چہرہ

چہرہ

اسپیشل فیچر

تحریر : ڈاکٹر محمد محسن


بیٹے کی دلی تمنا پوری ہوچکی تھی۔ چھٹیاں رائیگاں ہونے سے بچ گئی تھیں۔ تیس چالیس ہزار روپے ڈوبنے سے بچ گئے تھے۔ بیٹا ابا جی کے چہرے کو پُر نم آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ یہی تو دیکھنے آیا تھا وہ۔اباجی کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ سات سمندر پار سے ہزاروں روپے خرچ کرکے بیٹا آیا تھا۔ وہ بھی اکلوتا۔ اسی کا دل رکھنے کی خاطر انتقال فرما جاتے تو ان کا کیا بگڑتا۔ زندگی کی اسّی(۸۰) بہاریں تو دیکھ چکے تھے، اب دیکھنے کو رہ ہی کیا گیا تھا جس کی خاطر جیتے۔ پچھلے سال اباجی نے جو حرکت کی تھی اس سے بیٹے کو بڑی تکلیف پہنچی تھی۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا۔ لوگوں نے تار دے کر بیٹے کو بلایا۔ باپ کا چہرہ دیکھنا چاہتے ہو تو فوراً آجائو حالت نازک ہے۔ بیٹا چھٹی لے کر فوراً آیا۔ آکر دیکھا تو لوگوں کے بیان کو غلط پایا۔ اباجی کی حالت بہتر ہوچلی تھی۔ ڈاکٹروں کی پیش گوئی غلط ثابت ہوئی۔ بیٹے کے پہنچنے سے پہلے اباجی ایسے ہوگئے جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ شاید بیٹے کی قسمت میں چہرہ دیکھنا نہ لکھا تھا۔ بیٹے کو تار دینے والوں پر بڑا غصہ آیا۔ واپس جاتے وقت سب کو ڈانٹا۔ کھری کھری سنائیں۔ جب کوئی بات نہ تھی تو مجھے تار کیوں بھیجا۔ بغیر تن خواہ کے چھٹی لے کر آیا۔ آنے جانے کے چکر میں اور تحفے لانے پر جو پیسے ضائع ہوئے وہ الگ۔ اس سے تو کہیں بہتر تھا کہ تیس چالیس ہزار روپے گھر بھیج دیتا۔ ابا جی کا لگ کر علاج تو ہو جاتا۔ پیسے یوں خاک میں تو نہ ملتے۔ تار بھیجنے والے خون کا گھونٹ پی کر رہ گئے۔ عزیز و اقارب خون سفید ہونے کا طعنہ دے کر چپ ہوگئے اور کر بھی کیا سکتے تھے۔اس بار بھی بیٹا چہرہ ہی دیکھنے آیا تھا۔ ابا جی کی حالت واقعی نازک تھی بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ بیٹے کو بڑی مشکل سے پندرہ دن کی چھٹی ملی تھی۔ اور وہ بھی تن خواہ کے بغیر۔ اباجی کا اخلاقی فرض تھا کہ انہی پندرہ دنوں میں انتقال فرما کر بیٹے کو آئندہ پریشان ہونے سے بچائیں۔دو دن سفر میں گزر گئے۔ ایک دن آرام کرنے میں، باقی بچے بارہ دن جو کچھ ہونا ہے انہی دنوں میں ہوجائے۔ اس کے بعد ہوا تو بڑا افسوس ہوگا بیٹے کو۔ ہمارا قصور یہ تھا کہ ہم ابا جی کے پڑوسی تھے۔ سب ہی انہیں ابا جی کہتے تھے۔ ہم بھی کہنے لگے۔ رشتہ داروں کی طرح آنا جانا تھا۔ جب بھی کوئی بات ہوتی۔ چھینک بھی آتی تو ہماری خدمات ضرور حاصل کی جاتیں۔ اب کی بار تو ان کی حالت واقعی غیر تھی۔ بار بار ہمیں بلایا جاتا اور ہم اپنی روایتی منافقت سے کام لے کر ابا جی کے جلد صحت یاب ہونے کا مژدہ سنا آتے۔ حالاں کہ ان کے بچنے کی قطعی امید نہ تھی۔بیٹے کی چھٹیاں ختم ہونے والی تھیں۔ آخری دو دن باقی تھے۔ اچانک ابا جی کا سانس اکھڑنے لگا۔ فوراً ہمیں بلایا گیا۔ ہم نے انجیکشن لگا دیا اور چلتے وقت حسبِ معمول جھوٹی تسلی دی۔ ’’دیکھیے آپ لوگ بالکل پریشان نہ ہوں۔ انجیکشن لگا دیا ہے۔ انشا اللہ جلد طبیعت سنبھل جائے گی۔‘‘ ہماری یہ بات سن کر نہ جانے بیٹے کے دل پر کیا گزری۔ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ ہم نے آگے بڑھ کر دلاسہ دیا۔ دل چھوٹا نہ کرو اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھو۔ اللہ نے چاہا تو جلد ٹھیک ہوجائیں گے۔بیٹا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور بڑے دل گداز انداز سے کہنے لگا۔ ’’ڈاک صاحب نہ جانے میری قسمت میں کیا لکھا ہے۔ چھٹیاں ختم ہورہی ہیں کل آخری دن ہے۔ پرسوں واپس چلاجائوں گا۔ نوکری کا معاملہ ہے زیادہ دن رک نہیں سکتا۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے میری قسمت میں ابا جی کا چہرہ دیکھنا نہیں لکھا۔ میرے جاتے ہی انہیں کچھ ہوگیا تو ہمیشہ حسرت رہے گی کہ مرتے دم ابا جی کا چہرہ نہ دیکھ سکا۔‘‘ ہماری کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کیا جائے، غصہ تو بہت آرہا تھا بیٹے کی خود غرضی پر، طنزیہ کہہ آئے اللہ سے دعا کرو شاید وہی مشکل آسان کردے بڑے کرب میں مبتلا ہیں ابا جی‘‘ دوسرے دن لوگ دوڑے دوڑے آئے ’’ڈاک صاحب جلدی چلیے نہ جانے کیا ہوگیا ابا جی کو‘‘۔ ہم نے جا کر دیکھا نبض ڈوب چکی تھی۔ ناک کا بانسہ بیٹھ چکا تھا۔ آنکھیں ٹھیر چکی تھیں۔ پتلیاں پھیل چکی تھیں۔ اباجی اب اس دنیا میں نہ تھے۔ بیٹے کی دلی تمنا پوری ہوچکی تھی۔ چھٹیاں رائیگاں ہونے سے بچ گئی تھیں۔ تیس چالیس ہزار روپے ڈوبنے سے بچ گئے تھے۔ بیٹا ابا جی کے چہرے کو پُر نم آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ یہی تو دیکھنے آیا تھا وہ۔ چہرہ‘ باپ کا مردہ چہرہ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
دنیاکی خطرناک ترین جھیلیں

دنیاکی خطرناک ترین جھیلیں

لفظ جھیل کے ساتھ ہی انسان کے ذہن میں ایک خوبصورت اور خوشگوار تاثر جنم لیتا ہے۔ جھیل فطری طور پر موجود پانی کا ایک بڑا مگر ساکت ذخیرہ ہوتا ہے۔جھیلیں عام طور پر دو طرح کی ہوتی ہیں۔ایک قدرتی اور دوسری مصنوعی۔ قدرتی جھیلیں پہاڑی علاقوں، خوابیدہ آتش فشانی دھانوں ،سرسبز میدانی ودایوں اور گلیشئرز والے علاقوں میں عام طور پر پائی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تیس لاکھ سے زائد جھیلیں پھیلی ہوئی ہیں جن میں زیادہ تعداد قدرتی جھیلوں کی ہے۔ ان میں بہت ساری جھیلیں عالمی شہرت کی وجہ سے سارا سال دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں۔دنیا بھر میں ایسی جھیلوں کی بھی کمی نہیں جو اپنے خطرناک محل وقوع اور پیچیدہ ساخت کی وجہ سے باقاعدہ طور پر مقامی انتظامیہ کی طرف سے ''ممنوعہ علاقے ‘‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔اس کے باوجود بھی دنیا بھر سے آئے جنونی اور مہم جو سیاح تمام خطرات کو بالائے طاق رکھ کر انہیں دیکھنے پہنچ جاتے ہیں۔ ذیل میںایسی ہی کچھ خطرناک جھیلوں کا ذکرہے۔کیوو جھیل کانگو جمہوریہ کانگو اور روانڈا کی سرحد کے بیچوں بیچ افریقہ کی ایک بڑی اور خطرناک جھیل واقع ہے جس کی شہرت ''کیوو کانگو جھیل‘‘ کے نام سے ہے۔ یہ جھیل اپنے اندر زہریلی میتھین گیس کے وسیع ذخائر کی وجہ سے ماہرین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ اس پراسرار جھیل میں ایک اندازے کے مطابق 60 ارب کیوبک میٹر میتھین گیس اور 300 کیوبک میٹر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس تحلیل ہے۔ ماہرین کہتے ہیں اسی پر ہی بس نہیں ہے بلکہ اس خطرناک گیس کی مقدار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس گیس کا منبہ اس جھیل کے قریب ایک آتش فشاں ہے جس کے بار بار پھٹنے اور جھیل کیوو کی تہہ میں موجود بیکٹیریا کے گلنے سڑنے کے عمل کے دوران یہ گیس پیدا ہو رہی ہے۔ماہرین ایک عرصہ سے کانگو حکومت کے اکابرین کو متنبہ کرتے آرہے ہیں کہ میتھین گیس کی یہ غیر معمولی مقدار کسی ایٹم بم کی طرح انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے۔گیس کے بڑھتے اس خطرناک عمل کو ماہرین نے ''اوور ٹرن‘‘کا نام دیا ہے۔جبکہ سائنسی زبان میں اسے ''لمنک ایریپشن‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔یہ عمل تب وقوع پذیر ہوتا ہے جب جھیل کی تہہ میں موجود پانی کے دبائو کی وجہ سے گیس کا پریشر بھی بڑھ جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں تکنیکی ردعمل وجود میں آتا ہے جس سے قریب کی آبادیوں کیلئے جان لیوا خطرات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ تاہم یہاں سائنسدانوں کی یہ کوشش لائق تحسین ہے جس کے ذریعے وہ اس گیس سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر غور کر رہے ہیں۔ رامری جزیرہبرما کے قریب ایک ویران جزیرہ کو ''رامری جزیرہ ‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کی وجہ شہرت یہاں پر موجود ایک جھیل میں غیرمعمولی تعداد میں موجود آدم خور مگر مچھوں کی موجودگی ہے ۔ جس کی وجہ سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والوں نے اس جزیرے کو اس روئے زمین پر جانوروں کے ہاتھوں سب سے زیادہ انسانی جانوں کے نقصان اور ہلاکتوں کو قرار دیا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانیوں نے امریکی فوج کے حملوں سے بچنے کیلئے اس خفیہ مقام کو محفوظ سمجھتے ہوئے اس جزیرے کا رخ کیا تھا جو اس حقیقت سے لاعلم تھے کہ یہ مقام آدم خور مگر مچھوں کا مسکن ہے۔ چنانچہ ایک اندازے کے مطابق اس دوران جاپان کے 900کے لگ بھگ فوجی ان مگرمچھوں کی بھینٹ چڑھ کر موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ یہ روایات بھی ہیں کہ اس دوران صرف چند ایک فوجی زندہ بچ پائے تھے۔ جہاں تک اس جزیرے کی اس خونی جھیل کے مگر مچھوں کی تعداد کا تعلق ہے، اگرچہ صحیح تعداد کا دعویٰ یوں تو آج تک سامنے نہیں آیا لیکن واقفان حال کے اندازوں کے مطابق یہ جھیل۔ 30 ہزار سے زائد مگر مچھوں کا مسکن ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اگرچہ مقامی انتظامیہ کی طرف سے اس علاقے کو خطرناک علاقہ قرار دیا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہر سال متعدد جنونی اور مہم جو سیاح ان مگر مچھوں کی خوراک بنتے رہتے ہیں۔ خونی جھیل جاپان کے ایک شہر بیپو میں سرخ رنگ کے اُبلتے ہوئے پانی کی ایک جھیل سیاحت کے اعتبار سے خاصی شہرت کی حامل ہے۔ یہ جھیل جاپان کے غیر معمولی درجہ حرارت والے گرم پانی کے چشموں اور جھیلوں میں سے ایک ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس جھیل کے پانی کا درجہ حرارت 194 فارن ہائیٹ تک رہتا ہے۔ جہاں تک اس کے خون کی رنگت والے سرخ پانی کا تعلق ہے تو ماہرین کے مطابق چونکہ اس جھیل کی تہہ میں فولاد اور نمک کہ وافر مقدار موجود ہے جس کی وجہ سے اس کے پانی کی رنگت سرخ ہے۔اس جھیل کا سرکاری نام جاپانی زبان میں ''Chinoike Jigoku‘‘ ہے جس کے معنی''جہنم کی خونی جھیل ‘‘کے ہیں۔اس لئے عرف عام میں اس جھیل کو خونی جھیل بھی کہتے ہیں ، جس کے نام کی کشش کی وجہ سے دور دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں۔اس جھیل بارے صدیوں پرانی سینہ بہ سینہ چلتی سیکڑوں مقامی روایات بھی جڑی ہوئی ہیں جن میں ایک مقبول روایت کے مطابق دیوتا ناراضگی کی صورت میں اپنے پجاریوں کو اس جھیل میں پھینک دیا کرتے تھے۔ او کفنوکی جھیلامریکی ریاست جارجیا کے شمال مشرق میں واقع 438000 ایکڑ کے وسیع رقبے پر پھیلی گہرے سیاہ رنگ کی ایک خوفناک جھیل جو اب رفتہ رفتہ ایک ایسی خوفناک دلدل میں بدل چکی ہے جس کا سب کچھ ہی انتہائی خطرناک ہے۔ یہاں تک کہ یہاں موجود بیشتر پودے بھی گوشت خور نسل کے ہیں جو ہر لمحہ انسانی خون کے پیاسے رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس دلدل کے اردگرد گھنی جھاڑیاں اور خود رو پودوں کے اندر کالے سیاہ مچھر ہر وقت منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ماہرین کے مطابق یہاں ہزاروں کی تعداد میں زہریلے سانپ ، موٹے تازے مینڈک اور کالے سیاہ رنگ کے مگر مچھ پانی کی سیاہ رنگت کی وجہ سے نظر نہیں آتے۔ اگرچہ سیاحوں کو اس جھیل سے دور رہنے کیلئے جگہ جگہ تحریری طور پر متنبہ کیا جاتا ہے لیکن اکثر و بیشتر کچھ جنونی مہم جو جان ہتھیلی پر رکھ کر موت کی اس وادی تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہاں پر موجود خود رو گھاس بھی اس قدر خطرناک ہے کہ اس دلدل کے قرب و جوار میں موجود سڑکوں اور عمارات تک کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ جیکبس ویل جھیلامریکی ریاست ٹیکساس میں واقع یہ کرسٹل کی طرح چمکدار اور صاف شفاف پانی کی ایک خوبصورت قدرتی جھیل ہے جس کی گہرائی لگ بھگ 30فٹ ہے۔یہ اپنی خوبصورتی کے برعکس دنیا کی خطرناک ترین جھیلوں میں شمار ہوتی ہے کیونکہ اس کی تہہ میں خطرناک ، گہری اور پراسرار غاروں کا جال بچھا ہوا ہے۔ اگر کوئی غلطی سے اس جھیل میں غوطہ زن ہو کر غاروں کے قریب پہنچ جائے تو ماہرین کے بقول اس کی واپسی کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔مشی گن جھیل امریکہ کی یہ جھیل بھی انتہائی خطرناک جھیل ہے کیونکہ یہاں بہت کم غوطہ خور اس میں تیراکی کے بعد واپس آتے ہیں۔ اس جھیل کو ایک پر اسرار اور خطرناک جھیل کی شہرت اس لئے ہے کہ یہ ہر سال سیکڑوں ہلاکتوں کا باعث بنتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سو غوطہ خوروں میں سات سے آٹھ افراد جاں کی بازی ہار جاتے ہیں۔ماونٹ اریبس جھیلانٹارکٹکا میں واقع یہ جھیل نہ صرف ایک عجوبہ عالم ہے بلکہ دنیا کی چند خطرناک ترین جھیلوں میں سے بھی ایک ہے۔ عجوبہ جھیل اسے اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے پانی کے اوپر والے حصے کا درجہ حرارت 60 ڈگری سینٹی گریڈ جبکہ پانی کے اندر کا درجہ حرارت 1700 ڈگری سینٹی گریڈ کے آس پاس ہوتا ہے۔یہ چونکہ آتش فشاں کے لاوے کے ذریعے وجود میں آنے والی ایک جھیل ہے جس کی وجہ سے اس کا درجہ حرارت غیرمعمولی رہتا ہے۔ چنانچہ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے یہ دنیا کی خطرناک ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔ اس کے قریب جانا خطرے سے خالی اس لئے نہیں ہے کہ اس آتش فشاں کا لاوا کسی بھی لمحہ پھٹ سکتا ہے اور آناً فاناً دس سے بیس فٹ فاصلے کے درمیان چیزوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ کھولتی ہوئی جھیل ڈومینیکا کے پہاڑوں کے درمیان واقع ایک جھیل ایسی ہے جس کا پانی زیادہ تر ابلتا رہتا ہے۔ اس کا اوسط درجہ حرارت 198 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ نے اس جھیل میں اترنے یا اس میں نہانے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ مقامی لوگوں نے اس جھیل کو ''ابلتی جھیل‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔

پتن مینارہ

پتن مینارہ

تاریخی عمارتیں ہر قوم کے نزدیک بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، پتن مینارہ بھی ایک ایسی ہی تاریخی عمارت ہے جس کی تعمیر کے پیچھے باقاعدہ ایک تاریخ ہے۔ یہ تاریخی ورثہ اب تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے، اس کے اردگرد کی تمام زمین فروخت کر دی گئی ہے۔ اب اسے منہدم کر دیا جائے گا اور یہاں کاشت کاری شروع ہو جائے گی۔رحیم یار خان سے 15کلو میٹر کے فاصلے پر پتن مینارہ واقع ہے۔ پتن مینارہ کے اردگرد کا علاقہ کپاس کی کاشت کیلئے مشہور ہے۔ یہاں سے بڑی مقدار میں روئی حاصل کی جاتی ہے۔ لیکن ان کھیت کھلیانوں کے درمیان کھڑا تاریخی ورثہ کسی کی توجہ کا مرکز نہیں۔ اب یہ صرف اینٹوں کا ایک مینار باقی رہ گیا ہے جو کسی بھی وقت زمین بوس ہو سکتا ہے۔اس تک پہنچنے کیلئے ایک ٹیلے پر مبنی سیڑھیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہاں محکمہ اوقاف پنجاب کی جانب سے تختی آویزاں ہے، جس پر اسے تاریخی ورثہ قرار دیئے جانے سے متعلق عبارت درج ہے۔ مینار بھی آدھا زمین میں دھنس چکا ہے اور تختی پر واقع تحریر بھی واضح نہیں رہی۔ یہاں مقیم لوگ مینار کی تاریخ سے واقف ہیں اور اس کے متعلق مختلف قصے کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ مولوی خلیل احمد کے مطابق پتن مینار 326قبل از مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا۔ جس وقت یہ تعمیر ہوا اس کے پہلو سے دریائے سندھ سے نکلنے والا ایک چھوٹا دریا گھاگرا گزرا کرتا تھا۔ اس مینار نے بہت سی ثقافتیں اور قومیں گزرتی دیکھی ہیں۔ یہ موہنجودڑو، ہڑپہ اور ٹیکسلا سے مطابقت رکھتا ہے اور بدھ مت، آریان، برہمنوں کے علاوہ یہ افغان حکمران فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں بھی اہم مقام رہا۔ کئی حکمران دوران سفر یہاں قیام کیا کرتے تھے۔سکندر اعظم برصغیر پر حملہ آور ہوا تو اُس نے اِس مقام پر اپنی فوجی چھائونی تعمیر کروائی تھی۔ جس کا انتظام ایک یونانی گورنر کے ہاتھ میں تھا۔ یونانیوں نے یہاں ایک یونیورسٹی اور کمپلیکس بھی تعمیر کروایا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس جگہ کی اہمیت میں کمی واقع ہوتی چلی گئی۔ پہلے چونکہ اس کے قریب سے دریا گزرا کرتا تھا بعد میں دریائے سندھ نے اپنا رخ موڑ لیا اور اس میں سے نکلنے والا چھوٹا دریا بھی خشک ہو گیا جس کے بعد یہاں سے آباد کاروں نے بھی ہجرت کر لی اور یہ جگہ محض کھنڈر بن کر رہ گئی۔ 1849ء میں ماہر تعمیرات کرنل منچن نے یہاں پر خزانے کی تلاش کا کام شروع کیا تھا لیکن یہ بھی مشہور تھا کہ یہ خزانہ روحانی طاقتوں کے قبضے میں ہے، اس لئے خزانے تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے باوجود کرنل نے کھدائی کا عمل جاری رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ خزانے تک پہنچ گیا تھا انہیں اس دوران ایک راستہ مل گیا تھا۔ کھدائی کے جاری عمل میں یہاں مزدوروں پر اچانک غیبی حملہ ہو گیا، یوں اس سوراخ کو بند کر دیا گیا۔ کرنل منچن کی شروع کردہ خزانے کی یہ کھوج یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ تلاش کا یہ عمل جاری رہا۔ ریاست بہاولپور کے نواب صادق عباسی کے دور حکمرانی میں بھی خزانے کی تلاش کا کام شروع ہوا۔ انہوں نے اپنے وقت کے کئی جوگیوں اور روحانی پیروں کی مدد حاصل کی لیکن ان تمام تر کوششوں کے باوجود وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے۔پتن مینار سے چند سوگز کے فاصلے پر ایک قدیم مسجد بھی ہے جسے ابوبکر مسجد کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اسے ایک مسلم حکمران محمد ابوبکر سانول سائیں نے 1849ء میں تعمیر کرایا تھا۔ یہ مسجد پتن مینار کے قریب آج پوری شان و شوکت سے کھڑی ہے۔ اس کی حفاظت کی جا رہی ہے اور یہاں پانچ وقت نماز ادا ہوتی ہے۔ مقامی طور پر کئی مرتبہ کوشش کی گئی کہ پتن مینار کو خوبصورتی اور دوام بخشا جائے اور اسے تاریخی ورثے کے طور پر عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس کے ارد گرد کمپلیکس اور پارک تعمیر کیا جائے تاکہ لوگ اس کی جانب متوجہ ہوں۔ اس سلسلے میں رحیم یار خان کے عباس زیدی نے 1993ء میں ان امور کی جانب قدم بڑھایا اور اس مقصد کیلئے کثیر زر مبادلہ بھی وقف کیا۔ اس سلسلے میں کام شروع کر دیا گیا پھر نہ جانے کیوں یہ منصوبہ اچانک ہی کھٹائی میں پڑ گیا۔ 

اردوالفاظ کا درست استعمال

اردوالفاظ کا درست استعمال

جانوروں کے بچہ کو ہم بچہ ہی کہتے ہیںمثلاً سانپ کا بچہ ،الو کا بچہ،بلی کا بچہ،لیکن اردو میںان کے لئے جدا جدا لفظ ہیں، مثلاً :بکری کا بچہ : میمنا، بھیڑ کا بچہ : برّہ، ہاتھی کا بچہ : پاٹھا، الوّ کا بچہ : پٹھا، بلی کا بچہ : بلونگڑہ، گھوڑی کا بچہ:بچھیرا، بھینس کا بچہ:کٹڑا، مرغی کا بچہ:چوزا، ہرن کا بچہ:برنوٹا،سانپ کا بچہ: سنپولا ،سور کا بچہ: گھٹیا ۔ اسی طرح بعض جانداروں اور غیرجانداروں کی بھیڑ کیلئے خاص الفاظ مقرر ہیں۔جو اسم جمع کی حیثیت رکھتے ہیں ؛مثلاً :طلبا کی جماعت،پرندوں کا غول،بھیڑوں کا گلہ،بکریوں کا ریوڑ،گووں کا چونا ،مکھیوں کا جھلڑ،تاروں کا جھرمٹ یا جھومڑ، آدمیوں کی بھیڑ،جہازوں کا بیڑا ،ہرنوں کی ڈار،کبوتروں کی ٹکڑی،بانسوں کا جنگل ، درختوں کا جھنڈ، اناروں کا کنج ، بدمعاشوں کی ٹولی ، سواروں کا دستہ، انگور کا گچھا، کیلوں کی گہل ، ریشم کا لچھا، مزدوروں کا جتھا، فوج کا پرّا، روٹیوں کی تھپی، لکڑیوں کا گٹھا، کاغذوں کی گڈی، خطوں کا طومار، بالوں کا گُچھا، پانوں کی ڈھولی، کلابتوں کی کنجی۔(شورش کاشمیری کی کتاب ''فن ِ خطابت‘‘ سے اقتباس)

عظیم مسلم سائنسدان ابن طفیل

عظیم مسلم سائنسدان ابن طفیل

ابن طفیل بین الاقوامی شہرت کا مالک، قدیم اسلامی اندلس کا مشہور عالم، جراح اور فلسفی تھا۔ اس کا نام ابوبکر محمد عبدالمالک تھا، ابوجعفر الاندلسی القرطبی الاشبیلی کے نام سے بھی مشہور ہے۔ وہ قبیلہ قیس میں 1105ء میں پیدا ہوا۔ اس کا مقام پیدائش غرناطہ کی ایک وادی میں تھا۔ ابن طفیل کے خاندان اور تعلیم و تربیت کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ وہ طبیب تھا اور غرناطہ میں مطب کرتا تھا۔ پھر وہ والیٔ صوبہ کا کاتب بنا۔ 1154ء میں اس نے یہی خدمت والیٔ طنجہ اور سبتہ کے یہاں انجام دی۔ ان سب کیلئے وہ خاندان الموحد کے حکمران ابویعقوب یوسف اوّل کا طبیب مقرر ہوا۔ طفیل کے بعد مشہور فلسفی و طبیب ابن رشد اسی عہدہ پر فائز ہوا۔ ابن طفیل کو ابو یعقوب کے یہاں کافی رسوخ حاصل ہو گیا۔ اسی اثر سے یعقوب کے دربار میں کئی نامور علما جمع ہو گئے۔ نوجوان ابن رشد بھی ان میں سے ایک تھا۔ ابن طفیل ہی کے مشورہ پر ابن رشد نے ارسطو کی تصنیفات پر حاشیے لکھے۔ 1185ء میں یعقوب کا انتقال ہو گیا تو اس کے بیٹے جانشین ابو یوسف یعقوب نے ابن طفیل کا والد کی طرح ہی خیال رکھا۔ ابن طفیل کا جب انتقال ہوا تو اس کے جنازے میں ابو یوسف نے بھی شرکت کی۔ ابن طفیل کی تصنیفات ناپید ہیں، البتہ اس کی ایک تصنیف جو اب تک موجود ہے اور جس نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی، وہ ہے رسالہ ''حئی بن یقظان‘‘۔ اس کا ذیلی عنوان اسرارالحکمۃ الاشراقیہ ہے۔ اس کا ترجمہ لاطینی زبان میں سترہویں صدی میں شائع ہوا، اس کے بعد اس کا ترجمہ دنیا کی اور خاص طور پر یورپ کی کئی زبانوں میں ہو چکا ہے۔ اس میں اس نے اپنے فلسفیانہ خیالات کو ایک داستان کی شکل میں پیش کیا ہے۔ اسرارالحکمۃ الاشراقیہ میں اشراقی فلسفہ اپنی اعلیٰ ترین بلندیوں پر ملتا ہے۔ اس کی مدد سے وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ چونکہ فلسفہ کا فہم و ادراک عام لوگوں کے ذہن سے بالاتر ہے، لہٰذا اسے ایک قصہ کے ذریعہ عام فہم انداز میں پیش کیا جائے۔ اس میں اس نظریہ کی حمایت کی گئی ہے کہ حق دو گونہ ہوتا ہے۔ ایک وہ جس کا تعلق حکمت سے ہے اور دوسرا وہ جس کا تعلق شریعت سے۔ اس دور کے حکمائے اسلام کا یہی خیال تھا اور آگے چل کر ابن رشد نے بھی اس پر خاص طور پر زور دیا۔ ابن سینا نے بھی اس پر ایک رسالہ تصنیف کیا تھا۔ چنانچہ ابن طفیل نے یہ عنوان ابن سینا ہی سے لیا ہے۔ آگے چل کر ان ہی ناموں کو استعمال کر کے جامی نے ایک مثنوی اور طوسی نے ایک افسانہ تصنیف کیا۔ بعض لوگ ان خیالات کا رشتہ نوافلاطونی فلسفہ سے ملاتے ہیں۔ حئی بن یقظان کی زبان سراسر رمزی ہے اور اس کا مقصور اس امر کی تشریح ہے کہ فلسفے کی غرض و غایت ذات الہٰی سے اتحادواتصال ہے۔ انسان کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے دل کی صفائی اور نوربصیرت سے اس مقام پر پہنچ جائے جہاں حق کے ادراک کیلئے کسی قیاس و استدلال کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اس سلسلہ میں ابن طفیل نے اپنے پیش روؤں ابن سینا، ابن ماجہ اور غزالی کی بڑی تعریف کی ہے۔ حئی بن یقظان کا قصہ یہ ہے کہ ایک جزیرے کی شہزادی اپنے بچے کو سمندر میں پھینکنے پر مجبور ہوتی ہے۔ وہ بچہ پانی کی رو میں بہہ کر ایک سنسان جزیرے میں پہنچ جاتا ہے۔ ایک ہرنی اس بچے کو دودھ پلاتی ہے۔ وہ اس کی پہلی معلمہ ہے۔ بچہ جب کسی قدر بڑا ہوتا ہے تو اپنے اطراف کے جانوروں کو پاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ان سب کے جسم ڈھکے ہوئے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے جسم کو بھی پتوں سے ڈھانکتا ہے۔ تجربے سے وہ درخت کی لکڑی استعمال کرنا سیکھ جاتا ہے اور اس طرح اسے ہاتھوں کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ پھر وہ شکاری بن جاتا ہے۔ ہنرمندی ترقی کرنے لگتی ہے تو جسم کو پتوں کی جگہ عقاب کی کھال سے ڈھانکنے لگتا ہے۔ ہرنی، جس نے اسے پالا تھا، جب بوڑھی ضعیف اور بیمار ہو جاتی ہے تو اسے بڑا دکھ پہنچتا ہے اور وہ اس بڑھاپے اور بیماری کی کھوج میں اپنے جسم کا مطالعہ کرتا ہے اور اس طرح اسے اپنے حواس کا شعور ہوتا ہے۔ جب ہرنی مر جاتی ہے تو پتھر سے چیر کر وہ جسم کے اندر کی چیزوں سے واقف ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ احساس ہوتا ہے کہ مرنے پر کوئی غیرمرئی چیز جسم سے چلی جاتی ہے۔ یہ روح کا بالکل ابتدائی تصور ہوتا ہے۔ لاش سڑنے لگتی ہے تو پہاڑی کوے اسے دفن کرنے کا طریقہ سکھاتے ہیں۔ اتفاقاً رگڑ سے اسے آگ سے واقفیت ہوتی ہے اور اس کا استعمال سیکھنے لگتا ہے۔ بڑھتے ہوئے تجربوں کے ساتھ وہ جانوروں کو چیرنا، پھاڑنا، انہیں سدھانا، ان کے اون سے کپڑے بنانا سیکھ جاتا ہے۔ داستان میں اس ارتقا کی تفصیل بڑے دلچسپ پیرائے میں بیان کی گئی ہے۔ حئی بن یقظان کا علم جیسے جیسے بڑھتا جاتا ہے، اس میں اور تیز رفتاری آتی جاتی ہے اور آخر میں وہ فلسفہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ وہ تمام نباتات و معدنیات کا علم حاصل کرتا ہے۔ حیوانات کے اعضائے جسمانی اور ان کے استعمال سے واقف ہوتا ہے اور انہیں اصناف اور انواع میں مرتب کرتا ہے۔ ابتدائی جواہر کی جستجو میں وہ عناصر اربعہ کی شناخت کر لیتا ہے۔ زمین کا معائنہ کرتے وقت اس کے ذہن میں مادہ کا تصور جنم لیتا ہے۔ پانی کو گرم کرنے پر وہ بھاپ بن جاتا ہے تو اس سے وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ہر نئی تخلیق کے لیے علت کا ہونا ضروری ہے۔ اس سے اس کے ذہن میں اس کائنات کے خالق مطلق کا تصور آتا ہے۔ اس کا مطالعہ وہ اطراف کی چیزوں میں کرتا ہے لیکن چونکہ یہ سب فانی ہیں اس لیے اب وہ اپنی جستجو کا رخ اجرام سماوی کی طرف موڑ دیتا ہے۔ حئی جب اٹھائیس سال کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اب وہ آسمان کے بارے میں غوروخوض شروع کرتا ہے اور طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا تصور موجودات عالم کے مطالعہ سے کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اللہ اپنے ارادے میں مختار ہے، دانا ہے، عالم ہے، رحیم ہے وغیرہ۔ اسی سے وہ اپنے نفس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ وہ غیر فانی ہے وہ انہی مسائل پر غوروخوض میں لگ جاتا ہے۔ اس کے بعد الہامی مذہب کا ایک سچا پیرو اسال قریب کے جزیرے سے پہنچ جاتا ہے۔ جب دونوں ایک دوسرے کی بات سمجھنے لگتے ہیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ الہامی مذہب بھی دراصل وہی فلسفیانہ عقیدہ ہے جس تک حئی پہنچ چکا ہے، اور اسال کو اس میں تمام الہامی مذاہب کی وجدانی تعبیر نظر آتی ہے۔ اسال حئی کو ترغیب دے کر اسے اپنے جزیرے میں لے جاتا ہے تاکہ وہ عام لوگوں کے سامنے اپنی تعلیم پیش کرے۔ مگر وہ اپنا فلسفہ لوگوں کو سمجھانے سے قاصر رہتا ہے۔ حئی اور اسال مایوس ہو کر غیر آباد جزیرے میں واپس چلے آتے ہیں تاکہ باقی زندگی خالص غوروفکر میں گزاریں۔ لوگ بدستور خیالی رموز و علامات کے سہارے زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔

میتھی دانہ کے انمول طبی فوائد!

میتھی دانہ کے انمول طبی فوائد!

میتھی دانہ کو انگریزی زبان میںseeds Fenugreek کہا جاتا ہے اور کئی سالوں سے اسے فائدہ مند اثرات کے حصول کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ میتھی دانہ صرف کھانوں کے ذائقے بڑھانے کے لئے کام نہیں آتا بلکہ یہ آپ کی جلد اور اندرونی صحت کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔ اگر آپ نہیں جانتے کہ میتھی دانہ آپ کتنے طبی فوائد پہنچا سکتا ہے تو آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں: کیل مہاسے سے نجاتاگر آپ چہرے پر نکلنے والے کیل مہاسوں سے تنگ ہیں تو آپ کو چاہیے کہ میتھی دانہ استعمال کریں۔ اس کے استعمال کا طریقہ کچھ یوں ہے کہ 4 کپ پانی میں 4 کھانے کے چمچ میتھی دانہ شامل کر کے رات بھر کے لیے چھوڑ دیں۔ صبح اٹھ کر پانی سے میتھی دانہ کو نکال دوسرے پانی میں شامل کر کے 15 منٹ تک ابالیں۔ اس کے بعد ابلے ہوئے پانی کو چھان لیں۔ چھنے ہوئے پانی میں روئی کو ڈبو کر دن میں دو مرتبہ جلد پر لگائیں۔ اس طرح آپ کو کیل مہاسوں سے نجات مل جائے گی۔ اس پانی کو قابلِ استعمال رکھنے کے لیے ریفریجریٹر میں محفوظ رکھیں۔صحت مند بالمیتھی دانہ آپ کے بالوں کو مزید صحت مند اور لمبا کرسکتا ہے۔ تھوڑا سا میتھی کسی ناریل کے تیل میں شامل کر کے ایسی بوتل میں ڈالیں جس میں ہوا داخل نہ ہوسکتی ہو۔ اس بوتل کو تین ہفتوں کے لیے ایسے مقام پر رکھ دیں جو ٹھنڈا ہو لیکن وہاں سورج کی روشنی نہ پہنچ سکے۔ اس کے بعد یہ تیل سر کی چوٹی میں لگائیں۔ آپ کے بال خوبصورت اور صحت مند ہوجائیں گے۔ذیابیطسشوگر کا مرض لاحق ہونے کے بعد آپ چاہے کھانے کے معاملے میں چاہے جتنی بھی احتیاط سے کام لیں لیکن پھر بھی کبھی نہ کبھی بدپرہیزی ضرور ہوجاتی ہے۔ ایسے میں میتھی دانہ کا استعمال جسم میں شوگر کی سطح کو متوازن رکھنے کے حوالے سے اہم کردار ادا کرتا ہے اور انسولین کی مزاحمت کو کم کرتا ہے۔ہارٹ اٹیک سے بچاؤہارٹ اٹیک عام ہوتا جا رہا ہے جس کی بنیادی وجہ ہماری غیر صحت بخش غذائیں ہیں۔ لیکن میتھی دانہ دل کے حملے کی صورت میں پہنچنے والے شدید نقصانات سے دل کو محفوظ بناتا ہے اور دباؤ کو کم کرتا ہے۔ میتھی دل کی صحت کے حوالے سے بہترین قرار دیا جاتا ہے۔کینسر سے بچاؤمیتھی دانہ کا تیل کینسر کے مریضوں کے لیے انتہائی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ یہ تیل ایسے اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے جو کینسر کے خلیوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے کینسر کے مریضوں کے لیے یہ تیل بہترین ہے اور قدرتی ہونے کے وجہ سے اس کے مضر اثرات بھی نہیں ہوتے۔کولیسٹرول کی سطحمیتھی دانہ جسم میں موجود برے کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے کے حوالے سے بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ میتھی دل کی بیماریوں کے لاحق ہونے کے خطرات کو بھی کم کرتا ہے۔جگر کی حفاظتجگر ہمارے جسم میں پائے جانے والے زہریلے مادوں کی صفائی کا کام کرتا ہے۔ بہت زیادہ غیر صحت بخش غذاؤں کے استعمال کی وجہ سے ہمارا جگر دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اسے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن میتھی دانہ جگر کو زہریلے مادوں کی صفائی کے حوالے سے مدد فراہم کرتا ہے۔وزن میں کمیمتعدد تحقیق نے یہ بات ثابت کی ہے کہ روزانہ میتھی دانہ کے استعمال سے جسم میں موجود چربی کو کم کیا جاسکتا ہے۔ میتھی دانہ 2 سے 6 ہفتے تک روزانہ تین مرتبہ 329 ملی گرام کھانے سے بہترین نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ یہ بھوک کو کم کرتا ہے اور آپ کو یہ احساس دلاتا ہے کہ ابھی آپ کو کچھ کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔   

آج کا دن : اہم واقعات

آج کا دن : اہم واقعات

چینل ٹنل کا افتتاح6مئی 1994ء کو چینل ٹنل کا افتتاح کیا گیا۔چینل ٹنل جسے '' چنل‘‘ بھی کہا جاتا ہے، 50.46کلومیٹر طویل زیر آب ریلوے سرنگ ہے انگلش چینل کے نیچے سے ہوتی ہوئی کوکیلس ، فرانس کو فوک اسٹون ، برطانیہ سے جوڑتی ہے۔ یہ سرنگ برطانیہ کے جزیرے اور یورپی سرزمین کے درمیان واحد طے شدہ رابطہ ہے۔ یہ سطح سمندر سے 75 میٹر (246 فٹ) گہرائی اور سطح سمندر سے 115 میٹر (377 فٹ) نیچے ہے۔اس میں دنیا کی کسی بھی سرنگ کا سب سے طویل زیر آب سیکشن ہے جس کی لمبائی 37.9 کلومیٹر (23.5 میل) ہے۔یہ دنیا کی تیسری طویل ترین ریلوے سرنگ ہے۔ ٹنل کے ذریعے ٹرینوں کی رفتار کی حد 160 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ایفل ٹاور کو عوام کیلئے کھولا گیا ایفل ٹاور کو باضابط طور پر عوام کیلئے 6مئی1889ء کو کھولا گیا۔ایفل ٹاور فرانس کے شہر پیرس میں چیمپ ڈی مارس پر لوہے کا ایک جالی دار ٹاور ہے۔ اس کا نام انجینئر گسٹاو ایفل کے نام پر رکھا گیا ہے، جس کی کمپنی نے ٹاور کو ڈیزائن کیا اور بنایا تھا۔مقامی طور پر اسےIron Lady کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ 1887ء سے 1889 ء تک عالمی میلے کے مرکز کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اگرچہ ابتدائی طور پر اس کے ڈیزائن پر تنقید کی گئی تھی لیکن اس کے بعد سے یہ فرانس کا ایک عالمی ثقافتی نشان اور دنیا میں سب سے زیادہ پہچانے جانے والے مقامات میں سے ایک بن گیا۔2022ء میںٹاور کو دیکھنے کیلئے58لاکھ89ہزار افرادآئے جو کہ 2021 ء کے مقابلے میں 197 فیصد زیادہ تھا ۔دنیا کے پہلے imacکا اعلان ایپل کارپوریشن کی جانب سے 6 مئی 1998ء کو دنیا کے پہلے آئی میک (imac)کمپیوٹر کا اعلان کیا گیا جبکہ اسے مارکیٹ میں چند ماہ بعد یعنی 15اگست کو لانچ کیا گیا۔ ابتدائی طور پر اسے imacG3کا نام دیا گیا۔ بعدازاں اس کانام صرف ''آئی میک‘‘کر دیا گیا۔''آئی میک‘‘ دراصلMacintoshکا مخفف ہے یہ ایپل کمپنی کی پہلی کمپیوٹر سیریز تھی جو1998ء سے2003ء تک فروخت ہوئی۔چینی اخراج ایکٹ چینی اخراج ایکٹ ریاستہائے متحدہ کا ایک وفاقی قانون تھا جس پر صدر چیسٹر اے آرتھر نے 6 مئی 1882ء کو دستخط کیے تھے، جس میں 10 سال کیلئے چینی مزدوروں کی تمام امیگریشن پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ اس قانون میں تاجروں، اساتذہ، طلباء، مسافروں اور سفارت کاروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ چینی اخراج ایکٹ پہلا اور واحد بڑا امریکی قانون تھا جو کسی مخصوص قومی گروپ کے تمام اراکین کو ریاستہائے متحدہ میں ہجرت کرنے سے روکنے کیلئے نافذ کیا گیا تھا۔