والدین کی نافرمانی کا عذاب
اسپیشل فیچر
رسول ؐاﷲنے فرمایا:’’اگر اﷲعزّوجل کے علم میں زبان کے اندر ’’اُف‘‘سے زیادہ سُبک اور کم ترلفظ کوئی اور ہوتاتواﷲعزّوجل ’’اُف ‘‘کے بجائے اُسے استعمال فرماتا۔‘‘(گویا اُف سے زیادہ سبک کلام عرب میں دوسرالفظ ہے ہی نہیں )چناں چہ حق تعالیٰ فرماتاہے: ’’اگر تمہارے سامنے والدین میں سے ایک یادونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن سے اُف(ہُوں)نہ کہنا اورنہ جھڑکنا،اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔‘‘ (سورہ ٔبنی اسرائیل ،آیت33)رسول ؐ اﷲنے فرمایا:’’اگر کلام میں ’اُف‘سے کم تر لفظ دوسرا ہواتو حق تعالیٰ ’’فلاتقل لھا اُف‘‘ نہ فرماتا۔بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے والدین کے ساتھ نصیحت میں مبالغہ فرمایاہے۔ رسولؐ اﷲ نے فرمایا: ’’والدین کا نافرمان اگر روزہ رکھے اور نمازپڑھے ،یہاں تک کہ وہ اس میں منفردبن جائے ،مگر وہ اس حال میں مرے کہ اس کے والدین اس سے ناراض ہیں تو اﷲتعالیٰ سے وہ اس حال میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس پر شدیدغضب ناک ہو گا۔‘‘رسول ؐاﷲنے فرمایا:’’شب ِمعراج میں نے کچھ لوگوں کودیکھا جو آگ کی شاخوں پر لٹکے ہوئے تھے، میں نے جبریل ؑسے پوچھا،اے جبریل ؑ!یہ کون لوگ ہیں ؟عرض کیا :’’یہ والدین کے نافرمان ہیں ۔‘‘رسول ؐاﷲنے فرمایا:’’جس نے والدین کو گالی دی ،توجہنم میں اس کے سرپر گنتی میں اتنے قطرے گریں گے جتنے زمین پر آسمان سے پانی کے قطرے گرے ہیں ،ہم اﷲسے جہنم اور اُس کے غضب اور ہر ایسے عمل سے پنا ہ مانگتے ہیں جس سے جہنم میں داخل ہوں۔ ‘‘رسول ؐاﷲنے فرمایا:’’مجھے اتنا کسی کے عذاب نے رنج ومحن میں نہ ڈالا، جتنا ماں باپ کے نافرمانوں کے عذاب نے مجھے رنج ومحن میں ڈالا،میں جنّت میں تھا،وہاں میں مار اور عذاب سے ان کی چیخوں کی آواز سُن رہاتھا۔ میں نے ان کے رونے کی آواز سُنی، میرا دل ان پر شفقت سے بھر آیااور میں نے عرش کے نیچے سجدہ کیااور اس جگہ ان کی شفاعت کی ۔اﷲرَبّ العزّت نے فرمایا:اے محمدؐ!آپؐ اپنے سر کواٹھائیے ،میں ماں باپ کے نافرمان کوجہنم سے اس وقت تک نہ نکالوں گاجب تک کہ ان سے ان کے ماں باپ راضی نہ ہوجائیں ۔اس کے بعد میں اپنی جگہ واپس آگیا ،جب واپس آیا تو میں نے ان کی چیخ وپکا ر اور ان کا رونا سُنا تو دوبارہ عرش کے نیچے جاکر سجدہ کیا،اﷲعزّوجل نے فرمایا،اے محمدؐ !آپ اپنا سراٹھائیے اور جو آپ مانگیں میں آپ کو عطا فرماؤں گالیکن ماں باپ کے نافرمانوں کے سوا،کیوں کہ وہ جہنم سے نہ نکلیں گے جب تک ان کے ماںباپ راضی نہ ہوجائیں ،پھر میں اپنی جگہ آگیا ،اس کے بعد میں نے پھر ان کی آہ وزاری اور رونا سُنا تو میں نے عرض کیا:یااللہ،مالک داروغۂ جہنم کوحکم دے کہ ان کے طبقے کے دروازہ کوکھولے تاکہ میں ان کے عذاب کامشاہدہ کروں ،کیوں کہ میں ان کی چیخوں کی آواز سُن رہاہوں ،رَبّ العزّت جل شانِ جلالہ نے فرمایا،میں نے اسے حکم دے دیا ہے،اُس وقت داروغہ کے پاس پہنچا ،اس نے میرے لیے دروازہ کھولاتو میں نے بہت سے لوگوں کوآگ کی شاخوں پر معلق دیکھا ،اورعذاب کے فرشتے آگ کے کوڑے ان کی پیٹھوں اور رانوں پر ماررہے ہیں اور ان کے پاوؤں کے نیچے سانپ اور بچھودوڑ رہے ہیں جو انہیں ڈستے رہتے تھے ۔میںدیکھ کر ان کی شفقت میں رونے لگا اور میںنے تیسری مرتبہ عرش کے نیچے پہنچ کر سجدہ کیا اور رَبّ العزّت نے فرمایا،ان کا نکلنا والدین کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔اُس وقت میں نے عرض کیا: اے رَب!ان کے ماں باپ کہاں ہیں ؟اﷲتعالیٰ نے فرمایا: جنّت میں اپنی منزلوں میں ہیں اور ان میں سے کچھ لوگ اعراف میں ہیں اور لوگ جنت الماویٰ میں اور کچھ ان کے سوا ہیں ،پھر میں نے عرض کیا :اے میرے معبود ،اور اے میرے مالک !مجھے پہچان عطا فرما،ہر اُس شخص کی جس کا والد جنّت میں ہے تو اﷲسبحانہ وتعالیٰ نے مجھے اُن کی پہچان عطا فرمائی ، میں نے ان کے پاس پہنچ کر کہا،اگر تم لوگ اپنی اولاد کو دیکھو جو عذاب کے فرشتے ان پر مقرر ہیں اور انہیں عذاب دے رہے ہیں ،میرادل تو ان کے رونے اور چیخنے چلانے سے بھر گیا ہے،یہ سُن کر ان کے آباء نے وہ بیان کیاجو دنیا میں ان کی اولادسے ان پر گزراتھا،اور ان کی ماؤں میں سے ایک نے تو یہ کہا : یارسولؐ اﷲ!میرے بیٹے کو عذاب میں ہی رہنے دیجیے ، اس نے میری اہانت کی ہے ، مجھے گالی دی ہے اور میرادل پاش پاش کیا ہے وہ دنیا اور مال پر قادر تھا اور میں بھوکی رات گزارتی تھی ،وہ بیوی کو زرق برق لباس پہناتاتھا ،اور میں بے لباس رہتی تھی اور دوسری نے کہا،انہیں چھوڑ دیجیے کہ وہ عذاب میںرہیں ،اس لیے کہ میں اگر ان کی اصلاحِ احوال کی بات کہتی تھی ،تو وہ مجھے مارتے تھے اور مجھے گھر سے نکال دیتے تھے اور ایساسلوک میرے ساتھ برابر کرتے رہے ۔جو کچھ بیتی ہے اس سے ان کے دلوں میں کینہ پڑگیا ہے ،یہ سُن کر میں نے ان سے کہا کہ دنیا گزرچکی ہے اور جوکچھ وہاں ہوا وہ بھی گزرچکا ہے،اب انہیں معاف کردواور ان سے درگزرکرو،اس عزّت کے طفیل کہ میں تمہارے پاس سفارشی ہوکر آیا ہوں۔اُس وقت اﷲعزّوجل نے فرمایا،اے میرے حبیبؐ، اے محمدؐ !آپ ان کے اوپر گراں بارنہ ہوں، قسم ہے مجھے اپنے عزّوجلال کی ،میں جہنم سے ان کی اولاد کونہیں نکالوں گا جب تک ان کے دل راضی نہ ہوجائیں۔ اُس وقت میں نے عرض کیا، اے میرے رَب !انہیں حکم دے کہ میرے ساتھ جہنم کی طرف جائیں تاکہ ان کے عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں،شاید کہ انہیں اُن پر رحم آجائے۔ اﷲتعالیٰ نے اُنہیںمیرے ساتھ جانے کا حکم دیا تووہ جہنم کی طرف آئے اور داروغہ جہنم نے جہنم کا دروازہ کھول دیا۔جب انہوں نے اپنی اولاد اور ان کے عذاب کی طرف دیکھا تو وہ رونے لگے اور کہنے لگے ،خدا کی قسم !ہمیں معلوم ہی نہ تھا کہ وہ اتنے شدید عذاب میں ہیں اور ہر ایک کی مائیں اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کے لیے چیخ پڑیں ۔اگر وہ والد تھا تو اپنی اولاد کے لیے چیخ پڑا ۔جب اولاد نے اپنے باپوں اور ماؤں کی آوازیں سُنیں ،تو ہر ایک رَوکر اپنی ماں سے کہنے لگا کہ اے امّاں جان !آگ نے میرے جگر کو جلادیا ہے ،اے امّاں جان ! اگر میں دھوپ میں بیٹھتا اور ایک گھڑی اس کی حرارت میں رہتا ،تو تم اسے برداشت نہ کرتی تھیں۔ اے امّاں جان! اب تم میرے جسم اور میری ہڈیوں پر رحم نہیں کرتیں ؟یہ سُن کران کے ماں باپ رونے لگے اور کہنے لگے،اے ہما رے حبیب ِؐخدا!اے محمد ْؐ!ان کے لیے شفاعت کیجیے۔اﷲرَبّ العزّت نے فرمایا،میں ان کو ہر گز نہ نکالوں گا مگر تمہا ری شفاعت سے اس لیے کہ ان پر میرا قہر وغضب تمہا ری وجہ سے ہے ۔تو انہوں نے عرض کیا ،اے ہمارے معبود !اے ہمارے مالک !ہماری اولاد کو جہنم سے نکال کرہم پر فضل واحسان فرما۔اُس وقت اﷲعزّوجل نے والدین سے فرمایا ،کیا تم اپنی اولاد سے راضی ہوگئے ؟انہوں نے عرض کیا ،ہاں ۔رَبّ العزّت نے فرمایا،ہر وہ شخص جس کا والد اس کے نکلنے سے راضی ہو،اسے نکال دو،اور ہر وہ شخص جس کا والد اسے نکالنانہ چاہے ،اُسے چھوڑ دو،کہ وہ عذاب میں رہے ۔جب تک کہ میں جو چاہوں فیصلہ فرماؤں ۔تو انہوں نے ان کو نکال لیا۔ وہ صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ تھے پھران پر نہرالحیٰوۃ کا پانی بہایاگیا اور ان کے جسموں پر گوشت ،جلد اور بال اُگے اور وہ جنّت میں داخل ہوئے ۔رسول ؐاﷲنے فرمایا،جس نے اپنے والدین کی نافرمانی کی، بلاشبہ اس نے اﷲتعالیٰ اوراُس کے رسول ؐ کی نافرمانی کی ‘‘۔اور فرمایا:’’والدین کے نافرمان کو جب اس کی قبر میں دفن کیاجاتاہے تو قبر اُسے دباتی ہے، یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہوجاتی ہیں اور قیامت کے دن جہنم میں لوگوں میں سب سے زیادہ عذاب تین اشخاص پر ہوگا،والدین کا نافرمان، زانی ،مشرک بِاﷲ۔‘‘