ماہ شعبان اور شب برات کی اہمیت و فضیلت
اسپیشل فیچر
شعبان آپ ﷺ کا مہینہ ہے اور رمضان امت رسول ﷺ کا مہینہ ہےہ شعبان میں، خواہ انسان کے گناہ بنی کلب قبیلے کی بکریوں کے بالوں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں، اللہ معاف فرما دیتا ہے۔‘‘ماہ شعبان برکات اور رحمتوں کا مہینہ ہے ۔ رب تعالیٰ نے اپنی تخلیق کردہ متعدد چار چار چیزوں کو افضل کیا اور پھر ان چار میں سے ایک کو مزید فضیلت بخشی۔ مثلاً پیغمبر تو بے شمار بھیجے (ایک روایت کے مطابق کم وبیش ایک لاکھ 24 ہزار پیغمبر دنیا میں آئے) ان پیغمبروں اور رسولوں میں حضرت ابراہیمؑ ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰ ؑ اور آپ ﷺ کو فضیلت بخشی پھر ان چاروں میں سے بھی آپ ﷺ کو امام الانبیا اور خاتم النبین ﷺ ہونے کا اعزاز عطا ہوا۔ آسمانی صحیفوں اور کتب میں چارکتب نمایاں ہوئیں اور ان چار میں سب سے زیادہ فضیلت قرآن پاک کو ملی۔ فرشتے بے شمار ہیں ان کی کثرت تعداد کا عالم یہ ہے کہ خانہ کعبہ جو بیت المعمور کی صورت میں عالم بالا پر ہے اس کا طواف فرشتے ہروقت کرتے رہتے ہیں۔ کثرت تعداد کی وجہ سے ایک فرشتہ صرف ایک ہی بار طواف کرپائے اور قیامت تک دوبارہ اس کی باری نہیں آئے گی۔ فرشتوں کی اس کثیر تعداد میں سے چارفرشتے نمایاں ہیں اور ان میں زیادہ فضیلت حضرت جبرائیلؑ کو حاصل ہے۔ اسی طرح دنیا میں پہاڑ کئی ایک ہیں لیکن ان میں نمایاں چارہی پہاڑ ہیں اور ان چار پہاڑوں میں کوہ طور کو فضیلت ہے۔ صحابہ کرام ؓ میں سے چار صحابہ کرام ؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرفاروق ؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ نمایاں ہیں۔ بارہ میں سے چار مہینے زیادہ فضیلت والے کہلائے اور ان چار میں سے بھی اولیت ماہ شعبان کو ملی۔ اس کی فضیلت کی اصل وجہ یہ ہے کہ جس طرح چاند کی روشنی ٹھنڈی ہے، اس میں ایک رومانس ہے لیکن وہ روشنی اس کی اپنی نہیں، یہ سورج کی کرنیں ہیں جو چاند سے ٹکراکر منعکس (Reflect)ہوتی ہیں اور چاندنی کی صورت میں ہم تک آتی ہیں۔ اس لحاظ سے فضیلت بہرحال سورج ہی کو حاصل ہے کیونکہ روشنی کا اصل منبع سورج ہے۔ بعینہ وہ برکات اور خیر جو ہم تک ماہ رمضان کے ذریعے سے پہنچتی ہے، وہ سب ماہ شعبان کا فیض ہے۔ رجب اللہ کا مہینہ ہے جبکہ شعبان آپ ﷺ کا مہینہ ہے اور رمضان امت رسول ﷺ کا مہینہ ہے کیونکہ اس ماہ میں امت کے گناہ دھل جاتے ہیں۔ شعبان کے روزوں کی فضیلت بھی بہت زیادہ ہے لیکن ایک بات یادرکھنے کی ہے کہ اگرچہ شعبان کے روزوں کی فضیلت وبرکت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں پورے روزے نہیں رکھے کیونکہ ہم پر صرف رمضان کے روزے فرض ہیں۔ شعبان کے روزوں کی فضیلت بہت ہے تاہم شعبان کے آخری سوموار کے روزے کی اہمیت و فضیلت سوا ہے۔ علاوہ ازیں پورے کے پورے ماہ شعبان میں تلاوت کلام پاک کی برکات بے شمار ہیں۔ راتوں میں بھی چارراتیں فضیلت کی ہیں اور ان چار میں سے شب قدر بلند تر ہے۔ ماہ شعبان کی پندرہ تاریخ کو شب برأت ہوتی ہے۔ یوں تو ہرشب اللہ کو یادکرنا بے حد پسندیدہ عمل ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:’’اے جھرمٹ مارنے والے ! رات میں قیام فرما سواکچھ رات کے، آدھی رات یا اس سے کچھ کم کرو۔‘‘ (سورہ مزمل :آیات ۱تا ۳)تاہم شب برأت میں شب بھر کی عبادت ہمارے لیے باعث نجات بھی ہے اور باعث برکت بھی۔ عربی میں ’’برأت ‘‘ کا لفظ’’ رہائی‘‘ کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ اولیائے کرام کے مطابق رہائی سے مراد یہ ہے کہ اس رات نیک لوگوں کے گناہ اور نامرادی ان سے دور کردی جاتی ہے اس لیے اس کو رہائی والی رات یعنی ’’شب برأت‘‘ کہاجاتا ہے۔ یہ وہ رات ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مبارک رات کہا۔ اس رات میں وہ تمام لوگ جو آئندہ سال حج کی سعادت حاصل کریں گے ان کے نام حاجیوں کی فہرست میں لکھ دیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح وفات پانے والوں کے نام رخصت ہوجانے والوں کی فہرست میں لکھ دیئے جاتے ہیں۔ کس شخص کو کتنا رزق ملے گا اور وہ کتنا بامراد ہوگا… یہ بھی اسی رات لکھ دیا جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرانام اس سال انتقال کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہوتو میں چاہتا ہوں کہ میں اس وقت روزے کی حالت میں ہوں۔ جیسے ہی شعبان کا چاند نظر آئے، غسل کرکے اور باوضو ہوکر تلاوت کلام پاک کثرت سے کرنی چاہیے اور یہ معمول تمام مہینہ جاری رہنا چاہیے۔ آپ ﷺ کا یہی معمول رہا ہے۔ جوشخص شب برأت میں صلٰوۃ الخیر پڑھتا ہے اس کے آئندہ شب برأت تک کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ صلوٰۃ الخیر 100 رکعات پر مشتمل ہے۔ ان سورکعات میں 1000 بار سورۂ اخلاص پڑھی جاتی ہے یوں ہررکعات میں دس بار سورہ اخلاص پڑھی جاتی ہے۔ شب برأت میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کی جائے اور رب تعالیٰ کے حضور عرض کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی باعزت کردے۔ اللہ تعالیٰ سے جسمانی وروحانی بیماریوں سے نجات کی دعا مانگیں۔ اللہ سے اس کی دوستی اور قرب مانگیں رزق میں وسعت مانگیں کہ ہمارے اخراجات پورے ہونے کے بعد ہمارے پاس رزق بچ رہے اور ہم اس سے اللہ کے دوسرے بندوں کی خدمت کرسکیں۔ ( یاد رہے کہ یہاں رزق سے مراد مال ہے ۔)اس رات آپ ﷺ نصف شب کے قریب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے۔ آپ ﷺ کا قیام مختصر اور سجدہ طویل ہوتا۔ آپﷺ سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی چھوٹی سی سورۃ تلاوت فرماتے۔ ایک مرتبہ حضرت بی بی عائشہ ؓ نے محسوس کیا کہ آپ ﷺ بستر پر نہیں ہیں۔ آپ ﷺ کو وہاں نہ پاکر حضرت عائشہؓ کو گمان ہوا کہ شاید آپ ﷺ کسی دوسری زوجہ محترمہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نیم اندھیرے میں ہاتھوں سے راستہ ٹٹولتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھیں کہ اچانک ان کے ہاتھ آپ ﷺ کے پائوں سے ٹکرائے۔ انہوں نے دیکھا کہ آپ ﷺ سجدے میں ہیں اور یہ دعا مانگ رہے ہیں: ترجمہ: ’’اے اللہ میں تیری ناراضگی سے تیری رضا اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ چاہتا ہوں۔ میں تیری تعریف کا احاطہ نہیں کرسکتا ۔ تو ویسے ہی ہے جیسا تو نے خود اپنی تعریف فرمائی۔‘‘صبح جب حضرت عائشہ ؓ کی آپﷺ سے ملاقات ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’ اے عائشہ ؓ! کیا تمہیں شک گزرا کہ میں دوسری زوجہ محترمہ کے پاس چلا گیا ہوں ؟‘‘ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’ایسا نہیں تھا میں تو شب برأت کی برکات سمیٹ رہاتھا۔ تمہیں پتا ہے کہ میں سجدہ میں کیا دعا مانگ رہا تھا؟‘‘ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا۔ ’’جی ہاں!‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ’’مجھے جبرائیلؑ نے یہی دعا پڑھنے کیلئے کہا تھا۔‘‘ آپ ﷺ سے روایت ہے کہ اس رات جنت کے300 دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ آخری پہر میں آپ ﷺ نے دیکھا کہ جنت کے دروازے کھلے ہیں اور ہردروازے سے فرشتہ آواز لگارہا ہے کہ 1۔ ہے کوئی آج کی رات بخشش مانگنے والا تاکہ اس کو بخش دیا جائے۔ 2۔ ہے کوئی آج کی رات رزق مانگنے والا تاکہ اس کو رزق عطا کردیا جائے۔ اسی طرح ہردروازے سے فرشتہ صدا لگارہا تھا۔ آپ ﷺ نے حضرت جبرائیل ؑ سے پوچھا کہ یہ 300دروازے کب تک کھلے رہیں گے ؟ حضرت جبرائیل ؑ نے عرض کیا۔’’اول شب سے طلوع آفتاب تک یہ دروازے کھلے رہیں گے۔‘‘ ’’مبارک ہے وہ شخص کہ جس نے اس رات میں قیام کیا، جس نے اس رات میں سجدہ کیا۔ اس رات میں رکوع وسجود کرنے والے پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔‘‘ اس رات اگر ہم اس طریقے پر عمل کرلیں جو آپ ﷺ کا معمول رہا تو اس کا دوہرا ثواب ہوجائے گا۔ ایک تو سنت کی پیروی ہوجائے گی اور دوسرا اللہ کی بے پایاں رحمت بھی حاصل ہوجائے گی ۔1۔ سجدے میں گر کر ہم وہ دعا مانگ لیں جو حضرت جبرائیلؑ نے آپ ﷺ کو تاکید فرمائی تھی۔ 2۔ اس رات ہم نوافل ادا کریں اور اس کے بعد اللہ سے دعاکریں۔ 3۔ شب برأت میں کثرت سے تلاوت کلام پاک کرنے سے اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ ہم اکثر عبادت کو کل پر ٹالتے رہتے ہیں۔ اگر شب برأت یا ماہ شعبان میں کسی بھی شب شیطان ہمیں اکسائے کہ آج کی عبادت کل پر ڈال دو تو ہمیں اس خیال سے لڑنا چاہیے کیونکہ یوم صرف دوہی ہیں …ایک گزارا ہوا کل اور ایک آج جس میں سے ہم گزررہے ہیں کیونکہ آنے والے کل کی خبر نہیں کہ ہم دیکھ پائیں یا نہیں۔ 1۔ گزرا ہوا کل نصیحت ہے جوکل ہم نے کیا، جو کچھ ہمارے پیش آیا اور جوہم نے اس گزرے کل سے سیکھا، عقل مند کیلئے اس میں نصیحت ہے۔ 2۔ آج کا دن …جس میں سے ہم گزررہے ہیں۔ یہ غنیمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دن نصیب کردیا۔ اگر گزشتہ رات ہمارا سانس رک گیا ہوتا تو آج کا یہ دن ہم دیکھ ہی نہیں پاتے۔ 3۔ آنے والا کل …خیال ہے، امید ہے۔ کون جانے کل ہم زندہ ہوں بھی یا نہیں۔ 4۔ اسی طرح رجب کا مہینہ گزرچکا ۔ اس میں ہم نے کیا کیا، ہمارے ساتھ کیا پیش آیا، ہم نے اس سے کیا سیکھا ۔ یوں رجب کا مہینہ ماہ شعبان میں نصیحت ہوچکا۔ 5۔ شعبان میں سے ہم گزررہے ہیں۔ یہ غنیمت ہے کہ رب تعالیٰ نے ہمیں یہ مبارک مہینہ دکھادیا۔ اگرچہ اس مہینے میں نیکی کی طرف رغبت اور گناہوں سے اجتناب ویسے نہیں ہوپایا جیسا کہ حق تھا۔ اس مہینہ میں رب تعالیٰ نے ہمیں زندہ رکھا تاکہ ہم موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ 6۔ رمضان کے مہینہ میں نیکی کا اجر بہت ہے۔ یہ سوچ کر اگر ہم اپنی نیکی اور عبادت کو رمضان کے مہینہ کیلئے اٹھا رکھیں تو یہ خیال اور امید ہے جو نامعلوم کہ برآئے یا نہیں۔ لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ آج کو ہم غنیمت جان کر اس سے بھرپور فائدہ اٹھا لیں۔ شعبان کا جو مہینہ ہم دیکھ پائے، اس کو غنیمت جانیں اور اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی اور مغفرت کی دعا کرتے رہیں۔ آپ ؐ کا فرمان ہے کہ ’’بے شک ماہ شعبان میں، خواہ انسان کے گناہ بنی کلب قبیلے کی بکریوں کے بالوں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں، اللہ معاف فرما دیتا ہے۔‘‘ لیکن یہ یادرکھیے کہ دل میں کینہ رکھنے والا عادی شراب خور اور غیرخواتین کے پاس جانے والا شخص ،ان سب کو تب تک معاف نہیں کیا جائے گا جب تک وہ گناہوں سے توبہ نہ کرلیں ،ان کی بخشش مشروط ہے توبہ کے ساتھ۔٭٭٭