بھارتی فلمی صنعت کاجادو ہماری اداکارائوں کے سرچڑھ کر بول رہا ہے

بھارتی فلمی صنعت کاجادو ہماری اداکارائوں کے سرچڑھ کر بول رہا ہے

اسپیشل فیچر

تحریر : طیبہ بخاری


بھارتی فلمی صنعت کاجادو ہماری اداکارائوں کے سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کے مقابلے میں بالی وڈ رومانوی اور ایکسپوزنگ کے لیے کھلا ماحول فراہم کرتاہے، وہاں ایکسپوزنگ کرنا کوئی بڑی بات نہیں اور یہ شروع سے بالی وڈ کا حصہ رہا ہے اس کے مقابلے میں پاکستان کا کلچر مختلف ہے۔ ایکسپوزنگ بھارت میں بڑی بات نہیں لیکن پاکستان میں بہت بڑی بات بھی ہے اور بری بات بھی ۔۔۔بھارتی فلموں میں کام کرنا کوئی جرم نہیں ، فنکار کیلئے کوئی حد نہیں ہوتی اسے جہاں موقع ملے اپنے فن کو اجاگر کرنا چاہئے لیکن فنکار اخلاقی حدودو قیود سے بالاتر نہیں ہوتے اور نہ ہی انہیں خود کواخلاقی اور معاشرتی اقدار سے بلند تر سمجھنا چاہئے ۔ عزت ، شہرت اور دولت کمانے کا شوق پورا کرنے کا حق ہر کسی کو حاصل ہے لیکن ملک وملت کی روایات اور اخلاق کی پاسداری کرتے ہوئے یہ سب کچھ کیا جائے تو کوئی ہرج نہیں ۔ اگر ایکسپوزنگ کرنے سے اداکارائوں کو کامیابی ملتی ہے تو پھر بہت سی بھارتی اداکارائیں جن میں نیشا کوٹھاری‘ نیہا دھوپیا‘ ملکہ شیراوت اور راکھی ساونت جیسی درجنوں ہیں جنہوں نے فلموں میں ’’ایکسپوزنگ‘‘ کی انتہا کردی مگر آج وہ بھی اپنا فلمی کیریئر بچانے کے لئے بالی وڈ کے علاوہ دیگر علاقائی فلموں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔بالی وڈ بلاشبہ دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری ہے اس کی چمک نئے اداکاروں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یہ انڈسٹری پاکستانی ٹیلنٹ کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتی ہے لیکن کھلے دل سے نہیں ۔ موسیقی کے میدان میں پاکستانی گلوکار ایسے چھائے ہیں کہ انڈین گلوکار کہیں نظر ہی نہیں آ رہے راحت فتح علی خان اور عاطف اسلم کے گانے فلموں کی کامیابی سمجھے جاتے ہیں۔ان کے علاوہ علی عظمت ‘ نجم شیراز‘ رفاقت علی خان ‘ شفقت امانت علی خان‘ جواد احمد سمیت دیگر پاکستانی گلوکاروں نے بھی اپنا آپ منوایا۔ ایسے میں خواتین آرٹسٹ کیوں پیچھے رہتیں ۔ آج ہم بات کریں گے لالی وڈ کی چند ایسی اداکارائوں کی جنہوں نے نام ، کام اوردولت کی خاطر بالی وڈ کا سفر کیا ۔ ان کا یہ سفر کیسا رہا اس کے بارے میں بہتر فیصلہ کرنے کا اختیار صرف اور صرف عوام کے پاس ہے ۔ ہم تو ان کی کارکردگی کا مختصراًجائزہ لیں گے ۔ بالی وڈ فلموں میں ایکٹنگ کی بات کی جائے تو اس میں پاکستانی فنکاروںکی حوصلہ افزائی نہیں بلکہ حوصلہ شکنی کی گئی۔ یہ سلسلہ شروع ہوا تھا محمد علی اور زیبا کے منوج کمار کی فلم ’’ کلرک ‘‘ میں کام کرنے سے ۔شوٹنگ کے دوران تو دونوں اداکاروں کو پرفارمنس کا خوب موقع دیا گیا مگر جب فلم ریلیز ہوئی تو اس میں محمد علی اور زیبا کا کام برائے نام ہی تھا جس سے انہیں انڈین فلمی صنعت کی دوغلی پالیسی کا اندازہ ہوا اور پھر انہوں نے کبھی بالی وڈ فلموںکا رخ نہیں کیا ۔1993ء میں پاکستانی ماڈل و اداکارہ انیتاایوب نے دیو آنند کی فلم ’’پیار کا ترانہ‘‘ کی جس میں ایسے قابل اعتراض سین عکسبند کرائے کہ پاکستانی میڈیا اور سنجیدہ حلقوں نے شدید احتجاج کیا ‘ مگر اداکارہ نے اس حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کئے رکھی۔پاکستانی اداکارہ و گلوکارہ سلمیٰ آغا نے بھی چند ایک فلمیں کیں ‘ جن میں ’’نکاح‘‘ کے علاوہ دیگر فلموں میں اداکاری کم اور دوسرے ’’معاملات‘‘ پر زیادہ فوکس کیا گیا۔ سلمیٰ آغا کی بیٹی شاشا آغا اب بالی وڈ میں اپنا کیرئیر شروع کرنے والی ہیں، 1982ء کی فلم ’’نکاح‘‘ سے شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ کی بیٹی اپنے خاندان کی چوتھی نسل ہوں گی جو سلورسکرین پر نظر آئیں گی۔ اس سے قبل ان کے دادا جگل کشور مہرہ اور ان کی اہلیہ انوار بیگم نے ’’ہیر رانجھا‘‘ میں کردار ادا کیے تھے۔ سلمیٰ کی والدہ نسرین نے کے ایل سہگل کے ساتھ اے آر کار دار کی فلم ’’شاہجہاں‘‘ میں روحی کا کردار ادا کیا تھاجب کہ سلمیٰ آغا نے جو سرخ وسفید رنگ اور نیلی آنکھوں کی بدولت سب سے منفرد تھیں، نے بی آر چوپڑا کی فلم ’’نکاح‘‘ میں کام کیا اور ان کے گائے ہوئے نغمے ’’دل کے ارماں‘‘ نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی ، تاہم وہ بالی وڈ میں خود کو سمو نہیں سکیں۔ اب شاشا اپنی والدہ کے نقش قدم پر چل کر فلموں میں آرہی ہیں ،جو اپنی والدہ سے خاصی مشابہت بھی رکھتی ہیں۔سلمیٰ آغا لندن میں پیدا ہوئیں تھیں اور وہ لندن سے بالی وڈ تک پہنچیں لیکن اس سفر کے درمیان میں پاکستان بھی آتا ہے اور سلمیٰ آغا کا تعلق لندن اور بالی وڈ سے زیادہ پاکستان سے ہے اداکارہ زیبا بختیار کسی حد تک اپنا دامن بچانے میں کامیاب رہیں۔زیبا بختیار 5نومبر 1964ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوئیں ۔ وہ معروف بیوروکریٹ ، سابق اٹارنی جنرل اور ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی یحییٰ بختیار کی بیٹی ہیں ۔زیبا کی بہن وکیل جبکہ دو بھائی ڈاکٹر اور امریکہ میں مقیم ہیں ۔ زیبا نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ کے کونوینٹ سکول جبکہ اعلیٰ تعلیم لاہور میں کنیئرڈ کالج سے حاصل کی۔ زیبا نے اپنے فنی کیرئیر کا آغازچھوٹی سکرین یعنی ٹی وی ڈراموں سے کیا۔ ڈرامہ ’’ انارکلی ‘‘ میں شاندار پرفارمنس نے زیبا کو مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ۔مقبولیت کے چرچے بالی وڈ تک جا پہنچے اور راج کپور بینر نے انہیں اپنی فلم ’’ حنا ‘‘ کی ہیروئن بننے کی دعوت دی ۔ زیبا نے یہ دعوت قبول کی اس طرح وہ پہلی لالی وڈ اداکارہ تھیں جس نے بطور ہیروئن بالی وڈ کاسفر کیا ۔ ’’ حنا ‘‘ میں زیبا کی پرفارمنس نے وہ رنگ دکھایاکہ سب ان کے گرویدہ ہو گئے ۔ پھر کیا تھا ان کیلئے بالی وڈ فلموں کی لائن لگ گئی ۔ 1991ء میں ان کی فلم’’ دیش واسی ‘‘ریلیز ہوئی ۔ زیبا نے بالی وڈ جا کر بھی لالی وڈ سے ناطہ نہیں توڑا ۔ 1995ء میں عدنان سمیع خان کے ساتھ لالی وڈ میں ان کی مشہورو معروف فلم ’’ سرگم ‘‘آئی جس میں انہوں نے زیب النساء کا کردار بڑی خوبی سے نبھایا۔پھر بالی وڈ میں ان کی دو فلمیں ریلیز ہوئیں جن کے نام تھے ’’ سٹنٹ مین ‘‘ اور ’’ محبت کی آرزو ‘‘ ۔ ’’ سٹنٹ مین ‘‘ میں ان کے ساتھ ہیرو کا کردار نبھایا تھا جیکی شروف نے ۔ جنہیں بالی وڈ میں جیکی دادا کہا جاتا ہے۔ اس فلم کا گانا ’’ اماں دیکھ تیرا منڈا بگڑا جائے ‘‘ اس دور میں کافی ہٹ ہوا تھا ۔ 1995ء میں ان کی فلم ’’ جے وکرانتہ ‘‘ ریلیز ہوئی جس میں وہ نرملا (نمو ) بنیں ۔ 1996ء میں ان کی مزید3 فلمیں پردہ سیمیں پر آئیں جن کے نام تھے ’’ مقدمہ ‘‘ ، ’’ چیف صاحب ‘‘،اور ’’ قائد ‘‘ ۔ ’’ مقدمہ ‘‘ میں ان کے کردار کا نام چنچل سنگھ تھا ۔ 2001ء میں ان کی فلم ’’ بابو ‘‘ر یلیز ہوئی ۔ فلموں کے ساتھ ساتھ وہ ٹی وی سیریلز میں بھی کام کرتی رہیں اور اہم کردار نبھانے کی روایت کوبرقرار رکھا ۔مقبوضہ کشمیر میں جاری مجاہدین کی تحریک آزادی پر بننے والا ان کا ڈرامہ ’’ لاگ ‘‘ عوام میں خاصا مقبول ہوا ۔ زیبا بختیار نے چار شادیاں کیں ۔ سلمان ولیانی ، جاوید جعفری اور عدنان سمیع خان کے بعد اب سہیل خان لغاری انکے ہم سفر ہیں۔ زیباوہ واحد اداکارہ ہیں جنہوں نے بالی وڈ میں ہیروئن کا کردار اس اندازسے نبھایا کہ اخلاقی اقدار کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑاوگرنہ آج کے دور میںہیروئنز شہرت کی خاطر بولڈ سین کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں ۔ یہ بھی کچھ دور کی بات نہیں ہے جب اداکارہ میرا نے بھی یکے بعد دیگرے بھارت کی دو فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ان کی ایک فلم ’’نظر‘‘ میں عکس بند کئے گئے گیتوں اور بعض مناظر کے حوالے سے جب پاکستانی اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں تو میرا نے موقف اختیار کیا تھا کہ انہوں نے اس فلم میں بڑی صاف ستھری اور پاکیزہ اداکاری کی ہے لیکن جلد ہی سب کو معلوم ہوگیا کہ بھارت والے پاکستانی فن کاروں کے ساتھ کسی قسم کا برتائو کرتے ہیں اور ہماری اداکارائیں وہاں جا کر کس قسم کی پرفارمنس دیتی ہیں۔ 2005ء میں لالی وڈ اداکارہ میرا نے مہیش بھٹ کی فلم ’’نظر‘‘ میں اشمیت پاٹیل کے ساتھ قابل اعتراض سین کئے جن سے مخالفیانہ ردعمل پیدا ہوا،ان کا خیال تھا کہ شاید اس طرح وہ بالی وڈ انڈسٹری میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گی مگر فلم کے ریلیز کے بعد انہیں کسی نے پوچھا تک نہیں ‘البتہ ان کی بولڈ سین عکسبند کروانے کی دیدہ دلیری کو دیکھتے ہوئے گلوکار واداکار لکی علی نے انہیں ایک چھوٹے بجٹ کی فلم ’’کسک‘‘ میں کاسٹ کر لیا اور وہاں بھی انہوں نے بے باکی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئیے۔ بدنامی اتنی ہوئی کہ انہیں وطن واپس آنے کے لئے اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے سیکورٹی فراہم کرنے کا یقین دلایا۔ریما، ریشم ، ثناء ، میرا وغیرہ کے دور میں بہت کم اردو فلمیں بنیں،یہی وجہ ہے کہ انہیں اداکاری کے لئے فلمی پردہ چھوڑ کر کبھی بھارت تو کبھی منی سکرین پر آنا پڑا۔میرا ایک پاکستانی ٹی وی ریئلٹی شو ’’کون بنے گا میراپتی‘‘ بھی کرچکی ہیں ۔وینا ملک کا نام بھارتیوں کے لئے نیا نہیں ہے۔ وہ سلمان خان کی میزبانی میں پیش ہونے والے رئیلٹی شو ’’بگ باس 4‘ ‘ میں اشمیت پٹیل کے ساتھ رومانوی انداز کی اداکاری کے لئے شہ سرخیوں کا حصہ بنتی رہی ہیں۔ پاکستان میڈیا میں بھی اس شو کے حوالے سے خاصا شور مچا ۔ ان کے ’’بولڈ‘‘ انداز میں اداکاری کرنے کا مقصد ہی خبروں میں آنا اور فلموں میں کام کرنا تھا جو اب پورا ہو گیا ہے ۔ بھارت میں موجود وینا کو پہلی تھری ڈی ہارر فلم بھی مل گئی ہے ۔ فلم کی شوٹنگ جنوبی بھارت کے ایک جنگل میں جاری ہے۔ اس فلم کے پروڈیوسر ہیمنت مدھوکر ہیں جو زیادہ تر تیلگو فلمیں بنانے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ فلم میں وینا کا کردار’’ ہارر‘‘ ہونے کے ساتھ ساتھ’’ تھرلر‘‘ بھی ہے۔ وینا نے فلم’’ڈرٹی پکچر ٹو‘‘ کے لئے انتہائی قابل اعتراض مناظر بھی فلمبند کرائے ہیں۔انٹرنیٹ پر جاری ہونے والی ویڈیو کلپ میں وینا نے’’ ڈرٹی پکچر‘‘ کے پہلے پارٹ کی ہیروئن ودیا بالن کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔سوشل میڈیا پروینا کے انتہائی بولڈ مناظر پر مبنی نئے کلپس نے ہلچل مچادی ہے جس میں وہ اخلاقیات کی تمام حدیں پارکرتی ہوئی نظرآرہی ہیں۔ وینا نے بولڈ کلپ شوٹ پکچرائز کرانے کیلئے 20کروڑ روپے وصول کیے ہیں۔اداکار ثناء بھی بالی وڈ کی یاترا کر چکی ہیں ۔ اپنے انٹرویو میں انہوں نے واشگاف الفاظ میں یہ کہا ہے کہ بالی وڈ کی فلموں میں کام کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور وہ بھارت میں مزید فلموں کی آفر ملنے پر کام کرنے سے قطعی طور پر گریز نہیں کریں گی۔عمائمہ ملک کا شمار پاکستان کی ان چند خوش قسمت فنکارائوں میں ہوتا ہے جنہوں نے انتہائی کم عرصے میں ترقی کی منازل طے کیں۔ انہوں نے دو سال قبل شعیب منصور کی فلم سے اپنے فنی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ ان کی پہلی فلم ہی سپرہٹ ہو گئی۔عمائمہ نے فلم ’’شیر‘‘ کے علاوہ بھی بالی وڈ میں متعدد فلمیں سائن کی ہیں۔ فلم ’’ شیر ‘‘میں سنجے دت کے علاوہ ویوک اوبرائے اورپریش روال مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔ عمائمہ کے پاکستان میں کام نہ کرنے کی وجہ بالی وڈ میں مصروفیت ہے لیکن انہوں نے ایک پاکستانی فلم کے لیے ’’آئٹم سانگ‘‘ پکچرائز کروایا ہے جس کو ریلیز ہونے پرلوگ دیکھ سکیں گے۔ عمائمہ زیادہ تر بھارت میں ہی کام کر رہی ہیں۔ لندن فلم فیسٹیول میں ان کے مقابلے میں شلپا شیٹھی اور شبانہ اعظمی تھیں مگر ایوارڈ انہیں ملا ۔ پاکستانی اداکارہ مونا لیزا عرف سارا لورین اب بالی وڈ کی سپر ہٹ فلم سیریز مردڑ کے تیسرے سیکوئل میں اپنے حسن کے جلوے بکھیرتی نظر آ رہی ہیں۔ سارا لورین ا س سے قبل معروف گلوکار ہمیش ریشمیا کے گانے’’ کجرارے‘‘ میں اپنی پرفارمنس کے ذریعے بھٹ کیمپ کو خاصی متاثر کرچکی تھیں۔سارا لورین نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز پاکستانی ہدایت کار ایس سلیمان کی فلم’’ رابعہ زندہ رہے گی ‘‘سے کیا تھا۔مرڈر سیریز کی پہلی فلم میں ملکہ شیروات جبکہ ’’مرڈر ٹو‘‘ میں جیکولین فرنانڈس اپنی بے باک اداکاری سے فلم کو باکس آفس پر کامیاب بنایا تھا۔سارا لورین 2010ء سے شوبز کے ریڈار سے آؤٹ تھی اب بھارتی فلموں میں دوبارہ منظر عام پر آگئی ہیں۔سارہ لورین کی دوسری فلم ’’مرڈر تھری‘‘ سینما گھروں کی زینت بن چکی ہے اور خاصی کامیاب جا رہی ہے اس میں انہوں نے رندیپ ہوڈا کے ساتھ کھل کر ’’پرفارم‘‘ کیا ہے۔رندیپ ہوڈا کے ساتھ ان کی محبت کے چرچے میڈیا تک پہنچ چکے ہیں ۔گزشتہ دنوں یہ خبر بھی عام ہوئی کہ کراچی کی خوبصورت اداکارہ سعدیہ امام بھی بھارتی فلموں میں کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔اداکارہ صبا قمر ، آمنہ شیخ ، مہرین سیداور ایمان علی کو بھی بالی وڈ سے فلموں کی آفرز مل چکی ہیں ۔ بالی وڈ کے فلم میکرز ان دنوں پاکستانی ٹی وی سٹارز کو بھی اپنی فلموں میں کام کرنے کی پیشکش کر رہے ہیں ۔ صبا قمر ان دنوں ٹی وی سیریل اور دیگر پروگرامز میں مصروف ہیں ۔ آمنہ شیخ دو فلموں میں اداکاری کر چکی ہیں ۔ ایمان علی نے بھی شعیب منصور کی فلم ’’ بول ‘‘ میں اپنے کردار سے شہرت حاصل کی ہے تا ہم وہ مزید کسی فلم میں دکھائی نہیں دیں ۔خدا جانے اور کتنی اداکارائوں کے دل میں بھارت جا کر کام کرنے کے ارمان مچل رہے ہوں گے۔ہم اداکارائوں کی ان ذاتی خواہشات کی تکمیل کے مخالف نہیں، صرف اتنا چاہتے ہیں کہ جو اداکارائیں بھارتی فلموں میں کام کرنے کی خواہش مند ہیں وہ ضرور کام کریں لیکن وہاں کام کرتے ہوئے اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ ان کے کسی قول و فعل سے پاکستان کا وقار مجروح نہ ہو۔پاکستان کی معروف گلوکارہ زیب اورہانیہ بھی بالی وڈ کے معروف موسیقارشانتنو اورسوانندکرکرے کے ساتھ مل کر ممبئی میں اپنی البم کی تیاریوں میں مصروف ہیں ۔معروف شاعراورمصنف احمد عقیل روبی بھی بھارتی پنجاب کی فلم کی کہانی اورگیت لکھنے کے لیے آئندہ ماہ دہلی جائینگے۔ انہیں شنکرپرویش سہگل نے اپنی فلم کی کہانی اورگیت لکھوانے کے لیے بلایا ہے ۔پاکستان فلم انڈسٹری کو سازش کے تحت تباہ کیا گیا اور آج اس کی بحالی مشکل ہوچکی ہے۔ہم جب بھارت کی بات کرتے ہیں تو یہ سوچنا لازم ہوجاتا ہے کہ ان کے ساتھ وہاں کے عوام اور متعلقہ لوگوں نے کیا سلوک کیا اور ہمارے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا گیا؟ فلم انڈسٹری کے حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیںاس کیلئے حکومت کی سر پرستی نا گزیر ہوگئی ہے ۔ناکامی کے خوف سے کوئی بھی سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں اگر حکومت اپنا حصہ ڈالے گی تو دوسرے لوگ بھی اس طرف راغب ہو جائیں گے۔ سب سے پہلے حکومت فلم انڈسٹری کیلئے جدید مشینری امپورٹ کرے ،حکومت کا یہ سرمایہ ہرگز ضائع نہیں جائے گا بلکہ ایک سال میں ان اخراجات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ لالی وڈ ماضی میں بہت اچھی فلمیں بنتی رہی ہیں مگر بدقسمتی سے کچھ عرصے سے اس انڈسٹری کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا۔ اس انڈسٹری سے لوگوں نے بہت مال و دولت کمایا مگر اس پر پیسہ خرچ نہیں کیا گیا ۔ فلم سٹوڈیوز کی حالت ٹھیک نہیں کی گئی ، فلم کے سبجیکٹ پر توجہ نہیں دی گئی زیادہ تر گنڈاسے اور فحاشی پر انحصار کیا گیا۔ بدمعاشوں کے موضوعات پر فلمیں بنائی گئیں اور یوں غیر معیاری فلموں کا سلسلہ شروع ہو گیا جس سے فیملیز نے فلمیں دیکھنا چھوڑ دیں اور سینما کا کاروبار تقریباً ختم ہو گیا ۔ سینما مالکان نے سینما گھروں کو گرا کر شاپنگ پلازے تعمیر کرنا شروع کر دیئے۔ فلم و سینما انڈسٹری کی طرف توجہ نہ دی گئی تو نہ صرف آرٹ و ابلاغ کا یہ اہم ذریعہ ختم ہو جائے گا بلکہ اس سے وابستہ ہزاروں افراد بیروزگار ہو جائیں گے۔ اس دور میں بھی اگر اچھے اور فیملی موضوعات کا انتخاب کیا جائے اور ان پر معیاری فلمیں بنائی جائیں تو شائقین سینما گھروں کا رخ ضرور کریں گے ۔ معیاری فلم کو لوگ آج بھی پسند کرتے ہیں بھلے وہ فلم غیر ملکی ہی کیوں نہ ہو ۔ اچھا کام کیا جائے تو پاکستان کی فلم انڈسٹری اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ ماضی کی معروف اداکارہ بابرہ شریف کہتی ہیں کہ وزارت ثقافت کو چاہیے کہ فلم انڈسٹری کی بحالی کیلئے اس سے وابستہ سنجیدہ لوگوں کی آل پارٹیز کانفرنس بلائے جس میں متفقہ حکمت عملی طے کر کے اس پر کاربند ہوا جائے۔بحران سے نکلنے کا یہی واحد راستہ ہے۔٭٭٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
 سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

رواں ماہ کی ایک صبح جب آسٹریلوی نوجوانوں نے اپنے انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور فیس بک کے نوٹیفیکیشن کھولے تو انہیں ایک عجیب سا احساس ہوا کہ شاید آن لائن زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ حقیقت یہی ہے ۔آسٹریلیا نے 16 سال سے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس رکھنے اور نئے اکاؤنٹس بنانے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ قانون جسےThe Online Safety Amendment (Social Media Minimum Age) Act 2024 کہا جاتا ہے، نومبر 2024ء میں پارلیمنٹ سے منظور ہوا اور اس سال 10 دسمبرسے نافذ العمل ہو گیا۔ اس کے تحت میٹا، ٹک ٹاک، یوٹیوب، سنیپ چیٹ، ریڈیٹ، ٹویچ اور دیگر بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کو حکم دیا گیاہے کہ وہ 16 سال سے کم عمر صارفین کے اکاؤنٹس بلاک کریں یا انہیں حذف کردیں ورنہ بھاری جرمانے کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہیں۔ آسٹریلوی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے الگورتھم بچوں کی کمزور نفسیات، خود اعتمادی اور ذہنی صحت کو نشانہ بناتے ہیں، اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بجائے والدین کے کمپنیوں کو اس نقصان دہ ماحول سے بچوں کو بچانے کا حکم دیا جائے۔ سوشل میڈیا سکرین ایڈکشن، تنقیدی سوچ میں کمی اور آن لائن ہراسانی جیسی مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔چھوٹے بچے غلط معلومات، غیر اخلاقی مواد اور پرائیویسی خطرات کے سامنے بے بس ہوتے ہیں جبکہ والدین تکنیکی اور ثقافتی دباؤ کے سامنے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔لگتا ہے کہ یہ قانون سوشل میڈیا کی دنیا کے پیٹرن تبدیل کردے گا۔ آسٹریلیا کا یہ اقدام دنیا بھر میں سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ مختلف ممالک نے اس کے متوازی یا مختلف ماڈل پر غور شروع کر دیا ہے جیسا کہ یورپی پارلیمنٹ نے 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پابندی کی حمایت کی ہے، کیو نکہ کمپنیاں الگورتھمز کے ذریعے بچوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ نیوزی لینڈ نے ایک پارلیمانی کمیٹی رپورٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو جلد اسی موضوع پر قانون سازی کے لیے سفارشات دے گی۔ ملائیشیا 2026ء میں اسی طرح کی پابندی نافذ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ سپین نے سوشل میڈیا کے لیے عمر کی حد 14 سے بڑھا کر 16 کرنے یا والدین کی رضا مندی کے ساتھ رسائی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ فرانس اور ناروے بھی مختلف مدتوں اور حدود کے ساتھ اسی معاملے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک عالمی تحریک اب بچوں کی ڈیجیٹل حفاظت کے لیے شروع ہو چکی ہے۔ جیسے جیسے حکومتیں اس موضوع پر غور کریں گی ہر ملک کے اپنے ثقافتی اور سیاسی پیمانے سامنے آئیں گے۔تاہم سوشل میڈیا کے حوالے سے کچھ ملک نرم رویہ اختیار کر رہے ہیں جیسا کہ جنوبی کوریا، جہاں سوشل میڈیا بلیک آؤٹ کی بجائے کلاس رومز میں موبائل فونز کی پابندی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تعلیم میں خلل نہ آئے اور جاپان کے ایک شہر نے سب کے لیے دن میں دو گھنٹے انٹر نٹ استعمال کی حد متعارف کرائی ہے، جسے ڈیجیٹل وقت کا متوازن استعمالکہا جارہاہے۔ ڈنمارک نے سب سے مختلف حکمت عملی اپنائی ہے ، وہاں 15 سال سے کم عمر صارفین کو سوشل میڈیا تک محدود رسائی دینے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، مگر والدین کو 13،14 سال کے بچوں کو اجازت دینے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ہر ملک اور سماج کے لیے ایک ہی حل نہیں ہے۔ بعض جگہوں پر سختی ہے، بعض جگہوں پر لچک اور بعض میں تعلیمی انداز اپنایا جا رہا ہے۔آسٹریلیا کی پابندی نے شدید ردعمل بھی پیدا کیا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں، حقوقِ اظہار کے حامیوں اور نوجوانوں نے حکومت کی اس حد تک مداخلت پر سوالات اٹھائے ہیں مثال کے طور پر،یہ آزادی اظہار کا حق چھیننے جیسا تو نہیں؟ بچے دیگر انٹرنیٹ پلیٹ فارمز یا وی پی این کے ذریعے پابندی کو توڑ سکتے ہیں؟ کیا اس سے نوجوانوں کی سماجی تعاملات اور تعلیمی صلاحیتوں کو نقصان نہیں ہوگا؟انہی نکات کو لے کر آسٹریلیا کی اعلیٰ عدالت میں اس قانون کو چیلنج بھی کیا گیا ہے جس میں 15 سال کے دو بچوں نے کہا ہے کہ ان کا آزادانہ اظہار اور سیاسی معلومات تک رسائی کا حق محدود ہوا ہے۔ آج کا ڈیجیٹل منظرنامہ وہ نہیں رہا جو پانچ سال پہلے تھا۔ سوشل میڈیا صرف تفریح نہیں بلکہ تعلیم، معلومات اور معاشرتی رابطے کا ذریعہ بھی ہے، اسی لیے کوئی بھی پابندی اپنے آپ میں اچھی بری نہیں ہے ۔آسٹریلیا نے اپنی پالیسی کے ذریعے دنیا کو ایک چیلنج دیا ہے کہ بچوں کے تحفظ اور آزادی کے درمیان توازن کہاں ہے؟یہ سوال نہ صرف قانون سازوں کو درپیش ہے بلکہ والدین، اساتذہ اور خود نوجوانوں کے لیے بھی ایک آئینہ ہے۔ کیا دنیا آسٹریلیا کے نقش قدم پر چلتی ہے؟ کیا ہم ایک نئے ڈیجیٹل سماجی معاہدے کی طرف بڑھیں گے؟وقت ہی بتائے گا کہ یہ قدم محفوظ مستقبل کی بنیاد بنتا ہے یا نئی حدود کی کنجی۔

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ایشیا میں پرندوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ، ہالیجی جھیل کراچی سے 82 کلومیٹر اور ٹھٹھہ سے شمال مغرب میں 24 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہالیجی جھیل نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی ماحولیاتی اہمیت کی حامل ہے اور اپنی قدرتی خوبصورتی، میٹھے پانی کے ذخیرے اور بالخصوص آبی پرندوں کے مسکن کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔یہاں تقریباً 200 سے زائد اقسام کے پرندے آتے ہیں ۔کسی زمانے میں مہمان پرندوں کی 500 سے زائد اقسام ہوتی تھی تاہم وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں پرندوں کی تعداد اور اقسام کم ہوتی چلی گئیں۔اس کی ایک بڑی وجہ جھیل کے پانی کی آلودگی بھی ہے۔ اس جھیل سے کراچی شہر کو پانی فراہم کیا جاتا تھا لیکن جب پانی کی یہ سپلائی یہاں سے بند کر کے کینجھرجھیل سے شروع ہوئی تو ہالیجی جھیل کا پانی آلودہ ہونے لگا اور آبی حیات کے لیے یہ مسکن ناقابلِ رہائش ہو گیا اور افزائش نسل کے لیے بھی مناسب نہ رہا۔ہالیجی جھیل کے قیام کا تاریخی پس منظر یوں ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران اتحادی افواج کی کثیر تعداد کراچی میں قیام پذیر ہوئی اور پانی کی ضرورت کے پیشِ نظر ہالیجی جھیل بنانے کا فیصلہ کیا گیا، یوں ایک مصنوعی جھیل وجود میں آئی جو کہ 1943ء میں مکمل ہوئی۔ جھیل کے انسپکٹر کی رہائش گاہ پر آج بھی 1943ء کی تختی لگی ہوئی ہے۔جھیل تقریباً 18 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کی گہرائی مختلف مقامات پر 17 سے 30 فٹ تک ہے۔ اس جھیل کے دلدلی حصے میں مگر مچھوں کی ایک کثیر تعداد ہوا کرتی تھی جوبتدریج کم ہوتے جارہے ہیں ۔ہالیجی جھیل کو رامسر کنونشن کے تحت عالمی اہمیت کی حامل آب گاہ (Wetlands of International Importance) قرار دیا گیا، جو اس کی ماحولیاتی قدر و قیمت کا واضح ثبوت ہے۔رامسر کنونشن عالمی معاہدہ ہے جو دو فروری 1971 ء کو ایران کے شہر رامسر میں آب گاہوں کے تحفظ کے اجلاس دوران طے پایااور 76-1975ء میں مکمل طور پر نافذ کیاگیا ۔ اُس وقت پاکستان میں آٹھ رامسر آب گاہیں تھیں اور اس وقت ان کی تعداد 19 ہوگئی ہے۔ہالیجی بنیادی طور پر بارشوں اور قریبی ندی نالوں کے پانی سے وجود میں آئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جھیل ایک متوازن ماحولیاتی نظام میں تبدیل ہو گئی جہاں پانی، نباتات، مچھلیاں اور پرندے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جھیل کے اردگرد پائے جانے والے آبی پودے، سرکنڈے اور گھاس پرندوں کے لیے قدرتی پناہ گاہ اور افزائشِ نسل کا ذریعہ فراہم کرتے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہالیجی جھیل کو آبی اورمہاجر پرندوں کے لیے ایک محفوظ مسکن سمجھا جاتا ہے۔ہالیجی جھیل انڈس فلائی وے زون کے راستے میں ہونے کے باعث ہر سال سردیوں کے موسم میں سائبیریا، وسطی ایشیا اور یورپ کے مختلف علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کا مسکن بنتی ہے ۔ ان میں فلیمنگو، پیلیکن، بطخوں کی مختلف اقسام، ہیرون، ایگریٹ اور کوٹ شامل ہوتے ہیں۔ یہ پرندے یہاں نہ صرف قیام کرتے ہیں بلکہ خوراک حاصل کرتے اور بعض اقسام افزائشِ نسل بھی کرتی ہیں۔ ہالیجی جھیل کا پرامن ماحول اور وافر خوراک ان پرندوں کے لیے ایک مثالی پناہ گاہ بناتا ہے۔رامسر کنونشن کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں آب گاہوں کا تحفظ، ان کا دانشمندانہ استعمال اور حیاتیاتی تنوع کی بقا کو یقینی بنانا ہے۔ ہالیجی جھیل اس کنونشن کے اصولوں کی عملی مثال ہے کیونکہ یہ جھیل پرندوں کے مسکن کے ساتھ ساتھ مقامی ماہی گیروں، نباتات اور آبی حیات کے لیے بھی ناگزیر اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم ہالیجی جھیل کو درپیش خطرات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی، صنعتی آلودگی، غیر قانونی شکار، پانی کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے عوامل اس جھیل کے قدرتی توازن کو متاثر کر رہے ہیں۔ خاص طور پر پرندوں کے غیر قانونی شکار نے ماضی میں اس مسکن کو شدید نقصان پہنچایا۔ اگرچہ حکومت اور محکمہ جنگلی حیات نے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں لیکن مؤثر عمل درآمد اور عوامی آگاہی کی اب بھی شدید ضرورت ہے۔ہالیجی جھیل کی حفاظت دراصل پرندوں ہی نہیں بلکہ پورے ماحولیاتی نظام کی حفاظت ہے۔ یہ جھیل ہمیں یاد دلاتی ہے کہ آب گاہیں قدرت کا وہ نازک تحفہ ہیں جو انسانی غفلت کی صورت میں تیزی سے تباہ ہو سکتی ہیں۔ رامسر کنونشن کے تحت ہالیجی جھیل کی حیثیت ہمیں یہ ذمہ داری سونپتی ہے کہ ہم اس قدرتی ورثے کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنائیں۔ ہالیجی جھیل پاکستان کے ماحولیاتی خزانے کا ایک قیمتی حصہ ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ، پانی کی سطح پر تیرتے رنگ برنگے پرندے اور قدرتی خاموشی اس جھیل کو ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ اگر ہالیجی جھیل کا تحفظ سنجیدگی سے کیا جائے تو یہ نہ صرف پرندوں کا محفوظ مسکن بنی رہے گی بلکہ رامسر کنونشن کے مقاصد کی تکمیل میں بھی پاکستان کے مثبت کردار کو اجاگر کرے گی۔

آج کا دن

آج کا دن

پہلی کامیاب پرواز 17 دسمبر 1903ء کو امریکی ریاست نارتھ کیرولائنا کے مقام کِٹی ہاک پر اورول رائٹ اور ولبر رائٹ نے پہلی مرتبہ ایک ایسا ہوائی جہاز کامیابی سے اڑایا جو انجن سے چلتا تھا، کنٹرول کیا جاتا تھا اور انسان کو فضا میں لے جانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس طیارے کا نام فلائر ون تھا جس نے تقریباً 12 سیکنڈ تک پرواز کی اور 120 فٹ کا فاصلہ طے کیا۔یہ کارنامہ محض ایک سائنسی تجربہ نہیں تھا بلکہ انسانی تہذیب میں ایک انقلابی قدم تھا۔ رائٹ برادران کی اس کامیابی نے بعد میں ہوابازی، جنگی طیاروں، مسافر بردار جہازوں اور عالمی رابطوں کے پورے نظام کی بنیاد رکھی۔ سیمون بولیوار کا انتقال 17 دسمبر 1830ء کو لاطینی امریکا کے عظیم انقلابی رہنما سیمون بولیوار کا انتقال ہوا۔ بولیوار کو'' لبریٹر‘‘یعنی آزادی دلانے والا کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے سپین کی نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے وینزویلا، کولمبیا، ایکواڈور، پیرو اور بولیویا کو آزادی دلوانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔بولیوار نہ صرف ایک فوجی کمانڈر تھے بلکہ ایک ویژنری سیاسی رہنما بھی تھے۔ ان کا خواب تھا کہ آزاد ہونے والے لاطینی امریکی ممالک ایک مضبوط وفاق کی صورت میں متحد رہیں مگر اندرونی اختلافات، علاقائی سیاست اور اقتدار کی کشمکش نے ان کے خواب کو پورا نہ ہونے دیا۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ مایوسی، بیماری اور تنہائی کا شکار رہے۔ مالمدی قتلِ عام دوسری عالمی جنگ کے دوران 17 دسمبر 1944ء کو یورپ میں ایک انتہائی ہولناک واقعہ پیش آیا جسے مالمدی قتلِ عام کہا جاتا ہے۔ یہ واقعہ بلجیم کے علاقے مالمدی کے قریب پیش آیا جہاں نازی جرمن فوج کے ایس ایس دستوں نے امریکی فوج کے تقریباً 84 جنگی قیدیوں کو گولی مار کر قتل کر دیا۔یہ واقعہBattle of the Bulge کے دوران پیش آیا۔ بعد ازاں یہ واقعہ جنگی جرائم کی ایک نمایاں مثال کے طور پر سامنے آیا۔جنگ کے بعد نیورمبرگ طرز کے مقدمات میں اس قتلِ عام میں ملوث جرمن افسران پر مقدمات چلائے گئے اور کئی کو سزائیں سنائی گئیں۔عرب بہار کا آغاز17 دسمبر 2010ء کو تیونس کے ایک نوجوان پھل فروش محمد بوعزیزی نے پولیس کی بدسلوکی، بے روزگاری اور حکومتی ناانصافی کے خلاف احتجاجاً خود سوزی کرلی۔ یہ واقعہ بظاہر ایک فرد کی ذاتی اذیت کا اظہار تھا مگر اس نے پوری عرب دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔بوعزیزی کی خودسوزی کے بعد تیونس میں عوامی احتجاج شروع ہوا جو جلد ہی ایک عوامی انقلاب میں تبدیل ہو گیا۔ چند ہفتوں میں صدر زین العابدین بن علی اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہو گئے۔ یہی تحریک آگے چل کر عرب بہار کہلائی جس نے مصر، لیبیا، یمن اور شام سمیت کئی ممالک میں سیاسی ہلچل پیدا کی۔

روبوٹک لیمپ:ٹیکنالوجی کا نیا شاہکار

روبوٹک لیمپ:ٹیکنالوجی کا نیا شاہکار

دنیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی میں اب ایک اور حیران کن ایجاد شامل ہو گئی ہے۔ پکسر کے مشہور اچھلتے لیمپ سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا ایک دلچسپ روبوٹک ڈیسک لیمپ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے، جو نہ صرف حرکت کرتا ہے بلکہ دیکھنے، سننے اور بات کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ کیلیفورنیا کی کمپنی ''Interaction Labs‘‘ کی جانب سے تیار کردہ ''اونگو‘‘(Ongo) نامی یہ سمارٹ لیمپ گھروں اور دفاتر کیلئے ایک نئے طرز کی ڈیجیٹل رفاقت پیش کرتا ہے۔ پرومو ویڈیو میں یہ روبوٹ اشیاء اور انسانوں کو تجسس بھری نظروں سے دیکھتا، مدد فراہم کرتا اور ماحول سے تعامل کرتا نظر آتا ہے، جبکہ اس کی رازداری کے تحفظ کیلئے سن گلاسز تک مہیا کیے گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے شوقین افراد اس جدت کو روبوٹکس کے مستقبل کی ایک دلکش جھلک قرار دے رہے ہیں۔کمپنی کے شریک بانی اور سی ای او کریم رخا چاہم (Karim Rkha Chaham) نے بتایا کہ یہ ''جذبات کا اظہارِ کرنے والا‘‘ روبوٹ صارفین کو یاد بھی رکھ سکتا ہے اور ان کی ضروریات کا اندازہ بھی لگا لیتا ہے۔ اسے یوں سمجھیں جیسے کسی بلی کو ایک ڈیسک لیمپ کے جسم میں قید کر دیا گیا ہو‘‘۔سماجی پلیٹ فارم ''ایکس‘‘ پر تبصرہ کرنے والوں نے اس ڈیزائن کو ناقابلِ یقین، شاندار، بہت زبردست اور حیرت انگیز ٹیکنالوجی کا نمونہ قرار دیا ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ ''یہ یقینی طور پر وہ چیز ہے جو میں گھر میں رکھ سکتا ہوں، کسی خوفناک انسانی نما روبوٹ کے مقابلے میں‘‘۔ جبکہ ایک اور نے لکھا کہ ''یہ شاید مارکیٹ کا سب سے پیارا روبوٹ ہو سکتا ہے‘‘۔''اونگو‘‘ کی حرکات ایلیک سوکولو نے ڈیزائن کی ہیں، جو پکسر کی فلم ''ٹوائے سٹوری‘‘، ''گارفیلڈ: دی مووی‘‘ اور ''ایون المائٹی‘‘ کے آسکر کیلئے نامزد سکرین رائٹر ہیں۔ پرومو ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ''اونگو‘‘ اپنے بیس پر گھومتا ہے اور اپنی محور کو خودبخود ایڈجسٹ کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے Pixar کا مشہور کردار کرتا تھا۔صارف کی ضرورت کے مطابق ''اونگو‘‘ اپنی آنکھوں سے نکلنے والی روشنی کی شدت کو کم یا زیادہ کرسکتا ہے اور انہیں قریب بھی لا سکتا ہے، مثلاً رات کے وقت کتاب پڑھنے کیلئے۔یہ خوشگوار انداز میں سلام کرتا ہے، مفید مشورے دیتا ہے اور ہدایات بھی دیتا ہے جیسے: ''ارے! اپنی چابیاں بھولنا مت‘‘۔ایک اور دلکش منظر میں دکھایا گیا ہے کہ جب گھر میں پارٹی ہو رہی ہوتی ہے تو ''اونگو‘‘ پاس والے کمرے میں چلنے والی موسیقی کی دھن پر جھومتا ہے۔کمپنی کے مطابق، یہ ڈیسک لیمپ آپ کے ڈیسک اور آپ کے دن کو روشن کرتا ہے اور آپ کے گھر میں ''جادو جیسی مانوس موجودگی‘‘ لے کر آتا ہے۔کمپنی اپنی ویب سائٹ پر کہتی ہے: ''یہ آپ کی جگہ کو حرکت، شخصیت اور جذباتی ذہانت کے ساتھ زندہ بناتا ہے۔یہ اُن باتوں کو یاد رکھتا ہے جو آپ کیلئے اہم ہیں، آپ کے احساسات کو محسوس کرتا ہے اور دن بھر چھوٹی چھوٹی، خیال رکھنے والی حرکات کے ذریعے آپ کا ساتھ دیتا ہے۔ اونگو آپ کے دن کی رفتار کو محسوس کرتا ہے اور ماحول میں آنے والی لطیف تبدیلیوں کو خاموشی سے سمجھتے ہوئے ان کا جواب دیتا ہے۔ سمارٹ مصنوعات کی طرح جن میں کیمرے شامل ہوتے ہیں، اونگو بھی اپنے اردگرد کے ماحول کا ادراک رکھتا ہے، لیکن وہ ویژول ڈیٹا کو اپنی ڈیوائس ہی پر پروسیس کرتا ہے اور کسی بھی قسم کی ویڈیو کلپس کلاؤڈ پر نہیں بھیجتا، تاکہ کمپنی کا کوئی فرد انہیں نہ دیکھ سکے۔ جب صارفین مکمل پرائیویسی چاہتے ہوں اور نہیں چاہتے کہ اونگو ان پر نظر رکھے، تو وہ اس کی آنکھوں پر غیر شفاف چشمے لگا سکتے ہیں، جو مقناطیس کی مدد سے فوری طور پر چپک جاتے ہیں۔ایکس (X) پر کئی صارفین نے کہا کہ انہیں اونگو کی آواز ''پریشان کن‘‘ اور ''چبھن بھری‘‘ لگتی ہے، لیکن چہام (Chaham) کا کہنا ہے کہ اس کی آواز کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت بھی حسبِ ضرورت کسٹمائز کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ پرومو ویڈیو کمپیوٹر جنریٹڈ ہے، لیکن یہ صارفین کو ایک واضح اندازہ دیتی ہے کہ وہ کیا توقع رکھ سکتے ہیں، کیونکہ فی الحال پروٹوٹائپ پر کام جاری ہے، یعنی یہ ابھی مکمل طور پر تیار نہیں۔اونگو کو کمپنی کی ویب سائٹ پر پری آرڈر کیا جا سکتا ہے، جس کیلئے 49 ڈالر یا 38.38 پاؤنڈ کی مکمل طور پر قابلِ واپسی ''پرائیویٹی ایکسس ڈپازٹ‘‘ درکار ہے۔ یہ ڈپازٹ صارف کیلئے پہلے بیچ سے ایک یونٹ محفوظ کر دیتا ہے اور یہ رقم پروڈکٹ کی آخری قیمت میں سے منہا ہوجائے گی،جس کے بارے میں چہام نے بتایا کہ یہ تقریباً 300 ڈالر (225 پاؤنڈ) ہوگی۔ جو صارفین ابھی ادائیگی کریں گے انہیں اونگو کی ترسیل اگلے سال موسمِ گرما میں شروع ہونے پر پہلے فراہم کی جائے گی۔اونگو بلاشبہ پکسر کے اصل لیمپ ''لکسو جونیئر‘‘ (Luxo.Jr) کی طرف ایک واضح اشارہ ہے، جو 1995ء میں ''ٹوائے سٹوری‘‘ سے لے کر اب تک ہر پکسر فلم کے پروڈکشن لوگو میں دکھائی دیتا ہے۔

پلاسٹک کی بوتلوں سے محل تعمیر

پلاسٹک کی بوتلوں سے محل تعمیر

کینیڈین فنکارکا کارنامہ گنیز گیئربک میں شامل کر لیا گیاپلاسٹک آلودگی کے بڑھتے ہوئے بحران کے اس دور میں، دنیا بھر میں جب ماحولیاتی ماہرین سر پکڑے بیٹھے ہیں، ایک شخص نے تخلیقی سوچ اور عزم کے ساتھ وہ کام کر دکھایا جس کا تصور بھی مشکل ہے۔ ''پلاسٹک کنگ‘‘ کے نام سے مشہور اس باہمت فرد نے 40 ہزار استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ضائع ہونے نہیں دیا، بلکہ انہیں جوڑ کر ایک شاندار چار منزلہ محل تعمیر کر ڈالا۔ یہ منفرد منصوبہ نہ صرف ماحول دوستی کی ایک روشن مثال ہے بلکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ تخلیق اور جدت انسان کو ناممکن کو بھی ممکن بنانے کی طاقت عطا کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں کے تناظر میں یہ کارنامہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو ایک پھینکی ہوئی پلاسٹک کی بوتل بھی تعمیر وطن اور خدمت انسانیت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔یہ چند سال پہلے کی بات ہے کہ دنیا کو بے کار کچرے سے پاک کرنے کے خواہش مند ایک کینیڈین شخص نے پاناما کے لوگوں میں حیرت انگیز جوش پیدا کر دیا۔ اس نے ساحلوں اور شاہراہوں پر بکھری ہزاروں پلاسٹک کی بوتلیں اکٹھی کروائیں اور اسی ''کچرے‘‘ کو استعمال کر کے ایک ایسا شاندار محل تعمیر کر ڈالا جو کیریبین سورج کی روشنی میں جگمگاتا ہے۔ یہ کوئی کہانی نہیں ہے بلکہ مونٹریال سے تعلق رکھنے والے رابرٹ بیزو کی حقیقی زندگی کا وہ کارنامہ ہے جس نے انہیں درست طور پر ''پلاسٹک کنگ‘‘ کا لقب دلایا۔ 2012ء میں رابرٹ پاناما کے علاقے بوکاس ڈیل ٹورو کے ایسلا کولون میں رہائش پذیر تھے اور اپنا وقت بوکاس ری سائیکلنگ پروگرام کے ساتھ گزار رہے تھے، جو ملک کے ساحلوں اور بستیوں سے کچرا صاف کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ مگر کینیڈین شہری اس بات پر سخت حیران ہوا کہ صرف ڈیڑھ سال کے دوران انہوں نے دس لاکھ سے زائد پلاسٹک کی بوتلیں جمع کیں جو ری سائیکل ہونے والے کچرے کے بڑے بڑے ڈھیر کی صورت جمع ہو رہی تھیں۔ اس آلودگی کو کم کرنے کیلئے رابرٹ کے ذہن میں ایک بہت ہی غیر معمولی خیال آیا۔ کیا ہو اگر ان بوتلوں کو ری سائیکل کرنے کے بجائے براہ راست استعمال کر کے کوئی بڑا ڈھانچہ بنایا جائے، ایسا جو رہائش بھی فراہم کرے اور انسانی فضلے اور ماحول دوست حل کی ایک علامت بھی بن جائے۔اسی خیال کے بیج سے دنیا کا سب سے بڑا پلاسٹک بوتلوں سے بنا قلعہ وجود میں آیا۔ چار منزلہ، 46 فٹ (14 میٹر) بلند کاسٹیلو اِن اسپیریسیون، جو تقریباً 40 ہزار بوتلوں سے تیار کیا گیا۔رابرٹ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ شروع میں جزیرے کے رہائشیوں اور حکام کو لگا کہ میں پاگل ہوں حتیٰ کہ میری بیوی اور میرا بیٹا بھی یہی سمجھتے تھے۔ پھر انہیں تجسس ہوا اور انہوں نے مجھے یہ دیکھنے کیلئے کام جاری رکھنے دیا کہ آخر میں کیا کرنے والا ہوں۔ جیسے جیسے عمارت بڑھتی گئی، ان کی دلچسپی بھی بڑھتی گئی۔ کچھ ہی عرصے میں عمارت نے واضح شکل اختیار کرنا شروع کر دی۔ کنکریٹ اور اسٹیل کے مضبوط ڈھانچے کے گرد بنائی گئی اس تعمیر میں رابرٹ اور ان کی ٹیم نے پلاسٹک کی بوتلوں کو ''ماحول دوست تعمیراتی مواد‘‘ یا انسولیشن کے طور پر استعمال کیا۔ بوتلوں کی ساخت نے قلعے کو موسمی اثرات سے محفوظ رکھا اور اسے ایک منفرد حسن بخشا جس کی جھلک کسی پلاسٹک گلاس جیسی دکھائی دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ چیلنج یہ تھا کہ ہمارے پاس کوئی منصوبہ نہیں تھا، ہم روزانہ کی بنیاد پر کام میں جدت لاتے تھے۔ یہ ایک دن، ایک منزل کر کے اوپر اٹھتا گیا، یہاں تک کہ ہم چار منزلوں تک پہنچ گئے! مجموعی طور پر قلعے میں چار مہمان کمرے، ضیافت کیلئے ایک بڑا ہال اور چھت پر ایک دیدہ زیب مشاہدہ گاہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ وہاں آنے والے زائرین کیلئے متعدد تعلیمی مواد بھی رکھا گیا ہے، تاکہ لوگ پلاسٹک کے کچرے کے اثرات اور رابرٹ کی اس منفرد تخلیق کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکیں۔اس تمام عمل کے دوران، رابرٹ ری سائیکلنگ کے بجائے اپ سائیکلنگ کی اہمیت کو اجاگر کرتے رہے۔ اپ سائیکلنگ سے مراد یہ ہے کہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ان کی کیمیائی ساخت بدلے بغیر کسی نئے مقصد کیلئے دوبارہ استعمال کیا جائے۔ جبکہ روایتی ری سائیکلنگ کے نتیجے میں عموماً پلاسٹک کے ذرات ماحول کے نظام میں داخل ہو جاتے ہیں، اپ سائیکلنگ کو کچرے کے زیادہ ماحول دوست استعمال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ رابرٹ نے ایک بار کہا تھا: ''ایک شخص کا کچرا، دوسرے انسان کا محل بن سکتا ہے۔ ڈائنوسار ایک شہابِ ثاقب سے ختم ہوئے تھے، اور انسانیت پلاسٹک سے ختم ہوگی‘‘۔ چند سال بعد جب رابرٹ نے یہ محل تعمیر کیا، انہیں '' انرجی گلوب ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا، جو ان کے پائیدار منصوبوں کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایوارڈ انہیں ''ناقابل یقین احساس‘‘ دلانے والا تھا۔مگر اس اعزاز کے باوجود، وہ یہاں رکنے والے نہیں تھے۔ 2021ء میں، انہوں نے اپنے منصوبے کو وسعت دیتے ہوئے پورا پلاسٹک بوتلوں کا گاؤں تعمیر کیا، جس میں کئی دیگر عمارتیں بھی شامل ہیں۔ ان گھروں میں بوتلیں انسولیشن کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں اور ان کے باہر کنکریٹ کی تہہ دی گئی ہے۔

پومپیئی:ایک قدیم شہر جو لمحوں میں تاریخ بن گیا

پومپیئی:ایک قدیم شہر جو لمحوں میں تاریخ بن گیا

دنیا کی قدیم تہذیبوں میں اگر کوئی شہر عبرت، حیرت اور تاریخ کے سنگم کے طور پر یاد کیا جاتا ہے تو وہ پومپیئی ہے۔ اٹلی کے جنوب میں واقع یہ رومن شہر 79ء میں آتش فشاں ماؤنٹ ویسوویس کے اچانک پھٹنے سے لمحوں میں مٹ گیا۔ مگر اس شہر کی حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مٹی نہیں بلکہ راکھ میں محفوظ ہوگیا۔ ایسے جیسے وقت رک گیا ہو اور زندگی ایک ٹھہرے ہوئے منظر کی صورت ہمیشہ کیلئے نقش ہو گئی ہو۔تاریخی پس منظرپومپیئی بحیرہ روم کے کنارے واقع ایک خوشحال رومن شہر تھا جس کی بنیاد غالباً چھٹی یا ساتویں صدی قبل مسیح میں رکھی گئی۔ یہ شہر ایک اہم تجارتی مرکز تھا جہاں رومی طرزِ زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری تھی۔ پتھروں کی پختہ گلیاں، شاندار گھروں کے صحن، حمام، تھیٹر، بازار اور شراب خانے سب پومپیئی کی بھرپور تہذیب اور سماجی زندگی کی عکاسی کرتے تھے۔24 اگست 79ء کی صبح اچانک ماؤنٹ ویسوویس نے زبردست دھماکے کے ساتھ آگ اگلی۔ آسمان سیاہ ہو گیا، زہریلی گیسوں اور راکھ نے فضا بھر دی۔ چند ہی گھنٹوں میں گرم لاوے کا سیلاب، راکھ اور پتھروں کی بارش اور زہریلی گیسوں کے بادل نے پورے شہر کو ڈھانپ لیا۔ پومپیئی کے تقریباً 20 ہزار باشندوں میں سے بہت سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے، مگر ہزاروں لوگ وہیں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ شہر 6 سے 7 میٹر موٹی آتش فشانی راکھ کے نیچے دفن ہوگیا۔پومپیئی 17 صدیوں تک زمین کے نیچے چھپا رہا۔ 1748ء میں جب کھدائی شروع ہوئی تو آثارِ قدیمہ کے ماہرین ششدر رہ گئے کیونکہ شہر کے گھر، فرنیچر، برتن، دیواروں پر بنے رنگین نقش و نگار، فریسکوز، حتیٰ کہ انسانوں اور جانوروں کے آخری لمحات تک حیرت انگیز طور پر محفوظ تھے۔راکھ میں دبے جسم وقت کے ساتھ گل گئے، مگر ان کے خالی خول برقرار رہے۔ ماہرین نے ان میں پلاسٹر بھر کر انسانوں کے آخری لمحات کو شکل دے دی۔کوئی بھاگ رہا تھا،کوئی اپنے بچے کو تھامے ہوئے تھا اور کوئی گھٹنوں کے بل جھکا امداد کا منتظر تھا۔ یہ مناظر آج بھی دیکھنے والوں کے دل دہلا دیتے ہیں۔پومپیئی کی گلیاں، پتھریلے فٹ پاتھ، دوکانوں کے کاؤنٹر، شہریوں کے گھر اور شاہی ولا آج بھی اسی طرح موجود ہیں جیسے 79ء کی صبح تھے۔رنگین دیواری تصویریں رومی آرٹ کی بہترین مثال ہیں جن میں اساطیری مناظر، رقص، کھانے پینے کی محفلیں اور روزمرہ زندگی کی جھلکیاں شامل ہیں۔رومی تہذیب کا آئینہپومپیئی آج روم کی قدیم تہذیب کا سب سے بڑا کھلا میوزیم ہے۔ یہاں سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ لوگ کیسے رہتے تھے، کیا کھاتے تھے، تفریح کیسے کرتے تھے، تجارت کیسے ہوتی تھی اور مذہبی رسومات کیا تھیں۔ گھروں میں ملنے والے فرنیچر کے نشانات، بیکریوں کے تنور، حمام کے کمرے، اسٹیڈیم، تھیٹر اور مندر سب کچھ اس قدیم شہر کے سماجی ڈھانچے کو زندہ کر دیتے ہیں۔آج کا پومپیئیآج پومپیئی دنیا کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے آثارِ قدیمہ مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ یہ مقام نہ صرف سیاحوں کیلئے پرکشش ہے بلکہ ماہرین آثارِ قدیمہ کیلئے بھی ایک زریں خزانہ ہے جہاں نئی دریافتیں آج بھی جاری ہیں۔ جدید تحقیق آتش فشانی تباہی، قدیم فنون اور رومی طرزِ زندگی کے بارے میں نئی روشنی ڈال رہی ہے۔اطالوی حکومت اور یونیسکو مل کر اس تاریخی مقام کے تحفظ کیلئے بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں تاکہ یہ ورثہ آئندہ نسلوں تک محفوظ رہے۔پومپیئی صرف ایک تباہ شدہ شہر نہیں، بلکہ وقت کے رُک جانے کی داستان ہے۔ یہ ہمیں انسان کی طاقت، کمزوری، فخر، خوشیوں، غموں اور قدرت کی بے رحم قوتوں کے بارے میں سبق دیتا ہے۔ یہاں کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ تہذیبیں کیسے بستی ہیں اور لمحوں میں کیسے مٹ سکتی ہیں لیکن ان کے نقوش صدیوں بعد بھی انسان کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔