نیگلیریا: جان لیواخوف ناک بیماری

نیگلیریا: جان لیواخوف ناک بیماری

اسپیشل فیچر

تحریر :


شرکائے مذاکرہ:جنید علی شاہ نگراںوزیرِ صحت حکومت سندھ مصباح الدین فریدمنیجنگ ڈائریکٹر، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈڈاکٹر قیصر سجادفنانس سیکریٹری ،پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشنڈاکٹر رفیق خانانی پروفیسر ڈائو یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسزڈاکٹر اسلم پرویز ڈسٹرکٹ آفیسر، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈڈاکٹر سریش کمار سیکریٹری ہیلتھ ، حکومت سندھڈاکٹر ارم خان اسسٹنٹ پروفیسر، آغاخان اسپتالاعظم خان ڈپٹی چیف انجینئر ، واٹر بورڈکراچی میزبانغلام محی الدین(میگزین ایڈیٹر)عمران احمد(چیف رپورٹر)یاسمین طحہٰ( سینیر سب ایڈیٹر) ابراہیم رند (ہیلتھ رپورٹر)رپورٹ: محمد اعجاز الحسن عکاسی: ماجد حسینگزشتہ برس کراچی میں نیگلیریا کے دس مریض سامنے آئے تھے اس وقت اس بیماری کے بارے میں عام لوگ بالکل نہیں جانتے تھے مگر چوں کہ اس مرض میں مبتلا مریضوں کی 99فی صد تعداد موت کے منہ میں پہنچ جاتی ہے لہٰذا اس کی ہول ناکی سے سب ہی پریشان ہوگئے تھے ۔ اس برس بھی نیگلیریا کے ایک مریض کا کراچی میں انکشاف ہوا ۔ یہ مرض گرمیوں میں صاف پانی میں پرورش پانے والے نیگلیریا جرثومے سے پیدا ہوتا ہے جو ایک قسم کا پیرا سائٹس ہے۔یہ جرثومہ زیادہ گرمی پڑنے پر یا 62درجے سینٹی گریڈ پر ختم ہوجاتا ہے جب کہ پانی میں مقررہ مقدار میں کلورین ملانے سے بھی اس کی افزائش رک جاتی ہے کیوں کہ کلورین کی وجہ سے وہ جرثومے ختم ہوجاتے ہیں جن پر نیگلیریا کی زندگی کا انحصار ہوتا ہے ۔ مذاکرے کے دوران ماہرین کی گفتگو سے یہ پتا چلتاہے کہ نیگلیریا وبائی مرض نہیں بن سکتا اور اس سے بچنے کے لیے صرف اتنا کرلیا جائے کہ پانی اُبال کر استعمال کیا جائے۔ نیگلیریا کا جرثومہ ناک کے ذریعے دماغ پر حملہ آور ہوتا ہے لہٰذا وضو کرنے والے حضرات اور سوئمنگ پولز میں نہانے والوںکو ضرور احتیاط کرنی چاہیے۔ کیوں کہ وضو میں پانی ناک میں ڈالا جاتا ہے اور پولز میں جمپ کے دوران غیر ارادی طور پر پانی ناک کی گہرائی میں چلا جاتا ہے ۔ ذیل میں ماہرین کی گفتگو شہریوں کے لیے اس مرض سے متعلق آگہی میں نہایت اہم ثابت ہوگی۔ احتیاطی تدابیر انڈر گرائونڈ ٹینک ، اوور ہیڈ ٹینک یا ایسی کوئی چیز جس میں پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے اسے صاف ستھر ارکھیں کائی وغیرہ سے پاک رکھیں ۔بغیر کلورین ملے آبی ذخائر مثلاً جوہڑ، تالاب اور اسی طرح کے دیگر آبی ذخائر کا پانی بالخصوص منہ دھونے اور نہانے کے لیے استعمال نہ کریں بغیر کلورین ملے آبی ذخیرے مثلاًسوئمنگ پولز ، نہروں، چشموں، جوہڑوں، تالابوں ، پائپ کے رسائو سے بننے والے جوہڑوں اور اسی طرح کے دیگر آبی ذخیروں میں نہانے سے پرہیز کریں۔ مزید احتیاط کے طور پر منہ دھوتے وقت دوران وضو اور غسل میں ناک صاف کرنے کے لیے ابلا ہوا یا کلورین ملا پانی استعمال کریں تمام اسکولوں، کالجوں، اسپتالوں، دفاتر ، مساجد ، ہوٹلوں ، شادی ہالوںکی انتظامیہ اور فلیٹوںمیں قائم ہونے والی ایسوسی ایشنوں کو چاہیے کہ وہ پہلے مرحلے میں اپنے انڈر گرائونڈ اوور ہیڈ ٹینک اور دیگر پانی ذخیرہ کرنے والی ٹنکیوں کی صفائی کا بندوبست کریں کلورین کا زیادہ استعمال بھی صحت کے لیے مضر ثابت ہوسکتا ہے لہذا صارفین اپنے ذخیرہ آب میں کلورین ملانے سے قبل کلورین کی صحیح مقدار کے تعین کے لیے کسی ماہر سے ضرور مشورہ کریں۔٭پابندیاں عاید کرنے سے بہتر ہے کہ ہم مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کریں: ڈاکٹر جنید علی شاہ ٭ہم نے نیگلیریا سے نبرد آزما ہونے کے لیے مانیٹر نگ سیل قائم کر دیے ہیں: مصباح الدین فرید٭گرشتہ 35 برس میں دنیا بھر میں نیگلیریا کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد صرف 400 ہے:ڈاکٹر رفیق خانانی٭خطرے سے محفوظ رہنے کے لیے پولز اور واٹر پارکس میں نہانے سے گریز کریں:ڈاکٹر ارم خان ٭تمام سرکاری اسپتالوں میں سو فی صد مفت معیاری لیبارٹری ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے: ڈاکٹر سریش کمار ٭سردرد؛ بخار یا متلی کی شکایت ہو تو فورا ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں: ڈاکٹر قیصر سجاد ٭پانی کو محفوظ بنانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھا لیے ہیں: ڈاکٹر اسلم پرویزنیگلیریا کیا ہے؟امیبائی دماغی سوزش یا نیگلیریاسس (Naegleria Fowleri)ایک خرد بینی جرثومہ ہے جو امیبائی دماغی سوزش نامی بیماری کا سبب بنتا ہے۔ یہ گرمیوں کے موسم میں زیادہ فعال ہوتا ہے اور پانی کے ذریعے ناک کے راستے انسانی دماغ میں داخل ہوتا ہے اور متاثرہ شخص دو سے چار روز میں موت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس جرثومے کو دماغ خور امیبا(Brain Eating Amoeba)بھی کہتے ہیں۔ یہ جرثومہ متاثرہ شخص سے صحت مند انسان میں براہ راست منتقل نہیں ہوتا ۔پرورش گاہیں: اس بیماری کا جرثومہ پوری دنیا میں پایا جاتا ہے ۔ یہ صاف پانی خصوصاً گرم پانی کے چشموں ، بغیر کلورین ملے پانی والے سوئمنگ پول، تالاب، جھیل، مشینوں سے خارج ہونے والے گرم پانی کے جوہڑوں وغیرہ میں پرورش پاتا ہے ۔ یہ جرثومہ کھارے پانی میںزندہ نہیں رہ سکتا۔دنیا : نیگلیریا نے ابھی تک تشویش ناک صورت اختیار نہیں کی ہے ہم چاہتے ہیں کہ اس سلسلے میں ابھی سے لوگوں کو اس بارے میں معلومات فراہم کریں کیوں کہ مثل مشہورہے کہ علاج سے بہتر احتیاط ضروری ہے۔ہمارے معزز مہمان گرامی آپ اپنے شعبوں کے ماہرین ہیںیقیناً وہ اس سلسلے میں جو معلومات دیں گے وہ ہمارے قارئین کے لیے مفید ثابت ہوں گی۔نیگلریا صاف پانی پھیلاتا ہے اگر ہم یہیں سے احتیاط شروع کردیں اور ماہرین کی تجاویز کی پابندی کریں تو بڑی حد تک اس مرض سے بچ سکتے ہیں۔ چوں کہ اس بیماری کا تعلق صاف پانی سے ہے تو اسی حوالے سے ہم سب سے پہلے واٹر بورڈ کے ایم ڈی مصباح الدین فرید سے درخواست کریں گے کہ وہ بتائیں کہ انہوں نے پانی کو محفوظ بنانے کے لیے بنانے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے ہیں اور اس سلسلے میںانہوں نے نگرانی کا کیا نظام قائم کیا ہے۔ مصباح الدین فرید: کسی بھی بڑے امراض سے نمٹنے کے لیے اداروں اور شہریوں کی مشترکہ کوششوں سے ہی قابوپایا جاسکتا ہے۔ پہلے یہ بتادوں کہ نیگلیریاگرم موسم، گرم اور میٹھے پانی میں پرورش جاتا ہے۔ کائی اور گندگی میں بھی پرورش پاتا ہے۔ گزشتہ برس بھی یہ واقعہ پیش آیاتھا جس سے شہر میں9 سے10 اموات ہوئی تھیں۔ اس پر محکمہ صحت حکومت سندھ اور واٹر بورڈ نے مشترکہ کوششیں کی تھیں۔ گزشتہ پانچ سے دس برسوں میں کراچی میں پانی کی سپلائی کے نظام میں کئی توسیعی منصوبے مکمل کیے گئے ہیں۔ شہر کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے پانچ سے چھ فلٹر پلانٹ ہیں ۔ سی اوڈی ہلز پر جہاں نیگلریا مانیٹرنگ سیل بنایاگیا ہے، اس کے علاوہ نارتھ کراچی میں بھی جدید پلانٹ ہے ان تمام مراکز پر جہاں سے کراچی کو پانی فراہم کیا جاتا ہے نہ صرف فلٹر پلانٹ لگارکھے ہیں بلکہ کلوری نیشن کا عمل بھی لازماً کیا جاتا ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے امیبائی دماغی سوزش نیگلیریا سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنی مختلف لیبارٹریز جوسی او ڈی فلٹر پلانٹ، پیپری فلٹر پلانٹ، نارتھ ایسٹ کراچی اور حب فلٹر پلانٹ پر واقع ہیں ان میں نیگلیریا مانیٹرنگ سیل قائم کردیے ہیں جب کہ پانی میںکلورین کی مقدار کو مانیٹر کیا جارہا ہے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے شہر بھر سے پانی کے نمونے روزانہ کی بنیاد پر حاصل کرنے اور ٹیسٹ کرنے کا بندوبست کیاہے۔کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے ڈی جی محکمہ ہیلتھ ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی، چیف انجینئر پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ، کمشنر کراچی، ڈائریکٹر جنرل پی سی ایس آئی آر اور چیف پتھیالوجسٹ آغا خان لیبارٹری سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے نمائندگان کے ذریعے شہریوں کے بہترین مفاد میں شہر بھر سے پانی کے نمونے حاصل کرنے اور اس کی جانچ کے عمل میں شریک ہوسکتے ہیں اس سلسلے میں ہماری واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹری سے فون نمبر34256568پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔جب گرمیوں کا آغاز ہوتا ہے تو نیگلیریا کا امکان بڑھ جاتا ہے لہٰذا واٹر بورڈ انہی خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے کلوری نیشن کی مقدار ایک خاص حد تک بڑھادیتا ہے جو نیگلریا کو ختم کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔کیوںکہ کلورین کی زیادتی بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے لہٰذا بڑی مشکل سے اس مقدار کو کنٹرول کرنا پڑتا ہے۔ہم نے فلٹر پلانٹ پر جو مانیٹرنگ سیل بنایا ہے، وہاں ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق پہلی مرتبہ متعلقہ ادارے جن میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ، محکمہ ٔ صحت، سندھ واٹر بورڈ، پبلک ہیلتھ سروسز، لوکل گورنمنٹ، یونین کونسل وغیرہ، تمام وہاں جمع ہوتے ہیں جو مشترکہ سروے کرتے ہیں۔ سیمپلنگ ہوتی ہے جن کے نتیجے اخبارات میں شائع کیے جاتے ہیں۔ عوام کی آگاہی کے لیے پمفلٹ اور پوسٹرز بھی نکالتے جاتے ہیں۔ ہمارا میڈیا بھی فعال کردار ادا کررہاہے۔ واٹر بورڈ تو پانی کو فلٹر اور اس کی کلوری نیشن کرنے کے بعد شہریوں کو فراہم کرتا ہے مگر ہمارے گھروں، دفاتر، اسکولوں، اسپتالوں اور مساجد کے واٹر اسٹوریج ٹینک برس ہا برس صاف نہیں ہوتے اور ہماری ٹیم نے جب کئی مقامات پر یہ ٹینک دیکھتے تو وہ انتہائی غلیظ اور آلودہ پائے گئے۔ہم میڈیا اور شہریوںکو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہمارے انتظامات دیکھیں بلکہ ہمارے تمام مراکز کا بھی دور کریں، ہمارے پاس جدید ترین لیبارٹری ہے جہاں پانی کے ہر قسم کے ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے۔کئی ٹینکوں میںگندھک کے جو ٹکڑے ملے وہ دس‘ دس برس پرانے تھے اور مکینوں کا خیال تھا کہ بس گندھک ڈال دی پانی صاف اور جراثیم سے پاک رہے گا حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ اپنے گھروںکے پانی کے ذخائر پر کڑی نگاہ رکھیں اور اپنی جان کی حفاظت کریں۔واٹر بورڈ کے علم میں ابھی نیلگیریا کا صرف ایک کیس سامنے آیا ہے مگر ہم نے ایک پروگرام مرتب کیا ہے جس کے تحت صبح 9بجے سے شام7بجے تک ہمارے ادارے کے مقررہ کردہ پانچ فوکل پرسن مختلف مقامات پر پانی کے نمونوں کی جانچ پڑتال کریں گے ہم چاہتے ہیں کہ شہری بھی تعاون کریں اوربالخصوص وضو کرنے کے لیے پانی اُبال لیں ۔ ٹینک صاف کرالیں ۔ بعض لوگ کین میں بھی پانی رکھتے ہیں انہیں بھی صاف کرلیں۔ اگر تھوڑی سی تدابیر اختیار کی جائیں تو ہم سب کے لیے آسانیاں ہوسکتی ہیں۔دنیا: کیا گھروں میںسادہ طریقے سے پھٹکری یاپوٹاشیم پرمیگنٹ وغیرہ ڈال کر پانی کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے؟مصباح الدین فرید: لوگوں کو اس سلسلے میں یقینا کسی ماہریا ڈاکٹر سے مشورہ کرکے یہ عمل کرنا چاہیے کیوںکہ کسی بھی چیز کی زیادتی انسان کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے ۔ ہم نے اپنے پمفلٹ میں واضح کیا ہے کہ کلورین کا زیادہ استعمال صحت کے لیے مضر ہوسکتا ہے۔دنیا : مطلوبہ کلورین کی مقدار کتنی ہونی چاہیے اور پی پی ایم کا مطلب کیا ہے ۔ڈاکٹر اسلم پرویز:اپنے طور پر پانی میں کلورین استعمال نہ کریں۔ پانی کے ٹینک میں کسی بھی صورت میں بلیچ استعمال نہ کریںجو مختلف حالتوں میں مل رہی ہے ہمیں اس کو بنانے کا طریقہ بھی نہیں آتا البتہ اپنے ٹینکوں کی صفائی ضرور کروالیں اور جو پانی وضوکے لیے استعمال کررہے ہیں اسے ضرور ابال لیں۔ خود کوئی کیمیکل کسی بھی مقدار میں استعمال نہ کریں۔ پی پی ایم کا مطلب پارٹ پر ملین بنیادی طور پر یہ فی صد ہے۔اگر آپ نے پانی میں زیادہ کلورین ملادی تو جتنی کلورین پانی میں حل ہوجائے گی وہ تو بیکٹریا کو مارنے کے کام آجائے گی اور جو حل نہیں ہوگی وہ پولیس مین کے طور پر کام کرے گی۔ اس وقت ہم پانی میں اضافی کلورین ڈال رہے ہیں اس کا مقصد ان جراثیم سے بچنا ہے جو گھروں یا اداروں کے ٹینکوںمیںموجود ہیں جو پانی کے ذخیرے ہیں وہاں 2PPMہونا چاہیے جب یہ کسی پمپنگ اسٹیشن پر پہنچے تو 1.5PPMہو اور جب گھروں کے ٹینکوں میں پہنچے تو 0.25-0.05 تک ہو ۔0.5 بہت بہتر مقدار ہے لیکن اس بات کو بھی مدنظر رکھتے ہیں کہ ہماری سیوریج اور پانی کی لائنیں ساتھ ساتھ ملنے کے امکانات زیادہ ہیں تو 0.25 بھی مقدار لے لیتے ہیں۔ ایک بات یاد رہے کہ کلورین نیگلیریا کو جو ایک پیراسائٹ ہے نہیں مارتی بلکہ ان بیکٹریاز کو مارتی ہے جن پر نیگلیریا کی زندگی کا انحصار ہوتا ہے یعنی جنہیں نیگلیریا اپنی خوراک بناتا ہے ۔ پیراسائٹ خود کچھ نہیں کرتے جب کہ دوسری چیزوں سے توانائی حاصل کرے ہیں اور جب انہیں کھانا نہیں ملتے گا تو وہ سسٹ کی صورت میں تبدیل ہوجائے گا یا مر جائے گا یعنی اس کی افزائش یا پرورش نہیں ہوسکے گی ۔دنیا: نیگلیریا صاف پانی میں ہوتا ہے کیا گندے پانی میں بھی خطرات ہوتے ہیں؟ڈاکٹر اسلم پرویز: صاف پانی سے مراد وہ پانی جو واٹر بورڈ دے رہا ہے یا قدرتی ذرائع سے حاصل ہونے والا پانی ہے نیگلیریا کھارے پانی ، گہرے کنویں اور بورنگ والے پانے میں زندہ نہیں رہ سکتا ۔ وہ پانی جو قدرتی جوہڑوں کی صورت میں موجود ہے جھیل میں ہے وہاں نیگلیریا ہوسکتا ہے۔دنیا: ٹینک کی صفائی میںکن باتوں کو مد نظر رکھنا چاہیے عام طور پر لوگ پھٹکری ڈال دیے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ پانی محفوظ ہوگیا۔ ڈاکٹر اسلم پرویز: پھٹکری یا گندھک کے پانی میں ٹھوس ذرات تو الگ کیے جاسکتے ہیں لیکن یہ چیزیں پیراسائٹ ‘ وائرس اور بیکٹریا کو کم زور کرسکتی ہیں لیکن ختم نہیں کرسکتیں ٹینک کی صفائی سے مراد دیواروں اور چھت سے کائی ہٹائی جائے اور مٹی صاف کردی جائے تو بہتر رہتا ہے۔ دنیا: ڈاکٹر ارم آپ کا تعلق لیبارٹری سے ہے آپ بتائیں نیگلیریا دراصل کس طرح کا جرثومہ ہے ۔ڈاکٹر ارم خان:نیگلیریا بنیادی طور پر پیراسائٹ ہے اور پیراسائٹ عام بیکٹریاز مثلاً ٹائی فائیڈ بیکٹریا وغیرہ سے تھوڑا بڑا ہوتا ہے ۔ پیراسائٹ انحصار کرتا ہے ان بیکٹیریا پر جو کائی کی صورت میں ہوتے ہیں وہ ان مختلف جراثیم کوکھاتا ہے اور انہی پر زندہ رہتا ہے۔ زیادہ تر گرم میٹھے پانی میں ان جگہوں پر جہاں درجہ حرارت 42سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو موجود ہوتا ہے۔ یوں تو یہ پورے سال ہی ہوتا ہے لیکن گرمیوںمیں یہ جھیلوں کی سطح پر آجاتے ہیں ۔ اس کے خاص انزائمز بھی ہوتے ہیں جو کہ ناک کے ذریعے دماغ میں داخل ہوتے ہیں اس خطرے کا امکان سوئمنگ کے دوران زیادہ ہوتا ہے آج کل لوگ گرمیوں کی وجہ سے واٹر پارکس، سوئمنگ پولز اورجھیلوںکا رخ کررہے ہیں انہیں اس وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہے ۔ پول اگر معیاری ہے کلورین ملی ہوئی ہے تو کوئی حرج نہیں اگر غیر معیاری ہے صفائی نہیں ہورہی کائی جمی ہوئی ہے تو وہاں نیگلیریا کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو ان پیراسائٹس کی ڈویژن بھی بڑھ جاتی ہے ۔ سوئمنگ پولز میں چھلانگ لگانے کے دوران پانی پریشر کے ساتھ ناک کے ذیعے ان جگہوں پر داخل ہوجاتا ہے یا پھر وضوکرتے وقت جب پانی اوپر کھینچتے ہیں تو بھی داخل ہوسکتا ہے ان جگہوں پر نیگلیریا کو پروٹیکشن ملتی ہے ناک اور دماغ کے درمیان ایک پتلی سی ہڈی ہوتی ہے جس کے ذریعے گزرتا ہوا دماغ کے آس پاس سے ہوتا ہُوا براہ راست دماغ کے اندر داخل ہو کر نقصان پہنچاتا ہے ۔دنیا: کیا نیگلیریا کو گرم ممالک کی بیماری کہہ سکے ہیں؟ ڈاکٹر رفیق خانانی: یہ بات درست نہیں‘ ابھی تک نیگلیریاکی جو ہسٹری چلی آرہی ہے اس کے مطابق سب سے اہم بات یہ کہ یہ بیماری کبھی بھی وبائی مرض کی صورت میں نہیں پھیلتی اس کے کیسیز نایاب ہوتے ہیں مگر لوگوں میں جو خوف بڑھ رہا ہے ، اسے کم کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج تک جتنے کیسیز دنیا بھر میںدرج ہوئے ہیں ان کی تعداد 400سے بھی کم ہے ۔ اس کے کیسیز پوری دنیا میں پچھلے 35سالوں میں نہ ہونے کے برابر ہیں اور جتنے کیسیز ٹھنڈے ممالک میںہوتے ہیں اتنے ہی گرم ممالک میں بھی درج ہوئے ہیں اس کا گرمی اور ٹھنڈسے کوئی تعلق نہیں ۔ البتہ ٹھنڈے مالک میں گرم پانی کے گرم چشموں کے مقامات سے درج ہوئے ہیں ۔نیگلیریا ، امیبیا کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے وہ سخت جان نہیں ہوتا۔ 62ڈگری درجہ حرارت پر ہی ختم ہوجاتا ہے۔اس لیے پانی کو زیادہ ابالنے کی ضرورت نہیں ۔ میری معلومات کی مطابق اس کا کوئی کیس ابھی تک وضو کی وجہ سے درج نہیں ہوا۔ البتہ ان مقامات سے ضرور درج ہوئے جہاں صاف پانی ہوتا ہے اور لوگ جمع ہوتے ہیں۔یہ رپورٹ جو صرف پاکستان کے کیسیزہیں۔ اس میں بڑی پیچیدہ صورت حال ہے۔ ڈاکٹر اسلم پرویز: ہمارے ہاں پچھلے برس اور اس سال صرف ایک کیس درج ہوا ہے پچھلے سال کے کیسوں میں ایک کیس کی وجہ سوئمنگ پول ہے۔ مصباح الدین فرید: کراچی میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو انڈر گرائونڈ واٹر یعنی کنوئوں یا بورنگ کا پانی استعمال کرتے ہیں جب کہ واٹر بورڈ جو پانی فراہم کرتا ہے وہ عموماًبارشوں کا پانی ہوتا ہے جو دریائے سندھ سے کینجر جھیل میں آتا ہے۔ پھر ہمارے پاس واٹر بورڈ میں تقریباً 15سال پہلے کینال میں پانی کی لائنیں نکالی ہیں ۔ وہاں 15 سے 20 دن پانی جمع رہتا ہے جس کے دوران بھاری ذرات تہہ میں بیٹھ جانے ہیں۔ اس کے بعد جب کینال سسٹم میں آتا ہے تو ان میں کسی قسم کے بھاری ذرات نہیں ہوتے ۔ لہٰذا ایلین کی صورت اب نہیںہوتی۔ کراچی میںپہلی مرتبہ جب نیگلیریا کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے تو اس وقت واٹر بورڈ نے محکمہ صحت نے اور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ساتھ مل کر اس کے بچائو کے لیے اقدامات اٹھائے تھے۔ اِس وقت بھی ہم الرٹ ہیں۔دنیا:زیادہ تر کیسز سوئمنگ پول کے حوالے سے رپورٹ ہوئے ہیں وہاں صفائی کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔مصباح الدین:۔ تمام سوئمنگ پولز بغیر کلورینیشن کے کام کررہے ہیں علاوہ فائیواسٹارز ہوٹلز کے دھابیجی سے پانی کراچی آنے تک سادہ کہلایاجاسکتا ہے۔ جن کی کلورینیشن نہیں ہوتی ۔ البتہ پیپری، دھابے جی گھارو،کے علاوہ کراچی کے فلٹر پلانٹوں پر کلوری ینیشن کی جاتی ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ گرمیوںکی چھٹیوں میں واٹر پارکس یاپولز وغیرہ پرجانے سے گریز کریں۔ جہاں صفائی کے انتظامات ناقص ہیں۔ڈاکٹر قیصر سجاد: اس موقع پر ہمیںشہریوں کی رہنمائی کرنی چاہیے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ پانی میں کلورین کا ہونا بہت ضروری ہے یہ کسی نہ کسی طریقے سے یہ جراثیم کو مارتی ہے۔ نیگلیریا کوئی وائرس نہیں ہے۔ بلکہ ایک عام پیرا سائٹ ہے۔دنیا: عام قاری کو بتادیں کہ وائر س اور پیراسائٹ میں کیا فرق ہے؟ڈاکٹر قیصر سجاد:۔ وائرس چھوت کی بیماری پھیلاتا ہے جو ایک سے دوسرے کو لگ سکتی ہے۔ لیکن نیگلیریا ایک سے دوسرے کو نہیں لگتی کلور ینیشن ہی بہتر طریقہ ہے جس سے ہم اس پر قابو پاسکتے ہیں یا 64سنٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت ہوجائے تو مرجاتاہے۔ ہمارے تجربے کے مطابق یہ گرم اور تازہ پانی میں بڑھتا ہے۔ کراچی میں جب گرمیاں شروع ہوتی ہیں تب ہی یہ سامنے آتا ہے اس سے پہلے نہیں آتا۔ گرمی ختم ہوگی تو یہ بھی ختم ہوجائے گا۔مگر ہماری اور ہمارے اداروں کی ذمے داری بنتی ہے کہ اس بیماری کو پھیلنے سے روکا جائے۔ 65 برسوں میں حکومت نے صحت کو خاص ترجیح نہیں دی۔ سوئمنگ پولز بغیر مانیٹرنگ کے کھل رہے ہیں۔انہیں فوری طورپر مانیٹر کرنا پڑے گا۔ جتنے بھی شہر میں یا شہرسے باہر سوئمنگ پولز میں انہیں چیک کیا جائے ۔دنیا:۔ یہ پیراسائٹ دماغ پر کیسے حملہ کرتا ہے، ابتدائی علامات کیا ہوتی ہیں۔ لوگوں کو کیسے اندازہ ہوکہ یہ مرض حملہ آور ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر قیصر سجاد: جب کیس آخری مراحل میں ہو تو کوئی علاج نہیں مریضوں کی موت ہی واقع ہوجاتی ہے ۔ اس مرض کی خوف ناک بات یہ ہے کہ جتنے بھی لوگ اس میں مبتلا ہوئے۔ 99 فی صد ہلاک ہوچکے ہیں۔ کیوں کہ یہ دماغ کو تباہ کرتا رہتا ہے۔ اس مرض کی علامات یہ ہیںکہ سر میں درد ہوگا۔ بخار ہوگا۔ متلی اور اُلٹی بھی ہوگی، اگر کیس زیادہ خراب ہوا تو دماغ میں چلا جائے گا۔ دماغ کی جھلیوں میں سوزش آجائے گی۔ نتیجتاً گردن اکڑ جائے گی۔ جسے گردن توڑ بخار بھی کہتے ہیں ۔ اس کے بعدمریض کو ما میں چلاجاتا ہے جس کا علاج کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔آج کل لوگوں میں تین چار قسم کے بخار ہورہے ہیں۔ ایک ٹائیفائڈ۔ وائرل قسم فرنجاٹیٹس گلے کی بیماریوں ہیں لیکن اگر کسی کو بھی ایک دو دن بخار رہے اور وہ سر میں درد۔ اُلٹی محسوس کرے تو فوری طور پر تجربہ کار ڈاکٹر سے مشورہ کرے ۔ تاکہ بروقت علاج کرائے حالت کو کنٹرول کیا جاسکے۔دنیا: کیا نیگلیریا کا اردو میں کوئی نام ہے؟ڈاکٹر قیصر سجاد: اردو میں کچھ نہیں کہہ سکتے نیگلیریا ایک جراثیم کانام ہے لیکن اسے پریب ایٹنگ ایمیبا کہتے ہیں ۔اہم مسئلہ اس میں لیبارٹری کی تشخیص کا آتا ہے جو دماغ کا پانی جسے ایسائفل فلیوڈ کہتے ہیں اس کے ذریعے ہوسکتا ہے اور دماغ کی امیجنگ کی ہے آج کل جدید ٹیکنالوجی آگئی ہے سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی ان کے ذریعے مددلی جاسکتی ہے۔لیکن مسئلہ یہ کہ ہماری لیبارٹریز میں ایسے ماہر لوگ نہیں ہیں جو ان جراثیم کی نشان دہی کرلیں۔ تشخیص کے حوالے سے مسئلہ قابل اعتماد لیبارٹری سے رجوع کریں۔ اور ماہر ڈاکٹر کو دکھائیں ۔دنیا:۔ لوگوں کا بعض لیبارٹریوں پر اعتماد نہیں ہوتا کیا اس میں پیتھالوجسٹ ماہر نہیں ہوتے کیا مسئلہ ہوتا ہے۔ڈاکٹر رفیق خانانی:ہمارے صحت کے شعبوں میںکوئی پُرسان حال نہیں جو شخص چاہے اسپتال چلا سکتا ہے لیبارٹری کھول سکتا ہے۔ امید ہے ہیلتھ ریگولیشن آجائے گا تو اس کے ذریعے ماہر لوگوں کو موقع ملے گا ، تب ہی یہ چیزیں ٹھیک ہوسکیںگی۔ڈاکٹر ارم خان: یہ مختلف قسم کا جراثیم ہوتا جسے شناخت کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا، اس کے لیے ماہر مائیکرواسکوپسٹ ہونا چاہیے جس کی آنکھ بھی تیز ہو ورنہ نتیجہ اچھا نہیں مل سکتا۔ ہمارے ہاں اچھا قابل اعتماد لیبارٹریز بھی موجود ہیں۔جن میں ہر طرح کی سہولتیں موجود ہیں البتہ ہر طرح کے ٹیسٹ پر لیبارٹری میں تو نہیں ہوسکتے۔ بیماری کے حوالے سے بتائوں کہ ہمارے ہاں پانی کے سیمپل کا کلچرل ٹیسٹ کرنے کی سہولت بھی ہے۔ لیکن باقی کے ٹیسٹ میں مزید ایک اضافی ٹیسٹ کرنا بہت ضروری ہے کیوں کہ پانی میں بہت سارے امیبا ہوتے ہیں مگر تمام کے تمام دماغ کو نقصان پہنچانے والے نہیں ہوتے۔ ڈاکٹر قیصر سجاد:۔ہمارے یہاںروز بروز مسائل بڑھتے جارہے ہیں اور مطالبہ کرتے رہے ہیں معیاری لیبارٹریاں ہوں اور ہر کیس کی باقاعدہ انویسٹی گیشن ہو۔ بدقسمتی سے ہماری لیبس اچھی نہیں ہیں۔ باقاعدہ اور صحیح تشخیص نہیں ہوتی۔ ڈینگی آیا۔ برڈفلو۔ کانگوآئی لیکن بہت سے کیسوں میں درست تشخیص نہیں ہوپاتی ۔ پی ایم اے کے حوالے سے بات کرنا چاہ رہاہوں۔ جو غریبوں کی بھلائی کے لیے ہے، کیوں کہ غریب ہی سرکاری اسپتالوں اور لیبارٹریوں میں جاتا ہے ۔ جس دن سرکاری اسپتالوں میں ہمارے ڈاکٹرز یا ان کے رشتے دار وغیرہ بھی اپنے ٹیسٹ کرانے لگیں گے اس کا مطلب یہ ہوا کہ لیبارٹری کا معیار اچھا ہوگیا ہے۔ یہاں تک کہ اینیتھیٹس بھی باہر سے ٹیسٹ کراتے ہیں ۔ کم ازکم اتناہوجائے کہ آغا خان کا لیول بھی آجائے تو بہت بڑی بات ہے۔ دنیا:۔ حکومتی سطح پر کوئی قابل اعتماد ایسی لیب ہے جہاں غریب جاکر اپنا ٹیسٹ کراسکے؟ڈاکٹر سریش کمار:۔ جتنے بھی بڑے اور ٹیچنگ اسپتال ہیں ان میں سو فی صد مفت ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے اور معیار بھی ہے۔ کراچی میں جناح، سول، عباسی شہید جتنے بھی بڑے اسپتال ہیں ان میں سوفی صد سہولتیں موجود ہیں اور معیار بھی ہے اسی کو ئی بات نہیں کہ یہ چیزیں موجود نہیں ۔ نیگلیریا سے متعلق جو کسی سامنے آیاہے۔اس کی رپورٹیں ہم خصوصی طور پر اسلام آباد میں این آئی ایچ بھیجتے ہیں۔دنیا:۔ سرکاری لیبارٹری اور اسپتالوں کا وہ معیار نہیںہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کام کرنے والے لوگ بھی لیبارٹریوں کا رخ کرتے ہیں حالاں کہ آپ کے مطابق سہولتیں موجود لیکن ان پر بھروسا کیوں نہیںہے۔ڈاکٹر سریش کمار:۔ نجی اسپتالوں کی بعض رپورٹس ایسی ہیںجو کئی مرتبہ غلط ثابت ہوئی ہیں میرے مطابق ان لیبارٹریوں سے رپورٹ لے کر جانا زیادہ مناسب ہے جہاں مریض سے مکمل معلومات حاصل کرنے کے ساتھ بیماری کی صحیح تشخیص بھی ہورہی ہو۔میں یہاں یہ بھی بتادوں کہ نیگلیریا کے حوالے سے صوبائی وزیر صحت نے فوری طورپر میٹنگ بلا کر ہدایات دیں اور 1339 کال سینٹر کے ذریعے اور SMS کے ذریعے تمام شہریوں کو آگہی پیغامات بھیجے ہیں اس کے علاوہ ہینڈ بلز بھی تقسیم کیے ہیں جو عالمی ادارۂ صحت نے دیے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز میڈیا کے ذریعے لوگوں میں سمجھ بوجھ دینے کے لیے ہمہ وقت مصروف ہیں۔ پھر شہر بھر سے پانی کے نمونے مشترکہ طور پر جمع کیے جارہے ہیں اس طرح رپورٹنگ کا نظام بھی قائم ہے کہ جیسے ہی کسی شخص میں نیگلیریا کی علامات ظاہر ہووہ اطلاع فوراً ہمیں مل جائے۔ وزیر صحت نے ایک ٹیم بنائی ہے جو روزانہ کی بنیاد پر رپورت مرتب کرتی ہے۔ پہلے جس طرح پورے شہر سے نمونے لیے تھے آج اور کل بھی لیے ہیں اور اب کافی بہتری نظرآئی ہے۔دنیا: ڈاکٹر جنید شاہ صاحب! آپ اس وقت صحت کے وزیر کے عہدے پر متمکن ہیں آپ بتایئے کہ اس سلسلے میں حکومتی سطح پر کیا اقدامت اٹھائے جارہے ہیں؟ڈاکٹر جنید خان: ہم یہاں لوگوں کو عام شہریوں کو نیگلیریا کے بارے میں شعور دینے کے لیے جمع ہوئے ہیں کہ نہ کہ لیباریٹریوں کے معیار پر گفتگو کرنے۔ میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں ہمیں مثبت سوچ کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ جس کو آپ لوگ اچھی لیب کہہ رہے ہیں کیا ہوتی ہے؟ مان لیا کہ پیتھالوجسٹ اچھا ہوگا لیکن یہ یاد رکھیں کہ ہر لیب ہر طرح کا ٹیسٹ نہیں کرتی۔ جس طرح ہر اسپتال میںہر طرح کا علاج نہیں ہوتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہر لیب میں نیگلیریا کی جانچ کی جاسکے۔ کیوں کہ تشخیص کے لیے صرف پیتھالوجسٹ ہی نہیں مشینیں بھی درکار ہوتی ہیں۔ اور دیگر ضروری سامان بھی چاہیے ہوتا ہے۔میں ایک بات کی وضاحت کردوں کہ پچھلے سال دس کیس نیگلیریا کے رجسٹرڈ ہوئے تھے۔ اس سال ابھی تک صرف ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔ اس لیے پہلے دن ہی جب ہمیں معلوم ہوا کہ کیس رپورٹ ہوا ہے۔ ہم نے ابھی سے اس سلسلے میں اقدامات شروع کردیئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ کہنا کہ یہ بیماری گرمی میں آتی ہے تو گرمی تو پنجاب، کوئٹہ وغیرہ میں بھی پڑرہی ہے، لہٰذا گرمی یا سردی اس کی خاص وجہ میرے نزدیک نہیں ہے۔ پھر یہ کہنا کہ پانی گندا ہے پانی کے ٹینک گندے ہیں یہ صورت حال تو پوری ملک ہی میں ہے۔ وہاں بھی کلورینیشن ہوتی ہے جس طرح ہمارے ہاں ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ باتیں بحث و مباحثہ لگتی ہیں۔ اصل مقصد تو یہ ہونا چاہیے کہ ہم صورت حال سے کس طرح نمٹ سکتے ہیں۔ جتنی باتیں ابھی تک ہوئی ہیں وہ کسی حد تک صحیح ہیں لیکن بعض قیاس آرائیاں بھی ہیں۔ کیوں کہ اگر گندے ٹینک سے یہ بیماری ہوتی تو نیگلیریا پنجاب میں کیوں نہیں۔ سکھر میں کیوں نہیں، لاڑکانہ، شکارپور میں کیوں نہیں۔ وہاں تو بہت زیادہ گندگی ہوتی ہے۔ کراچی تو کسی حد تک بہتر حالت میں ہے۔ اگر نیگلیریا گندگی سے ہورہی ہے یا پانی میں کلورین کی کمی سے ہے تو میرا خیال ہے یہ صحیح نہیں اسے کنٹرول کرنے کے لیے سرکاری سطح پر جو فوکل ٹیم بنائی گئی ہے اس کا مقصد یقینا بیماری کو کنٹرول میں رکھنا ہے۔ اگرکہ ہمیں شک ہے کہ کلورین کی کمی کی وجہ سے ہے تو ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ امیبیا اور پیراسائٹ کی افزائش کے لیے کیا کیا حالتیں ہوتی ہیں۔ اور اس میں ایک حالت کلورین کی کمی بھی ہے۔ اگر اس کو بھی کنٹرول کرلیں تو ہوسکتا ہے کہ اُس سے بھی فرق پڑجائے۔ تمام جھیلوں میں یا تالابوں میں جاکر توکلورین کوئی بھی نہیں ڈال سکتا اب لوگو گرمیوں میں جھیلوں میں جاکر نہائیں گے کہ ہر ایک گھر میں نہ تو سوئمنگ پول ہے اور نہ ہی وہ ستھرے سوئمنگ پولز جو فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ہوتے ہیں وہاں جاکر یہ شوق پورا کرسکتا ہے۔ لیکن نیگلیریا اگر ایک مرتبہ ہوگیا ہے تو پھر کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا۔لیب کی تشخیص بتاتی ہے کہ بہت سارے کیسز گردن توڑ بخار کے ہوتے ہیں اور ہمیں بھی نہیں پتاچلتا کہ یہ گردن توڑ بخار تھا لیکن نیگلیریا نہیں۔ ہوسکتا ہے کل شکار پور میں کوئی گردن توڑ بخار سے مرا ہو اس کا نیگلیریا کا ٹیسٹ ہوا ہی نہ ہو۔ اور شاید لوگ اس کی تدفین کے بعد یہی کہہ رہے ہوں کہ گردن توڑ بخار ہوگیا تھا۔ جس طرح سے آپ نے کہا لوگ کلورین ڈالنا شروع کردیں گے اور ہائپرکلورینیشن کی مثبت علامات آنا شروع ہوجائیں گی۔دنیا: جو لوگ پکنک کے لیے فارم ہائوسز جاتے ہیں۔ وہاں کی انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ سوئمنگ پولز میں صفائی کا نظام بہتر بنائیں۔مصباح الدین: میں دنیا نیوز کے توسط سے کمشنر کراچی سے درخواست کروں گا کہ گرمیوں کے سیزن میں سوئمنگ پولز کو نبد کردیا جائے۔ یہ سوئمنگ پولز بورنگ کا پانی اور واٹر بورڈ کا پانی چوری کرکے استعمال کرتے ہیں جس میں کلورین شامل نہیں ہوتی اور یہی بات نیگلیریا کا سبب بن سکتی ہے۔ کراچی کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ان سوئمنگ پولز کی نگرانی کا نظام قائم کریں۔ اور کم از کم گرمیوں میں تو انہیں بند ہی کردیں۔جنید شاہ: سوئمنگ پولز کو بند کرنا مسئلے کا حل نہیں۔انہیں معیاری بنانا چاہیے ایک طریقہ یہ ہے کہ عالمی ادارۂ صحت نے پچھلے سال دو لاکھ گولیاں پانی صاف کرنے کی دی تھیں اس سال ایک لاکھ دینے کا وعدہ کرچکے ہیں اور یہ بھی وعدہ کرچکے ہیں ہم مزید اور بھی دیں گے۔ یہ گولیاں وہاں کارآمد یا موثر ہوں گی جہاں کلوری نیشن کی سطح کم ہو۔ یہ گولیاں آئیں گی تو ہم انہیں عوام میں تقسیم کردیں گے یہ ہماری ذمے داری ہے ان کے ذریعے نیگلیریا آسانی سے کنٹرول ہوسکتا ہے۔دنیا: دیکھا گیا ہے کہ سوئمنگ پولز والے پانی صاف کرنے کے لیے بلیچنگ کا استعمال کرتے ہیں کہ ایک مٹھی پول میں ڈال دی، کیا یہ بلیچنگ بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہے؟جنید شاہ: بالکل نقصان پہنچاتی ہے ہائپرکلوری نیشن کی علامات ہوتی ہیں۔ڈاکٹر ارم خان: جہاں کلوری نیشن ہوتی ہے وہاں خاص طور پر تاکید کی جاتی ہے کہ فوری طور پر پانی سے باہر آجائیں کیوں کہ ان سے بہت سارے فیومز یعنی ایک طرح کی گیس نکلتی ہے یہ فیومز آنکھوں۔ ناک کے ذریعے پورے نظام ہضم کو متاثر کرسکتی ہے۔ اور اگر زیادہ مقدار میں ڈالی جاتی ہے تو بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہیے۔ لیکن 2 سے 2.8 تک جہاں پانی جمع کیا جاتا ہے وہاں ہر 2.8 پی پی ایم تک بھی ڈال سکتے ہیں۔ (کلورین کی مقدار معلوم کرنے کے لیے انٹرنیٹ پر عالمی ادارہ صحت (WHO) کی طرف سے تفصیلی رہنمائی موجود ہے۔لامحالا مریض فیملی فزیشن کی طرف جاتا ہےجس کے لیے بہت اہم ہے کہ ان ساری چیزوں کو دماغ میں رکھتے ہوئے جتنا تشخیض کرسکتے ہیں کریں، اور فوری طور پر اسپتال کی طرف ان کو روانہ کریں۔دنیا: جب ڈینگی کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو شہر کے سوئمنگ پولز بند کردیئے تھے۔ اس کے بغیر آدمی زندہ تو رہ سکتا ہے؟ڈاکٹر جنید شاہ: ڈینگی کے کیسز کی تعداد زیادہ تھی اور پھر اس کا مچھر اُڑتا ہوا جاتا ہے لہٰذا وہاں خطرات زیادہ تھے۔ مگر یہاں تو گھروں میں بجلی بند، موبائل فون بند، موٹر سائیکل پر ڈبل سواری بند اور اب سوئمنگ پول اور تالاب بھی بند کردیں گے تو پھر پورا ملک ہی بند کردیں۔ڈاکٹر اسلم پرویز: پچھلے سال ڈینگی کی وجہ سے سوئمنگ پولز دفعہ 144 لگادی گئی تھی سات روز کے لیے۔ اور ہم نے پنجاب کو فالو کیا تھا وہاں بھی پولز بند ہوئے تھے۔ مگر یہاں ان کی ایسوسی ایشنز ہائی کورٹ میں چلی گئی تھیں۔ اور پچھلے ہی ہفتے ہماری ہائی کورٹ سے جان چھوٹی ہے۔ ہر ماہ میں کم از کم ایک مرتبہ کورٹ گیا ہُوں یہ بتانے کے لیے کہ ہم یہ پابندی ہٹا چکے ہیں۔ سوئمنگ پولز بند کرنے سے بھی ہمارے لیے مسئلے پیدا ہوں گے، البتہ ایک آرڈر جاری ہوچکا ہے کہ سوئمنگ پولز مالکان کلورین کی مقدار کنٹرول کریں۔دنیا: پانی کے اب تک کہاں سے اور کتنے نمونے لیے گئے ہیں اور ان کی رپورٹیں کیا ہیں؟ڈاکٹر اسلم پرویز: ہماری چار ٹیمیں روزانہ نکلتی ہیں ہر ٹیم 10 نمونے لیتی ہے یہ نمونے مختلف مراحل میں مختلف مقامات سے لیے جاتے ہیں۔ اب تک 158 میں سے صرف 17 نمونے نیگیٹو آئے ہیں اور یہ نمونے بھی شروع کے دن کے ہیں۔اس کے بعد کے تمام نمونوں میں مطلو بہ مقدار میں کلورین موجود ہے۔ گزشتہ دنوں ہمیں ایک نیگٹیو نمونہ گڈاپ سے ملا۔ لیکن وہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی حدود سے الگ تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
 سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

رواں ماہ کی ایک صبح جب آسٹریلوی نوجوانوں نے اپنے انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور فیس بک کے نوٹیفیکیشن کھولے تو انہیں ایک عجیب سا احساس ہوا کہ شاید آن لائن زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ حقیقت یہی ہے ۔آسٹریلیا نے 16 سال سے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس رکھنے اور نئے اکاؤنٹس بنانے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ قانون جسےThe Online Safety Amendment (Social Media Minimum Age) Act 2024 کہا جاتا ہے، نومبر 2024ء میں پارلیمنٹ سے منظور ہوا اور اس سال 10 دسمبرسے نافذ العمل ہو گیا۔ اس کے تحت میٹا، ٹک ٹاک، یوٹیوب، سنیپ چیٹ، ریڈیٹ، ٹویچ اور دیگر بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کو حکم دیا گیاہے کہ وہ 16 سال سے کم عمر صارفین کے اکاؤنٹس بلاک کریں یا انہیں حذف کردیں ورنہ بھاری جرمانے کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہیں۔ آسٹریلوی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے الگورتھم بچوں کی کمزور نفسیات، خود اعتمادی اور ذہنی صحت کو نشانہ بناتے ہیں، اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بجائے والدین کے کمپنیوں کو اس نقصان دہ ماحول سے بچوں کو بچانے کا حکم دیا جائے۔ سوشل میڈیا سکرین ایڈکشن، تنقیدی سوچ میں کمی اور آن لائن ہراسانی جیسی مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔چھوٹے بچے غلط معلومات، غیر اخلاقی مواد اور پرائیویسی خطرات کے سامنے بے بس ہوتے ہیں جبکہ والدین تکنیکی اور ثقافتی دباؤ کے سامنے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔لگتا ہے کہ یہ قانون سوشل میڈیا کی دنیا کے پیٹرن تبدیل کردے گا۔ آسٹریلیا کا یہ اقدام دنیا بھر میں سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ مختلف ممالک نے اس کے متوازی یا مختلف ماڈل پر غور شروع کر دیا ہے جیسا کہ یورپی پارلیمنٹ نے 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پابندی کی حمایت کی ہے، کیو نکہ کمپنیاں الگورتھمز کے ذریعے بچوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ نیوزی لینڈ نے ایک پارلیمانی کمیٹی رپورٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو جلد اسی موضوع پر قانون سازی کے لیے سفارشات دے گی۔ ملائیشیا 2026ء میں اسی طرح کی پابندی نافذ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ سپین نے سوشل میڈیا کے لیے عمر کی حد 14 سے بڑھا کر 16 کرنے یا والدین کی رضا مندی کے ساتھ رسائی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ فرانس اور ناروے بھی مختلف مدتوں اور حدود کے ساتھ اسی معاملے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک عالمی تحریک اب بچوں کی ڈیجیٹل حفاظت کے لیے شروع ہو چکی ہے۔ جیسے جیسے حکومتیں اس موضوع پر غور کریں گی ہر ملک کے اپنے ثقافتی اور سیاسی پیمانے سامنے آئیں گے۔تاہم سوشل میڈیا کے حوالے سے کچھ ملک نرم رویہ اختیار کر رہے ہیں جیسا کہ جنوبی کوریا، جہاں سوشل میڈیا بلیک آؤٹ کی بجائے کلاس رومز میں موبائل فونز کی پابندی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تعلیم میں خلل نہ آئے اور جاپان کے ایک شہر نے سب کے لیے دن میں دو گھنٹے انٹر نٹ استعمال کی حد متعارف کرائی ہے، جسے ڈیجیٹل وقت کا متوازن استعمالکہا جارہاہے۔ ڈنمارک نے سب سے مختلف حکمت عملی اپنائی ہے ، وہاں 15 سال سے کم عمر صارفین کو سوشل میڈیا تک محدود رسائی دینے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، مگر والدین کو 13،14 سال کے بچوں کو اجازت دینے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ہر ملک اور سماج کے لیے ایک ہی حل نہیں ہے۔ بعض جگہوں پر سختی ہے، بعض جگہوں پر لچک اور بعض میں تعلیمی انداز اپنایا جا رہا ہے۔آسٹریلیا کی پابندی نے شدید ردعمل بھی پیدا کیا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں، حقوقِ اظہار کے حامیوں اور نوجوانوں نے حکومت کی اس حد تک مداخلت پر سوالات اٹھائے ہیں مثال کے طور پر،یہ آزادی اظہار کا حق چھیننے جیسا تو نہیں؟ بچے دیگر انٹرنیٹ پلیٹ فارمز یا وی پی این کے ذریعے پابندی کو توڑ سکتے ہیں؟ کیا اس سے نوجوانوں کی سماجی تعاملات اور تعلیمی صلاحیتوں کو نقصان نہیں ہوگا؟انہی نکات کو لے کر آسٹریلیا کی اعلیٰ عدالت میں اس قانون کو چیلنج بھی کیا گیا ہے جس میں 15 سال کے دو بچوں نے کہا ہے کہ ان کا آزادانہ اظہار اور سیاسی معلومات تک رسائی کا حق محدود ہوا ہے۔ آج کا ڈیجیٹل منظرنامہ وہ نہیں رہا جو پانچ سال پہلے تھا۔ سوشل میڈیا صرف تفریح نہیں بلکہ تعلیم، معلومات اور معاشرتی رابطے کا ذریعہ بھی ہے، اسی لیے کوئی بھی پابندی اپنے آپ میں اچھی بری نہیں ہے ۔آسٹریلیا نے اپنی پالیسی کے ذریعے دنیا کو ایک چیلنج دیا ہے کہ بچوں کے تحفظ اور آزادی کے درمیان توازن کہاں ہے؟یہ سوال نہ صرف قانون سازوں کو درپیش ہے بلکہ والدین، اساتذہ اور خود نوجوانوں کے لیے بھی ایک آئینہ ہے۔ کیا دنیا آسٹریلیا کے نقش قدم پر چلتی ہے؟ کیا ہم ایک نئے ڈیجیٹل سماجی معاہدے کی طرف بڑھیں گے؟وقت ہی بتائے گا کہ یہ قدم محفوظ مستقبل کی بنیاد بنتا ہے یا نئی حدود کی کنجی۔

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ایشیا میں پرندوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ، ہالیجی جھیل کراچی سے 82 کلومیٹر اور ٹھٹھہ سے شمال مغرب میں 24 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہالیجی جھیل نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی ماحولیاتی اہمیت کی حامل ہے اور اپنی قدرتی خوبصورتی، میٹھے پانی کے ذخیرے اور بالخصوص آبی پرندوں کے مسکن کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔یہاں تقریباً 200 سے زائد اقسام کے پرندے آتے ہیں ۔کسی زمانے میں مہمان پرندوں کی 500 سے زائد اقسام ہوتی تھی تاہم وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں پرندوں کی تعداد اور اقسام کم ہوتی چلی گئیں۔اس کی ایک بڑی وجہ جھیل کے پانی کی آلودگی بھی ہے۔ اس جھیل سے کراچی شہر کو پانی فراہم کیا جاتا تھا لیکن جب پانی کی یہ سپلائی یہاں سے بند کر کے کینجھرجھیل سے شروع ہوئی تو ہالیجی جھیل کا پانی آلودہ ہونے لگا اور آبی حیات کے لیے یہ مسکن ناقابلِ رہائش ہو گیا اور افزائش نسل کے لیے بھی مناسب نہ رہا۔ہالیجی جھیل کے قیام کا تاریخی پس منظر یوں ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران اتحادی افواج کی کثیر تعداد کراچی میں قیام پذیر ہوئی اور پانی کی ضرورت کے پیشِ نظر ہالیجی جھیل بنانے کا فیصلہ کیا گیا، یوں ایک مصنوعی جھیل وجود میں آئی جو کہ 1943ء میں مکمل ہوئی۔ جھیل کے انسپکٹر کی رہائش گاہ پر آج بھی 1943ء کی تختی لگی ہوئی ہے۔جھیل تقریباً 18 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کی گہرائی مختلف مقامات پر 17 سے 30 فٹ تک ہے۔ اس جھیل کے دلدلی حصے میں مگر مچھوں کی ایک کثیر تعداد ہوا کرتی تھی جوبتدریج کم ہوتے جارہے ہیں ۔ہالیجی جھیل کو رامسر کنونشن کے تحت عالمی اہمیت کی حامل آب گاہ (Wetlands of International Importance) قرار دیا گیا، جو اس کی ماحولیاتی قدر و قیمت کا واضح ثبوت ہے۔رامسر کنونشن عالمی معاہدہ ہے جو دو فروری 1971 ء کو ایران کے شہر رامسر میں آب گاہوں کے تحفظ کے اجلاس دوران طے پایااور 76-1975ء میں مکمل طور پر نافذ کیاگیا ۔ اُس وقت پاکستان میں آٹھ رامسر آب گاہیں تھیں اور اس وقت ان کی تعداد 19 ہوگئی ہے۔ہالیجی بنیادی طور پر بارشوں اور قریبی ندی نالوں کے پانی سے وجود میں آئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جھیل ایک متوازن ماحولیاتی نظام میں تبدیل ہو گئی جہاں پانی، نباتات، مچھلیاں اور پرندے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جھیل کے اردگرد پائے جانے والے آبی پودے، سرکنڈے اور گھاس پرندوں کے لیے قدرتی پناہ گاہ اور افزائشِ نسل کا ذریعہ فراہم کرتے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہالیجی جھیل کو آبی اورمہاجر پرندوں کے لیے ایک محفوظ مسکن سمجھا جاتا ہے۔ہالیجی جھیل انڈس فلائی وے زون کے راستے میں ہونے کے باعث ہر سال سردیوں کے موسم میں سائبیریا، وسطی ایشیا اور یورپ کے مختلف علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کا مسکن بنتی ہے ۔ ان میں فلیمنگو، پیلیکن، بطخوں کی مختلف اقسام، ہیرون، ایگریٹ اور کوٹ شامل ہوتے ہیں۔ یہ پرندے یہاں نہ صرف قیام کرتے ہیں بلکہ خوراک حاصل کرتے اور بعض اقسام افزائشِ نسل بھی کرتی ہیں۔ ہالیجی جھیل کا پرامن ماحول اور وافر خوراک ان پرندوں کے لیے ایک مثالی پناہ گاہ بناتا ہے۔رامسر کنونشن کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں آب گاہوں کا تحفظ، ان کا دانشمندانہ استعمال اور حیاتیاتی تنوع کی بقا کو یقینی بنانا ہے۔ ہالیجی جھیل اس کنونشن کے اصولوں کی عملی مثال ہے کیونکہ یہ جھیل پرندوں کے مسکن کے ساتھ ساتھ مقامی ماہی گیروں، نباتات اور آبی حیات کے لیے بھی ناگزیر اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم ہالیجی جھیل کو درپیش خطرات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی، صنعتی آلودگی، غیر قانونی شکار، پانی کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے عوامل اس جھیل کے قدرتی توازن کو متاثر کر رہے ہیں۔ خاص طور پر پرندوں کے غیر قانونی شکار نے ماضی میں اس مسکن کو شدید نقصان پہنچایا۔ اگرچہ حکومت اور محکمہ جنگلی حیات نے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں لیکن مؤثر عمل درآمد اور عوامی آگاہی کی اب بھی شدید ضرورت ہے۔ہالیجی جھیل کی حفاظت دراصل پرندوں ہی نہیں بلکہ پورے ماحولیاتی نظام کی حفاظت ہے۔ یہ جھیل ہمیں یاد دلاتی ہے کہ آب گاہیں قدرت کا وہ نازک تحفہ ہیں جو انسانی غفلت کی صورت میں تیزی سے تباہ ہو سکتی ہیں۔ رامسر کنونشن کے تحت ہالیجی جھیل کی حیثیت ہمیں یہ ذمہ داری سونپتی ہے کہ ہم اس قدرتی ورثے کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنائیں۔ ہالیجی جھیل پاکستان کے ماحولیاتی خزانے کا ایک قیمتی حصہ ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ، پانی کی سطح پر تیرتے رنگ برنگے پرندے اور قدرتی خاموشی اس جھیل کو ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ اگر ہالیجی جھیل کا تحفظ سنجیدگی سے کیا جائے تو یہ نہ صرف پرندوں کا محفوظ مسکن بنی رہے گی بلکہ رامسر کنونشن کے مقاصد کی تکمیل میں بھی پاکستان کے مثبت کردار کو اجاگر کرے گی۔

آج کا دن

آج کا دن

پہلی کامیاب پرواز 17 دسمبر 1903ء کو امریکی ریاست نارتھ کیرولائنا کے مقام کِٹی ہاک پر اورول رائٹ اور ولبر رائٹ نے پہلی مرتبہ ایک ایسا ہوائی جہاز کامیابی سے اڑایا جو انجن سے چلتا تھا، کنٹرول کیا جاتا تھا اور انسان کو فضا میں لے جانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس طیارے کا نام فلائر ون تھا جس نے تقریباً 12 سیکنڈ تک پرواز کی اور 120 فٹ کا فاصلہ طے کیا۔یہ کارنامہ محض ایک سائنسی تجربہ نہیں تھا بلکہ انسانی تہذیب میں ایک انقلابی قدم تھا۔ رائٹ برادران کی اس کامیابی نے بعد میں ہوابازی، جنگی طیاروں، مسافر بردار جہازوں اور عالمی رابطوں کے پورے نظام کی بنیاد رکھی۔ سیمون بولیوار کا انتقال 17 دسمبر 1830ء کو لاطینی امریکا کے عظیم انقلابی رہنما سیمون بولیوار کا انتقال ہوا۔ بولیوار کو'' لبریٹر‘‘یعنی آزادی دلانے والا کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے سپین کی نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے وینزویلا، کولمبیا، ایکواڈور، پیرو اور بولیویا کو آزادی دلوانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔بولیوار نہ صرف ایک فوجی کمانڈر تھے بلکہ ایک ویژنری سیاسی رہنما بھی تھے۔ ان کا خواب تھا کہ آزاد ہونے والے لاطینی امریکی ممالک ایک مضبوط وفاق کی صورت میں متحد رہیں مگر اندرونی اختلافات، علاقائی سیاست اور اقتدار کی کشمکش نے ان کے خواب کو پورا نہ ہونے دیا۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ مایوسی، بیماری اور تنہائی کا شکار رہے۔ مالمدی قتلِ عام دوسری عالمی جنگ کے دوران 17 دسمبر 1944ء کو یورپ میں ایک انتہائی ہولناک واقعہ پیش آیا جسے مالمدی قتلِ عام کہا جاتا ہے۔ یہ واقعہ بلجیم کے علاقے مالمدی کے قریب پیش آیا جہاں نازی جرمن فوج کے ایس ایس دستوں نے امریکی فوج کے تقریباً 84 جنگی قیدیوں کو گولی مار کر قتل کر دیا۔یہ واقعہBattle of the Bulge کے دوران پیش آیا۔ بعد ازاں یہ واقعہ جنگی جرائم کی ایک نمایاں مثال کے طور پر سامنے آیا۔جنگ کے بعد نیورمبرگ طرز کے مقدمات میں اس قتلِ عام میں ملوث جرمن افسران پر مقدمات چلائے گئے اور کئی کو سزائیں سنائی گئیں۔عرب بہار کا آغاز17 دسمبر 2010ء کو تیونس کے ایک نوجوان پھل فروش محمد بوعزیزی نے پولیس کی بدسلوکی، بے روزگاری اور حکومتی ناانصافی کے خلاف احتجاجاً خود سوزی کرلی۔ یہ واقعہ بظاہر ایک فرد کی ذاتی اذیت کا اظہار تھا مگر اس نے پوری عرب دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔بوعزیزی کی خودسوزی کے بعد تیونس میں عوامی احتجاج شروع ہوا جو جلد ہی ایک عوامی انقلاب میں تبدیل ہو گیا۔ چند ہفتوں میں صدر زین العابدین بن علی اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہو گئے۔ یہی تحریک آگے چل کر عرب بہار کہلائی جس نے مصر، لیبیا، یمن اور شام سمیت کئی ممالک میں سیاسی ہلچل پیدا کی۔

روبوٹک لیمپ:ٹیکنالوجی کا نیا شاہکار

روبوٹک لیمپ:ٹیکنالوجی کا نیا شاہکار

دنیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی میں اب ایک اور حیران کن ایجاد شامل ہو گئی ہے۔ پکسر کے مشہور اچھلتے لیمپ سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا ایک دلچسپ روبوٹک ڈیسک لیمپ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے، جو نہ صرف حرکت کرتا ہے بلکہ دیکھنے، سننے اور بات کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ کیلیفورنیا کی کمپنی ''Interaction Labs‘‘ کی جانب سے تیار کردہ ''اونگو‘‘(Ongo) نامی یہ سمارٹ لیمپ گھروں اور دفاتر کیلئے ایک نئے طرز کی ڈیجیٹل رفاقت پیش کرتا ہے۔ پرومو ویڈیو میں یہ روبوٹ اشیاء اور انسانوں کو تجسس بھری نظروں سے دیکھتا، مدد فراہم کرتا اور ماحول سے تعامل کرتا نظر آتا ہے، جبکہ اس کی رازداری کے تحفظ کیلئے سن گلاسز تک مہیا کیے گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے شوقین افراد اس جدت کو روبوٹکس کے مستقبل کی ایک دلکش جھلک قرار دے رہے ہیں۔کمپنی کے شریک بانی اور سی ای او کریم رخا چاہم (Karim Rkha Chaham) نے بتایا کہ یہ ''جذبات کا اظہارِ کرنے والا‘‘ روبوٹ صارفین کو یاد بھی رکھ سکتا ہے اور ان کی ضروریات کا اندازہ بھی لگا لیتا ہے۔ اسے یوں سمجھیں جیسے کسی بلی کو ایک ڈیسک لیمپ کے جسم میں قید کر دیا گیا ہو‘‘۔سماجی پلیٹ فارم ''ایکس‘‘ پر تبصرہ کرنے والوں نے اس ڈیزائن کو ناقابلِ یقین، شاندار، بہت زبردست اور حیرت انگیز ٹیکنالوجی کا نمونہ قرار دیا ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ ''یہ یقینی طور پر وہ چیز ہے جو میں گھر میں رکھ سکتا ہوں، کسی خوفناک انسانی نما روبوٹ کے مقابلے میں‘‘۔ جبکہ ایک اور نے لکھا کہ ''یہ شاید مارکیٹ کا سب سے پیارا روبوٹ ہو سکتا ہے‘‘۔''اونگو‘‘ کی حرکات ایلیک سوکولو نے ڈیزائن کی ہیں، جو پکسر کی فلم ''ٹوائے سٹوری‘‘، ''گارفیلڈ: دی مووی‘‘ اور ''ایون المائٹی‘‘ کے آسکر کیلئے نامزد سکرین رائٹر ہیں۔ پرومو ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ''اونگو‘‘ اپنے بیس پر گھومتا ہے اور اپنی محور کو خودبخود ایڈجسٹ کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے Pixar کا مشہور کردار کرتا تھا۔صارف کی ضرورت کے مطابق ''اونگو‘‘ اپنی آنکھوں سے نکلنے والی روشنی کی شدت کو کم یا زیادہ کرسکتا ہے اور انہیں قریب بھی لا سکتا ہے، مثلاً رات کے وقت کتاب پڑھنے کیلئے۔یہ خوشگوار انداز میں سلام کرتا ہے، مفید مشورے دیتا ہے اور ہدایات بھی دیتا ہے جیسے: ''ارے! اپنی چابیاں بھولنا مت‘‘۔ایک اور دلکش منظر میں دکھایا گیا ہے کہ جب گھر میں پارٹی ہو رہی ہوتی ہے تو ''اونگو‘‘ پاس والے کمرے میں چلنے والی موسیقی کی دھن پر جھومتا ہے۔کمپنی کے مطابق، یہ ڈیسک لیمپ آپ کے ڈیسک اور آپ کے دن کو روشن کرتا ہے اور آپ کے گھر میں ''جادو جیسی مانوس موجودگی‘‘ لے کر آتا ہے۔کمپنی اپنی ویب سائٹ پر کہتی ہے: ''یہ آپ کی جگہ کو حرکت، شخصیت اور جذباتی ذہانت کے ساتھ زندہ بناتا ہے۔یہ اُن باتوں کو یاد رکھتا ہے جو آپ کیلئے اہم ہیں، آپ کے احساسات کو محسوس کرتا ہے اور دن بھر چھوٹی چھوٹی، خیال رکھنے والی حرکات کے ذریعے آپ کا ساتھ دیتا ہے۔ اونگو آپ کے دن کی رفتار کو محسوس کرتا ہے اور ماحول میں آنے والی لطیف تبدیلیوں کو خاموشی سے سمجھتے ہوئے ان کا جواب دیتا ہے۔ سمارٹ مصنوعات کی طرح جن میں کیمرے شامل ہوتے ہیں، اونگو بھی اپنے اردگرد کے ماحول کا ادراک رکھتا ہے، لیکن وہ ویژول ڈیٹا کو اپنی ڈیوائس ہی پر پروسیس کرتا ہے اور کسی بھی قسم کی ویڈیو کلپس کلاؤڈ پر نہیں بھیجتا، تاکہ کمپنی کا کوئی فرد انہیں نہ دیکھ سکے۔ جب صارفین مکمل پرائیویسی چاہتے ہوں اور نہیں چاہتے کہ اونگو ان پر نظر رکھے، تو وہ اس کی آنکھوں پر غیر شفاف چشمے لگا سکتے ہیں، جو مقناطیس کی مدد سے فوری طور پر چپک جاتے ہیں۔ایکس (X) پر کئی صارفین نے کہا کہ انہیں اونگو کی آواز ''پریشان کن‘‘ اور ''چبھن بھری‘‘ لگتی ہے، لیکن چہام (Chaham) کا کہنا ہے کہ اس کی آواز کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت بھی حسبِ ضرورت کسٹمائز کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ پرومو ویڈیو کمپیوٹر جنریٹڈ ہے، لیکن یہ صارفین کو ایک واضح اندازہ دیتی ہے کہ وہ کیا توقع رکھ سکتے ہیں، کیونکہ فی الحال پروٹوٹائپ پر کام جاری ہے، یعنی یہ ابھی مکمل طور پر تیار نہیں۔اونگو کو کمپنی کی ویب سائٹ پر پری آرڈر کیا جا سکتا ہے، جس کیلئے 49 ڈالر یا 38.38 پاؤنڈ کی مکمل طور پر قابلِ واپسی ''پرائیویٹی ایکسس ڈپازٹ‘‘ درکار ہے۔ یہ ڈپازٹ صارف کیلئے پہلے بیچ سے ایک یونٹ محفوظ کر دیتا ہے اور یہ رقم پروڈکٹ کی آخری قیمت میں سے منہا ہوجائے گی،جس کے بارے میں چہام نے بتایا کہ یہ تقریباً 300 ڈالر (225 پاؤنڈ) ہوگی۔ جو صارفین ابھی ادائیگی کریں گے انہیں اونگو کی ترسیل اگلے سال موسمِ گرما میں شروع ہونے پر پہلے فراہم کی جائے گی۔اونگو بلاشبہ پکسر کے اصل لیمپ ''لکسو جونیئر‘‘ (Luxo.Jr) کی طرف ایک واضح اشارہ ہے، جو 1995ء میں ''ٹوائے سٹوری‘‘ سے لے کر اب تک ہر پکسر فلم کے پروڈکشن لوگو میں دکھائی دیتا ہے۔

پلاسٹک کی بوتلوں سے محل تعمیر

پلاسٹک کی بوتلوں سے محل تعمیر

کینیڈین فنکارکا کارنامہ گنیز گیئربک میں شامل کر لیا گیاپلاسٹک آلودگی کے بڑھتے ہوئے بحران کے اس دور میں، دنیا بھر میں جب ماحولیاتی ماہرین سر پکڑے بیٹھے ہیں، ایک شخص نے تخلیقی سوچ اور عزم کے ساتھ وہ کام کر دکھایا جس کا تصور بھی مشکل ہے۔ ''پلاسٹک کنگ‘‘ کے نام سے مشہور اس باہمت فرد نے 40 ہزار استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ضائع ہونے نہیں دیا، بلکہ انہیں جوڑ کر ایک شاندار چار منزلہ محل تعمیر کر ڈالا۔ یہ منفرد منصوبہ نہ صرف ماحول دوستی کی ایک روشن مثال ہے بلکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ تخلیق اور جدت انسان کو ناممکن کو بھی ممکن بنانے کی طاقت عطا کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں کے تناظر میں یہ کارنامہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو ایک پھینکی ہوئی پلاسٹک کی بوتل بھی تعمیر وطن اور خدمت انسانیت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔یہ چند سال پہلے کی بات ہے کہ دنیا کو بے کار کچرے سے پاک کرنے کے خواہش مند ایک کینیڈین شخص نے پاناما کے لوگوں میں حیرت انگیز جوش پیدا کر دیا۔ اس نے ساحلوں اور شاہراہوں پر بکھری ہزاروں پلاسٹک کی بوتلیں اکٹھی کروائیں اور اسی ''کچرے‘‘ کو استعمال کر کے ایک ایسا شاندار محل تعمیر کر ڈالا جو کیریبین سورج کی روشنی میں جگمگاتا ہے۔ یہ کوئی کہانی نہیں ہے بلکہ مونٹریال سے تعلق رکھنے والے رابرٹ بیزو کی حقیقی زندگی کا وہ کارنامہ ہے جس نے انہیں درست طور پر ''پلاسٹک کنگ‘‘ کا لقب دلایا۔ 2012ء میں رابرٹ پاناما کے علاقے بوکاس ڈیل ٹورو کے ایسلا کولون میں رہائش پذیر تھے اور اپنا وقت بوکاس ری سائیکلنگ پروگرام کے ساتھ گزار رہے تھے، جو ملک کے ساحلوں اور بستیوں سے کچرا صاف کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ مگر کینیڈین شہری اس بات پر سخت حیران ہوا کہ صرف ڈیڑھ سال کے دوران انہوں نے دس لاکھ سے زائد پلاسٹک کی بوتلیں جمع کیں جو ری سائیکل ہونے والے کچرے کے بڑے بڑے ڈھیر کی صورت جمع ہو رہی تھیں۔ اس آلودگی کو کم کرنے کیلئے رابرٹ کے ذہن میں ایک بہت ہی غیر معمولی خیال آیا۔ کیا ہو اگر ان بوتلوں کو ری سائیکل کرنے کے بجائے براہ راست استعمال کر کے کوئی بڑا ڈھانچہ بنایا جائے، ایسا جو رہائش بھی فراہم کرے اور انسانی فضلے اور ماحول دوست حل کی ایک علامت بھی بن جائے۔اسی خیال کے بیج سے دنیا کا سب سے بڑا پلاسٹک بوتلوں سے بنا قلعہ وجود میں آیا۔ چار منزلہ، 46 فٹ (14 میٹر) بلند کاسٹیلو اِن اسپیریسیون، جو تقریباً 40 ہزار بوتلوں سے تیار کیا گیا۔رابرٹ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ شروع میں جزیرے کے رہائشیوں اور حکام کو لگا کہ میں پاگل ہوں حتیٰ کہ میری بیوی اور میرا بیٹا بھی یہی سمجھتے تھے۔ پھر انہیں تجسس ہوا اور انہوں نے مجھے یہ دیکھنے کیلئے کام جاری رکھنے دیا کہ آخر میں کیا کرنے والا ہوں۔ جیسے جیسے عمارت بڑھتی گئی، ان کی دلچسپی بھی بڑھتی گئی۔ کچھ ہی عرصے میں عمارت نے واضح شکل اختیار کرنا شروع کر دی۔ کنکریٹ اور اسٹیل کے مضبوط ڈھانچے کے گرد بنائی گئی اس تعمیر میں رابرٹ اور ان کی ٹیم نے پلاسٹک کی بوتلوں کو ''ماحول دوست تعمیراتی مواد‘‘ یا انسولیشن کے طور پر استعمال کیا۔ بوتلوں کی ساخت نے قلعے کو موسمی اثرات سے محفوظ رکھا اور اسے ایک منفرد حسن بخشا جس کی جھلک کسی پلاسٹک گلاس جیسی دکھائی دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ چیلنج یہ تھا کہ ہمارے پاس کوئی منصوبہ نہیں تھا، ہم روزانہ کی بنیاد پر کام میں جدت لاتے تھے۔ یہ ایک دن، ایک منزل کر کے اوپر اٹھتا گیا، یہاں تک کہ ہم چار منزلوں تک پہنچ گئے! مجموعی طور پر قلعے میں چار مہمان کمرے، ضیافت کیلئے ایک بڑا ہال اور چھت پر ایک دیدہ زیب مشاہدہ گاہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ وہاں آنے والے زائرین کیلئے متعدد تعلیمی مواد بھی رکھا گیا ہے، تاکہ لوگ پلاسٹک کے کچرے کے اثرات اور رابرٹ کی اس منفرد تخلیق کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکیں۔اس تمام عمل کے دوران، رابرٹ ری سائیکلنگ کے بجائے اپ سائیکلنگ کی اہمیت کو اجاگر کرتے رہے۔ اپ سائیکلنگ سے مراد یہ ہے کہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ان کی کیمیائی ساخت بدلے بغیر کسی نئے مقصد کیلئے دوبارہ استعمال کیا جائے۔ جبکہ روایتی ری سائیکلنگ کے نتیجے میں عموماً پلاسٹک کے ذرات ماحول کے نظام میں داخل ہو جاتے ہیں، اپ سائیکلنگ کو کچرے کے زیادہ ماحول دوست استعمال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ رابرٹ نے ایک بار کہا تھا: ''ایک شخص کا کچرا، دوسرے انسان کا محل بن سکتا ہے۔ ڈائنوسار ایک شہابِ ثاقب سے ختم ہوئے تھے، اور انسانیت پلاسٹک سے ختم ہوگی‘‘۔ چند سال بعد جب رابرٹ نے یہ محل تعمیر کیا، انہیں '' انرجی گلوب ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا، جو ان کے پائیدار منصوبوں کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایوارڈ انہیں ''ناقابل یقین احساس‘‘ دلانے والا تھا۔مگر اس اعزاز کے باوجود، وہ یہاں رکنے والے نہیں تھے۔ 2021ء میں، انہوں نے اپنے منصوبے کو وسعت دیتے ہوئے پورا پلاسٹک بوتلوں کا گاؤں تعمیر کیا، جس میں کئی دیگر عمارتیں بھی شامل ہیں۔ ان گھروں میں بوتلیں انسولیشن کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں اور ان کے باہر کنکریٹ کی تہہ دی گئی ہے۔

پومپیئی:ایک قدیم شہر جو لمحوں میں تاریخ بن گیا

پومپیئی:ایک قدیم شہر جو لمحوں میں تاریخ بن گیا

دنیا کی قدیم تہذیبوں میں اگر کوئی شہر عبرت، حیرت اور تاریخ کے سنگم کے طور پر یاد کیا جاتا ہے تو وہ پومپیئی ہے۔ اٹلی کے جنوب میں واقع یہ رومن شہر 79ء میں آتش فشاں ماؤنٹ ویسوویس کے اچانک پھٹنے سے لمحوں میں مٹ گیا۔ مگر اس شہر کی حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مٹی نہیں بلکہ راکھ میں محفوظ ہوگیا۔ ایسے جیسے وقت رک گیا ہو اور زندگی ایک ٹھہرے ہوئے منظر کی صورت ہمیشہ کیلئے نقش ہو گئی ہو۔تاریخی پس منظرپومپیئی بحیرہ روم کے کنارے واقع ایک خوشحال رومن شہر تھا جس کی بنیاد غالباً چھٹی یا ساتویں صدی قبل مسیح میں رکھی گئی۔ یہ شہر ایک اہم تجارتی مرکز تھا جہاں رومی طرزِ زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری تھی۔ پتھروں کی پختہ گلیاں، شاندار گھروں کے صحن، حمام، تھیٹر، بازار اور شراب خانے سب پومپیئی کی بھرپور تہذیب اور سماجی زندگی کی عکاسی کرتے تھے۔24 اگست 79ء کی صبح اچانک ماؤنٹ ویسوویس نے زبردست دھماکے کے ساتھ آگ اگلی۔ آسمان سیاہ ہو گیا، زہریلی گیسوں اور راکھ نے فضا بھر دی۔ چند ہی گھنٹوں میں گرم لاوے کا سیلاب، راکھ اور پتھروں کی بارش اور زہریلی گیسوں کے بادل نے پورے شہر کو ڈھانپ لیا۔ پومپیئی کے تقریباً 20 ہزار باشندوں میں سے بہت سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے، مگر ہزاروں لوگ وہیں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ شہر 6 سے 7 میٹر موٹی آتش فشانی راکھ کے نیچے دفن ہوگیا۔پومپیئی 17 صدیوں تک زمین کے نیچے چھپا رہا۔ 1748ء میں جب کھدائی شروع ہوئی تو آثارِ قدیمہ کے ماہرین ششدر رہ گئے کیونکہ شہر کے گھر، فرنیچر، برتن، دیواروں پر بنے رنگین نقش و نگار، فریسکوز، حتیٰ کہ انسانوں اور جانوروں کے آخری لمحات تک حیرت انگیز طور پر محفوظ تھے۔راکھ میں دبے جسم وقت کے ساتھ گل گئے، مگر ان کے خالی خول برقرار رہے۔ ماہرین نے ان میں پلاسٹر بھر کر انسانوں کے آخری لمحات کو شکل دے دی۔کوئی بھاگ رہا تھا،کوئی اپنے بچے کو تھامے ہوئے تھا اور کوئی گھٹنوں کے بل جھکا امداد کا منتظر تھا۔ یہ مناظر آج بھی دیکھنے والوں کے دل دہلا دیتے ہیں۔پومپیئی کی گلیاں، پتھریلے فٹ پاتھ، دوکانوں کے کاؤنٹر، شہریوں کے گھر اور شاہی ولا آج بھی اسی طرح موجود ہیں جیسے 79ء کی صبح تھے۔رنگین دیواری تصویریں رومی آرٹ کی بہترین مثال ہیں جن میں اساطیری مناظر، رقص، کھانے پینے کی محفلیں اور روزمرہ زندگی کی جھلکیاں شامل ہیں۔رومی تہذیب کا آئینہپومپیئی آج روم کی قدیم تہذیب کا سب سے بڑا کھلا میوزیم ہے۔ یہاں سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ لوگ کیسے رہتے تھے، کیا کھاتے تھے، تفریح کیسے کرتے تھے، تجارت کیسے ہوتی تھی اور مذہبی رسومات کیا تھیں۔ گھروں میں ملنے والے فرنیچر کے نشانات، بیکریوں کے تنور، حمام کے کمرے، اسٹیڈیم، تھیٹر اور مندر سب کچھ اس قدیم شہر کے سماجی ڈھانچے کو زندہ کر دیتے ہیں۔آج کا پومپیئیآج پومپیئی دنیا کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے آثارِ قدیمہ مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ یہ مقام نہ صرف سیاحوں کیلئے پرکشش ہے بلکہ ماہرین آثارِ قدیمہ کیلئے بھی ایک زریں خزانہ ہے جہاں نئی دریافتیں آج بھی جاری ہیں۔ جدید تحقیق آتش فشانی تباہی، قدیم فنون اور رومی طرزِ زندگی کے بارے میں نئی روشنی ڈال رہی ہے۔اطالوی حکومت اور یونیسکو مل کر اس تاریخی مقام کے تحفظ کیلئے بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں تاکہ یہ ورثہ آئندہ نسلوں تک محفوظ رہے۔پومپیئی صرف ایک تباہ شدہ شہر نہیں، بلکہ وقت کے رُک جانے کی داستان ہے۔ یہ ہمیں انسان کی طاقت، کمزوری، فخر، خوشیوں، غموں اور قدرت کی بے رحم قوتوں کے بارے میں سبق دیتا ہے۔ یہاں کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ تہذیبیں کیسے بستی ہیں اور لمحوں میں کیسے مٹ سکتی ہیں لیکن ان کے نقوش صدیوں بعد بھی انسان کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔