نماز , مومن کی معراج
اسپیشل فیچر
اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور میں نے جِنّات اور انسانوں کو صرف عبادت کے لیے پیدا کیا۔‘‘(الذریت،55)حضرت آدم ؑ سے لے کر سیّدی محمد مصطفی ؐ تک جتنے بھی نبی اور رسول دُنیا میں تشریف لائے، انہوں نے اﷲ تعالیٰ کی بندگی (عبادت) کی تعلیم دی کیوں کہ عبادت ہی دین کی رُوح ہے۔ اِس کے معنیٰ اِطاعت و فرماں برداری کے ہیں۔ یعنی مخلوق اپنے معبود اﷲ سبحانہ تعالیٰ کے احکامات کی پاس داری کرے اور امام الانبیاء سیّدی محمد مصطفی ؐ کے خوب صورت و جامع اَطوار کے مطابق زندگی گزارے۔ سورۂ یوسف میں ارشاد ہوا ’’اُس کے سوا کسی کی عبادت و اطاعت نہ کرو۔‘‘عبادت کا حق یہ ہے کہ ہم ہر کام میں اپنے معبود کی رضا پیشِ نظر رکھیں۔ اﷲ جلِ شانہ کے نزدیک اعمالِ صالحہ میں نماز سب سے پسندیدہ عبادت ہے۔ نماز اور ایمان لازم و ملزوم ہیں۔ سیّدی محمد مصطفی ؐنے ارشاد فرمایا ’’نماز دین کا ستون ہے۔‘‘ لہٰذا غفلت مت کیجیے ،نمازِ پنج گانہ کا اہتمام کیجیے۔ اِرشاد ِربِّ کائنات ہے کہ ’’او رجو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں وہ باغوں میں عزّت سے رہیں گے۔‘‘(سورۂ معارج)نماز عملی عبادات میں سرفہرست ہے۔ جو بظاہر ایک عمل ہے مگر حقیقتاً نمازمیں ہی پورا دین ہے۔ نماز رَبِّ کریم سے ہم کلامی کا ذریعہ ہے اور قُربِ الہٰی کا موجب ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر نماز کا حکم وارد ہوا ہے۔ ’’نماز قائم کرو‘‘(سورۂ لقمان)۔ ’’نماز قائم کرو‘‘(سورۃ النسائ)۔ ’’وہ نماز قائم کریں‘‘ (سورۃ البقرہ)۔’’وہ نماز قائم کرتے ہیں‘‘(سورۂ توبہ)۔’’نماز قائم کرنے والے‘‘۔(سورۃالنسا)۔ ’’نماز قائم کریں‘‘ (سورۃ البقرہ)۔ ’’عورتیں نماز قائم کریں‘‘(سورۂ احزاب)اور ’’نماز قائم کرنے والا‘‘ (سورۃ الحج)حضورِ اَقدس ؐ کا ارشادِ عالی شان ہے کہ ’’اﷲ تعالیٰ نے میری اُمّت پر نماز فرض کی ہے اور قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا ہی حساب ہوگا۔‘‘مزید فرمایا : ’’نماز کے بارے میں اﷲ سے ڈرو، اسلام کی علامت نماز ہے۔ نماز شیطان کا مُنہ کالا کرتی ہے۔ نَماز مُومن کا نُور ہے، نماز اَفضل جہاد ہے۔‘‘رسول ؐاللہ نے ایک اورمقام پر فرمایا کہ ’’نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔‘‘ نماز کے دوران معبود اور عبد کے درمیان سے حائل پردے ہٹا دیے جاتے ہیں۔ اﷲ عزّوجل کے نزدیک سب سے افضل وقت نماز کا وقت ہے۔ نماز کا درجہ اسلام میں ایسا ہے جیسے سرکا درجہ بدن میں ہوتا ہے۔ نماز مسلمان کے لیے انمول دولت ہے۔ اس کے برعکس بے نمازی کے لیے ارشادِ ربانی ہے کہ ’’ان نمازیوں کے لیے خرابی ہے جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں۔‘‘ (سورۃ الماعون)’’پس ہلاکت و خرابی او رعذاب کی سختی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں کی حقیقت او رمفہوم سے بے خبر ہیں۔‘‘(سورۃ الماعون)فی زمانہ ہم نماز چھوڑنے، قضا کرنے اور عجلت میں رکوع و سجود کو غلط بھی نہیں گردانتے ،ہمارے دِلوں سے نماز کی قدرومنزلت نکلتی جارہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہرمیدان میں تنزّلی کا سامنا ہے۔حضرت حسن بصری ؒ نے فرمایا کہ ’’اﷲ تعالیٰ کی جانب سے نمازی کے لیے تین خصوصی عزتیں ہیں۔جب نمازی بارگاہ ِالہٰی میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اُس کے سر سے آسمان تک رحمتِ الہٰی گھٹا بن جاتی ہے اور نمازی پر اَنوار وتجلّیات کی بارش ہونے لگتی ہے۔ دوسری یہ کہ فرشتے نمازی کو چاروں اطراف سے اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں۔تیسری فضیلت یہ کہ ایک فرشتہ نِدا لگاتا ہے کہ’’ اے نمازی! اگر تُو دیکھ لے تیرے سامنے کون ہے اور تُو کس سے مخاطب ہے تو خدا کی قسم تُو قیامت تک سلام نہ پھیرے۔‘‘ضروری ہے کہ اہتمام ِنماز کے ساتھ اہتمامِ خشوع و خضوع پر بھی توجہ مرکوز ہو اور نمازی اﷲ عزوجل کے خوف و خشیّت، ہیبت ورعب اور جُودوکرم مدنظر رکھ کر نماز کے لیے کھڑا ہو۔حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں:’’نماز کے وقت رسولؐ اﷲ ہم سے ایسے لاتعلق ہوجاتے کہ جیسے کوئی شناسائی نہ ہو اور آپؐ نماز میں اس قدر طویل قیام فرماتے کہ پائے مبارک متّورم ہوجاتے۔‘‘ ایک اور مقام پر بیان ہے کہ ’’نماز کے وقت حضورِاکرم ؐ کے سینۂ اَقدس سے ایسی آواز آتی جیسے آگ پر کوئی دیگ رکھی ہو۔‘‘ حضرت عمر فاروقؓ قیامِ صلوٰۃ میں اس قدر روتے کہ ان کی آواز پچھلی صفوں تک پہنچتی تھی۔‘‘ حضرت عمرفاروقؓ حالت نماز میں کانپتے ،ان کے دانت بجنے کی آواز سنائی دیتی اور خوفِ خُداوندی سے چہرۂ اَنور زردی مائل ہوجاتا۔ ارشاد ِربّانی ہے: ’’نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جائو۔‘‘پابندیٔ نماز کی بدولت ہی رحمتِ الہٰی اور برکتِ الہٰی کے دروازے نمازی کے لیے کھولے جاتے ہیں۔نماز ہر مشکل سے نکلنے کا واحد ذریعہ ہے۔ارشادِ رَبّانی ہے’’جو لوگ کتاب(قرآن مجید) کو مضبوط پکڑے ہوئے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں(ہم انہیں اَجر دیں گے) ہم نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔‘‘(سورۂ اعراف)حدیث میں وارد ہوا ہے کہ ’’جومسلمان اپنی نمازوں کی حفاظت کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اسے پانچ برکتیں عطا فرماتے ہیں۔ اُس سے رزق کی تنگی دور کردی جاتی ہے، عذابِ قبر نہیں ہوتا، قیامت کے روز اس کا نامۂ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا، پُلِ صراط سے بجلی کی طرح گُزر جائے گااور بغیر حساب جنّت میں داخل کردیا جائے گا۔‘‘