بھینس
اسپیشل فیچر
بھینس موٹی اور خوش طبع ہوتی ہے۔بھینسوں کی قسمیں نہیں ہوتیں۔ وہ سب ایک جیسی ہوتی ہیں۔ بھینس کا وجود بہت سے انسانوں کے لیے باعث مسرت ہے۔ ایسے انسانوں کی زندگی میں بھینس کے علاوہ مسرتیں بھی گنی گنائی ہوتی ہیں۔بھینس کا ہم عصر چوپایہ گائے دُنیا بھر میں موجود ہے لیکن بھینس کا فخر صرف ہمیں ہی نصیب ہے۔ تبت میں گائے کے وزن پر سُرا گائے ملتی ہے۔ سُرا بھینس کہیں نہیں ہوتی۔جغرافیہ دان کہتے ہیں کہ افریقا میں بھینس سے ملتی جلتی کوئی چیز Bison ہوتی ہے۔ مگر دودھ نہیں دیتی۔ جغرافیہ دان اتنا نہیں سمجھتے کہ جو چیز دودھ نہ دے بھلا وہ بھینس جیسی کیوں کر ہوسکتی ہے۔یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بھینس اتنی ہی بے وقوف ہے جتنی دکھائی دیتی ہے یا اُس سے زیادہ۔ کیا بھینس ایک دوسرے سے محبت کرتی ہیں؟ غالباً نہیں۔ محبت اندھی ہوتی ہے مگر اتنی اندھی نہیں۔بھینس کے بچے شکل و صورت میں ننھیال اور ددھیال دونوں پر جاتے ہیں۔ لہٰذا فریقین ایک دوسرے پر تنقید نہیں کرسکتے۔بھینس سے ہماری محبت بہت پرانی ہے۔ بھینس ہمارے بغیر رہ لے لیکن ہم بھینس کے بغیر ایک دن نہیں رہ سکتے۔ آج کل یہ شکایت عام ہے کہ لوگوں کو کوٹھی ملتی ہے تو ایسی جس میں گیراج تک نہیں ہوتا جہاں بھینس باندھی جاسکے۔جس گھر میں بھینس ہو (اور بھینس کہاں نہیں ہے) وہاں اندرونِ حویلی سب کے سب بھینس کے چکنے اَونٹے ہوئے دودھ کے لمبے لمبے گلاس چڑھاتے ہیں۔ پھر خمار چڑھتا ہے، کائنات اور اس کا کھیل بے معنی معلوم ہونے لگتا ہے۔ ایک اور دنیا کے خواب نظر آتے ہیں۔رہ گئی یہ دُنیا سو یہ دنیا تو مایا ہے مایا!کئی بھینسیں اتنی بھدی نہیں ہوتیں، مگر کچھ ہوتی ہی ہیں۔ دُور سے یہ پتا چلانا مشکل ہوجاتا ہے کہ بھینس ادھر آرہی ہے یا اُس طرف جارہی ہے۔ رُخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں… والا شعر یاد آجاتا ہے۔بھینس اگر وزرش کرتی اور غذا کا خیال رکھتی تو شاید چھریری ہوسکتی تھی۔ لیکن کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بعض لوگ مکمل احتیاط کرنے پر بھی موٹے ہوتے چلے جاتے ہیں۔بھینس کا مشغلہ جگالی کرنا ہے یا تالاب میں لیٹے رہنا۔ وہ اکثر نیم باز آنکھوں سے اُفق کو تکتی رہتی ہے۔ لوگ قیاس آرائیاں کرتے ہیں کہ وہ کیا سوچتی ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں سوچتی۔ اگر بھینس سوچ سکتی تو رونا کس بات کا تھا۔ڈارون کی تھیوری کے مطابق صدیوں سے ہر جانور اسی کوشش میں ہے کہ اپنے آپ کو بہتر بناسکے۔ یہاں تک کہ بندر انسان بن گئے ہیں۔ بھینس نے محض سستی کی وجہ سے اس تگ و دو میں حصہ نہیں لیا۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ ارتقائی دور ختم ہوچکا کیوں کہ انسان بالکل نہیں سدھر رہا۔ بھینس یہ سب نہ جانتی ہے نہ جاننا چاہتی ہے۔ اگر ماہرین اُسے نقشوں اور تصویروں کی مدد سے سمجھانا چاہیں تب بھی بے سُود ہوگا۔بھینس کا حافظہ کم زور ہے۔ اُسے کل کی بات آج یاد نہیں رہتی۔ اس لحاظ سے وہ انسان سے زیادہ خوش نصیب ہے۔اگر بھینس کی کمر میں پتھر یا لٹھ آلگے تو پیچھے مڑکر نہیں دیکھتی۔ ذرا سی کھال ہلا دیتی ہے بس!… اسے فلسفۂ عدم تشدد کہتے ہیں۔بھینسے کو بالکل نکما سمجھا جاتا ہے۔ اسے ہل میں جوتنے کی اسکیم ناکام یاب ثابت ہوئی کیوں کہ وہ دائمی طور پر تھکا ہوا اور اَزلی سست ہے اُس نے بچپن میں بھینس کا دودھ پیا تھا۔کبھی کبھی بھینسا چہرے کی جھریوں کو دیکھ کر چونک اُٹھتا ہے۔ اور سینگ کٹا کر کٹڑوں میں شامل ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ حرکت کون نہیں کرتا؟بھینس کے سامنے بین بجائی جائے تو نتیجہ تسلی بخش نہیں نکلتا۔ بھینس کو بین سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔کبھی کبھی مجھ پر فوڈ آتے ہیں جب میں گائے بکری وغیرہ کو بھینس جیسا سمجھنے لگتا ہوں۔(ملکی پرندے اور دوسرے جانور سے انتخاب)