لال بیگ
اسپیشل فیچر
لال بیگ کے نام سے کہیں آپ دھوکہ نہ کھا جائیے گا۔ جی نہیں! یہ کسی شخص کا نام نہیں بلکہ سرخی مائل رنگ کے ایک کیڑے کو اس نام سے پکارا جاتا ہے۔ لال بیگ بھی جھینگر اور تل چٹا کی طرح ایک گھنائونی اور بدشکل مخلوق ہے۔ یہ کیڑے نہ صرف دیکھنے میں خوفناک معلوم ہوتے ہیں۔ ان کیڑوں کی موجودگی گھر میں کئی قسم کی بیماریوں کو جنم دے سکتی ہے۔ کہتے ہیں امریکہ کے ایک شہر میں یہ بکثرت موجود تھے۔ وہاں ایک بیماری وبا کی صورت اختیار کرگئی لیکن جب صفائی کی ایک مہم چلا کر ان کیڑوں کو ختم کردیا گیا تو وبا بھی خود بخود ختم ہوگئی۔ یہ پیٹ کی بیماریاں پھیلاتے ہیں اور خاص طور پر آنتوں کی بیماریاں انہی کے دم سے قائم ہیں۔ ان کیڑوں کی عادات اور خصائل ایسے ہیں کہ ان کے لئے گھر سے بہتر اور کوئی جگہ نہیں۔ انہیں نمی اور گرمی بہت راس آتی ہے۔ یہ زیادہ تر تاریک و غلیظ نالیوں، پائپوں اور باورچی خانوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد آپ کو کوڑا دانوں میں بھی ملے گی۔ یہ بڑے پیٹو اور بلاخور ہوتے ہیں اور کھانے کے لیے اکثر ان چیزوں کو پسند کرتے ہیں جو انسان کے استعمال میں ہوں۔ ایک لحاظ سے آپ انہیں ڈاکو کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ آپ کے کھانے میں سے اپنا حصہ نکال لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باورچی خانوں کے اردگرد ان کا جھمگٹا لگا رہتا ہے۔ اگر ان کی من پسند خوراک نہ ملے تو ہر اس چیز کو چٹ کرجاتے ہیں جو ان کے سامنے آئے۔ ایسی صورت میں کپڑے، لکڑی حتیٰ کہ پینٹ تک ان کی یلغار سے محفوظ نہیں رہتے۔ جتنی غذا کھاتے ہیں اس سے دس سے پندرہ گنا تک جراثیم سے آلودہ کردیتے ہیں۔ اس روشنی میں غور کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں مجموعی طور پر یہ کتنی خوراک خراب کردیتے ہیں۔یہ طرح طرح کی غلاظت اپنے ساتھ لئے پھرتے ہیں اور یہ غلاظت کسی بھی کھانے میں شامل کرسکتے ہیں۔ جراثیم تقریباً چھ ہفتے تک ان کے پیٹ میں زندہ رہتے ہیں۔ اب یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی ہوگی کہ جھینگر اور لال بیگ قسم کے یہ کیڑے جو دیکھنے میں معمولی اور بے ضرور معلوم ہوتے ہیں گھر میں ایک حقیقی خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہیں کسی طرح بھی مکھی یا مچھر سے کمتر نہ سمجھنا چاہئے۔عام حالات میں آپ عیار لال لیگ کے دھوکے میں آسکتے ہیں اور یہ تصور کرسکتے ہیں کہ آپ کا گھر اس بلا سے محفوظ ہے لیکن یہ صرف خام خیالی ہے۔ دن کے وقت وہ آپ کو نظر نہ آئے گا۔ ایسے ہی جیسے آپ دن کے وقت چمگاڈر نہیں دیکھ سکتے۔ یہ عموماً رات کے وقت یلغار کرتا ہے اور یہی وقت اس کی کارروائی کے لیے مناسب ہے۔ اس کی جسمانی ساخت دن کے وقت اسے آپ کی نظروں سے اوجھل کردیتی ہے۔ اس کا چپٹا جسم اسے دروازوں اور تنگ خلائوں میں چھپ جانے میں مدد دیتا ہے۔ اگر آپ ان سے واقعی نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں رات وقت تلاش کریں اور اس وقت ان کی آبادی اور ٹھکانوں کا سراغ لگائیں۔ کسی بھی رات اپنے باورچی خانے میں داخل ہوجائیں… آپ کو عجیب قسم کی سرسراہٹ اور کھڑکھڑاہٹ کا احساس ہوگا۔ آپ اسے شاید چوہوں کی بھاگ دوڑ کا نتیجہ سمجھیں۔ ہوسکتا ہے آپ کا اندازہ درست ہو لیکن صاحب! ذرالائٹ جلا کر تو دیکھئے مجرم کون ہے؟ بلب کے روشن ہوتے ہی آپ ان کی فوج ظفر موج کو بھاگتے ہوئے دیکھیں گے۔ اور یہ چشم زدن میں کسی نہ کسی چیز کے نیچے یا پیچھے روپوش ہوجائیں گے۔ ان کے خلاف کارروائی کے لیے یہی رات کا وقت موزوں ہے۔ رات کے وقت نہ صرف آپ انہیں آسانی سے تلاش کرلیں گے بلکہ ان کی پناہ گاہوں تک رسائی بھی ممکن ہوجائے گی۔ اب ان کے خلاف آب بھرپور جنگ لڑسکتے ہیں۔ اگر حالات سازگار ہوں تو یہ بار بار آپ کے خلاف جمع ہوجائیں گے۔ اس لئے ان کا مکمل صفایا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مستقل طور پر ان کا حقہ پانی بند کردیا جائے اور ان کی پناہ گاہوں کو تباہ کردیا جائے۔ اگر آپ کو ان کی بعض خصلتوں کا علم ہوجائے تو آپ ان کا قلع قمع کرنے میں آسانی محسوس کریں گے۔ ان سے چھٹکارا پانے کی آسان ترکیب یہ ہے کہ آپ انہیں بھوکوں ماریں۔ آپ کو ان نکات کے سادہ سے منصوبے پر عمل کرنا چاہئے! غذا کی تیاری کے وقت اور دستر خوان و کھانے کی میز پر کھانے کو ڈھک کر رکھئے۔ شکر، مربے، مٹھائی، شہد، ڈبل روٹی، مکھن وغیرہ اچھی طرح ڈھانپ کر رکھئے اور نعمت خانہ کو بند رکھئے۔ اس طرح ان کی قلیل تعداد جو اندر آئے گی زیادہ دیر نہ ٹھہرے گی۔ اور خود بخود رخصت ہوجائے گی۔ ایسا انتظام کیجئے کہ سارا گھر ان کے لئے ناقابل گزر بن جائے۔ اگر اس سلسلے میں کچھ رقم بھی آپ کو خرچ کرنا پڑے تو کوئی حرج نہیں۔ جہاں تک ممکن ہو باورچی خانے اور گودام کی دروازوں کو بند کردیجئے۔ دیواروں اور فرش پر ان کے چھپنے کی کوئی جگہ نہ چھوڑیئے۔ الماریوں وغیرہ میں کاغذ نہ بچھائیے کیونکہ یہ ان کی بہترین پناہ گاہ ثابت ہوتا ہے۔ غرض انہیں کہیں بھی چھپنے کا موقعہ نہ دیجئے۔کھانے کے ریزوں اور چکنائی کے دھبوں کو فوراً صاف کردیجئے۔ الماریوں وغیرہ کو بار بار کھول کر دیکھتے رہئے۔ اگر ان میں لال بیگ وغیرہ نظر آئیں تو فوراً مار دیجئے۔ کوڑا کرکٹ کو جلدی سے پھینک دیجئے اور جلا دیجئے۔ مرغیوں کے ڈربے اور مویشیوں کے باڑے وغیرہ کو صاف رکھئے۔ الغرض کوئی ایسی چیز، جو لال بیگوں یا جھینگروں کی غذا بن سکے گھر اور اس کے گرد و نواح میں نہ رہنے دیں۔ دوسروں کو بھی ان ہدایات پر عمل کرنے کی ترغیب دیں۔ نالیوںکو پانی بہا کر صاف کرتے رہیں۔ کھانے پینے کی کوئی چیز نالی وغیرہ میں نہ بہائیں۔ جراثیم کش چیزوں کو پابندی اور باقاعدگی سے استعمال کرکے صفائی کے پروگرام کو تقویت دیں۔ جراثیم کش دوا سارے گھر میں چھڑکیں۔ کوئی سفوف یا محلول منتخب کرلیں اور پھر پابندی کے ساتھ مقررہ اوقات میں کام میں لائیے۔ ان تدابیر پر عمل کرنے سے آپ کے گھر میں پھر ایسی کوئی جگہ باقی نہ رہ جائے گی جہاں پر ان کی نسل کو فروغ حاصل ہو۔انگریزی اور دوسری بڑی زبانوں میں لال بیگ کے لیے ایک ہی لفظ مستعمل ہے ’کاکروچ‘۔ امریکی تو محض ’روچ‘ کہہ دینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ جب کہ دیگر زبانوں میں یہ لفظ لہجے میں معمولی تبدیلی کے ساتھ لگ بھگ یکساں طور پر بولا جاتا ہے۔دنیا بھر میں لال بیگ کی تقریباً ایک ہزار چھ سو اقسام ملتی ہیں۔ ان میں سے صرف سواقسام ایسی ہیں جنہیں اپنی قوم میں اکثریت حاصل ہے اور جو دنیا کے مختلف حصوں میں اتنی کثرت سے ملتی ہیں کہ انسان ان سے بہت اچھی طرح متعارف ہوچکے ہیں۔ ان اکثریتی اقسام کی جسامت اور صورت میں عام طور پر بہت کم فرق پایا جاتا ہے۔ جب کہ بقایا پندرہ سو اقسام کے لال بیگ اپنی ہیت کے اعتبار سے خاصے مختلف اور عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ کچھ اقسام کی جسامت تو ننھے منے مینڈک کے برابر بھی دیکھی گئی ہے۔ جب کہ بعض اقسام کے لال بیگ اتنے خوش رنگ ہوتے ہیں کہ بس دیکھتے رہنے ہی کو جی چاہتا ہے۔ بعض اقسام کے لال بیگوں کی جلد اتنی چمکیلی اور شفاف ہوتی ہے کہ سورج کی شعائیں منعکس ہونے لگیں۔ چند اقسام ایسی بھی پائی گئی ہیں جو اگر اپنے پر پھیلا دیں تو آدھ فٹ جگہ گھیرے میں آجائے۔لال بیگ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ روئے زمین پر پایا جانے والا یہ قدیم ترین کیڑا ہے اور چونکہ جسامت کے اعتبار سے دیگر حشرات الارض کے مقابلے میں بڑا ہوتا ہے۔ اس لیے سائنسدانوں کو تحقیقات کے سلسلے میں بہت آسانی ہوجاتی ہے۔ گویا جہاں لال بیگ انسان کا دشمن ہے وہاں اس حوالے سے دوست بھی ہے۔ مگر اس دوستی کے باوجود لال بیگ کی انسان دشمنی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سو جہاں تک ممکن ہو اس کا قلع قمع کرنے سے احتراز نہیں کرنا چاہیے۔٭٭٭