سندھی ڈراموں میں کام کرنے کے مواقع بہت ہیں
اسپیشل فیچر
’’ شیکسپیئر نے کہا ہے کہ یہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور سب اس کے اداکار ہیں، ہر انسان اپنا اپنا کردار نبھا کر چلا جاتا ہے‘‘۔ یہ الفاظ نادیہ نے کہے جس میں اس کا مقصد یہ ہے کہ ہر انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس کا اپنا الگ مزاج اور پسند ہوتی ہے، وہ اس کے مطابق اپنی زندگی گزارتا ہے۔نادیہ کی پسند بھی فن سے پیار کرنا ہے،جس کے ذریعے وہ دنیا والوں کو اپنی پسند اور اچھے بُرے کا پیغام دیتی ہیں۔ مگر اداکاری سے ان کا مقصد پورا نہیں ہورہا ہے اس لیے وہ ہدایت کاری بھی کرنا چاہتی ہیں تاکہ کہانی کو اپنے خیال کے مطابق مکمل کرسکیں۔ اس سلسلے میں وہ ڈرامہ کے رائٹر کے ساتھ بیٹھ کر اپنا خیال دیتی ہیں اور اسکرپٹ مکمل ہونے کے بعد بھی اس میں اگر کوئی کمی بیشی ہوتی ہے تو اسے درست کرواتی ہیں۔نادیہ کو المیہ کردار اچھے لگتے ہیں کیوں کہ اس میں فن کار دل کی گہرائی سے اداکاری کرتا ہے اور اس قسم کے کردار دیکھنے والوں کے ذہن میں برسوں تک نقش رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسے نیگیٹو رول پسند ہیں جس میں فن کو استعمال کرنے کا پورا موقع ملتا ہے اور خاص طور پر وہ کردار ان کے برعکس ہوتے ہیں جس کے لیے انہیں اپنے آپ کو اس کردار میں ڈھالنا پڑتا ہے۔ ان کا اپنا مزہ ہے جب یہ لوگوں کے درمیان ہوتی ہیں تو انہیں مزاح اچھالگتا ہے۔ اس وقت وہ سندھی ٹی وی کے مزاحیہ ڈرامہ سیریل ’’D-70‘‘ میں مزاحیہ کردار بھی کررہی ہیں اور ڈرامے کی ڈائریکٹر عالیہ کو اسسٹ بھی کررہی ہیں، ڈرامے کی ایڈیٹنگ بھی دیکھ رہی ہیں۔انہیں اپنی ڈرامہ سیریل راجہ جی نوراں میں اپنا کردار پسند آیا جس میں وہ چوڑیاں بیچنے والی بنی تھیں۔ انہیں ڈرامے میں چوڑیاں بیچنے والی عورتیں کے کپڑے اور سنگھار کرنا بڑا اچھا لگا۔جب یہ ریکارڈنگ کے دوران ٹوکری میں چوڑیاں رکھ کر گائوں میں آوازیں لگانے لگیں تو پہلے انہیں بڑا عجیب سا لگا تھا کہ وہ واقعی چوڑیاں بیچنے والی ہیں کیوں کہ ان عورتوں کی زبان اور بولنے کا ایک مخصوص انداز ہے جسے اپنانا انہیں اچھا، لیکن مشکل بھی لگا۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ وہ ایسا کردار ادا کرے جس میں زندگی کی محرومیاں ہوں، لوگ ان پر ظلم کریں اور انہیں اتنا ستائیں کہ وہ زندگی سے تنگ ہوجائے اور پھر وہ اس کردار کو اس طرح سے ایکٹ کریں کہ دیکھنے والوں کی آنکھوں سے آنسو نکل آئیں۔نادیہ کی خواہش ہے کہ وہ رومانٹک کردار ادا کریں مگر ابھی تک انہیں جو بھی کردار ملے ہیں اس میں خشک قسم کے ڈائیلاگ ہوتے ہیں جنہیں ادا کرتے ہوئے کوئی خاص مزا نہیں آتا۔ اس کے پسندیدہ اداکار صلاح الدین تینو ہیں جنہوں نے سندھی اور اُردو ڈراموں میں لاجواب اداکاری کرکے انہیں اپنا فین بنایا ہے۔ انہیں وہ اس لیے بھی اچھے لگتے ہیں کہ ان کا چہرا اداکار وحید مراد سے ملتا جلتا ہے، جو ایک چاکلیٹی اور رومانٹک ہیرو تھے۔ اس کے علاوہ بھارتی اداکارہ نرگس بھی بڑی پسند ہیں جنہوں نے فلم مدر انڈیا میںکردار ادا کیا اور وہ امر ہوگئیں۔ نادیہ جب تنہا ہوتی ہیں تو ان کا دل میوزک سننا چاہتا ہے، خاص طور پر غزلیں جس میں ایک دھیرج ہے اور جگجیت،چترا، مہدی حسن، غلام علی اور نور جہاں کو سننے کے بعد لگتا ہے کہ وہ کسی اور دنیا میں پہنچ گئی ہیں جہاںامن ہے، لوگ بڑے خوش ہیں اور چاروں طرف خوشیاں ہی خوشیاں رقص کرتی نظرآتی ہیں۔ وہ بھارتی فلم بڑے شوق سے دیکھتی ہیں مگر جب اس کے پاس کام نہ ہو اور وہ بور ہورہی ہوں۔ ’’سلسلہ‘‘ انڈیا کی فلم جس میں امیتابھ بچن، ریکھا اور امیتابھ کی بیوی جیا بہادری نے کام کیا ہے۔ اس فلم کے گانے بڑے زبردست ہیں اور فلم کی کہانی ایک حقیقت پر مبنی ہے جسے آرٹسٹوں نے دل کی گہرائیوں سے پرفارم کرکے فلم کو لاجواب بنادیا ہے۔پاکستانی فلموں میں ’’بول‘‘ اسے بڑے پسند آئی جس میں زندگی کو اتنا قریب اور اصلی رنگ میں دکھایا گیا ہے۔اس فلم کا نام’’ بول‘‘ نہیں بل کہ’’ بولڈ‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ویسے تو اس دنیا کو اﷲ تعالیٰ نے کئی رنگوں سے سجایا ہے مگر اسے بلیک اور ریڈ کلر زیادہ اچھے لگتے ہیں۔ کھانا وہ اچھا ہے جو گرم اور وقت پر مل جائے کیوں کہ وہ کھانا کھانے میں سست ہیں۔ کپڑوں کے معاملے میں نئے ڈیزائن میں جو بھی مل جاتا ہے لے لیتی ہیں اور رنگ میں کوئی کمپرو مائز نہیں کرتی ہیں وہ بلیک ہو یا پھر ریڈ۔ اگر غزلیں کے علاوہ سجادعلی اور لتا منگیشکر کے گانے سننا پسند کرتی ہیں۔ ایک مرتبہ وہ اس شوق کو پورا کرنے کے لیے سی ڈی پلیئر خرید کر لائیں اور اس کے ساتھ کئی گانوں اور غزلوں کی سی ڈیز بھی لے آئیں مگر جب گھر میں پہنچی تو انہیں کسی اہم کام کے لیے چینلز جانا پڑا جس کی وجہ سے وہ بڑی غصے میں آگئیں اور سی ڈی پلیئر کو واپس کردیا۔سندھی شوبز کی دنیا کی عمر بڑی کم ہے مگر اس نے ترقی بڑی تیزی کے ساتھ کی ہے اور خاص طور پر پرائیویٹ چینلز میں۔ جب یہ چینلز وجود میں آئے تو اس وقت صرف پی ٹی وی پر کچھ سندھی پروگرام چلتے تھے اور وہاں پر عام اداکار یا اداکارہ کو کام اتنی آسانی کے ساتھ نہیں ملتا تھا۔ پی ٹی وی سینٹر میں داخل ہونا ہی ایک بڑا مشکل کام تھا۔ سندھی چینلز آنے کے بعد، ہر شعبہ کے فرد کو کام کرنے کا موقع ملا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑا ٹیلنٹ آگیا۔ شروع میں لڑکیوں کو کام کرنے میں دقت ہوتی تھی کیوں کہ لوگوں کے شو بز کے بارے میں اچھے خیالات نہیں تھے، آگے چل کر یہ تاثر ختم ہوگیا۔ سندھی میڈیا میں اتنے پیسے نہیں ملتے مگر کام کرنے والوں کے لیے بڑی گنجائش ہے۔ یہاں پر وسائل اور مسائل زیادہ ہیں مگر فن کاروں اور ٹیم کے ممبران کا حوصلہ بلند ہے۔نادیہ نے کہا کہ سندھی شوبز میںنور محمد لاشاری، انور سولنگی، شہزادی، یوسف علی، صلاح الدین تنیو، مشتاق جسکانی، روشن عطا، محمد نواز بلوچ، شہناز بھٹی، شبیراں چنّا، ممتاز کنول جیسے منجھے ہوئے فن کاروں نے بھی کام کیا ہے کہ وہ ہمارے لیے اکیڈمی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہم لوگوں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ مگر ان کے فن کو نہیں پہنچ سکتے۔ ان کے لیے شاعر ی، ماڈلنگ اور سنگنگ مشکل کام ہیں۔ یہ تینوں سننے اور دیکھنے میں زیادہ مزا دیتی ہیں۔نادیہ بی اے کے امتحان دینے کے یونیورسٹی کی زندگی پر ایک سیریل لکھیں گی اور خود ہی اسے ڈائریکٹ کریں گی۔ یونیورسٹی کی زندگی انسان کی زندگی میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ ان برسوں میں لڑکی ہو یا لڑکا اپنی آنے والی زندگی کے فیصلے کرتے ہیں اور مستقبل کے دیکھے ہوئے خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔ یہ لمحے زندگی کے سنہرے ہوتے ہیں۔ جہاں بے فکری اور آنے والے وقت کی پلاننگ کے درمیان میں فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ انہیں وکیل بننا پسند ہے کیوں کہ وہ کالا کوٹ پہن کر جب مظلوموں کے حقوق کے لیے لڑے گی تو ان کے دل کو سکون ملے گا۔ ایل ایل بی کرکے وہ اس وکیل کی جونیئر بنے گئیں جو دلیر اور بے باک ہو اور اس میں سچائی کا سامنا کرنے کی جرات ہو، وہ غریبوں اور مسکینوں کا ہمدرد ہو۔ وکالت میں قانون کی نالج سے نہ صرف انہیں بل کہ گھر والوں کی اور عام آدمی کی جنگ لڑسکتا ہے۔ وہ پیسے صرف ان لوگوں سے لے گی جو بڑے پیسے والے ہوں گے اور غریبوں کے کیس مفت لڑیں گی۔سندھی شوبز کی دنیا میں نادیہ کو دبنگ کہتے ہیں کیوں کہ یہ ہر اس آدمی سے لڑ پڑتی ہے جو عورت کی عزت نہیں کرتا یا پھر عورت سمجھ کر اس کا حق کھا جاتا ہے۔ یہ کئی مرتبہ راہ چلتے آوارہ قسم کے لوگوں کی پٹائی کرچکی ہے۔ اپنے خاندان میں نادیہ سب سے زیادہ مضبوط اعصاب کی مالک ہیں وہ اپنے دکھ درد بھول کر انسانیت کی خدمت کو اولیت دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہنوں کے بغیر زندگی ادھوری ہوتی ہے اور جب گھر والے کبھی باہر جاتے ہیں تو اسے گھر کھانے کو دوڑتا ہے۔ گھر کے باہر والے سارے کام یہ کرتی ہیں۔سیاست سے کوئی دل چسپی نہیں ہے کیوں کہ اب سیاست کرنا مکاری ہوگئی ہے اور وہ جھوٹ اور منافقت کو ویسے بھی پسند نہیں کرتیں ہیں۔ اب تو سیاست ایک مہلک اور گھنائونا کام ہوگیا ہے۔نادیہ کو سندھی گانوں میں برکت بھٹ کا ’’شام جوہی پھر مجنھج نائو کریو ‘‘ اور ارشد محمود کا ’’وادی جو گھر ٹھاہیو سے توکھے چاہیو سے‘‘ اچھے لگتے ہیں اور وہ کبھی فرصت کے وقت جب موڈ میں ہوتی ہیں تو گُن گنا لیتی ہیں۔