رشوت کی تباہ کاریاں
اسپیشل فیچر
حضرت عبد اللہ ابنِ عمر ؓسے مروی ہے کہ آنحضرت محمد مصطفی صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ’’ رشوت دینے اور لینے والا (دونوں) جہنمی ہیں۔‘‘مذکورہ حدیثِ مُبارک میں ایک ایسی بدعنوانی کی مذمّت کی گئی ہے، جو معاشرے کو ناسور کی طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور جس کے دُور رَس بُرے اثرات اجتماعی اور انفرادی سطح پر پڑتے ہیں۔ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے اِس حدیثِ مُبارک میں رشوت دینے اور لینے والے افرادکو یہ وعید سُنائی کہ وہ دونوں جہنم کا ایندھن بنیں گے ۔معاشرے میںصرف رشوت لینے والے کو زیادہ بُرا سمجھا جاتا ہے اور اُسے طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن اِس حدیثِ مُبارک میں اہم بات یہ ہے کہ رشوت دینے والے کا ذِکر پہلے کیا گیا اور لینے والے کا بعد میں۔ یہ اِس طرف اشارہ ہے کہ رشوت لینا اور دینا، اگرچہ دونوں ہی عمل قابلِ مذمّت ہیں ،لیکن دینے والا لینے والے کی بہ نسبت زیادہ بڑا مجر م ہے ، کیوں کہ اُس کے دینے سے یہ بُرائی معاشرے میں فروغ پاتی ہے اور لینے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔اگر لوگ رشوت دینے سے باز آجائیں تو لینے والے کس سے رشوت لیں گے؟ رِشوت کیا ہے؟ علامہ ابنِ عابدین شامی ؒ نے اِس کی جامع ترین تعریف اِس طرح کی ہے کہ ’’رِشوت وہ عمل ہے جو آدمی کسی حاکم یا غیر حاکم کو اِس مقصد کے تحت دیتا ہے کہ فیصلہ اُس کے حق میں ہو یا اُس کے من پسند منصب پر اُسے فائز کیا جائے۔‘‘ رِشوت کے انفرادی اور اجتماعی نقصانات اس قدرہیں کہ اُ ن کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔جس معاشرے میں رشوت ستانی عام ہوجاتی ہے تو سب سے پہلے وہاں عدل و انصاف ختم ہوجاتا ہے ، میرٹ ختم اور دولت کو فوقیت حاصل ہوجاتی ہے،معیار کے بجائے پیسے کا بول بالا ہوجاتا ہے،عہدے اور مناصب فروخت ہونے لگتے ہیں، انسانی حقوق کی پامالی ہونے لگتی ہے، ادارے اپنا کام درست طریقے سے نہیں کرپاتے ، نااہلوں کی کثرت بالآخر تمام ادارے تباہ و برباد کر دیتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پُر اَمن معاشرہ اختلاف و افتراق اور باہمی نفرت و عداوت کا شکار ہوجاتا ہے ۔رشوت کے لین دین میں ملوّث افراد دراصل ملک اور ملّت کے دشمن ہوتے ہیں۔اُنہیں صرف ذاتی مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ایک حدیثِ مُبارکہ میں ایسے خودغرض اور ہوسِ زر میں مبتلا مفاد پرستوں کوناپسندیدہ لوگوں میں شمار کیا گیا ہے۔ سرکاری اور دیگر اداروں کے ملازمین رشوت لیتے ہیں اور اس کاجواز یہ پیش کرتے ہیںکہ ہم نے کسی کو اُس کا حق دِلانے میں مدد کی، لہٰذا ہم اُس سے حقِ محنت لے رہے ہیں،جب کہ یہ سراسر جھوٹ اوربِلاجوازودلیل ہے، کیوں وہ اداروں سے باقاعدہ معاوضہ لیتے ہیں اور اُن کی ذِمّے داریاں بھی یہی ہوتی ہیں کہ وہ لوگوں کو آسانیاں فراہم کریں ،اُن کا کام بَروقت کریں اور اُن کے ساتھ تعاون کریں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں محکمہ ٔ پولیس باقاعدہ قائم کیاتھا،جس کا مقصد لوگوں کی جان ، مال اور آبرو کی حفاظت تھی۔ بعد میں بدقسمتی سے یہ ادارہ رشوت خوری کا مرکز بن گیا،جس کا لازمی نتیجہ بے راہ روی،قتل و غارت گری میں اضافے، قانون شکنی اور عزت و آبرو کی پامالی کی صورت میں نظر آرہا ہے۔ ٹریفک قوانین توڑکر رشوت کے عوض جان چھڑانا معمول بن چکاہے۔تجارتی سطح پربھاری رقم کے بدلے بڑے عوامی ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکے حاصل کیے جاتے ہیںاور رشوت کی رقم وصول کرنے کے لیے منصوبوں میں ناقص مال استعمال کیا جاتا ہے،جس کی وجہ سے یہ منصوبے غیر مستحکم ہوتے ہیں۔ تاجر حضرات معیار جانچنے والے اداروں کو رشوت دے کراپنی مضرِ صحت مصنوعات کی منظوری حاصل کرلیتے ہیں اور معصوم لوگوں کی جان ،مال اور صحت سے کھیلتے ہیں۔رشوت کی اِن خرابیوں کی وجہ سے قرآنِ مجید کی متعدد آیات اور احادیثِ مُبارکہ میں اِس کی شدید الفاظ میں مذمّت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا: ’’اور ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق نہ کھاؤ، نہ (بطورِ رشوت)وہ مال حاکموں کو دو،تاکہ تم جان بوجھ کر لوگوں کا مال گناہ کے ساتھ کھاؤ۔‘‘(سورۂ بقرہ،آیت : 188)سورۂ بقرہ کی اِس آیتِ کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رشوت بھی اگرچہ ناحق مال ہے، اِس کے باوجود اِس کی ناپاکی ظاہر کرنے کی غرض سے اِس کا ذکر الگ سے کیا گیا ہے۔ رشوت کی یہ صورت معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی اس کا چلن عام تھا ، اورآج کے نام نہاد مہذّب اور تعلیم یافتہ زمانے میں بھی مختلف ناموں اور صورتوں میں رائج ہے۔کبھی یہ نذرانے کے نام پراور کبھی تحفے کے نام سے دی جاتی ہے ۔ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں ایسی تمام صورتوں کو گناہ قرار دیاگیا ہے۔ اِسی طرح سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 63 میں یہود ی کاہنوں، رَبیّوںاور اُن کے حکّام میں پائی جانے والی خرابیوں میں سے ایک خرابی یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ رشوت لے کر غلط فیصلے کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے انتہائی بُرافعل قراردیاہے۔ واضح رہے کہ قرآنِ مجید میں یہود و نصاریٰ کے واقعات محض قصّے کہانی اور دل چسپی کے لیے نہیںبلکہ درسِ عبرت اور اُن بُرائیوںکے بُرے اثرات سے بچنے کی ترغیب دینے کے لیے بیان فرمائے گئے ہیں۔ ایک حدیثِ مُبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح قومِ بنی اسرائیل میں یہ بُرائیاں پائی جاتی تھیں ،اُمّتِ مسلمہ کے بعض طبقوں میں بھی پائی جائیں گی۔ لہٰذا ہمیں چوکنّا رہنا چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ کہیں ہم میں بھی تو وہ بُرائیاں نہیں پیدا ہوگئیں ۔آنحضرت محمد مصطفی صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کی کئی احادیثِ مبارکہ میں رشوت خور پر لعنت کی گئی ہے اور رشوت کے تکلیف دہ نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے۔ ایک حدیثِ مُبارکہ میں ہے: ’’ جو بھی گوشت مالِ رشوت سے پروان چڑھتا ہے، اُس کے لیے دوزخ کی آگ ہی زیادہ مناسب ہے۔‘‘ اِسی طرح ایک حدیثِ مُبارکہ میں ہے: ’’ جو گوشت رشوت کی رقم سے پروان چڑھے گا وہ ہرگز جنّت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘ ایک مسئلے کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ شریعتِ مُطہر ہ میں رشوت لینے اوردینے کی تمام صورتیں ناجائز و حرام قرار دی گئی ہیں۔ البتہ رشوت دینے کی چند صورتوں میں رعایت حاصل ہے۔ اُن صورتوں میں صرف رشوت لینے والاگناہ گار ہوگا، رشوت دینے والا نہیں۔مثلاً اگر اپنی جان یا عزت و آبرو بچانے کے لیے کسی کو کچھ دینے پر مجبور ہوجائے ،تواِس قبیح فعل کا وبال رشوت لینے والے پر ہوگا۔ اِسی طرح ایسے حالات کہ کسی شخص کے لیے جائز، شرعی اور قانونی حق حاصل کرنا ناممکن بنادیا گیاہو اور وہ اپنا جائز حق لینے کے لیے رشوت دینے پر مجبور ہوجاتا ہے تو اِس کا سارا وبال رشوت لینے والے پر ہوگا۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ اُنہیں حبشہ میں اپنی جان چھڑانے کے لیے دو دینار دینے پڑے۔ تب آپؓ کو رہائی ملی۔ اس وقت آپ ؐنے فرمایا تھا: اِنَّ اَلْاِثمَ عَلَی الْقَابِضِ دُوْنَ الدَّافِعِِ یعنی’’رشوت لینے والا گناہ گار ہوگا، دینے والا نہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہمیں رشوت لینے اوردینے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)