شب برات فضیلت وآداب
اسپیشل فیچر
’’حم، اس روشن کتاب کی قسم بے شک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے بے شک ہم ڈرسنانے والے ہیں۔ اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا ) فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ ہماری بارگاہ کے حکم سے، بے شک ہم ہی بھیجنے والے ہیں۔ (یہ آپ کے رب کی جانب سے رحمت ہے، بے شک وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔ آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس کا پروردگار ہے، بشرطیکہ تم یقین رکھنے والے ہو اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگی دیتا اور موت دیتا ہے۔ وہ تمہارا بھی رب ہے اور تمہارے اگلے آبائواجداد کا (بھی) رب ہے۔‘‘ (الدخان:1-8)حضور ﷺ نے فرمایا: شعبان شہری ورمضان شہراللہ (شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے ) مزید فرمایا کہ جو شعبان میں اچھی تیاری کرے گا اس کا رمضان اچھا گزرے گا اور وہ ماہ رمضان کی برکتوں اور سعادتوں سے لطف اندوز اور بہرہ مند ہوگا۔ شعبان المعظم کا پورا ماہ بابرکت و باسعادت اور حرمت و تعظیم والا مہینہ ہے لیکن اس مہینہ کو بطور خاص کچھ فضیلتیں، امتیازات اور شرف عطا کیے گئے۔ یہ مہینہ ’’شہر التوبہ ‘‘ بھی کہلاتا ہے اس لیے کہ توبہ کی قبولیت اس ماہ میں بڑھ جاتی ہے۔ اس ماہ میں مسلمانوں پر برکتوں کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ ماہ اس کا حق دار ہے کہ دیگر مہینوں سے بڑھ کر اس میں اللہ کی اطاعت و عبادت اختیار کی جائے۔ بزرگان دین نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اپنی جان کو اس مہینہ میں ریاضت ومحنت پر تیار کرلیں گے وہ ماہ رمضان المبارک کی جملہ برکتوں اور سعادتوں کو کامیابی کے ساتھ حاصل کریں گے۔ اس بناپر حضور ﷺ ماہ رمضان کے بعد سال کے 12مہینوں میں سب سے زیادہ روزے اس ماہ رکھتے تھے۔ اس ماہ کی ایک خاص امتیازی خصوصیت 15شعبان المعظم کی رات ہے۔ اس رات کو اللہ نے ’’لیلتہ مبارک‘‘ ’’برکت والی رات‘‘ کہا ہے۔ علماء ، مشائخ ، آئمہ ، مفسرین کی اکثریت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ شب قدر کے بعد سال کے 12مہینوں میں سب سے زیادہ افضل شب برأت ہے۔ ارشاد فرمایا: فیھا یفرق کل امر حکیم۔ ’’اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جداجدا) فیصلہ کردیا جاتا ہے۔‘‘ یعنی تمام حکمت والے ، فیصلہ کن، نافذا لعمل ہونے والے امور کی تنفیذ کا فیصلہ اس رات کیا جاتا ہے۔ حضرت عطاء بن یسار ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا :’’جب 15شعبان کی رات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ ملک الموت کو اگلے سال کے لیے موت وحیات کے امور نفاذ واجراء کے لیے سپرد فرمادیتے ہیں۔‘‘ بعض اذہان میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس رات تقدیریں ، رزق، موت وحیات کے فیصلے لکھے جاتے ہیں تو لوح محفوظ پر جو سب کچھ پہلے ہی لکھا جاچکا ہے اس کا معنی کیا ہے ؟دونوں باتوں میں مطابقت یہ ہے کہ اللہ کے علم میں تو سب کچھ پہلے سے ہی آگیا ہے اور سب کچھ پہلے ہی سے آجانا یہی اس کی لوح محفوظ ہے۔ اس کی لوح، اس کا علم ہے ۔ اس رات لکھے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ان امور کو نافذ کرنے کے لیے فرشتوں کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا ’’کہ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ 15شعبان المعظم کی رات بھی اپنے ظلم میں مصروف ہوتے ہیں یا ظلم وستم ڈھانے کے لیے منصوبے بنارہے ہوتے ہیں ان کا نام مرنے والوں کی فہرست میں آچکا ہوتا ہے۔‘‘ الغرض افراد ایسے منصوبہ جات میں مصروف ہوتے ہیں جن کے نتائج سالوں بعد ظاہر ہوتے ہیں حالانکہ اس اگلے سال میں ان کی موت لکھ دی جاتی ہے۔ یعنی ہر امرالٰہی نفاذ کے لیے سپرد کردیا جاتا ہے۔ اس کی مثال آپ بجٹ کی لے لیں کہ بجٹ کی منظوری تو یک بار ہوجاتی ہے مگر اس کا نفاذ پورے سال میں مختلف اوقات میں ہوتا رہتا ہے۔ اس طرح اللہ کے ہاں بھی ہمارا بجٹ پیدائش سے موت تک، ہماری پیدائش سے پہلے ہی تیار ہوتا ہے اور یہ سب کچھ علم الٰہی میں آچکا ہوتا ہے اور یہی لوح محفوظ پر لکھا جانا کہلاتا ہے۔ پھر ہرسال کے حساب سے یہ احکامات نفاذ کے لیے اس 15شعبان المعظم کی رات جاری کردیئے جاتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس نے پہلے ہی فیصلہ کررکھا ہے تو اس رات سپرد کرنے کی بات کو ذکر کیوں کیا ؟ جب کمی بیشی نہیں ہونی اور فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے تو اس رات کو ہونے والے امور کا ذکر کرنے کی کیا حاجت تھی ؟درحقیقت یہ اظہار دنیاوی حکمرانوں اور ساری کائنات کے حکمران میں فرق کو واضح کرتا ہے کہ ہمارے وسائل محدود ہیں لیکن اللہ کے وسائل محدود نہیں ہیں بلکہ اس کی نعمتیں ، رحمتیں لامحدود ہیں۔ اس کا اپنا فرمان ہے وسعت رحمتی کل شئی’’میری رحمت ہرشے پر وسیع ہے ‘‘ اللہ کے اس رات کو Discloseکرنے کی حکمت اصل میں ’’ترغیب و ترہیب‘‘ ہے۔ جب اللہ نے یہ بتادیا کہ آج کی رات سب احکامات تنفیذ کے لیے سپرد کیے جارہے ہیں تو ساتھ ہی یہ بتا دیا کہ اگرچہ یہ میرا طے شدہ بجٹ ہے مگر یہ بات بھی ذہن میں رکھو کہ میں نہ صرف لوح محفوظ والا ہوں بلکہ لوح محفوظ کا مالک بھی ہوں، اگر کوئی اس رات سچے دل سے گڑگڑاکر روپڑے تو میں لکھا ہوا مٹا بھی دیتا ہوں اور نہ لکھا ہوا ہوتو لکھ بھی دیتا ہوں۔ پس اگر ردوبدل کا امکان نہ ہوتا تو اس رات کا ذکر نہ کیا جاتا۔ حضور ﷺ نے فرمایا دو چیزیں تقدیر کو بدل دیتی ہیں۔ لایرد القضاء الا بالدعا والصدقہ ’’تقدیر نہیں بدلی جاتی مگر دعا اور صدقہ سے‘‘ گویا اس رات کا بنایا جانا اس کے کرم کی بدولت ہے کیونکہ اگر اس رات کچھ ردوبدل نہ ہوسکتا ہوتا تو رات بنائی ہی نہ جاتی۔ اللہ نے لیلتہ القدر عطا فرمائی تو اس کو 5طاق راتوں میں چھپا کر رکھاکیونکہ لیلتہ القدر مرتبہ میں بقیہ راتوں سے افضل ہے مگر جب یہ رات آئی تو اس کو چھپایا نہیں بلکہ سرعام حضورﷺ سے اعلان کروادیا کہ اے محبوب ! امت کو اس رات کی اہمیت کے متعلق بتلادیں کہ جس نے رب سے جوکچھ لینا ہے لے لے، جو مانگنا ہے، مانگ لے، اس کا کرم آج نداء دے رہا ہے کہ ہے کوئی گناہوں کو بخشوانے والا، ہے کوئی رحمت کا طلبگار ، ہے کوئی رزق ،دولت ، علم، مانگنے والا کہ اسے عطا کردوں جو کچھ وہ مانگ رہا ہے ۔‘‘ لیلتہ القدر مرتبہ میں شب برأت سے افضل ہے اس لیے شروع میں اس کو پورے ماہ میں چھپا دیا، حضورﷺ اپنی امت کے لیے اس رات کی تلاش میں رمضان المبارک کے پورے مہینے میں اعتکاف کیا۔ بعدازاں حضور ﷺکو پورا ماہ کا اعتکاف بسلسلہ تلاش لیلتہ القدر امت پر گراں محسوس ہونے کا ڈر لگا تو اشارہ ملا کہ رمضان کے آخری 20دنوں میں تلاش کریں۔ حضور ﷺ نے پھر ایک اعتکاف 20دنوں کا کیا۔ عرض کیا اے اللہ! 20دن کااعتکاف بھی امت کو پریشان کردے گا، غفلت کریں گے، مدت کم کردے فرمایا۔ آخری دس دنوں کا اعتکاف کرلیں پھر حضور ﷺ 10دن کا اعتکاف بیٹھے اور عرض کیا مولا! اعتکاف تو 10دن بٹھا مگر راتیں 10پوری کی پوری نہ جگا، ان کو کم کردے، امت بڑی کمزور ہے۔ پھر اللہ نے فرمایا کہ اعتکاف تو 10دن کا ہوگا مگر جاگنے کے لیے راتیں 5کردیتا ہوں۔ پس طاق راتوں میں جاگیں اور لیلتہ القدر تلاش کریں۔ پس 15شعبان المعظم کی رات کو ظاہر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تاکہ امت مسلمہ اللہ سے رزق اور علم کے بڑھنے، آفات کے ٹلنے، دنیا وآخرت بخشش و مغفرت کے حصول اور اپنی بدبختی وشقاوت کو نیک بختی و سعادت سے بدلنے کی دعا مانگ لے۔ اللہ نے لیلتہ القدر کو چھپایا اور ہم اس کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں مگر شب برأت کو ظاہر کردیا لیکن افسوس کہ ہم اس رات کی قدر نہیں کرتے بلکہ اس رات بھی غفلت کا لبادہ اوڑھے سوئے رہتے ہیں۔ حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے حضورﷺ نے فرمایا کہ ’’پانچ راتیں ہیں کہ جس نے وہ پانچ راتیں جاگ کر محنت کرلی اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔ ان پانچ راتوں میں سے ایک رات 15 شعبان المعظم کی رات ہے ۔‘‘ مراد یہ ہے کہ اس رات توبہ، مغفرت کی قبولیت اتنی زیادہ ہے کہ اگر کوئی ان راتوں کو جاگ کر کثرت کے ساتھ گریہ و زاری کرے، صدق واخلاص نیت کے ساتھ اللہ کے حضور اپنے سارے گناہوں کی توبہ کرلے، طلب مغفرت کرلے اور آئندہ اصلاح کرلے تو پچھلے گناہ اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں مٹا دیئے جاتے ہیں اور جنت کا مستحق بنادیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ’’پانچ راتیں ایسی ہیں ان میں دعا رد نہیں ہوتی، ان راتوں میں سے ایک رات 15شعبان المعظم کی رات ہے۔‘‘ اس رات آتشبازی کے مظاہرے اور پٹاخوں کا استعمال حرام ہے۔ یہ رات برأت اس لیے کہلاتی ہے کہ یہ دوزخ سے رہائی پانے کی رات ہے کہ جو اس رات اللہ کے حضور روئے گا، گریہ وزاری کرے گا اسے رہائی مل جائے گی۔ اس آتش بازی کے رواج کو سختی سے بند کریں، اپنے علاقوں میں عوام الناس کو اس بات کا شعور دیں کہ یہ حرام کام ہے اس کے کرنے والا گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اس رات اللہ تعالیٰ غروب آفتاب کے بعد اپنی شان کے لائق آسمانِ دنیا پر آجاتا ہے اور فجر تک آسمانِ دنیاپر بندوں کے قریب رہتا ہے اور ساری رات نداء دیتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے مغفرت مانگنے والا کہ میں اسے معاف کردوں، ہے کوئی مجھ سے رزق مانگنے والا کہ میں اسے رزق دے دوں، ہے کوئی مجھ سے سوال کرنے والا کہ میں اس کے سوال پورے کردوں۔٭٭٭ حضورﷺ نے فرمایا کہ اس رات اللہ تعالیٰ چند لوگوں کے سوا ہر مانگنے والے کو عطا کرتا ہے اور بخشش فرماتا ہے۔ چند لوگ اس رات کی دعا سے بھی اور لیلتہ القدر میں بھی نہیں بخشے جاتے، وہ درج ذیل افراد ہیں: 1۔ مشرک، جب تک شرک نہ چھوڑ دے۔ 2۔ دل میں بغض وعداوت رکھنے والا، گویا جب تک دل کو بغض وعداوت سے پاک نہ کرلے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ 3۔ قاتل ۔ 4خونی رشتوں کو کاٹنے والا، قطع تعلق کرنے والا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہم دور دراز تو صدقہ وخیرات کرتے ہیں مگر خونی رشتوں کا لحاظ نہیں رکھتے حالانکہ جو جتنا قریبی رشتہ دار ہے اس کا حق بھی زیادہ ہے اور پڑوسی سے بھی مقدم قریبی رشتہ دار کا حق ہے۔ 5۔ تکبر کرنے والا ۔ 6شرابی۔ 7والدین کا نافرمان۔ 8چغل خور، غیبت کرنے والا، یہ برائی بھی عام ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہورہی ہے کہ جب اللہ خود نداء دے رہا ہو اس کے باوجود درج بالا افراد کی بخشش نہ ہو تو سال کے بقیہ مہینوں میں ان کی بخشش کس طرح ممکن ہے۔ اس رات عبادت کرنے کا مسنون طریقہ جواولیاء ، آئمہ نے حضورﷺکی مبارکہ سنتوں سے اخذ کیا، درج ذیل ہے: 1۔ اس رات کے معاملات کی ابتداء تلاوت قرآن سے کی جائے اور سورہ یٰسین کی کم ازکم تین مرتبہ تلاوت کی جائے۔ سورۃالدخان کی 3مرتبہ تلاوت کی جائے، بزرگوں میں سے کئی نے یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی پوری سورۃ کی تلاوت نہ کرسکے تو پہلی 8آیات کی 30مرتبہ تلاوت کرے۔ 2۔ کم ازکم 100مرتبہ اور اگر وقت زیادہ ہوتو 1000مرتبہ دعائے حضرت یونس ؑ۔ لاالہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین یہ دعا اس رات کے لیے بڑی مجرب ہے۔ 3۔ کم ازکم ایک تسبیح استغفار استغفراللہ العظیم الذی لا الہ الا ھوالحی القیوم واتوب الیہ 4۔ کم ازکم ایک تسبیح درود پاک 5۔ اس رات صلاۃ التسبیح کا ضرور اہتمام کریں۔ 6۔ کم ازکم آٹھ نوافل قیام الیل کی نیت سے پڑھیں۔ 7۔ محفل نعت اور بعدازاں حلقہ ذکر کا انعقاد۔ 8۔ درج ذیل دعائے محمدی ہے کثرت کے ساتھ کریں ، نوافل ، اور صلاۃ التسبیح کے بعد دعا کریں یہ دعا حضورﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو تلقین فرمائی تھی: اللھم انک عفو کریم تحب العفوفاعف عنی جن احباب کو یاد ہوسکے وہ پوری دعا درج باالفاظ کے بعد اس طرح کریں۔ اللھم انی اسئلک عفووالعافیۃ والموافات الدائمۃ فی الدین والدنیا والاخرۃاللہ تعالیٰ ہمیں اس ماہ شعبان کے ثمرات وفیوضات خصوصاً 15شعبان المعظم کی برکتوں سے فیض یاب فرمائے اور ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین