نیگلیریا: جان لیواخوف ناک بیماری
اسپیشل فیچر
شرکائے مذاکرہ:جنید علی شاہ نگراںوزیرِ صحت حکومت سندھ مصباح الدین فریدمنیجنگ ڈائریکٹر، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈڈاکٹر قیصر سجادفنانس سیکریٹری ،پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشنڈاکٹر رفیق خانانی پروفیسر ڈائو یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسزڈاکٹر اسلم پرویز ڈسٹرکٹ آفیسر، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈڈاکٹر سریش کمار سیکریٹری ہیلتھ ، حکومت سندھڈاکٹر ارم خان اسسٹنٹ پروفیسر، آغاخان اسپتالاعظم خان ڈپٹی چیف انجینئر ، واٹر بورڈکراچی میزبانغلام محی الدین(میگزین ایڈیٹر)عمران احمد(چیف رپورٹر)یاسمین طحہٰ( سینیر سب ایڈیٹر) ابراہیم رند (ہیلتھ رپورٹر)رپورٹ: محمد اعجاز الحسن عکاسی: ماجد حسینگزشتہ برس کراچی میں نیگلیریا کے دس مریض سامنے آئے تھے اس وقت اس بیماری کے بارے میں عام لوگ بالکل نہیں جانتے تھے مگر چوں کہ اس مرض میں مبتلا مریضوں کی 99فی صد تعداد موت کے منہ میں پہنچ جاتی ہے لہٰذا اس کی ہول ناکی سے سب ہی پریشان ہوگئے تھے ۔ اس برس بھی نیگلیریا کے ایک مریض کا کراچی میں انکشاف ہوا ۔ یہ مرض گرمیوں میں صاف پانی میں پرورش پانے والے نیگلیریا جرثومے سے پیدا ہوتا ہے جو ایک قسم کا پیرا سائٹس ہے۔یہ جرثومہ زیادہ گرمی پڑنے پر یا 62درجے سینٹی گریڈ پر ختم ہوجاتا ہے جب کہ پانی میں مقررہ مقدار میں کلورین ملانے سے بھی اس کی افزائش رک جاتی ہے کیوں کہ کلورین کی وجہ سے وہ جرثومے ختم ہوجاتے ہیں جن پر نیگلیریا کی زندگی کا انحصار ہوتا ہے ۔ مذاکرے کے دوران ماہرین کی گفتگو سے یہ پتا چلتاہے کہ نیگلیریا وبائی مرض نہیں بن سکتا اور اس سے بچنے کے لیے صرف اتنا کرلیا جائے کہ پانی اُبال کر استعمال کیا جائے۔ نیگلیریا کا جرثومہ ناک کے ذریعے دماغ پر حملہ آور ہوتا ہے لہٰذا وضو کرنے والے حضرات اور سوئمنگ پولز میں نہانے والوںکو ضرور احتیاط کرنی چاہیے۔ کیوں کہ وضو میں پانی ناک میں ڈالا جاتا ہے اور پولز میں جمپ کے دوران غیر ارادی طور پر پانی ناک کی گہرائی میں چلا جاتا ہے ۔ ذیل میں ماہرین کی گفتگو شہریوں کے لیے اس مرض سے متعلق آگہی میں نہایت اہم ثابت ہوگی۔ احتیاطی تدابیر انڈر گرائونڈ ٹینک ، اوور ہیڈ ٹینک یا ایسی کوئی چیز جس میں پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے اسے صاف ستھر ارکھیں کائی وغیرہ سے پاک رکھیں ۔بغیر کلورین ملے آبی ذخائر مثلاً جوہڑ، تالاب اور اسی طرح کے دیگر آبی ذخائر کا پانی بالخصوص منہ دھونے اور نہانے کے لیے استعمال نہ کریں بغیر کلورین ملے آبی ذخیرے مثلاًسوئمنگ پولز ، نہروں، چشموں، جوہڑوں، تالابوں ، پائپ کے رسائو سے بننے والے جوہڑوں اور اسی طرح کے دیگر آبی ذخیروں میں نہانے سے پرہیز کریں۔ مزید احتیاط کے طور پر منہ دھوتے وقت دوران وضو اور غسل میں ناک صاف کرنے کے لیے ابلا ہوا یا کلورین ملا پانی استعمال کریں تمام اسکولوں، کالجوں، اسپتالوں، دفاتر ، مساجد ، ہوٹلوں ، شادی ہالوںکی انتظامیہ اور فلیٹوںمیں قائم ہونے والی ایسوسی ایشنوں کو چاہیے کہ وہ پہلے مرحلے میں اپنے انڈر گرائونڈ اوور ہیڈ ٹینک اور دیگر پانی ذخیرہ کرنے والی ٹنکیوں کی صفائی کا بندوبست کریں کلورین کا زیادہ استعمال بھی صحت کے لیے مضر ثابت ہوسکتا ہے لہذا صارفین اپنے ذخیرہ آب میں کلورین ملانے سے قبل کلورین کی صحیح مقدار کے تعین کے لیے کسی ماہر سے ضرور مشورہ کریں۔٭پابندیاں عاید کرنے سے بہتر ہے کہ ہم مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کریں: ڈاکٹر جنید علی شاہ ٭ہم نے نیگلیریا سے نبرد آزما ہونے کے لیے مانیٹر نگ سیل قائم کر دیے ہیں: مصباح الدین فرید٭گرشتہ 35 برس میں دنیا بھر میں نیگلیریا کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد صرف 400 ہے:ڈاکٹر رفیق خانانی٭خطرے سے محفوظ رہنے کے لیے پولز اور واٹر پارکس میں نہانے سے گریز کریں:ڈاکٹر ارم خان ٭تمام سرکاری اسپتالوں میں سو فی صد مفت معیاری لیبارٹری ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے: ڈاکٹر سریش کمار ٭سردرد؛ بخار یا متلی کی شکایت ہو تو فورا ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں: ڈاکٹر قیصر سجاد ٭پانی کو محفوظ بنانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھا لیے ہیں: ڈاکٹر اسلم پرویزنیگلیریا کیا ہے؟امیبائی دماغی سوزش یا نیگلیریاسس (Naegleria Fowleri)ایک خرد بینی جرثومہ ہے جو امیبائی دماغی سوزش نامی بیماری کا سبب بنتا ہے۔ یہ گرمیوں کے موسم میں زیادہ فعال ہوتا ہے اور پانی کے ذریعے ناک کے راستے انسانی دماغ میں داخل ہوتا ہے اور متاثرہ شخص دو سے چار روز میں موت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس جرثومے کو دماغ خور امیبا(Brain Eating Amoeba)بھی کہتے ہیں۔ یہ جرثومہ متاثرہ شخص سے صحت مند انسان میں براہ راست منتقل نہیں ہوتا ۔پرورش گاہیں: اس بیماری کا جرثومہ پوری دنیا میں پایا جاتا ہے ۔ یہ صاف پانی خصوصاً گرم پانی کے چشموں ، بغیر کلورین ملے پانی والے سوئمنگ پول، تالاب، جھیل، مشینوں سے خارج ہونے والے گرم پانی کے جوہڑوں وغیرہ میں پرورش پاتا ہے ۔ یہ جرثومہ کھارے پانی میںزندہ نہیں رہ سکتا۔دنیا : نیگلیریا نے ابھی تک تشویش ناک صورت اختیار نہیں کی ہے ہم چاہتے ہیں کہ اس سلسلے میں ابھی سے لوگوں کو اس بارے میں معلومات فراہم کریں کیوں کہ مثل مشہورہے کہ علاج سے بہتر احتیاط ضروری ہے۔ہمارے معزز مہمان گرامی آپ اپنے شعبوں کے ماہرین ہیںیقیناً وہ اس سلسلے میں جو معلومات دیں گے وہ ہمارے قارئین کے لیے مفید ثابت ہوں گی۔نیگلریا صاف پانی پھیلاتا ہے اگر ہم یہیں سے احتیاط شروع کردیں اور ماہرین کی تجاویز کی پابندی کریں تو بڑی حد تک اس مرض سے بچ سکتے ہیں۔ چوں کہ اس بیماری کا تعلق صاف پانی سے ہے تو اسی حوالے سے ہم سب سے پہلے واٹر بورڈ کے ایم ڈی مصباح الدین فرید سے درخواست کریں گے کہ وہ بتائیں کہ انہوں نے پانی کو محفوظ بنانے کے لیے بنانے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے ہیں اور اس سلسلے میںانہوں نے نگرانی کا کیا نظام قائم کیا ہے۔ مصباح الدین فرید: کسی بھی بڑے امراض سے نمٹنے کے لیے اداروں اور شہریوں کی مشترکہ کوششوں سے ہی قابوپایا جاسکتا ہے۔ پہلے یہ بتادوں کہ نیگلیریاگرم موسم، گرم اور میٹھے پانی میں پرورش جاتا ہے۔ کائی اور گندگی میں بھی پرورش پاتا ہے۔ گزشتہ برس بھی یہ واقعہ پیش آیاتھا جس سے شہر میں9 سے10 اموات ہوئی تھیں۔ اس پر محکمہ صحت حکومت سندھ اور واٹر بورڈ نے مشترکہ کوششیں کی تھیں۔ گزشتہ پانچ سے دس برسوں میں کراچی میں پانی کی سپلائی کے نظام میں کئی توسیعی منصوبے مکمل کیے گئے ہیں۔ شہر کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے پانچ سے چھ فلٹر پلانٹ ہیں ۔ سی اوڈی ہلز پر جہاں نیگلریا مانیٹرنگ سیل بنایاگیا ہے، اس کے علاوہ نارتھ کراچی میں بھی جدید پلانٹ ہے ان تمام مراکز پر جہاں سے کراچی کو پانی فراہم کیا جاتا ہے نہ صرف فلٹر پلانٹ لگارکھے ہیں بلکہ کلوری نیشن کا عمل بھی لازماً کیا جاتا ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے امیبائی دماغی سوزش نیگلیریا سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنی مختلف لیبارٹریز جوسی او ڈی فلٹر پلانٹ، پیپری فلٹر پلانٹ، نارتھ ایسٹ کراچی اور حب فلٹر پلانٹ پر واقع ہیں ان میں نیگلیریا مانیٹرنگ سیل قائم کردیے ہیں جب کہ پانی میںکلورین کی مقدار کو مانیٹر کیا جارہا ہے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے شہر بھر سے پانی کے نمونے روزانہ کی بنیاد پر حاصل کرنے اور ٹیسٹ کرنے کا بندوبست کیاہے۔کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے ڈی جی محکمہ ہیلتھ ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی، چیف انجینئر پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ، کمشنر کراچی، ڈائریکٹر جنرل پی سی ایس آئی آر اور چیف پتھیالوجسٹ آغا خان لیبارٹری سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے نمائندگان کے ذریعے شہریوں کے بہترین مفاد میں شہر بھر سے پانی کے نمونے حاصل کرنے اور اس کی جانچ کے عمل میں شریک ہوسکتے ہیں اس سلسلے میں ہماری واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹری سے فون نمبر34256568پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔جب گرمیوں کا آغاز ہوتا ہے تو نیگلیریا کا امکان بڑھ جاتا ہے لہٰذا واٹر بورڈ انہی خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے کلوری نیشن کی مقدار ایک خاص حد تک بڑھادیتا ہے جو نیگلریا کو ختم کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔کیوںکہ کلورین کی زیادتی بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے لہٰذا بڑی مشکل سے اس مقدار کو کنٹرول کرنا پڑتا ہے۔ہم نے فلٹر پلانٹ پر جو مانیٹرنگ سیل بنایا ہے، وہاں ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق پہلی مرتبہ متعلقہ ادارے جن میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ، محکمہ ٔ صحت، سندھ واٹر بورڈ، پبلک ہیلتھ سروسز، لوکل گورنمنٹ، یونین کونسل وغیرہ، تمام وہاں جمع ہوتے ہیں جو مشترکہ سروے کرتے ہیں۔ سیمپلنگ ہوتی ہے جن کے نتیجے اخبارات میں شائع کیے جاتے ہیں۔ عوام کی آگاہی کے لیے پمفلٹ اور پوسٹرز بھی نکالتے جاتے ہیں۔ ہمارا میڈیا بھی فعال کردار ادا کررہاہے۔ واٹر بورڈ تو پانی کو فلٹر اور اس کی کلوری نیشن کرنے کے بعد شہریوں کو فراہم کرتا ہے مگر ہمارے گھروں، دفاتر، اسکولوں، اسپتالوں اور مساجد کے واٹر اسٹوریج ٹینک برس ہا برس صاف نہیں ہوتے اور ہماری ٹیم نے جب کئی مقامات پر یہ ٹینک دیکھتے تو وہ انتہائی غلیظ اور آلودہ پائے گئے۔ہم میڈیا اور شہریوںکو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہمارے انتظامات دیکھیں بلکہ ہمارے تمام مراکز کا بھی دور کریں، ہمارے پاس جدید ترین لیبارٹری ہے جہاں پانی کے ہر قسم کے ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے۔کئی ٹینکوں میںگندھک کے جو ٹکڑے ملے وہ دس‘ دس برس پرانے تھے اور مکینوں کا خیال تھا کہ بس گندھک ڈال دی پانی صاف اور جراثیم سے پاک رہے گا حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ اپنے گھروںکے پانی کے ذخائر پر کڑی نگاہ رکھیں اور اپنی جان کی حفاظت کریں۔واٹر بورڈ کے علم میں ابھی نیلگیریا کا صرف ایک کیس سامنے آیا ہے مگر ہم نے ایک پروگرام مرتب کیا ہے جس کے تحت صبح 9بجے سے شام7بجے تک ہمارے ادارے کے مقررہ کردہ پانچ فوکل پرسن مختلف مقامات پر پانی کے نمونوں کی جانچ پڑتال کریں گے ہم چاہتے ہیں کہ شہری بھی تعاون کریں اوربالخصوص وضو کرنے کے لیے پانی اُبال لیں ۔ ٹینک صاف کرالیں ۔ بعض لوگ کین میں بھی پانی رکھتے ہیں انہیں بھی صاف کرلیں۔ اگر تھوڑی سی تدابیر اختیار کی جائیں تو ہم سب کے لیے آسانیاں ہوسکتی ہیں۔دنیا: کیا گھروں میںسادہ طریقے سے پھٹکری یاپوٹاشیم پرمیگنٹ وغیرہ ڈال کر پانی کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے؟مصباح الدین فرید: لوگوں کو اس سلسلے میں یقینا کسی ماہریا ڈاکٹر سے مشورہ کرکے یہ عمل کرنا چاہیے کیوںکہ کسی بھی چیز کی زیادتی انسان کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے ۔ ہم نے اپنے پمفلٹ میں واضح کیا ہے کہ کلورین کا زیادہ استعمال صحت کے لیے مضر ہوسکتا ہے۔دنیا : مطلوبہ کلورین کی مقدار کتنی ہونی چاہیے اور پی پی ایم کا مطلب کیا ہے ۔ڈاکٹر اسلم پرویز:اپنے طور پر پانی میں کلورین استعمال نہ کریں۔ پانی کے ٹینک میں کسی بھی صورت میں بلیچ استعمال نہ کریںجو مختلف حالتوں میں مل رہی ہے ہمیں اس کو بنانے کا طریقہ بھی نہیں آتا البتہ اپنے ٹینکوں کی صفائی ضرور کروالیں اور جو پانی وضوکے لیے استعمال کررہے ہیں اسے ضرور ابال لیں۔ خود کوئی کیمیکل کسی بھی مقدار میں استعمال نہ کریں۔ پی پی ایم کا مطلب پارٹ پر ملین بنیادی طور پر یہ فی صد ہے۔اگر آپ نے پانی میں زیادہ کلورین ملادی تو جتنی کلورین پانی میں حل ہوجائے گی وہ تو بیکٹریا کو مارنے کے کام آجائے گی اور جو حل نہیں ہوگی وہ پولیس مین کے طور پر کام کرے گی۔ اس وقت ہم پانی میں اضافی کلورین ڈال رہے ہیں اس کا مقصد ان جراثیم سے بچنا ہے جو گھروں یا اداروں کے ٹینکوںمیںموجود ہیں جو پانی کے ذخیرے ہیں وہاں 2PPMہونا چاہیے جب یہ کسی پمپنگ اسٹیشن پر پہنچے تو 1.5PPMہو اور جب گھروں کے ٹینکوں میں پہنچے تو 0.25-0.05 تک ہو ۔0.5 بہت بہتر مقدار ہے لیکن اس بات کو بھی مدنظر رکھتے ہیں کہ ہماری سیوریج اور پانی کی لائنیں ساتھ ساتھ ملنے کے امکانات زیادہ ہیں تو 0.25 بھی مقدار لے لیتے ہیں۔ ایک بات یاد رہے کہ کلورین نیگلیریا کو جو ایک پیراسائٹ ہے نہیں مارتی بلکہ ان بیکٹریاز کو مارتی ہے جن پر نیگلیریا کی زندگی کا انحصار ہوتا ہے یعنی جنہیں نیگلیریا اپنی خوراک بناتا ہے ۔ پیراسائٹ خود کچھ نہیں کرتے جب کہ دوسری چیزوں سے توانائی حاصل کرے ہیں اور جب انہیں کھانا نہیں ملتے گا تو وہ سسٹ کی صورت میں تبدیل ہوجائے گا یا مر جائے گا یعنی اس کی افزائش یا پرورش نہیں ہوسکے گی ۔دنیا: نیگلیریا صاف پانی میں ہوتا ہے کیا گندے پانی میں بھی خطرات ہوتے ہیں؟ڈاکٹر اسلم پرویز: صاف پانی سے مراد وہ پانی جو واٹر بورڈ دے رہا ہے یا قدرتی ذرائع سے حاصل ہونے والا پانی ہے نیگلیریا کھارے پانی ، گہرے کنویں اور بورنگ والے پانے میں زندہ نہیں رہ سکتا ۔ وہ پانی جو قدرتی جوہڑوں کی صورت میں موجود ہے جھیل میں ہے وہاں نیگلیریا ہوسکتا ہے۔دنیا: ٹینک کی صفائی میںکن باتوں کو مد نظر رکھنا چاہیے عام طور پر لوگ پھٹکری ڈال دیے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ پانی محفوظ ہوگیا۔ ڈاکٹر اسلم پرویز: پھٹکری یا گندھک کے پانی میں ٹھوس ذرات تو الگ کیے جاسکتے ہیں لیکن یہ چیزیں پیراسائٹ ‘ وائرس اور بیکٹریا کو کم زور کرسکتی ہیں لیکن ختم نہیں کرسکتیں ٹینک کی صفائی سے مراد دیواروں اور چھت سے کائی ہٹائی جائے اور مٹی صاف کردی جائے تو بہتر رہتا ہے۔ دنیا: ڈاکٹر ارم آپ کا تعلق لیبارٹری سے ہے آپ بتائیں نیگلیریا دراصل کس طرح کا جرثومہ ہے ۔ڈاکٹر ارم خان:نیگلیریا بنیادی طور پر پیراسائٹ ہے اور پیراسائٹ عام بیکٹریاز مثلاً ٹائی فائیڈ بیکٹریا وغیرہ سے تھوڑا بڑا ہوتا ہے ۔ پیراسائٹ انحصار کرتا ہے ان بیکٹیریا پر جو کائی کی صورت میں ہوتے ہیں وہ ان مختلف جراثیم کوکھاتا ہے اور انہی پر زندہ رہتا ہے۔ زیادہ تر گرم میٹھے پانی میں ان جگہوں پر جہاں درجہ حرارت 42سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو موجود ہوتا ہے۔ یوں تو یہ پورے سال ہی ہوتا ہے لیکن گرمیوںمیں یہ جھیلوں کی سطح پر آجاتے ہیں ۔ اس کے خاص انزائمز بھی ہوتے ہیں جو کہ ناک کے ذریعے دماغ میں داخل ہوتے ہیں اس خطرے کا امکان سوئمنگ کے دوران زیادہ ہوتا ہے آج کل لوگ گرمیوں کی وجہ سے واٹر پارکس، سوئمنگ پولز اورجھیلوںکا رخ کررہے ہیں انہیں اس وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہے ۔ پول اگر معیاری ہے کلورین ملی ہوئی ہے تو کوئی حرج نہیں اگر غیر معیاری ہے صفائی نہیں ہورہی کائی جمی ہوئی ہے تو وہاں نیگلیریا کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو ان پیراسائٹس کی ڈویژن بھی بڑھ جاتی ہے ۔ سوئمنگ پولز میں چھلانگ لگانے کے دوران پانی پریشر کے ساتھ ناک کے ذیعے ان جگہوں پر داخل ہوجاتا ہے یا پھر وضوکرتے وقت جب پانی اوپر کھینچتے ہیں تو بھی داخل ہوسکتا ہے ان جگہوں پر نیگلیریا کو پروٹیکشن ملتی ہے ناک اور دماغ کے درمیان ایک پتلی سی ہڈی ہوتی ہے جس کے ذریعے گزرتا ہوا دماغ کے آس پاس سے ہوتا ہُوا براہ راست دماغ کے اندر داخل ہو کر نقصان پہنچاتا ہے ۔دنیا: کیا نیگلیریا کو گرم ممالک کی بیماری کہہ سکے ہیں؟ ڈاکٹر رفیق خانانی: یہ بات درست نہیں‘ ابھی تک نیگلیریاکی جو ہسٹری چلی آرہی ہے اس کے مطابق سب سے اہم بات یہ کہ یہ بیماری کبھی بھی وبائی مرض کی صورت میں نہیں پھیلتی اس کے کیسیز نایاب ہوتے ہیں مگر لوگوں میں جو خوف بڑھ رہا ہے ، اسے کم کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج تک جتنے کیسیز دنیا بھر میںدرج ہوئے ہیں ان کی تعداد 400سے بھی کم ہے ۔ اس کے کیسیز پوری دنیا میں پچھلے 35سالوں میں نہ ہونے کے برابر ہیں اور جتنے کیسیز ٹھنڈے ممالک میںہوتے ہیں اتنے ہی گرم ممالک میں بھی درج ہوئے ہیں اس کا گرمی اور ٹھنڈسے کوئی تعلق نہیں ۔ البتہ ٹھنڈے مالک میں گرم پانی کے گرم چشموں کے مقامات سے درج ہوئے ہیں ۔نیگلیریا ، امیبیا کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے وہ سخت جان نہیں ہوتا۔ 62ڈگری درجہ حرارت پر ہی ختم ہوجاتا ہے۔اس لیے پانی کو زیادہ ابالنے کی ضرورت نہیں ۔ میری معلومات کی مطابق اس کا کوئی کیس ابھی تک وضو کی وجہ سے درج نہیں ہوا۔ البتہ ان مقامات سے ضرور درج ہوئے جہاں صاف پانی ہوتا ہے اور لوگ جمع ہوتے ہیں۔یہ رپورٹ جو صرف پاکستان کے کیسیزہیں۔ اس میں بڑی پیچیدہ صورت حال ہے۔ ڈاکٹر اسلم پرویز: ہمارے ہاں پچھلے برس اور اس سال صرف ایک کیس درج ہوا ہے پچھلے سال کے کیسوں میں ایک کیس کی وجہ سوئمنگ پول ہے۔ مصباح الدین فرید: کراچی میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو انڈر گرائونڈ واٹر یعنی کنوئوں یا بورنگ کا پانی استعمال کرتے ہیں جب کہ واٹر بورڈ جو پانی فراہم کرتا ہے وہ عموماًبارشوں کا پانی ہوتا ہے جو دریائے سندھ سے کینجر جھیل میں آتا ہے۔ پھر ہمارے پاس واٹر بورڈ میں تقریباً 15سال پہلے کینال میں پانی کی لائنیں نکالی ہیں ۔ وہاں 15 سے 20 دن پانی جمع رہتا ہے جس کے دوران بھاری ذرات تہہ میں بیٹھ جانے ہیں۔ اس کے بعد جب کینال سسٹم میں آتا ہے تو ان میں کسی قسم کے بھاری ذرات نہیں ہوتے ۔ لہٰذا ایلین کی صورت اب نہیںہوتی۔ کراچی میںپہلی مرتبہ جب نیگلیریا کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے تو اس وقت واٹر بورڈ نے محکمہ صحت نے اور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ساتھ مل کر اس کے بچائو کے لیے اقدامات اٹھائے تھے۔ اِس وقت بھی ہم الرٹ ہیں۔دنیا:زیادہ تر کیسز سوئمنگ پول کے حوالے سے رپورٹ ہوئے ہیں وہاں صفائی کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔مصباح الدین:۔ تمام سوئمنگ پولز بغیر کلورینیشن کے کام کررہے ہیں علاوہ فائیواسٹارز ہوٹلز کے دھابیجی سے پانی کراچی آنے تک سادہ کہلایاجاسکتا ہے۔ جن کی کلورینیشن نہیں ہوتی ۔ البتہ پیپری، دھابے جی گھارو،کے علاوہ کراچی کے فلٹر پلانٹوں پر کلوری ینیشن کی جاتی ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ گرمیوںکی چھٹیوں میں واٹر پارکس یاپولز وغیرہ پرجانے سے گریز کریں۔ جہاں صفائی کے انتظامات ناقص ہیں۔ڈاکٹر قیصر سجاد: اس موقع پر ہمیںشہریوں کی رہنمائی کرنی چاہیے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ پانی میں کلورین کا ہونا بہت ضروری ہے یہ کسی نہ کسی طریقے سے یہ جراثیم کو مارتی ہے۔ نیگلیریا کوئی وائرس نہیں ہے۔ بلکہ ایک عام پیرا سائٹ ہے۔دنیا: عام قاری کو بتادیں کہ وائر س اور پیراسائٹ میں کیا فرق ہے؟ڈاکٹر قیصر سجاد:۔ وائرس چھوت کی بیماری پھیلاتا ہے جو ایک سے دوسرے کو لگ سکتی ہے۔ لیکن نیگلیریا ایک سے دوسرے کو نہیں لگتی کلور ینیشن ہی بہتر طریقہ ہے جس سے ہم اس پر قابو پاسکتے ہیں یا 64سنٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت ہوجائے تو مرجاتاہے۔ ہمارے تجربے کے مطابق یہ گرم اور تازہ پانی میں بڑھتا ہے۔ کراچی میں جب گرمیاں شروع ہوتی ہیں تب ہی یہ سامنے آتا ہے اس سے پہلے نہیں آتا۔ گرمی ختم ہوگی تو یہ بھی ختم ہوجائے گا۔مگر ہماری اور ہمارے اداروں کی ذمے داری بنتی ہے کہ اس بیماری کو پھیلنے سے روکا جائے۔ 65 برسوں میں حکومت نے صحت کو خاص ترجیح نہیں دی۔ سوئمنگ پولز بغیر مانیٹرنگ کے کھل رہے ہیں۔انہیں فوری طورپر مانیٹر کرنا پڑے گا۔ جتنے بھی شہر میں یا شہرسے باہر سوئمنگ پولز میں انہیں چیک کیا جائے ۔دنیا:۔ یہ پیراسائٹ دماغ پر کیسے حملہ کرتا ہے، ابتدائی علامات کیا ہوتی ہیں۔ لوگوں کو کیسے اندازہ ہوکہ یہ مرض حملہ آور ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر قیصر سجاد: جب کیس آخری مراحل میں ہو تو کوئی علاج نہیں مریضوں کی موت ہی واقع ہوجاتی ہے ۔ اس مرض کی خوف ناک بات یہ ہے کہ جتنے بھی لوگ اس میں مبتلا ہوئے۔ 99 فی صد ہلاک ہوچکے ہیں۔ کیوں کہ یہ دماغ کو تباہ کرتا رہتا ہے۔ اس مرض کی علامات یہ ہیںکہ سر میں درد ہوگا۔ بخار ہوگا۔ متلی اور اُلٹی بھی ہوگی، اگر کیس زیادہ خراب ہوا تو دماغ میں چلا جائے گا۔ دماغ کی جھلیوں میں سوزش آجائے گی۔ نتیجتاً گردن اکڑ جائے گی۔ جسے گردن توڑ بخار بھی کہتے ہیں ۔ اس کے بعدمریض کو ما میں چلاجاتا ہے جس کا علاج کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔آج کل لوگوں میں تین چار قسم کے بخار ہورہے ہیں۔ ایک ٹائیفائڈ۔ وائرل قسم فرنجاٹیٹس گلے کی بیماریوں ہیں لیکن اگر کسی کو بھی ایک دو دن بخار رہے اور وہ سر میں درد۔ اُلٹی محسوس کرے تو فوری طور پر تجربہ کار ڈاکٹر سے مشورہ کرے ۔ تاکہ بروقت علاج کرائے حالت کو کنٹرول کیا جاسکے۔دنیا: کیا نیگلیریا کا اردو میں کوئی نام ہے؟ڈاکٹر قیصر سجاد: اردو میں کچھ نہیں کہہ سکتے نیگلیریا ایک جراثیم کانام ہے لیکن اسے پریب ایٹنگ ایمیبا کہتے ہیں ۔اہم مسئلہ اس میں لیبارٹری کی تشخیص کا آتا ہے جو دماغ کا پانی جسے ایسائفل فلیوڈ کہتے ہیں اس کے ذریعے ہوسکتا ہے اور دماغ کی امیجنگ کی ہے آج کل جدید ٹیکنالوجی آگئی ہے سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی ان کے ذریعے مددلی جاسکتی ہے۔لیکن مسئلہ یہ کہ ہماری لیبارٹریز میں ایسے ماہر لوگ نہیں ہیں جو ان جراثیم کی نشان دہی کرلیں۔ تشخیص کے حوالے سے مسئلہ قابل اعتماد لیبارٹری سے رجوع کریں۔ اور ماہر ڈاکٹر کو دکھائیں ۔دنیا:۔ لوگوں کا بعض لیبارٹریوں پر اعتماد نہیں ہوتا کیا اس میں پیتھالوجسٹ ماہر نہیں ہوتے کیا مسئلہ ہوتا ہے۔ڈاکٹر رفیق خانانی:ہمارے صحت کے شعبوں میںکوئی پُرسان حال نہیں جو شخص چاہے اسپتال چلا سکتا ہے لیبارٹری کھول سکتا ہے۔ امید ہے ہیلتھ ریگولیشن آجائے گا تو اس کے ذریعے ماہر لوگوں کو موقع ملے گا ، تب ہی یہ چیزیں ٹھیک ہوسکیںگی۔ڈاکٹر ارم خان: یہ مختلف قسم کا جراثیم ہوتا جسے شناخت کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا، اس کے لیے ماہر مائیکرواسکوپسٹ ہونا چاہیے جس کی آنکھ بھی تیز ہو ورنہ نتیجہ اچھا نہیں مل سکتا۔ ہمارے ہاں اچھا قابل اعتماد لیبارٹریز بھی موجود ہیں۔جن میں ہر طرح کی سہولتیں موجود ہیں البتہ ہر طرح کے ٹیسٹ پر لیبارٹری میں تو نہیں ہوسکتے۔ بیماری کے حوالے سے بتائوں کہ ہمارے ہاں پانی کے سیمپل کا کلچرل ٹیسٹ کرنے کی سہولت بھی ہے۔ لیکن باقی کے ٹیسٹ میں مزید ایک اضافی ٹیسٹ کرنا بہت ضروری ہے کیوں کہ پانی میں بہت سارے امیبا ہوتے ہیں مگر تمام کے تمام دماغ کو نقصان پہنچانے والے نہیں ہوتے۔ ڈاکٹر قیصر سجاد:۔ہمارے یہاںروز بروز مسائل بڑھتے جارہے ہیں اور مطالبہ کرتے رہے ہیں معیاری لیبارٹریاں ہوں اور ہر کیس کی باقاعدہ انویسٹی گیشن ہو۔ بدقسمتی سے ہماری لیبس اچھی نہیں ہیں۔ باقاعدہ اور صحیح تشخیص نہیں ہوتی۔ ڈینگی آیا۔ برڈفلو۔ کانگوآئی لیکن بہت سے کیسوں میں درست تشخیص نہیں ہوپاتی ۔ پی ایم اے کے حوالے سے بات کرنا چاہ رہاہوں۔ جو غریبوں کی بھلائی کے لیے ہے، کیوں کہ غریب ہی سرکاری اسپتالوں اور لیبارٹریوں میں جاتا ہے ۔ جس دن سرکاری اسپتالوں میں ہمارے ڈاکٹرز یا ان کے رشتے دار وغیرہ بھی اپنے ٹیسٹ کرانے لگیں گے اس کا مطلب یہ ہوا کہ لیبارٹری کا معیار اچھا ہوگیا ہے۔ یہاں تک کہ اینیتھیٹس بھی باہر سے ٹیسٹ کراتے ہیں ۔ کم ازکم اتناہوجائے کہ آغا خان کا لیول بھی آجائے تو بہت بڑی بات ہے۔ دنیا:۔ حکومتی سطح پر کوئی قابل اعتماد ایسی لیب ہے جہاں غریب جاکر اپنا ٹیسٹ کراسکے؟ڈاکٹر سریش کمار:۔ جتنے بھی بڑے اور ٹیچنگ اسپتال ہیں ان میں سو فی صد مفت ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے اور معیار بھی ہے۔ کراچی میں جناح، سول، عباسی شہید جتنے بھی بڑے اسپتال ہیں ان میں سوفی صد سہولتیں موجود ہیں اور معیار بھی ہے اسی کو ئی بات نہیں کہ یہ چیزیں موجود نہیں ۔ نیگلیریا سے متعلق جو کسی سامنے آیاہے۔اس کی رپورٹیں ہم خصوصی طور پر اسلام آباد میں این آئی ایچ بھیجتے ہیں۔دنیا:۔ سرکاری لیبارٹری اور اسپتالوں کا وہ معیار نہیںہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کام کرنے والے لوگ بھی لیبارٹریوں کا رخ کرتے ہیں حالاں کہ آپ کے مطابق سہولتیں موجود لیکن ان پر بھروسا کیوں نہیںہے۔ڈاکٹر سریش کمار:۔ نجی اسپتالوں کی بعض رپورٹس ایسی ہیںجو کئی مرتبہ غلط ثابت ہوئی ہیں میرے مطابق ان لیبارٹریوں سے رپورٹ لے کر جانا زیادہ مناسب ہے جہاں مریض سے مکمل معلومات حاصل کرنے کے ساتھ بیماری کی صحیح تشخیص بھی ہورہی ہو۔میں یہاں یہ بھی بتادوں کہ نیگلیریا کے حوالے سے صوبائی وزیر صحت نے فوری طورپر میٹنگ بلا کر ہدایات دیں اور 1339 کال سینٹر کے ذریعے اور SMS کے ذریعے تمام شہریوں کو آگہی پیغامات بھیجے ہیں اس کے علاوہ ہینڈ بلز بھی تقسیم کیے ہیں جو عالمی ادارۂ صحت نے دیے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز میڈیا کے ذریعے لوگوں میں سمجھ بوجھ دینے کے لیے ہمہ وقت مصروف ہیں۔ پھر شہر بھر سے پانی کے نمونے مشترکہ طور پر جمع کیے جارہے ہیں اس طرح رپورٹنگ کا نظام بھی قائم ہے کہ جیسے ہی کسی شخص میں نیگلیریا کی علامات ظاہر ہووہ اطلاع فوراً ہمیں مل جائے۔ وزیر صحت نے ایک ٹیم بنائی ہے جو روزانہ کی بنیاد پر رپورت مرتب کرتی ہے۔ پہلے جس طرح پورے شہر سے نمونے لیے تھے آج اور کل بھی لیے ہیں اور اب کافی بہتری نظرآئی ہے۔دنیا: ڈاکٹر جنید شاہ صاحب! آپ اس وقت صحت کے وزیر کے عہدے پر متمکن ہیں آپ بتایئے کہ اس سلسلے میں حکومتی سطح پر کیا اقدامت اٹھائے جارہے ہیں؟ڈاکٹر جنید خان: ہم یہاں لوگوں کو عام شہریوں کو نیگلیریا کے بارے میں شعور دینے کے لیے جمع ہوئے ہیں کہ نہ کہ لیباریٹریوں کے معیار پر گفتگو کرنے۔ میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں ہمیں مثبت سوچ کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ جس کو آپ لوگ اچھی لیب کہہ رہے ہیں کیا ہوتی ہے؟ مان لیا کہ پیتھالوجسٹ اچھا ہوگا لیکن یہ یاد رکھیں کہ ہر لیب ہر طرح کا ٹیسٹ نہیں کرتی۔ جس طرح ہر اسپتال میںہر طرح کا علاج نہیں ہوتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہر لیب میں نیگلیریا کی جانچ کی جاسکے۔ کیوں کہ تشخیص کے لیے صرف پیتھالوجسٹ ہی نہیں مشینیں بھی درکار ہوتی ہیں۔ اور دیگر ضروری سامان بھی چاہیے ہوتا ہے۔میں ایک بات کی وضاحت کردوں کہ پچھلے سال دس کیس نیگلیریا کے رجسٹرڈ ہوئے تھے۔ اس سال ابھی تک صرف ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔ اس لیے پہلے دن ہی جب ہمیں معلوم ہوا کہ کیس رپورٹ ہوا ہے۔ ہم نے ابھی سے اس سلسلے میں اقدامات شروع کردیئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ کہنا کہ یہ بیماری گرمی میں آتی ہے تو گرمی تو پنجاب، کوئٹہ وغیرہ میں بھی پڑرہی ہے، لہٰذا گرمی یا سردی اس کی خاص وجہ میرے نزدیک نہیں ہے۔ پھر یہ کہنا کہ پانی گندا ہے پانی کے ٹینک گندے ہیں یہ صورت حال تو پوری ملک ہی میں ہے۔ وہاں بھی کلورینیشن ہوتی ہے جس طرح ہمارے ہاں ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ باتیں بحث و مباحثہ لگتی ہیں۔ اصل مقصد تو یہ ہونا چاہیے کہ ہم صورت حال سے کس طرح نمٹ سکتے ہیں۔ جتنی باتیں ابھی تک ہوئی ہیں وہ کسی حد تک صحیح ہیں لیکن بعض قیاس آرائیاں بھی ہیں۔ کیوں کہ اگر گندے ٹینک سے یہ بیماری ہوتی تو نیگلیریا پنجاب میں کیوں نہیں۔ سکھر میں کیوں نہیں، لاڑکانہ، شکارپور میں کیوں نہیں۔ وہاں تو بہت زیادہ گندگی ہوتی ہے۔ کراچی تو کسی حد تک بہتر حالت میں ہے۔ اگر نیگلیریا گندگی سے ہورہی ہے یا پانی میں کلورین کی کمی سے ہے تو میرا خیال ہے یہ صحیح نہیں اسے کنٹرول کرنے کے لیے سرکاری سطح پر جو فوکل ٹیم بنائی گئی ہے اس کا مقصد یقینا بیماری کو کنٹرول میں رکھنا ہے۔ اگرکہ ہمیں شک ہے کہ کلورین کی کمی کی وجہ سے ہے تو ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ امیبیا اور پیراسائٹ کی افزائش کے لیے کیا کیا حالتیں ہوتی ہیں۔ اور اس میں ایک حالت کلورین کی کمی بھی ہے۔ اگر اس کو بھی کنٹرول کرلیں تو ہوسکتا ہے کہ اُس سے بھی فرق پڑجائے۔ تمام جھیلوں میں یا تالابوں میں جاکر توکلورین کوئی بھی نہیں ڈال سکتا اب لوگو گرمیوں میں جھیلوں میں جاکر نہائیں گے کہ ہر ایک گھر میں نہ تو سوئمنگ پول ہے اور نہ ہی وہ ستھرے سوئمنگ پولز جو فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ہوتے ہیں وہاں جاکر یہ شوق پورا کرسکتا ہے۔ لیکن نیگلیریا اگر ایک مرتبہ ہوگیا ہے تو پھر کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا۔لیب کی تشخیص بتاتی ہے کہ بہت سارے کیسز گردن توڑ بخار کے ہوتے ہیں اور ہمیں بھی نہیں پتاچلتا کہ یہ گردن توڑ بخار تھا لیکن نیگلیریا نہیں۔ ہوسکتا ہے کل شکار پور میں کوئی گردن توڑ بخار سے مرا ہو اس کا نیگلیریا کا ٹیسٹ ہوا ہی نہ ہو۔ اور شاید لوگ اس کی تدفین کے بعد یہی کہہ رہے ہوں کہ گردن توڑ بخار ہوگیا تھا۔ جس طرح سے آپ نے کہا لوگ کلورین ڈالنا شروع کردیں گے اور ہائپرکلورینیشن کی مثبت علامات آنا شروع ہوجائیں گی۔دنیا: جو لوگ پکنک کے لیے فارم ہائوسز جاتے ہیں۔ وہاں کی انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ سوئمنگ پولز میں صفائی کا نظام بہتر بنائیں۔مصباح الدین: میں دنیا نیوز کے توسط سے کمشنر کراچی سے درخواست کروں گا کہ گرمیوں کے سیزن میں سوئمنگ پولز کو نبد کردیا جائے۔ یہ سوئمنگ پولز بورنگ کا پانی اور واٹر بورڈ کا پانی چوری کرکے استعمال کرتے ہیں جس میں کلورین شامل نہیں ہوتی اور یہی بات نیگلیریا کا سبب بن سکتی ہے۔ کراچی کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ان سوئمنگ پولز کی نگرانی کا نظام قائم کریں۔ اور کم از کم گرمیوں میں تو انہیں بند ہی کردیں۔جنید شاہ: سوئمنگ پولز کو بند کرنا مسئلے کا حل نہیں۔انہیں معیاری بنانا چاہیے ایک طریقہ یہ ہے کہ عالمی ادارۂ صحت نے پچھلے سال دو لاکھ گولیاں پانی صاف کرنے کی دی تھیں اس سال ایک لاکھ دینے کا وعدہ کرچکے ہیں اور یہ بھی وعدہ کرچکے ہیں ہم مزید اور بھی دیں گے۔ یہ گولیاں وہاں کارآمد یا موثر ہوں گی جہاں کلوری نیشن کی سطح کم ہو۔ یہ گولیاں آئیں گی تو ہم انہیں عوام میں تقسیم کردیں گے یہ ہماری ذمے داری ہے ان کے ذریعے نیگلیریا آسانی سے کنٹرول ہوسکتا ہے۔دنیا: دیکھا گیا ہے کہ سوئمنگ پولز والے پانی صاف کرنے کے لیے بلیچنگ کا استعمال کرتے ہیں کہ ایک مٹھی پول میں ڈال دی، کیا یہ بلیچنگ بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہے؟جنید شاہ: بالکل نقصان پہنچاتی ہے ہائپرکلوری نیشن کی علامات ہوتی ہیں۔ڈاکٹر ارم خان: جہاں کلوری نیشن ہوتی ہے وہاں خاص طور پر تاکید کی جاتی ہے کہ فوری طور پر پانی سے باہر آجائیں کیوں کہ ان سے بہت سارے فیومز یعنی ایک طرح کی گیس نکلتی ہے یہ فیومز آنکھوں۔ ناک کے ذریعے پورے نظام ہضم کو متاثر کرسکتی ہے۔ اور اگر زیادہ مقدار میں ڈالی جاتی ہے تو بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہیے۔ لیکن 2 سے 2.8 تک جہاں پانی جمع کیا جاتا ہے وہاں ہر 2.8 پی پی ایم تک بھی ڈال سکتے ہیں۔ (کلورین کی مقدار معلوم کرنے کے لیے انٹرنیٹ پر عالمی ادارہ صحت (WHO) کی طرف سے تفصیلی رہنمائی موجود ہے۔لامحالا مریض فیملی فزیشن کی طرف جاتا ہےجس کے لیے بہت اہم ہے کہ ان ساری چیزوں کو دماغ میں رکھتے ہوئے جتنا تشخیض کرسکتے ہیں کریں، اور فوری طور پر اسپتال کی طرف ان کو روانہ کریں۔دنیا: جب ڈینگی کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو شہر کے سوئمنگ پولز بند کردیئے تھے۔ اس کے بغیر آدمی زندہ تو رہ سکتا ہے؟ڈاکٹر جنید شاہ: ڈینگی کے کیسز کی تعداد زیادہ تھی اور پھر اس کا مچھر اُڑتا ہوا جاتا ہے لہٰذا وہاں خطرات زیادہ تھے۔ مگر یہاں تو گھروں میں بجلی بند، موبائل فون بند، موٹر سائیکل پر ڈبل سواری بند اور اب سوئمنگ پول اور تالاب بھی بند کردیں گے تو پھر پورا ملک ہی بند کردیں۔ڈاکٹر اسلم پرویز: پچھلے سال ڈینگی کی وجہ سے سوئمنگ پولز دفعہ 144 لگادی گئی تھی سات روز کے لیے۔ اور ہم نے پنجاب کو فالو کیا تھا وہاں بھی پولز بند ہوئے تھے۔ مگر یہاں ان کی ایسوسی ایشنز ہائی کورٹ میں چلی گئی تھیں۔ اور پچھلے ہی ہفتے ہماری ہائی کورٹ سے جان چھوٹی ہے۔ ہر ماہ میں کم از کم ایک مرتبہ کورٹ گیا ہُوں یہ بتانے کے لیے کہ ہم یہ پابندی ہٹا چکے ہیں۔ سوئمنگ پولز بند کرنے سے بھی ہمارے لیے مسئلے پیدا ہوں گے، البتہ ایک آرڈر جاری ہوچکا ہے کہ سوئمنگ پولز مالکان کلورین کی مقدار کنٹرول کریں۔دنیا: پانی کے اب تک کہاں سے اور کتنے نمونے لیے گئے ہیں اور ان کی رپورٹیں کیا ہیں؟ڈاکٹر اسلم پرویز: ہماری چار ٹیمیں روزانہ نکلتی ہیں ہر ٹیم 10 نمونے لیتی ہے یہ نمونے مختلف مراحل میں مختلف مقامات سے لیے جاتے ہیں۔ اب تک 158 میں سے صرف 17 نمونے نیگیٹو آئے ہیں اور یہ نمونے بھی شروع کے دن کے ہیں۔اس کے بعد کے تمام نمونوں میں مطلو بہ مقدار میں کلورین موجود ہے۔ گزشتہ دنوں ہمیں ایک نیگٹیو نمونہ گڈاپ سے ملا۔ لیکن وہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی حدود سے الگ تھا۔