن جلد ہی سب کو معلوم ہوگیا کہ بھارت والے پاکستانی فن کاروں کے ساتھ کسی قسم کا برتائو کرتے ہیں اور ہماری اداکارائیں وہاں جا کر کس قسم کی پرفارمنس دیتی ہیں۔ 2005ء میں لالی وڈ اداکارہ میرا نے مہیش بھٹ کی فلم ’’نظر‘‘ میں اشمیت پاٹیل کے ساتھ قابل اعتراض سین کئے جن سے مخالفیانہ ردعمل پیدا ہوا،ان کا خیال تھا کہ شاید اس طرح وہ بالی وڈ انڈسٹری میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گی مگر فلم کے ریلیز کے بعد انہیں کسی نے پوچھا تک نہیں ‘البتہ ان کی بولڈ سین عکسبند کروانے کی دیدہ دلیری کو دیکھتے ہوئے گلوکار واداکار لکی علی نے انہیں ایک چھوٹے بجٹ کی فلم ’’کسک‘‘ میں کاسٹ کر لیا اور وہاں بھی انہوں نے بے باکی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئیے۔ بدنامی اتنی ہوئی کہ انہیں وطن واپس آنے کے لئے اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے سیکورٹی فراہم کرنے کا یقین دلایا۔ریما، ریشم ، ثناء ، میرا وغیرہ کے دور میں بہت کم اردو فلمیں بنیں،یہی وجہ ہے کہ انہیں اداکاری کے لئے فلمی پردہ چھوڑ کر کبھی بھارت تو کبھی منی سکرین پر آنا پڑا۔میرا ایک پاکستانی ٹی وی ریئلٹی شو ’’کون بنے گا میراپتی‘‘ بھی کرچکی ہیں ۔وینا ملک کا نام بھارتیوں کے لئے نیا نہیں ہے۔ وہ سلمان خان کی میزبانی میں پیش ہونے والے رئیلٹی شو ’’بگ باس 4‘ ‘ میں اشمیت پٹیل کے ساتھ رومانوی انداز کی اداکاری کے لئے شہ سرخیوں کا حصہ بنتی رہی ہیں۔ پاکستان میڈیا میں بھی اس شو کے حوالے سے خاصا شور مچا ۔ ان کے ’’بولڈ‘‘ انداز میں اداکاری کرنے کا مقصد ہی خبروں میں آنا اور فلموں میں کام کرنا تھا جو اب پورا ہو گیا ہے ۔ بھارت میں موجود وینا کو پہلی تھری ڈی ہارر فلم بھی مل گئی ہے ۔ فلم کی شوٹنگ جنوبی بھارت کے ایک جنگل میں جاری ہے۔ اس فلم کے پروڈیوسر ہیمنت مدھوکر ہیں جو زیادہ تر تیلگو فلمیں بنانے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ فلم میں وینا کا کردار’’ ہارر‘‘ ہونے کے ساتھ ساتھ’’ تھرلر‘‘ بھی ہے۔ وینا نے فلم’’ڈرٹی پکچر ٹو‘‘ کے لئے انتہائی قابل اعتراض مناظر بھی فلمبند کرائے ہیں۔انٹرنیٹ پر جاری ہونے والی ویڈیو کلپ میں وینا نے’’ ڈرٹی پکچر‘‘ کے پہلے پارٹ کی ہیروئن ودیا بالن کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔سوشل میڈیا پروینا کے انتہائی بولڈ مناظر پر مبنی نئے کلپس نے ہلچل مچادی ہے جس میں وہ اخلاقیات کی تمام حدیں پارکرتی ہوئی نظرآرہی ہیں۔ وینا نے بولڈ کلپ شوٹ پکچرائز کرانے کیلئے 20کروڑ روپے وصول کیے ہیں۔اداکار ثناء بھی بالی وڈ کی یاترا کر چکی ہیں ۔ اپنے انٹرویو میں انہوں نے واشگاف الفاظ میں یہ کہا ہے کہ بالی وڈ کی فلموں میں کام کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور وہ بھارت میں مزید فلموں کی آفر ملنے پر کام کرنے سے قطعی طور پر گریز نہیں کریں گی۔عمائمہ ملک کا شمار پاکستان کی ان چند خوش قسمت فنکارائوں میں ہوتا ہے جنہوں نے انتہائی کم عرصے میں ترقی کی منازل طے کیں۔ انہوں نے دو سال قبل شعیب منصور کی فلم سے اپنے فنی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ ان کی پہلی فلم ہی سپرہٹ ہو گئی۔عمائمہ نے فلم ’’شیر‘‘ کے علاوہ بھی بالی وڈ میں متعدد فلمیں سائن کی ہیں۔ فلم ’’ شیر ‘‘میں سنجے دت کے علاوہ ویوک اوبرائے اورپریش روال مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔ عمائمہ کے پاکستان میں کام نہ کرنے کی وجہ بالی وڈ میں مصروفیت ہے لیکن انہوں نے ایک پاکستانی فلم کے لیے ’’آئٹم سانگ‘‘ پکچرائز کروایا ہے جس کو ریلیز ہونے پرلوگ دیکھ سکیں گے۔ عمائمہ زیادہ تر بھارت میں ہی کام کر رہی ہیں۔ لندن فلم فیسٹیول میں ان کے مقابلے میں شلپا شیٹھی اور شبانہ اعظمی تھیں مگر ایوارڈ انہیں ملا ۔ پاکستانی اداکارہ مونا لیزا عرف سارا لورین اب بالی وڈ کی سپر ہٹ فلم سیریز مردڑ کے تیسرے سیکوئل میں اپنے حسن کے جلوے بکھیرتی نظر آ رہی ہیں۔ سارا لورین ا س سے قبل معروف گلوکار ہمیش ریشمیا کے گانے’’ کجرارے‘‘ میں اپنی پرفارمنس کے ذریعے بھٹ کیمپ کو خاصی متاثر کرچکی تھیں۔سارا لورین نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز پاکستانی ہدایت کار ایس سلیمان کی فلم’’ رابعہ زندہ رہے گی ‘‘سے کیا تھا۔مرڈر سیریز کی پہلی فلم میں ملکہ شیروات جبکہ ’’مرڈر ٹو‘‘ میں جیکولین فرنانڈس اپنی بے باک اداکاری سے فلم کو باکس آفس پر کامیاب بنایا تھا۔سارا لورین 2010ء سے شوبز کے ریڈار سے آؤٹ تھی اب بھارتی فلموں میں دوبارہ منظر عام پر آگئی ہیں۔سارہ لورین کی دوسری فلم ’’مرڈر تھری‘‘ سینما گھروں کی زینت بن چکی ہے اور خاصی کامیاب جا رہی ہے اس میں انہوں نے رندیپ ہوڈا کے ساتھ کھل کر ’’پرفارم‘‘ کیا ہے۔رندیپ ہوڈا کے ساتھ ان کی محبت کے چرچے میڈیا تک پہنچ چکے ہیں ۔گزشتہ دنوں یہ خبر بھی عام ہوئی کہ کراچی کی خوبصورت اداکارہ سعدیہ امام بھی بھارتی فلموں میں کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔اداکارہ صبا قمر ، آمنہ شیخ ، مہرین سیداور ایمان علی کو بھی بالی وڈ سے فلموں کی آفرز مل چکی ہیں ۔ بالی وڈ کے فلم میکرز ان دنوں پاکستانی ٹی وی سٹارز کو بھی اپنی فلموں میں کام کرنے کی پیشکش کر رہے ہیں ۔ صبا قمر ان دنوں ٹی وی سیریل اور دیگر پروگرامز میں مصروف ہیں ۔ آمنہ شیخ دو فلموں میں اداکاری کر چکی ہیں ۔ ایمان علی نے بھی شعیب منصور کی فلم ’’ بول ‘‘ میں اپنے کردار سے شہرت حاصل کی ہے تا ہم وہ مزید کسی فلم میں دکھائی نہیں دیں ۔خدا جانے اور کتنی اداکارائوں کے دل میں بھارت جا کر کام کرنے کے ارمان مچل رہے ہوں گے۔ہم اداکارائوں کی ان ذاتی خواہشات کی تکمیل کے مخالف نہیں، صرف اتنا چاہتے ہیں کہ جو اداکارائیں بھارتی فلموں میں کام کرنے کی خواہش مند ہیں وہ ضرور کام کریں لیکن وہاں کام کرتے ہوئے اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ ان کے کسی قول و فعل سے پاکستان کا وقار مجروح نہ ہو۔پاکستان کی معروف گلوکارہ زیب اورہانیہ بھی بالی وڈ کے معروف موسیقارشانتنو اورسوانندکرکرے کے ساتھ مل کر ممبئی میں اپنی البم کی تیاریوں میں مصروف ہیں ۔معروف شاعراورمصنف احمد عقیل روبی بھی بھارتی پنجاب کی فلم کی کہانی اورگیت لکھنے کے لیے آئندہ ماہ دہلی جائینگے۔ انہیں شنکرپرویش سہگل نے اپنی فلم کی کہانی اورگیت لکھوانے کے لیے بلایا ہے ۔پاکستان فلم انڈسٹری کو سازش کے تحت تباہ کیا گیا اور آج اس کی بحالی مشکل ہوچکی ہے۔ہم جب بھارت کی بات کرتے ہیں تو یہ سوچنا لازم ہوجاتا ہے کہ ان کے ساتھ وہاں کے عوام اور متعلقہ لوگوں نے کیا سلوک کیا اور ہمارے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا گیا؟ فلم انڈسٹری کے حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیںاس کیلئے حکومت کی سر پرستی نا گزیر ہوگئی ہے ۔ناکامی کے خوف سے کوئی بھی سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں اگر حکومت اپنا حصہ ڈالے گی تو دوسرے لوگ بھی اس طرف راغب ہو جائیں گے۔ سب سے پہلے حکومت فلم انڈسٹری کیلئے جدید مشینری امپورٹ کرے ،حکومت کا یہ سرمایہ ہرگز ضائع نہیں جائے گا بلکہ ایک سال میں ان اخراجات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ لالی وڈ ماضی میں بہت اچھی فلمیں بنتی رہی ہیں مگر بدقسمتی سے کچھ عرصے سے اس انڈسٹری کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا۔ اس انڈسٹری سے لوگوں نے بہت مال و دولت کمایا مگر اس پر پیسہ خرچ نہیں کیا گیا ۔ فلم سٹوڈیوز کی حالت ٹھیک نہیں کی گئی ، فلم کے سبجیکٹ پر توجہ نہیں دی گئی زیادہ تر گنڈاسے اور فحاشی پر انحصار کیا گیا۔ بدمعاشوں کے موضوعات پر فلمیں بنائی گئیں اور یوں غیر معیاری فلموں کا سلسلہ شروع ہو گیا جس سے فیملیز نے فلمیں دیکھنا چھوڑ دیں اور سینما کا کاروبار تقریباً ختم ہو گیا ۔ سینما مالکان نے سینما گھروں کو گرا کر شاپنگ پلازے تعمیر کرنا شروع کر دیئے۔ فلم و سینما انڈسٹری کی طرف توجہ نہ دی گئی تو نہ صرف آرٹ و ابلاغ کا یہ اہم ذریعہ ختم ہو جائے گا بلکہ اس سے وابستہ ہزاروں افراد بیروزگار ہو جائیں گے۔ اس دور میں بھی اگر اچھے اور فیملی موضوعات کا انتخاب کیا جائے اور ان پر معیاری فلمیں بنائی جائیں تو شائقین سینما گھروں کا رخ ضرور کریں گے ۔ معیاری فلم کو لوگ آج بھی پسند کرتے ہیں بھلے وہ فلم غیر ملکی ہی کیوں نہ ہو ۔ اچھا کام کیا جائے تو پاکستان کی فلم انڈسٹری اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ ماضی کی معروف اداکارہ بابرہ شریف کہتی ہیں کہ وزارت ثقافت کو چاہیے کہ فلم انڈسٹری کی بحالی کیلئے اس سے وابستہ سنجیدہ لوگوں کی آل پارٹیز کانفرنس بلائے جس میں متفقہ حکمت عملی طے کر کے اس پر کاربند ہوا جائے۔بحران سے نکلنے کا یہی واحد راستہ ہے۔٭٭٭