دِنے راج فرنگی دا……تے راتی راج ملنگی دا
اسپیشل فیچر
پنجاب کا مشہور خونریز و جفا پیشہ ڈاکو ملنگی اپنی غارتگری کی مہیب داستانوں کے ذریعہ بہت کچھ روشناسِ خلق ہوچکا ہے۔ اس کے گروہ کے کارخ جس طرف ہوجاتا تھا، اس رقبے کے باشندوں کی آنکھوں میں نیند حرام ہوجایا کرتی تھی کیونکہ وہ علاقہ سورج غروب ہوجانے کے بعد سے فرنگی کی بجائے ملنگی کے زیر حکومت سمجھا جاتا تھا۔ اس واقفیت میں شاعریت کو مطلق دخل نہیں کہ پنجاب بھر کی آواز خلق پنجابی زبان کے شعراء کی ہمنوا بن رہی ہے کہ دِنے راج فرنگی دا……تے راتی راج ملنگی داملنگی کے لشکر کی یلغار امن پسندوں کیلئے قہر خدا کی سطوت حاصل کر چکی تھی۔ اس کے دست تظلم نے بہت سی سہاگنوں کے سہاگ اجاڑے، ہزاروں ننھے ننھے معصوم بچوں کو سایہ پدری سے چھین کر یتیمی کی گود میں ڈالا۔ سینکڑوں گھروں کو اپنی سفاکی سے بے چراغ کردیا۔ مختصر یہ کہ کچھ دنوں تک درندگی، بیدردی اور جفا کاری نے ملنگی کا روپ دھارن کرلیا تھا۔ ملنگی کی دل دہلا دینے والی بھیانک تصویر تو یہ تھی۔ آئو تمہیں اس تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھائیں۔ پنجاب کی جس جیل میں اسے کیفر کردار کو پہنچایا گیا اس کے اعلیٰ افسر نے راقم الحروف سے اس کی عبرت آموزو دل سوز داستان کو سناتے ہوئے بیان کیا کہ:ملنگی اور اس کے ساتھیوں کو جس صبح پھانسی دی جانے والی تھی ہم نے اسے وقت مقررہ سے پہلے اطلاع دی کہ ملنگی کٹھن منزل قریب آگئی ہے۔ اپنے آپ کو اس سفر کے لیے تیار کر لو۔ مگر اس جانگداز اطلاع کا جواب جس بے نظیر شجاعت سے اس نے دیا اس سے معلوم ہوتا تھا کہ ملنگی موت کو دردسر یا معمولی خراش سے زیادہ وقعت نہیں دیتا۔وہ اپنے ایک انجام شریک ساتھی کو قرآن مجید کی تلاوت کرتے دیکھ کر للکارتے ہوئے بولا ’’کم بخت اب بھی قرآن پڑھنے سے باز نہیں آتا۔ تیری اس قرآن خوانی ہی نے تو یہ دن دکھائے کہ میدان جنگ میں بہادروں کی طرح جان دینے کی بجائے ہم مجرموں کی حیثیت میں پھانسی کے تختے پر زندگی ختم کررہے ہیں۔ چھوڑ اب تو اس قرآن خوانی کو اور بہادری سے موت کا خیرمقدم کرنے کے لیے تیار ہوجائو۔‘‘راوی کا بیان ہے کہ: میں نے ملنگی کے منہ سے قرآن مجید کے متعلق یہ گستاخانہ و بے ادبانہ فقرے سن کر اسے ملامت کی کہ کم بخت مسلمان ہو کر قرآن مجید کی توہین کرتاہے اور پھر ایسے نازک ترین وقت اور زہرہ گداز ساعت میں تو بڑے سے بڑا بے دین اور برے سے برا ظالم بھی خدا کو یاد کرتا ہے اور تو خود تو درکنار دوسرے کو بھی آخری نیکی سے روکتا ہے۔ملنگی نے جواب دیا ’’جناب میں قرآن مجید کی توہین نہیں کرسکتا۔ اس وقت میں نے اپنے اس ساتھی سے ایک واقعہ کی طرف اشارہ کیا تھا اوروہ واقعہ یہ ہے کہ ہم گرفتاری سے پہلے جنگل میں ایک محفوظ مقام پر بیٹھے ہوئے تھے اور ہمارا یہ ساتھی جو اس وقت قرآن مجید پڑھا رہا ہے اس وقت بھی قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف و مشغول تھا۔‘‘اچانک ہی ہمارے جاسوس نے پولیس کے آنے کی اطلاع دی ہم سب بھاگنے پر تیار ہوگئے۔ ہم اس وقت بھاگ کھڑے ہوتے تو کبھی گرفتار نہ ہوسکتے لیکن ہمارے اس ساتھی نے کہا کہ میں جب تک قرآن مجید کا یہ پارہ ختم نہ کرلوں تلاوت چھوڑ نہیں سکتا۔ ہم نے اس ظالم سے ہر چند کہا کہ پولیس کی دوڑ آرہی ہے اور ابھی اس میں اور ہم میں بڑا فاصلہ ہے۔آئو بھاگ کر کسی محفوظ مقام پر چلے جائیں تمام عمر آرام سے تلاوت قرآن مجید کرتے رہنا مگر یہ ساتھی پارہ ختم کرنے سے پہلے ساتھ چلنے پر کسی طرح رضا مند نہ ہوا۔ ہم جان چکے تھے کہ پولیس کی جمعیت سے ہم کسی طرح عہدہ برآ نہ ہوسکیں گے۔ ہماری اور پولیس کی مڈبھیڑ ہوگئی تو اس کی گولیوں کا شکار بنیں گے یا پھر پھانسی کے تختے پر موت سے دوچار ہونا پڑے گا۔یہ سب کچھ تھا موت ہمیں پھانسی اور گولیوں کے بھیس میں گھور رہی تھی۔ ایک طرف اس ساتھی کے ساتھ موت اور دوسری جانب زندگی کے لیے فرار ان دو صورتوں میں سے ہمیں کسی ایک کو انتخاب کرنا تھا۔ چنانچہ ہم نے دوست کے ساتھ مرنا گوارا کرلیا کہ جو شخص قرآن دوستی کے مقابلے میں اپنی جان کی پروا نہیں کرتا۔ ایسے دوست پر اپنی جان بھی قربان کردینا چاہیے لہٰذا اسے تنہا چھوڑ کر زندہ رہنا ہمیں کسی طرح منظور نہ ہوا کیونکہ دوستوں کے ساتھ ہی مرنے اور جینے کا کچھ لطف ہے۔(’مخزنِ اخلاق‘ از مولانا رحمت اللہ سبحانی)