ملک غلام مصطفی کھر کا عروج وزوال
اسپیشل فیچر
ملک غلام مصطفی کھر کا پورا سیاسی کیریئر تنازعات سے بھرا ہوا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ 1970ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی نے مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کرلی۔ اس پارٹی کی عوامی لہر نے بڑے بڑے برج الٹا دیئے۔ دسمبر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار دے دیا گیا۔ مصطفی کھر زیڈ۔ اے۔ بھٹو کے معتمد ساتھیوں میں سے ایک تھے اور ان کے سیاسی شاگرد بھی تھے۔ وہ آج بھی بھٹو کو اپنا گوروتسلیم کرتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مصطفیٰ کھر کو پنجاب کا گورنر بنایا۔ 1973ء کا آئین بننے کے بعد وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ بنادیئے گئے۔ پھر وقت کا دھارا بدلا اور کھر صاحب کے اپنے استاد بھٹوسے اختلافات پیدا ہوگئے۔ یہی کھر صاحب، بھٹو صاحب کے سامنے خم ٹھونک کر آگئے۔ 1975ء میں لاہور کے ایک ضمنی انتخاب میں وہ پیپلزپارٹی کے امیدوار شیرمحمد بھٹی سے شکست کھاگئے۔ کھر صاحب نے دھاندلی کا الزام لگایا۔ وہ محمد حنیف رامے کے ساتھ پگاڑا لیگ میں شامل ہوگئے۔ مارچ 1977ء کے انتخابات کے بعد جب پاکستان قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک نے زور پکڑا تو غلام مصطفی کھر نے ایک بار پھر اپنے گورو ذوالفقار علی بھٹو سے ہاتھ ملا لیا اور انہیں سیاسی مشیر بنادیا گیا۔ اس پر قومی اتحاد میں کھلبلی مچ گئی۔ لیکن چند روز بعد ہی جنرل محمدضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کردیا اور تمام سیاسی رہنمائوں کو حفاظتی حراست میں لے لیا گیا۔ کہایہ جاتا ہے کہ ملک غلام مصطفی ٰ کھر جنرل فیض علی چشتی کو غچہ دے کر برطانیہ کوچ کر گئے۔ کئی برسوں بعد جب مصطفی کھر وطن واپس لوٹے تو ملک کی سیاسی فضا یکسر تبدیل ہوچکی تھی۔ 1988ء کے انتخابات میں انہوں نے پیپلزپارٹی میں دوبارہ شمولیت کی بہت کوشش کی لیکن بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے انہیں قبول نہیں کیا۔ اس وقت جہانگیر بدر پی پی پی پنجاب کے صدرتھے، اور ان کا گروپ بہت مستحکم تھا۔ جہانگیر بدر مصطفی کھر کو بھگوڑا کہتے تھے۔ انہیں خطرہ اس بات سے تھا کہ کہیں کھر دوبارہ پارٹی قیادت کا اعتماد نہ حاصل کرلیں اور پنجاب پی پی پی کی صدارت سنبھال لیں۔ جہانگیر بدر یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے پارٹی کے لیے بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور پنجاب پی پی پی کی صدارت پر بھی صرف ان کا حق ہے۔ اسی اثنا میں فخز زمان کو پنجاب پی پی پی کی صدارت سونپ دی گئی۔ پنجاب میں میاں نواز شریف اپنی حکومت بناچکے تھے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پی پی پی کو بہرحال مصطفی کھر جیسے رہنما کی ضرورت تھی۔ کھر نے اپنی پارٹی ( این پی پی ) کو پی پی پی میں ضم کردیا اور وہ بھٹو خاندان کا اعتماد جیتنے میں پوری طرح کامیاب ہوگئے۔ لیکن جب اگست 1990ء میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے پی پی پی کی حکومت برخاست کی تو مصطفی کھر اس سے کچھ عرصہ پہلے ہی بے نظیر بھٹو کے خلاف بیانات دے چکے تھے اور لگ رہا تھا کہ کھر صاحب کا نادیدہ قوتوں سے معاملہ ہوچکا ہے۔ 1993ء میں پی پی پی کی حکومت دوبارہ قائم ہوئی توملک غلام مصطفی کھر ایک بار پھر اپنی پارٹی کے ممتاز مرکزی رہنما کی حیثیت سے سامنے آگئے۔ 1992ء میں بھٹو لورز کونسل کے چیئرمین زیڈ۔ اے۔ زیدی مرحوم کے گھر میں ایک تقریب کے دوران بیگم نصرت بھٹو نے مصطفی کھر کے بارے میں کہا تھا کہ ان کا کیا ہے وہ تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ نومبر 1996ء میں صدر فاروق لغاری نے جب اپنی ہی پارٹی کی حکومت ختم کردی تو مصطفی کھر ایک بار پھر گوشہ گمنامی میں چلے گئے۔ اس کے بعد سے اب تک وہ اسی گمنامی کے صحرا میں بھٹک رہے ہیں۔ غلام مصطفی کھر کو دومرتبہ بہت شہرت ملی۔ اور بلاشبہ وہ ہیرو بن کر سامنے آئے۔ پہلی مرتبہ 1972ء میں جب پنجاب پولیس نے ہڑتال کی تو کھر صاحب نے اسے متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ 24گھنٹے کے بعد اپنی ڈیوٹی پر واپس نہ آئے تو ساری پولیس فورس کو برخاست کردیا جائے گا یہ دھمکی کارگر ثابت ہوئی اور پولیس والے اپنی ڈیوٹی پر واپس آگئے۔ غالباً اس کے بعد ہی انہیں شیرپنجاب کا خطاب دیا گیا تھا۔ ان کی دوسری وجہ شہرت ان کی شادیاں تھیں۔ بہرحال یہ تو ان کا نجی معاملہ تھا۔ 1989ء میں کھر صاحب ایک دفعہ پھر ہیرو بنے جب انہوں نے لاہور کے حلقہ 99کے ضمنی انتخاب میں پی پی پی کے امیدوار ارشد گھرکی کی انتخابی مہم چلائی اور ایک زبردست معرکے کے بعد مسلم لیگ کے امیدوار وزیرعلی بھٹی کو شکست سے ہمکنار کیا۔ اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ پنجاب میں میاں نواز شریف کی وزارت اعلیٰ چند دنوں کے بعد قصہ پارینہ بن جائے گی۔ لیکن مصطفی کھر نے یہ موقع بھی گنوا دیا اور وہ ایک بار پھر اپنی پارٹی سے بے وفائی کے مرتکب ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مصطفی کھر ایک زمانے میں پنجاب کی سیاست میں بڑا مقام رکھتے تھے لیکن ان کی غیرمستقل مزاجی اور بے اصول سیاست نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ ایسا لگتا ہے کہ کل کا شیرپنجاب آج ماضی کے دھندلکوں میں گم ہوچکا ہے۔