بندہ مومن اور فاسق کی اموات کی روداد
اسپیشل فیچر
٭ فرشتہ کہتا ہے: ’’اے نیک اور پاکیزہ روح!کُوچ کر اپنے پروردگار کی بخشش اور اُس کی خوش نودی کی طرف۔‘‘وہ رُوح ایسے باہر نکل آتی ہے، جیسے مشکیزے سے پانی کا قطرہ بہہ جاتا ہے، فرشتے اُ س رُوح میں ایسی خُوش بو بسالیتے ہیں جومُشک سے کئی لاکھ گنا بہتر ہوتی ہے٭موت کافرشتہ کافر کی رُوح ایسے کھینچتا ہے، جیسے آنکڑے کو ترشول سے کھینچا جاتا ہے، مرنے والے کی چیخیں نکل جاتی ہیں، دیگر فرشتے اُس روح کوگندے کپڑے میں لپیٹ دیتے ہیں ،اس رُوح سے نکلنے والی بدبو کسی مُردار سے کئی گناہ زیادہ ہوتی ہے،اُسے سجین میں پھینک دیاجاتاہےحضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیںکہ ہم رسولؐ اللہ کے ہم راہ ایک جنازے میں گئے ،آپؐ قبر کے سرہانے تشریف فرما ہوئے۔ہم آپؐ کے گرد ایسے(خاموش)بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر پرندے آکر بیٹھ گئے ہوں۔اُس وقت قبر کھودی جارہی تھی۔آپؐ نے اس موقع پر تین مرتبہ عذابِ قبر سے پناہ مانگی، پھر ارشاد فرمایا:’’مومن کا جب دُنیا سے آخرت کی طرف سفر شروع کرنے کا وقت آتا ہے اُس وقت آسمان سے نورانی فرشتوں کا ایک جمِ غفیر نازل ہوتا ہے ،ہر ایک کے ہاتھ میںجنّت کا کفن اورجنّت کی خوش بو ہوتی ہے اور وہ اُس(مومن)سے اس قدر فاصلے پر بیٹھ جاتے ہیں، جہاں تک اُس کی نظر جاتی ہے،پھر موت کا فرشتہ آتا ہے اور اُس کے سرہانے بیٹھ جاتا ہے اوراُس سے کہتا ہے: ’’اے نیک اور پاکیزہ روح!کُوچ کر اپنے پروردگار کی بخشش اور اُس کی خوش نودی کی طرف۔‘‘وہ رُوح ایسے باہر نکل آتی ہے، جیسے مشکیزے کے مُنہ سے پانی کا قطرہ (آسانی سے) بہہ جاتا ہے ۔موت کا فرشتہ اُس کی رُوح تھام لیتاہے اورپلک جھپکنے سے قبل ہی تمام فرشتے آسمان سے لایاہواکفن اور حنوط (آسمانی خوش بو)میں اُ س رُوح کو بسالیتے ہیں۔یہ دُنیا میں پائی جانے والی مُشک سے کئی لاکھ گنا بہتر ہوتی ہے ،پھر وہ رُوح جب پرواز کرتی ہے تو وہ خوش بو سے ایسی معطر ہوتی ہے کہ اُس جیسی خوش بو رُوئے زمین پر پائی نہیں جاتی۔’’ فرشتے اُس روح کو لے کر’’ملاء اعلیٰ‘‘میں فرشتوں کے جس مجمعے کے پاس سے بھی گزرتے ہیں،وہ معلوم کرتے ہیں کہ یہ پاکیزہ روح کون ہے؟فرشتے عرض کرتے ہیںکہ یہ فلاں بن فلاں ہے۔یہ دُنیامیں جس اچھے نام سے معروف تھا۔ اُس سے زیادہ اچھے انداز میں اُس کا تعارف کراتے ہیں۔پہلے آسمان پر پہنچ کرفرشتے آسمان کادروازہ کھلواتے ہیں،پھر وہاں کے مقرّب فرشتے اُسے اگلے آسمان تک پہنچادیتے ہیں ،یہاں تک کہ اُسے اُس آسمان تک پہنچا دیا جاتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق جلوہ افروز ہے ۔اللہ تعالیٰ اس رُوح کے متعلق ارشاد فرماتاہے: ’’میرے اس بندے کے نامۂ اعمال کو ’’علیین‘‘میں رَکھ دو اور اسے واپس زمین میں لوٹا دو ،کیوں کہ زمین ہی سے میں نے اِن(انسانوں) کو پیدا کیا ہے، اسی میں انہیں واپس لوٹائوں گا اور اسی سے انہیں دوبارہ نکالوں گا۔‘‘ اُس کی روح واپس اُس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے ۔پھر دو فرشتے اُس کے پاس(قبرمیں) آتے ہیں اور اُسے اُٹھاکربٹھاتے ہیں، پھراُس سے تین سوال کرتے ہیں کہ تیرا رَبّ کون ہے ؟مومن کہتاہے: ’’ میرا رَبّ اللہ ہے۔ ‘‘سوال ہوتاہے : ’’تیرا دین کیا ہے؟‘‘مومن کہتاہے:’’ میرا دین اسلام ہے۔‘‘سوال ہوتاہے : ’’یہ ہستی کون ہیں؟ جنہیں تمہاری طرف بھیجا گیاتھا؟‘‘ مومن کہتاہے: ’’ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘تُجھے اِن باتوں کا علم کس طرح ہوا؟‘‘مومن کہتاہے: ’’ میں نے اللہ کی کتاب(قرآن ِمجید)پڑھی،اُس پر ایمان لایا اور اُس کی تصدیق کی۔‘‘ بس یہ کہتے ہی ایک غیبی ندا آتی ہے ’’ میرے اس بندے نے بالکل سچ کہا ،اس کے لیے جنّت کے بستر بچھا دیے جائیں، اسے جنت کی پوشاکیں پہنائی جائیں اور اس کے لیے جنّت کا دروازہ کھول دیا جائے۔‘‘اس ندا کے ساتھ ہی وہ خوش بوئوں میں معطر واپس لوٹ آتا ہے اور اُس کے لیے تاحدِ نگاہ قبر کشادہ کردی جاتی ہے۔پھر حسین کپڑوں میں ملبوس ایک خوب صورت آدمی جس سے خوش بو مہکتی ہے،اس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے: ’’مبارک ہو تمہیں ایسی خوشیوں کی جو تُمہیں خوش کردیں گی،یہی ہے آج کا وہ(مُبارک) دن جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔‘‘ بندہ اُس سے پوچھتا ہے:’’ تم کون ہو؟تمہارے چہرے پر پھیلی ہوئی بھلائی بتلا رہی ہے کہ تم کوئی خیر کی بات لے کر آئے ہو؟‘‘ نورانی چہرے والاکہتا ہے:’’ میں تمہارے نیک اعمال ہوں۔‘‘یعنی میں تمہاری نماز اور روزہ ہوں،میں تمہاری نیکی اور صدقہ ہوں ،میں تمہارے آنسو اور خوفِ الٰہی ہوں ،میں تمہارا حج وعمرہ ہوں اورمیں وہ حُسنِ سلوک ہوں جو تم اپنے والدین کے ساتھ کیا کرتے تھے۔مومن جب یہ منظر دیکھتا ہے اور اپنی تنگ قبر کو کشادہ ہوتے ہوئے دیکھتا ہے کہ اس میں طرح طرح کی نعمتیں بھی ہیں تو وہ وارفتگی کے عالم میں بے ساختہ پُکار اُٹھتا ہے: ’’اے اللہ!قیامت قائم فرمادے۔اے اللہ! قیامت قائم فرمادے،تاکہ میں اپنے اہل وعیال میں جلدازجلد لوٹ جائوں۔‘‘آنحضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے مزید ارشاد فرمایا: ’’جب کافر کے دُنیا سے جانے کا وقت آتا ہے تو آسمان سے انتہائی سیاہ چہرے والے فرشتے اُترتے ہیں ،اُن کے ہاتھوں میں ٹاٹ(گندے کپڑے) ہوتے ہیں ،وہ اُس مرنے والے کی تاحدِ نگاہ بیٹھ جاتے ہیں ،پھر موت کا فرشتہ اُس کے پاس آتا ہے اور اُس کے سرہانے بیٹھ جاتا ہے اور اُس سے کہتا ہے: ’’اے ناپاک روح !نکل اپنے رَبّ کے غصّے اور اُس کی ناراضی کی طرف۔‘‘وہ رُوح اُس کے جسم میں گندھی ہوئی ہوتی ہے ،فرشتہ اُس رُوح کو ایسے کھینچتا ہے جیسے آنکڑے کو ترشول سے کھینچا جاتا ہے(جس کی وجہ سے مرنے والے کی چیخیں نکل جاتی ہیں)۔فرشتہ رُوح کو قابو کرتا ہے اور لمحہ بھرمیں دیگر فرشتے اُس کی روح دبوچ لیتے ہیں اورٹاٹ (گندے کپڑے)میں اُسے لپیٹ دیتے ہیں ،رُوئے زمین پرپائے جانے والے کسی مُردار سے زیادہ اُس سے بدبو نکلتی ہے۔پھر اُسے لے کر اوپر کی طرف بڑھتے ہیں ۔آسمانی فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے بھی وہ گزرتے ہیں، پوچھتے ہیں : ’’یہ خبیث اور گندی رُوح کس کی ہے؟‘‘وہ عرض کرتے ہیں :’’ یہ فلاں بن فلاں ہے ۔‘‘دُنیا میں وہ جس بُرے نام سے پُکارا جاتا تھا، اُس سے بھی نہایت بُرے انداز میں اُس کا نام لیتے ہیں اور پہلے آسمان پر اُسے لے کر پہنچتے ہیں اور آسمان کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں ،لیکن دروازہ اُس کے لیے نہیں کھولا جاتا ۔آنحضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے پھر سورۂ اعراف کی آیت نمبر 40 تلاوت فرمائی، جس کے معنٰی یہ ہیں: ’’ اُن کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے ،اور وہ جنّت میں اُس وقت تک داخل نہیں ہوں گے، جب تک کوئی اونٹ سُوئی کے ناکے میں داخل نہیں ہوجاتا۔‘‘غیبی آواز آئے گی: ’’اس کا اعمال نامہ ’’سجین‘‘میں لکھ دو۔جو زمین کی بالکل تہہ (تحت الثریٰ)میں ہے۔ چناں چہ اُس کی رُوح سجین میں پھینک دی جاتی ہے ،پھرآپؐ نے سورۂ حج کی آیت نمبر 31تلاوت فرمائی،جس کے معنٰی یہ ہیں : ’’اورجو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا ،پھر یا تو پرندے اُسے اُچک لے جائیں،یا ہوااُسے دور دراز کی جگہ لا پھینکے ۔‘‘اس ندا کے ساتھ ہی اُس کی رُوح اُس کے جسم میں روح لوٹا دی جاتی ہے اوردو فرشتے اس کے پاس آجاتے ہیں ،اُسے بٹھاتے ہیں ،پھر پوچھتے ہیں: ’’ بتا تیرا رَبّ کون ہے ؟‘‘کا فرکہے گا: ’’ ہا ہا ،مجھے نہیں معلوم۔‘‘پوچھا جائے گا: ’’بتاتیرا دِین کیا ہے؟‘‘ وہ کہے گا: ’’ ہاہا،مجھے نہیں معلوم۔‘‘ پھر پوچھا جائے گا: ’’بتایہ ہستی(حدیث میں آتا ہے کہ قبر میں ہر میت کے سامنے رحمتِ دوعالم ؐ کی شبیہِ مبارک پیش کی جاتی ہے اور اُنؐ کی طرف اشارہ کرکے فرشتے پوچھتے ہیں )’’ کون ہیں؟جنہیں تمہاری طرف بھیجا گیا تھا؟‘‘ وہ کہے گا: ’’ ہاہا،میں نہیں جانتا۔‘‘بس یہ کہتے ہی پھر ایک غیبی ندا بلند ہوگی :’’اس نے جھوٹ بولا،اس کے لیے آگ کا بستر بچھادیا جائے اور جہنم کی طرف کا ایک دروازہ اس پر کھول دیا جائے۔‘‘چناں چہ اُس دروازے سے اُس پر گرم ہوا اور آگ لپکتی ہے اور اُس کی قبر اتنی تنگ ہوجاتی ہے کہ پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں، انتہائی بد شکل اوربدبودار کپڑے پہنے ہوئے ایک شخص نمودارہوتا ہے اور آکر اس(کافر مردے)سے کہتا ہے: ’’تجھے وہ چیز مبارک ہو جسے تو بُرا سمجھتا تھا، یہی تیرا وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا۔تو ہمیشہ اللہ کی اطاعت سے روگردانی کرتا رہا اوراللہ کی نافرمانیوں میں بڑھتا رہا ۔اللہ تعالیٰ تجھے بُرا بدلہ دے۔‘‘و ہ کا فر مردہ کہتا ہے:’’ تُو کون ہے ؟تیرے چہرے سے بُرائی نمایاں ہورہی ہے؟‘‘وہ بد شکل آدمی کہے گا:’’ میں تیرا عملِ بدہوں۔‘‘ بُرے اعمال اُس کی گردن پر کھڑے ہوں گے اور وہ حیرانگی سے اُن کا منہ تک رہا ہوگا۔ اللہ کے نام کی جھوٹی قسمیں کھانے کا گناہ،شراب نوشی، بدکاری،سُود خوری اور موسیقی جیسے گناہ وغیرہ۔اُسے حسرت ہوگی مگر اُس کے ہرگز کام نہ آئے گی ،ندامت ہوگی مگر شرمندگی کا کوئی فائدہ نہ ہوگا ۔آج اُسے چاروں طرف سے آواز آرہی ہوگی:’’ اے بدکردار انسان! یہ بتا کہ تُونے اپنی شرم گاہ کی کس قدر حفاظت کی،آنکھوں اور کانوں کی کتنی حفاظت کی اورگناہوں سے کیوں نہیں رُکا؟اس کے بعد قبر کی سختی ایسی شروع ہوگی کہ وہ اُس کی تاب نہ لاسکے گا اور چیخیں مارتا ہوا کہے گا: ’’اے پروردگار!قیامت قائم نہ کرنا۔‘‘پھر اُس مردے پر ایک اندھا ،بہرا اور گونگا اژدھا مسلط کردیا جاتا ہے، اُس کے ہاتھ میں ایک گرز ہوتاہے ،اگراُس گرز کی ایک چوٹ کسی بڑے پہاڑ پر ماردی جائے تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائے،ایسی ضربیں وہ اُس مردے پر برسائے گا ،جس سے اُس کی ایسی چیخیں بلند ہوں گی کہ اَنس وجنّ کے علاوہ ہر مخلوق کو اُس کی آواز سنائی دیتی ہے۔‘‘(مسند احمد)