’دے دے گیڑا‘ وکھری ٹائپ کے انتخابی نعروں کا دلچسپ احوال
الیکشن خواہ قومی ہوں یا بلدیاتی جب بھی آئیں اپنے دامن میں جوش وجذبہ اور نت نئے نعروں کی بہار لاتے ہیں، اپنے دورکی حقیقتیں بالعموم ان نعروں میں منعکس ہوتی ہیں۔ ایسا بھی ہواحقیقتیں تو وہی رہیں لیکن ان کی بنیاد پر لوگوں سے ووٹ حاصل کرنے کے خواہش مند پرانے نعرے چھوڑ کر نئے نعرے لے کر میدان میں اتر آئے ۔ کچھ نعرے قومی سطح پر پارٹیوں کی پہچان بنتے ہیں تو کچھ زمینی حقائق سے مطابقت یا عدم مطابقت کے سبب مقامی سطح پر زبان زدِعام ہوجاتے ہیں۔ فارسی کا ایک محاورہ تو اس صورت حال پربہت موزوں ہے کہ ’’پیراں نمی پراند مریداں می پرانند‘‘ یعنی پیر تو نہیں اڑتے ،مرید اڑاتے ہیں۔ انتخابات میں کئی نعرے ایسے بھی مشہور ہوجاتے ہیں جو خود امیدوار اپنے لیے منتخب نہیں کرتا۔ اس کے سپورٹرز اسے اپنی طرف سے چھپوائے پوسٹرز یا بینرز وغیرہ کی زینت بناتے ہیںیوںیہ نعرے یا فقرے بعد ازاں مزے لے لے کر سنے یا سنائے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں دفتر کی جانب رواں دواں تھا کہ ایک کار کے پیچھے بڑے سے پوسٹر پر نظر پڑی۔ جس پر امیدوار اور اس کے نوکدار مونچھوں والے ایک سپورٹر کی تصویر چسپاں تھی ،ساتھ درج تھا’’ دے دے گیڑا‘‘ سچ پوچھئے تو بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی۔ قومی اسمبلی کا الیکشن اور اس قدعامیانہ نعرے کے ساتھ، لکھنے والا شاید ایک لوک فنکار کے والیم پر لکھے پیغام سے باہر نہیں نکل سکا تھا۔ جوکچھ یوں تھا ’’گیڑا عشقے دا ‘‘۔قومی اسمبلی کے ایک اور آزاد امیدوار نے وفا گروپ‘‘ کے نام سے اپنے ووٹرز سپورٹرز کو خود سے جوڑے رکھنے کا چارہ کیا تھا،’’کیری اون جٹا‘‘ ایک اور امیدوار کے پوسٹرز پر اہتمام سے لکھوایا گیا۔ ماضی میں جو نعرے سیاسی پارٹیوں کے حوالے سے مشہور ہوئے ان میں ’’مانگ رہا ہے ہرانسان‘روٹی کپڑا اور مکان‘‘ ’’دشمناں دے دل تے تیر بینظیر بینظیر‘‘ ’’قدم بڑھائو نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ ’’آجاقاضی جت لے بازی‘‘ شامل ہیں ۔سیاسی پارٹیوں سے قطع نظر کچھ نعرے ہرپلیٹ فارم یا امیدوار کے لیے پسندیدہ رہے۔ مثلاً’’چودھری ساڈا شیراے باقی ہیر پھیر اے ‘‘ ’’جی او بٹّا چک دے پھٹا‘‘ کچھ سال بیشترلاہور کے ایک اور امیدوار اپنے نعرے کے سبب بڑے مشہور ہوئے نام تھا ان کا مہروزیر جب پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو اور مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نوازشریف کا بھرپور چرچا تھا ایسے میں مہروزیرکے حامی نعرے لگایا کرتے ’’نوازشریف نہ بینظیر وزیراعظم مہروزیر‘‘۔ پھر لاہور سے ماضی کی انتخابی سیاست میں ایم پی خان، سلیم کرلا ، بھنبھیری اور ان کے انتخابی نعروںکو کون فراموش کرسکتا ہے۔ نواب زادہ امبر شہزادہ کے نعرے ’’اقتدار کے بھوکوں میں ایک اور بھوکے کا اضافہ‘‘ کی کاٹ تو سبھی کو متاثر کرتی رہی۔ گیارہ مئی 2013ء کے عام الیکشن میں ایک ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ ایسے میں جہاں ’ہے جمالو ‘کی تال پر تھرکنے والے کم ہی نظر آتے ہیں وہاں جدید سائونڈ سسٹم اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے مشہور گلوکاروں کے گائے پارٹی نغمے نعروں کی جگہ اپنا رنگ جما چکے ہیں۔ اب تو بڑے بڑے اجتماعات میں تالیوں کے لیے بھی لوگوں ان پر انحصار نہیں رہا ،خاص طورپر تعلیمی اداروں کے طویل فنکشنز پر جب مہمان تالیاں پیٹ پیٹ کر بیزار ہوچکے ہوں، یہ سسٹم بخوبی تادیر تالیاں بجانے کا فریضہ سرانجام دیتا رہتا ہے۔ بہرحال انتخابی نعروں کے لیے نسبتاً کم سازگار ماحول میں چند نعرے اب بھی ضرور ایسے ہیں کہ عوام کی توجہ اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب رہے ۔ ان میں ’’اتے للہ تھلے بلا‘‘ ’’بلے کی ہوگئی بلے بلے‘‘ اور شیرکا نشان روشن پاکستان ’’بدلا ہے پنجاب بدلیں گے پاکستان‘‘ خاص طورپر سے نمایاں ہیں۔ ٭٭٭