اوزون کیا ہے اور کون سی چیزاسے نقصان پہنچا رہی ہے؟
اسپیشل فیچر
کرہ ارض کے اردگرد پائی جانے والی فضا کئی تہوں پر مشتمل ہے۔ فضا کے سب سے نچلے یعنی زمین کی سطح سے شروع ہونے والے حصے کو ٹروپوسفیئر (troposphere) کہتے ہیں۔ یہ تہہ زمین کی سطح سے لے کر تقریباً 10 کلومیٹر کی بلندی تک جاتی ہے۔ زمینی فضا کی اس سے اوپر والی تہہ سٹریٹوسفیئر (stratosphere) کہلاتی ہے اور یہ دس کلومیٹر کی اونچائی سے شروع ہوکر تقریباً 50 کلومیٹر کی بلندی تک جاتی ہے۔ فضائی اوزون (Ozone) کا زیادہ تر ارتکاز سٹریٹوسفیئر کے اندر ہے، یعنی یہ سطح زمین سے لگ بھگ 10 سے 30 کلومیٹر کی بلندی پر موجود ہے۔اوزون کے مالیکیول آکسیجن کے تین ایٹموں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس کا رنگ نیلا اور مہک تیز ہوتی ہے۔ اس کے برعکس عام آکسیجن میں، جس کے اندر ہم سانس لیتے ہیں، آکسیجن کے دو ایٹم ہوتے ہیں۔ اس کا نہ تو کوئی رنگ ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی بو ہوتی ہے۔فضا میں اوزون کی مقدار عام آکسیجن کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ اگر ہوا میں سے ایک کروڑ مالیکیول لئے جائیں تو اس میں سے تقریباً بیس لاکھ مالیکیول عام آکسیجن کے ہوں گے جب کہ اوزون کے مالیکیولز کی تعداد صرف 3 ہو گی۔اگرچہ فضاء میں اوزون کی مقدار بہت کم ہے لیکن پھر بھی یہ اس میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سورج سے آنے والی ریڈی ایشن کی ایک بڑی مقدار کو اوزون جذب کرلیتی ہے اور اسے زمین کی سطح تک آنے سے روکتی ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ الٹراوائلٹ لائٹ کے ایک بڑے حصے کو جذب کرتی ہے جسے UVB کہتے ہیں۔یو وی بی کے ساتھ بہت سے نقصان دہ اثرات جڑے ہوئے ہیں جن میں کئی قسم کے جلد کے کینسر بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یہ فصلوں، بعض مخصوص قسم کے میٹریل اور سمندری حیات کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔فضا کے اندر اوزوں کے مالیکیول مسلسل ٹوٹتے اور بنتے رہتے ہیں تاہم ان کی مجموعی مقدار مستحکم رہتی ہے۔اوزون کا ارتکاز مختلف جگہوں پر مختلف ہو سکتا ہے اور اس کا انحصار سورج کے دھبوں، زمین کے موسموں اور سطح سمندر سے بلندی پر ہے۔ ان جغرافیائی اختلافات سے پیدا ہونے والے نتائج کو اچھی طرح سے سمجھا جا سکتا ہے اور ان کے بارے میں درست ترین پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اوزون کی تہہ میں فطری طور پر جو کمی آتی تھی وہ خود بخود پوری بھی ہوجاتی تھی لیکن حال ہی میں ملنے والے سائنسی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اوزون کہ تہہ کو فطری طریقے سے ہونے والے انحطاط کے برعکس زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔اس کا سبب جاننے کے لئے پہلے ہمیں اس کے پس منظر میں جھانکنا پڑے گا۔پچاس برس سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے کہ کلوروفلوروکاربنز (CFCs) کو معجزاتی نوعیت کی چیزیں سمجھا جاتا ہے، وہ مستحکم ہیں، آتش گیر نہیں ہیں، کم زہریلی ہیں اور تیار کرنے میں زیادہ اخراجات بھی نہیں آتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سی ایف سی ز کے استعمالات بھی سامنے آتے گئے۔ یہ ریفریجرنٹ، محلل (سولوینٹ)، فوم بنانے والے ایجنٹس اور دیگر چھوٹے موٹے کاموں میں استعمال کی جانے لگیں۔ کلورین پر مشتمل دیگر کمپائونڈز جیسے میتھائل کلوروفارم جو کہ ایک محلل ہے، کاربن ٹیٹرا کلورائیڈجوکہ ایک انڈسٹریل کیمیکل ہے، ان کے اثرات کا دورانیہ اتنا ہوتا ہے کہ ہوائیں انہیں اٹھا کر سٹریٹوسفیئر تک پہنچا سکتی ہیں۔ چونکہ ان کمپائونڈز کے ٹوٹنے پر کلورین اور برومائن کا اخراج ہوتا ہے اس لئے یہ اوزون کی تہہ کے لئے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔1970ء کے اوائل میں ماہرین نے اوزون کی تہہ پر مختلف کیمیکلز کے اثرات کا جائزہ لینے کا کام شروع کیا، خاص طور پر سی ایف سی ز، جن میں کلورین ہوتی ہے۔ انہوں نے کلورین کے دیگر ذرائع جیسے سوئمنگ پولز، انڈسٹریل پلانٹس، سمندری نمک اور آتش فشانوں سے نکلنے والی کلورین کے اثرات کا بھی جائزہ لیا۔ بار بار کے تجربات سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ کلورین بڑی تیزی کے ساتھ ٹروپوسفیئر سے بارش کی صورت میں گر جاتی ہے۔ اس کے برعکس سی ایف سی ز بہت مستحکم ہیں اور بارش میں حل پذیر نہیں ہیں۔ لہٰذا کوئی ایسے طبعی اعمال نہیں ہیں جو زیریں فضا میں سے ان کے اثرات کو زائل کرسکیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہوائیں ان کو بالائی فضا یعنی سٹریٹوسفیئر میں لے جاتی ہیں۔جب سی ایف سی ز سٹریٹو سفیئر میں پہنچتی ہیں تو سورج سے آنے والی طاقت ور الٹراوائلٹ شعاعیں انہیں توڑ دیتی ہیں۔ اس عمل میں تو سی ایف سی کے مالیکیول ایٹامک کلورین خارج کرتے ہیں ۔ کلورین کا ایک ایٹم ایک لاکھ اوزون مالیکیولز کو تلف کرسکتا ہے۔ اس کا نتیجہ اوزوں کی تیزی کے ساتھ تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔اوزون کو نقصان پہنچانے والے دیگر کیمیکلز میں میتھائل برومائیڈجو کیڑے مار ادویات میں استعمال ہوتا ہے، اور ہیلونز شامل ہیں۔ جب میتھائل برومائیڈ اور ہیلونز کا انشقاق ہوتا ہے تو برومائن ایٹم خارج ہوتے ہیں۔ ان کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کلورین کے ایٹموں سے چالیس گنا زیادہ نقصان دہ ہیں۔