حضرت نو ح علیہ السلام
اسپیشل فیچر
کوہِ جودی پر پائے جانے والے ان آثار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کے ہیں قرآن مجید میں حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ تقریباً تینتالیس مقامات پر مذکور ہے۔آپ ؑکی عمر تقریباً ایک ہزار پچاس سال تھی۔ (تفسیر مظہری) آپؑ نو سو پچاس سال قوم کو دعوت دیتے رہے ۔ حضرت نوح ،حضرت آدم ؑ کے بعد پہلے نبی ہیں جنہیں رسالت سے نوازا گیا، ملک عراق میں آبا د قوم میں ضلالت و گم راہی کا دور دورہ تھا۔ آپ ؑنے قوم کو اللہ کی طرف دعوت دیتے ہوئے فرمایا :’’اے میری قوم کے لوگو! تم ایسے رَب کی بندگی کی طرف آجاؤ ،جس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور آخرت پرایمان لے آؤ،اگر تم میری بات نہیں مانو گے تو تم پر ایک درد ناک عذاب طاری ہوجائے گا ۔‘‘ سرداروں نے مخالفت کرتے ہوئے کہا : ’’اے نوحؑ! ایہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے باپ داداؤں کا دین خیر باد کہہ دیں ، آپ ؑ کی مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھائے جانے کی باتیں توہم ہیں۔ ‘‘قوم کے اس دل خراش جواب کے بعداللہ تعالیٰ نے اس قوم پر طوفان کا عذاب بھیج دیا۔ شدید طغیانی والا پانی آبادیاں اور بستیاں ملیا میٹ کرتا چلاگیا۔ تاریخ میں رقم ہے کہ اس پانی کی بلندی تقریباً 49 گز تھی ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح ؑاور اُن کے ساتھیوں کو ایک کشتی میں سوار کراکے طوفان سے نجات دی۔ بچّو!دُنیا میں حضرت نوح ؑ ہی کے ذریعے پہلی مرتبہ کشتی سازی کی ابتدا اوربحری سفر کا آغاز ہوا ۔آپ ؑ نے جو تین منزلہ کشتی تیار کی وہ تقریباً 300 گز لمبی، 50 گز چوڑی اور 30 گز اُونچی تھی۔پانی تھمنے پر کشتی حضرت نوح ؑاور ان کے تقریباً 82ساتھیوں کو لے کر جُودی پہاڑ پر جا رُکی ۔ابنِ کثیر میں ہے کہ حضرت زید بن اسلم ؓ فرماتے ہیں :’’ قوم ِنوح ؑ پر طوفان کا عذاب اُس وقت آیا جب وہ اپنی کثرت و قوّت کے اعتبار سے بھرپور تھے،عراق کی زمین اور پہاڑ اُن کی کثرت کے سبب تنگ ہورہے تھے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ وہ نافرمانوںکو ڈھیل دیتاہے ۔عذاب اُس وقت بھیجتاہے جب وہ اپنی کثرت ، قوّت اور دولت میں انتہا تک پہنچ جائیںاور اُن میں تکبّر اوربَد مستی پیدا ہوجائے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ حضرت نوح ؑ کی قو م اُنہیں اتنی ایذا پہنچاتی کہ وہ بے ہوش ہوجاتے تو لوگ انہیں چادر میں لپیٹ کرویران جگہ پر ڈال کرچلے جاتے ،جب انہیں ہوش آتا تو آپ ؑ پھر اللہ کی طرف بلاتے اور تبلیغ میں مصروف ہو جاتے ۔محمد بن اسحٰق نے عبیدبن معر ویثی سے روایت کیا ہے کہ حضرت نوح ؑ جب ہوش میں آتے تو دُعا فرماتے:’’ اے میرے پروردگار ! میری قوم کو معاف کردے کیوں کہ انہیں علم نہیںہے۔‘‘ آپ ؑ کو نوح ؑ اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ ؑ قوم کی اصلاح اور اُس کی فلاح کے لیے نوحہ کرتے رہتے تھے۔ قوم ِنوح ؑ پر آنے والے طوفان سے پوری دُنیا غرق ہو چکی تھی سوائے حضرت نوح ؑ اور ان پر ایمان لانے والے چند ساتھیوں اور جان داروں کے، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے تین بیٹے حام، ثام، یافث کے ذریعے دُنیاکودوبارہ آبادی عطافرمائی ،اسی وجہ سے حضرت نوح علیہ السلام کو آدمِ ثانی ؑ کہا جاتا ہے۔قرآن مجید میں آپ ؑ کو ’’اوّل المُرسل ‘‘کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔