’’مزنگ مغل قوم نے آباد کیا،بلوچ اور آرائیں بعد میں آئے؟‘‘
اسپیشل فیچر
رائے بہادر لال کنہیا نے ’’تاریخِ لاہور‘‘ میں مزنگ کا احوال یوں بیان کیا ہے۔ ’’یہ آبادی بھی ایک محلہ محلہ ہائے بیرونی شہر لاہور سے تھی جس کو ایک بزرگ پیر عزیز مزنگ نے کابل سے آکر آباد کیا تھا۔ مزنگ ایک گوت مغلوں کی قوم میں سے ہے۔ مدت العمر خود بھی وہ اس میں آباد رہا۔ من بعد اس کی اولاد قابض ہوئی۔ اسلامی سلطنت کے انقراض کے وقت اس محلے کے مغل بکمالِ استقلال یہاں مقیم رہے۔ غارت گروں کے ہاتھ سے کبھی بخوشامدو منت، کبھی برشوت، کبھی بزور ِشجاعت بچتے رہے۔ جب لنگرخان کا محلہ جو اس کی دیوار بدیوار آباد تھا اُجڑ گیا تو قوم بلوچ بھی وہاں سے اٹھ کر اسی محلے میں آرہی اور دونوں قوموں نے مل کر اس جگہ کو غارت گروں کے حملوں سے بچائے رکھا اور یہ بستی دو فریق میں مشترک ہوگئی۔ پھر جب چالیسی قحط میں لوگ تنگ آکر یہاں سے بھاگ گئے اور مکانات بہت سے خالی ہوگئے تو ارائیں لوگ متفرق مواضعات سے اٹھ کر یہاں آگئے اور یہ بستی تین اقوا م میں مشترک ہوئی۔ آخر قوم مغل کا صرف اس قدر اقتدار رہ گیا کہ کوئی کاغذ بیعنامہ یا گرونامہ ان کی مہر و دستخط کے بغیر جائز گنا نہ جاتا تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وقت اس گائوںمیں بلوچوں کی قوموں کا غلبہ ہوگیا۔ مغل اور ارائیں محکوم رہے۔ بلوچوں میں سے اچھے اچھے ذی عزت لوگ مثل عزت خان وبولے خان و بہادر خان و شہادت خان ووریام خان و قاسم خان وغیرہ پیدا ہوئے، جو سکھی سرکار میں ملازم تھے۔ عبداللہ شاہ نام ایک بلوچ ایسا صاحبِ باطن فقیر ہوا جس کے لاہور کے علماء و فضلاء مرید تھے۔ اخیر سلطنت سکھی و ابتدائی سلطنت انگریزی میں سردار خان بلوچ ایسا ذی رعب و صاحب حکومت اس گائوں میں ہوا جس کی اطاعت میں تمام بستی تھی۔ اس کی یادگار ایک پختہ مسجد اب تک موجود ہے۔ وہ مرگیا تو بلوچ کی قوم میں سے کوئی صاحب اقبال نہ رہا۔ ارائیں زبردست ہوگئے۔ اب بلوچوں میں سے صرف ایک لمبردار ہے اور سب لمبردار ارائیں ہیں۔ اعلیٰ لمبردار بھی شادی ارائیں ہے۔ یہ بستی اب بہت بستیوں میں منقسم ہے۔ خاص مزنگ کی بستی بھی پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے۔ دوم، بستی کوٹ عبداللہ شاہ، اس کو عبداللہ شاہ بلوچ نے آباد کیا تھا۔ پختہ فصیل اور پختہ اس کے مکانات ہیں۔ سوم، قلعہ مہر مادو، یہ بستی مراد بخش المشہور مادوارائیں نے آباد کی تھی جس کا بیٹا نظام الدین ٹھیکہ دار موجود ہے۔ چہارم، قلعہ مہرا: یہ بستی اگرچہ ارائیوں نے مل کر آباد کی تھی، مگر سب سے پہلے مہرا نام ایک ترخان اس میں آکر آباد ہوا تھا، اس لئے یہ بستی اس کے نام سے مشہور ہوگئی۔ پنجم، تاج پورہ، اس کو ایک شخص مسمی تاجانے آباد کیا تھا، جو فقیر تھا اور اس کی قبر بستی کے اندر ہے۔ ششم، مڈہر، یہ بستی قوم ارائیں گوت مڈہر سے موسوم ہے اور انہوں نے مل کر اس کو آباد کیا تھا۔ ہفتم، بھونڈ پورہ، یہ بستی انگریزوں کے وقت آباد ہوئی ہے جو خاص موضع سے جنوب مشرق کے گوشے پر ہے جو مسمی کماالمشہور بھونڈے کے نام سے آباد ہے اور سب سے پہلے وہی اس جگہ آکر آباد ہوا۔ اس واسطے یہ بستی اس کے نام سے مشہور ہوگئی۔ موضع میں اچھے اچھے علماء و شعراء ہوگزرے ہیں۔ سکھی وقت میں سراج الدین نام ایک بزرگ و فاضل و عابد تھے۔ دوسرے، عبداللہ شاہ قادری۔ تیسرے، مفتی غلام محمد جو بلوچوں کی مسجد کے امام تھے۔ وہ طبابت کا کام کرتے تھے۔ اکثر بیمار ان کے معالجہ سے اچھے ہوجاتے تھے۔ چہارم، میاں ساون شاعر۔ یہ شاعر قوم کا بلوچ تھا۔ اس کے پنجابی اشعاراب تک مشہور ہیں۔ پنجم، میاں فرید شاعر، جو پنجاب کے شعراء میں سے استاد شمار ہوتا ہے، اسی موضع کا رہنے والا ہے۔ ششم، مفتی غلام سرور، جو مصنف و شاعر تمام زمانہ میں مشہور ہے، اسی موضع کے رہنے والوں میں سے ہے۔ اب تک اٹھارہ کتابیں نظم و نثر لکھ چکا ہے۔ مثل، خزینۃ الاصفیا و گنجیہ سروری وغیرہ‘‘۔ (حوالہ: تاریخ لاہور۔ مصنف: رائے بہادر کنہیا لال، اشاعت اول، صفحہ 80 و 81 سن اشاعت 1884ء مطبع: وکٹوریا پریس لاہور)