شہد کی مکھی اور قرآن کریم
اسپیشل فیچر
٭ چھتّے مسدّس کمروں کی شکل کی عمارتیں ہیں، جونہایت عمدگی، نفاست اورصفائی سےتیار کیے جاتے ہیں، ان کی تیاری میں نہ نقشے کا استعمال ہوتا ہے نہ اوزاروں کا، یہ ریاضی کے اُصول کے عین مطابق اورپیمائش شدہ ہوتے ہیں٭ بدبوداریا گندے نباتات سے رَس چوس کرچھتّے میں لانے والی مکھی کوشہرکے دروازے پرہی ماردیاجاتاہے، شہدکی مکھیوں کے معاشرے میں سُستی، کاہلی کا مظاہرہ کرنے اور گندگی پھیلانے کی سزا موت ہےقرآن مجید مطالعۂ کائنات کی دعوت دیتاہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی توحیدکے ثبوت کے لیے قرآن ِپاک میں بارہاکائنات پرغوروفکرکی دعوت دی ہے۔ دُنیامیں موجودہرشئے، ذرّے سے عرش تک ،ملک سے بشرتک اور مچھر سے ہاتھی تک،ہرشئے کا وجود اﷲتعالیٰ کی تخلیق کاشاہ کاراورمعرفت کی لازوال کتاب ہے۔ ہم مکھی اور مچھرجیسے حشرات کو معمولی سمجھ کرنظراندازکردیتے ہیں، مگرقرآن ِمجید مچھرکی مثال دیتاہے اورمکڑی کی صنعت کاری کی طرف توجّہ دلاتاہے کہ ِان کی زندگی بھی تمہارے لیے حیرت سامانی لیے ہوئے ہے، مگر انسانوں کی اکثریت دُنیامیں پھیلی ہوئی جابہ جامعرفت کی اِن بصیرت افروزنشانیوں سے غافل رہتی ہے۔ قرآن مجیدنے اِن الفاظ میں ان کی طرف اشارہ کیاہے :’’ارض وسما میں کتنی ہی ایسی مخلوقات ہیں جن سے یہ لوگ منہ پھیرکرگزرجاتے ہیں۔‘‘(سورۂ یوسف،105)سُورۂ نحل میں اﷲ تعالیٰ نے انسان کے لیے شہدکی مکھی کی زندگی میں جو معارف وفکرکی نشانیاں ہیں، اُن کی طرف ایک معنی خیزاشارہ کیاہے۔شہدکی مکھیوں کی زندگی،ان کا اجتماعی طرزِحیات اوراُن کی صنعت کاری کامطالعہ انسانی عقل کوسوچنے پرمجبورکردیتاہے کہ اس مخلوق نے مثالی نظم وضبط اور ہنرمندی کہاں سے حاصل کی ؟ کس کی ہدایت پریہ مظاہروقوع پزیرہوتے ہیں؟ قرآن مجید اس کاجواب ان الفاظ میں دیتاہے: ’’تیرے پروردگارنے شہدکی مکھی کووحی کی کہ درختوں ،پہاڑوں اورلوگوں کے بنائے ہوئے عرشوں اورمچانوں میں گھربنا۔‘‘(سورۂ نحل،68)قرآن نے نہایت اعجازآمیزاندازمیں لفظ’’وحی‘‘کے ذریعے اس حقیقت کی جانب اشارہ کیاہے کہ اس کی ہنرمندی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ، رمزآمیز،الہام اورہدایت کے سبب ہے اوراس کی زندگی ہدایت کے متلاشی انسانوں کے لیے درس ِتوحیدہے۔یہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے معموراور اُس کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔پہلے ان کے چھتّے کی طرف غورکریں ،جومسدّس کمروں کی شکل کی ایک عمارت ہے۔ اس کی تعمیرخودشہدبنانے سے زیادہ عجیب ترہے۔ شہدکی مکھی اپنے گھرایک خاص قسم کے موم سے تیارکرتی ہے، جونہایت عمدگی نفاست اورصفائی سے بغیرکسی نقشے یااوزارکے ریاضی کے اُصول کے عین مطابق اورپیمائش شدہ ہوتے ہیں۔ بنیادی طورپرکسی ایک سطح سے اس طرح پورااستفادہ کرناکہ اس کاکوئی حصّہ بے کارنہ جائے یا اس کے کونے تنگ وتاریک نہ ہوں، اس کے لیے مسدّس شکل سے بہترمساوی زاویوں کاکوئی اورانتخاب نہیں ہوسکتا۔پھریہ گھرپائیداری کے لحاظ سے بھی اعلیٰ ہوتے ہیں۔ اُن کی یہ ہنرمندی ماہرینِ تعمیرکے لیے بنیادی اسباق ہیں۔شہدکی مکھی کادوسرافریضہ قرآن مجید ان الفاظ میں بیان کرتاہے:’’پھرتمام پھلوں سے کھااورجوراستے تیرے پروردگارنے تیرے لیے معیّن کیے ہیں ،اُن میں راحت سے چل پھرجوتیرے لیے مطیع اورہم وار کیے گئے ہیں۔‘‘ (سورۂ نحل ، 69)شہدکی مکھیوں کاعلم رکھنے والے تحقیقات کی بنیادپراس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ صبح کے وقت شہدکی مکھیوں کاایک غول چھتّے سے نکلتاہے اور پھولوں سے بھری جگہوں کے بارے میں معلومات حاصل کرکے لوٹ آتاہے اوردوسروں کواطلاع فراہم کرتاہے۔ اس طرح ان کی سمت اور پروگرام کاتعیّن ہوتاہے اورچھتّے سے ان کافاصلہ بھی واضح ہوجاتاہے ۔شہدکی مکھیاں پھولوں کی جگہ تک پہنچنے کے لیے راستے میں نشانیاں مقررکرتی ہیں۔ وہ اپنے راستے میں مختلف قسم کی مہک پھیلاکر راستے متعین کرتی ہیں۔ اس کے باعث بہت کم امکان ہوتاہے کہ کوئی مکھی راستے سے بھٹک جائے۔مذکورہ بالاآیت اِسی طرف اشارہ ہے۔نباتات اورپھلوں میں حیات بخش دوائیں مخفی ہوتی ہیں۔ شہدکی مکھیاں رَس چوستے ہوئے اس مہارت سے کام کرتی ہیں کہ نباتات میں موجوددوائوں کے خواص پوری طرح شہدمیںمنتقل ہوجائیں۔ شہدکی مکھی جس رنگ کے پھل یاپھول پربیٹھ کراُس کا رس چوستی ہے۔ اس کے رنگ کے اعتبارسے شہد کا رنگ مختلف ہوتاہے۔ماہرین کاکہناہے کہ شہدکی مکھی کی بھوک ختم کرنے کے لیے دویاتین پھولوں کاچوس لیناکافی ہوتاہے۔ جب کہ شہد کی مکھی ایک گھنٹے میں اوسطاً اڑھائی سو پھولوں پربیٹھتی ہے ،کئی کلومیٹرکاسفرطے کرتی ہے ۔اپنی مختصرسی عمرمیں ڈھیرساراشہدجمع کرتی ہے ۔اس کی یہ تگ ودواس بات کی دلیل ہے کہ یہ تمام جدوجہد اپنے لیے نہیں کرتی بلکہ جیسا کہ قرآن کہتاہے ’’للناس‘‘سب انسانوں کے فائدے کے لیے کرتی ہے شہدکی مکھی پودوں سے صرف رَس نہیں چوستی بلکہ وہ نباتات کی افزائش وفروغ کابھی باعث بنتی ہے ۔وہ پودوں کے تولیدی اجزاء کوایک پودے سے دوسرے پودے تک بکھیرنے کابھی باعث بنتی ہے۔ ایک مغربی ماہرِ حیاتیات مسٹرلینگ کہتاہے:’’آج اگرشہدکی مکھی ختم ہوجائے توہمارے لیے ایک لاکھ قسم کے نباتات پھول اورپھل نابودہوجائیں اورکیامعلوم کہ اصلاً ہماراتمدن ہی ختم ہوجائے؟‘‘ (تفسیر نمونہ ج6 ص346)شہدکی مکھیاں رَس چوس کرپھولوں کاشیرہ اپنے بدن کے بعض خانوں میں بھیج دیتی ہیں ،جو دراصل ایک چھوٹے سے کیمیکل کارخانے کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں پھولوں کے رَس میں مختلف تبدیلیاں پیداہوتی ہیں اورآخرکاریہ شہدکی شکل اختیارکرلیتاہے ۔تب مکھی اِس تیارشدہ شہدکواپنے بدن سے باہرنکالتی ہے۔شہد کی مکھیوں کاشہربہت زیادہ پاک ،صاف اورمتحرک زندگی سے بھرپورہوتاہے ۔یہ رَوشن اوردرخشاں تمدّن کا حامل ہوتاہے۔ اِس شہرمیں کاہلی اورگندگی کاتصوّرہی نہیں پایا جاتا۔ شہدکی مکھیوں کی نفاست پسندی اورپاکیزگی کا اندازہ اس سے ہوتاہے کہ اگرکوئی مکھی بدبو دار یا گندے نباتات سے رَس چوس کرشہرمیں لانے کی کوشش کرے توشہرکے دروازے پرہی اُسے ماردیاجاتاہے۔ شہدکی مکھیوں کے معاشرے میں کاہلیت اور گندگی کی سزاصرف موت ہے۔شہدکی مکھیوں کی زندگی بہت منظم ہوتی ہے ۔تمام مکھیوں کی ایک سردارمکھی ہوتی ہے، جسے امیرالنحل کہتے ہیں ۔یہ سلیقے سے تمام مکھیوں میں ذمّے داریاں بانٹتی ہے۔ کچھ مکھیوں پر شہرکی تعمیر،کچھ پرافزائش ِآبادی، کچھ پرغذاکی فراہمی اورکچھ پرشہرکی حفاظت کی ذمّے داری ہوتی ہے۔ ہرمکھی پوری تن دہی اورایمان داری سے اپنافریضہ اداکرتی ہے۔ قرآن مجید نے شہدکوانسانوں کے لیے شفاقراردیاہے۔ میڈیکل سائنس بھی اس حقیقت پرمہرِتصدیق ثبت کرتی ہے کہ شہدکے بہت زیادہ خواص ہیں۔ اِن میں سے کچھ خواص کاتعلق علاج سے ، کچھ کااحتیاطی تدابیرسے اورکچھ کاطاقت وتوانائی کے حصول سے ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ شہدکی مکھی کاڈنک بھی معالجانہ خاصیت رکھتاہے ،مثلا گٹھیا،ملیریا، اعصابی درد وغیرہ کے لیے، البتہ اس کے لیے اطباء کی رہنمائی کے مطابق استفادہ کرناچاہیے۔ شہدکی مکھی جب کسی جسم پرڈنک چبھوتی ہے تو ڈنک اندرہی رہ جاتاہے، مکھی اس وقت تو اُڑجاتی ہے لیکن بعدمیں مرجاتی ہے ۔گویااس کاڈنک مارناایک طرح سے اس کی خودکشی ہے، کیوں کہ وہ اپنے حفاظتی ہتھیار سے محروم ہوجاتی ہے۔ قدرت کے اس اٹل آئین کے مطابق کہ جواقوام اپنی حفاظت خودنہیں کرسکتیں، وہ مِٹادی جاتی ہیں۔قرآن اس سارے تذکرے کانتیجہ ان الفاظ میں دے رہاہے:’’اس اَمرمیں اہلِ فکرونظرکے لیے بڑی نشانی ہے۔‘‘قرآن ہمیں فکر، تدّبر، تحقیق اورجستجوکاحکم دیتاہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی عطاکی ہوئی نعمتوں کا حقیقی شُکراُسی وقت اداکرسکتے ہیں ،جب ہم اِن نعمتوں پر تحقیق کریں، فکرکریں ۔آج مسلمانوں کے زوال کاسبب یہی ہے کہ وہ اﷲ کی نعمتوں میں اسبابِ راحت توتلاش کرتے ہیں، مگراِن میں توحیدکی نشانیوں پرغورنہیں کرتے۔اس کے برعکس وہ اقوام جنہوں نے کائنات پرغوروفکرکیا،تحقیق کی راہ اپنائی، آج دُنیاپرحکومت کررہی ہیں ۔ شہدکی مکھی کی حیات سے ہمیں یہی سبق ملتاہے کہ ناکارہ، سُست اورکاہل اقوام کے لیے ذِلت، رسوائی اور صفحۂ ہستی سے نابودی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں۔ہمارے لیے بھی یہ حقیقت یقینا لمحہ ٔ فکریہ ہے ۔