حجاج بن یوسف کا مشہورِزمانہ خطبہ
اسپیشل فیچر
کوفہ کی بڑی مسجد…اہل کوفہ کی خبر ہو چکی ہے کہ نیا گورنرخطاب کریگا۔ شہر کے لوگ جوق در جوق مسجد میں جمع ہو چکے ہیں۔ اتنے میں ایک شخص سر پر عمامہ باندھے اور عمامہ کے پلو سے اپنا چہرہ چھپائے گلے میں تلوار اور شانے پر کمان لٹکائے مسجد میں داخل ہوتا ہے۔ وہ سیدھا منبر پر چڑھ جاتا ہے لوگ اس نقاب پوش کو دیکھ کر خاموش ہو جاتے ہیں اور اس کے بولنے کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن وہ شخص بدستور خاموشی سے کھڑا حاضرین کو گھورتا رہتا ہے۔ لوگ آپس میں کہتے ہیں…برا ہو بنوامیہ کا کہ انہوں نے ایسے گونگے شخص کو عراق کا گورنربنا دیا۔ عمیر بن ضابئی برجمی تو اسے پتھر مارنے کا ارادہ بھی کرتا ہے لیکن لوگ نتیجہ معلوم کرنے کے خیال سے اسے روک دیتے ہیں۔ وہ شخص لوگوں کی نگاہیں اپنی طرف اٹھتی دیکھتا ہے تو اپنے چہرے سے یک لخت عمامہ ہٹا دیتا ہے اور کہتا ہے۔خطاب’’میں بڑا مشہور اور تجربہ کار شخص ہوں۔ جو اپنا عمامہ ہٹائوں گا تو تم مجھے شناخت کرلو گے۔ اے کوفیو میں دیکھ رہا ہوں کہ سروں کی کھیتی پک کر تیار ہو چکی ہے اور اب اس کے کاٹنے کا وقت آ گیا ہے میں اسے کاٹنے کیلئے آیا ہوں۔ مجھے عماموں اور داڑھیوں پر خون لگا نظر آ رہا ہے۔اے زیم (اونٹنی) یہ تیز دوڑنے کا وقت ہے۔ لہٰذا تیز دوڑ۔ گزشتہ رات اسے ایک تیز ہانکنے والا ملا ہے جو بکریوں اوراونٹوں کا چرانے والا نہیں ہے۔ نہ قصائی ہے جو کندے پر گوشت کاٹتا ہے۔(یہ بیان حجاج نے اشعار کی صورت پڑھا… اور یہ بھی)رات میں اس کو ایک سخت، ہوشیار، صحرائی گزرگاہوں سے باخبر، ہانکنے والا ملا ہے۔ جو مہاجر ہے اور عرب کا بدو نہیں… جنگ تیز ہو گئی ہے۔ دوڑو! اور بہت نازک شکل اختیار کر گئی ہے۔ لہٰذا تم بھی سنجیدگی سے جدوجہد کرو۔ سخت کمانیں چڑھی ہوئی ہیں۔ جو نوجوان اونٹ کے ہاتھ کی طرح یا اس سے بھی زیادہ سخت ہیں اب جو سر پر آن پڑا ہے۔ اس سے کوئی مفر نہیں۔اے عراقیو! مجھے کسی چیز سے خوفزدہ نہیں کیا جا سکتا۔ نہ مجھ پرزور یا دبائو ڈالا جا سکتا ہے۔ میں بہت جانچ پڑتال کے بعد ہوشیار اور لائق ثابت ہوا ہوں اور بڑے تجربے کے بعد ڈھونڈ کر منتخب کیا گیا ہوں۔ امیر المومنین اطال اللہ بقاء ، نے اپنے ترکش کے تمام تیر نکالے پھر ان کی لکڑیوں کو جانچا اور مجھے سب سے زیادہ تلخ اور مضبوط لکڑی کا تیر پا کر تمہارے اوپر مسلط کردیا۔ کیونکہ تم فتنوں میں پیش پیش ہو اورگمراہیوں میں پڑے رہتے ہو۔بخدا! میں تمہیں اس طرح گٹھڑی میں باندھ دوں گا جس طرح ببول کی لکڑیوں کا گٹھا باندھا جاتا ہے اور اس طرح بے دردی سے ماروںگا جس طرح پرائے اونٹوں کو مارا جاتا ہے۔ تمہاری مثال اب ان بستی والوں کی طرح ہے جن کو ہر جگہ سے امن و اطمینان کے ساتھ رزق ملتا تھا لیکن انہوں نے اللہ کے انعامات و احسانات کی قدر نہ کی تو اللہ نے ان کے اعمال کی سزا میں انہیں بھوک اور خوف میں مبتلا کردیا۔بخدا! میں جوکچھ کہوںگا اسے پورا کروں گا۔ جس بات کا ارادہ کروں گا اسے پورا کرکے چھوڑوں گا اور جوکچھ کروں گا ٹھیک اور مناسب کروں گا۔ امیر المومنین نے مجھے حکم دے دیا ہے کہ تمہارے وظیفے تم کو دے دوں اور تم کو تمہارے دشمنوں سے لڑائی کیلئے’’مہلب بن ابی صفرہ‘‘ کے ساتھ بھیج دوں۔ بخدا! جس کو میں وظیفہ وصول کرنے کے تین دن بعد اس کے گھر میں بیٹھا پائوں گا اس کی گردن اڑا دوں گا۔(’’بازگشت،مشاہیرِ عالم کی یادگار تقریریں‘‘ ترتیب و تدوین،ادریس آزاد)