نعت گوئی : اردو شاعری کے زیور کا نگینہ
اسپیشل فیچر
نعت گوئی کو شاعری کا نگینہ کہا جاتاہے ۔نعت کا فن بہ ظاہر جس قدر آسان نظر آتا ہے، بباطن اسی قدر مشکل ہے ۔ناقدین ِ ادب اس کو مشکل ترین صنف ِسخن شمار کرتے ہیں کیوں کہ ایک طرف وہ ذات ِگرامی ہے، جس کی مد ح خود رب العالمین نے کی ہے ۔ دوسری طرف زبان اور شاعری کے جمالیاتی تقاضے ہیں۔اس لیے نعت کا حق وہی ادا کر سکتا ہے، جو جذبۂ عشقِ رسول ﷺسے سرشار ہو ۔ بس جسے اللّٰہ توفیق دے وہی نعت کہہ سکتا ہے ۔ایک طرح سے یہی کہا جائے گا:؎آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں شاہ معین الدین ندوی رقم طراز ہیں: ’’نعت کہنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔محض شاعری کی زبان میں ذات ِپاک نبی صلعم کی عامیانہ توصیف کر دینا بہت آسان ہے، لیکن اس کے پورے لوازم و شرائط سے عہدہ بر أہونا بہت مشکل ہے۔ حُبِ رسول صلعم کے ساتھ نبوت کے اصلی کمالات اور کارناموں، اسلام کی صحیح روح، عہد ِرسالت کے واقعات اور آیات و احادیث سے واقفیت ضروری ہے، جو کم شعرا کو ہوتی ہے ۔ اس کے بغیر صحیح نعت گوئی ممکن نہیں۔ نعت کا رشتہ بہت نازک ہے ۔ اس میں ادنیٰ سی لغزش سے نیکی برباد ،گناہ لازم آجاتا ہے ۔ اس پل ِصراط کو عبور کرنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں۔ یہ وہ بارگاہ اقدس ہے جہاں بڑے بڑے قدسیوں کے پاؤں لرز جاتے ہیں‘‘(ادبی نقوش صفحہ 284)۔شاہ معین الدین ندوی نے نعت گوئی کے لیے شاعر کا صاحب ِ بصارت اور صاحب ِبصیرت ہونا اولین شرط قرار دیا ہے کیوں کہ حضور سرور کائنات ﷺ کی ذات مقدس، نبوت اور عبدیت کے کمال پر خالق بھی نازاں ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے مدح رسولﷺ اور ذکرِ رسول ﷺکو اعلیٰ و ارفع قرار دیا ہے ۔ اس لیے الفاظ پر کتنی ہی قدرت کیوں نہ ہو، شاعر اپنے آپ کو عاجز پاتا ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ:؎بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصرنعت گوئی عربی سے فارسی اور پھر اُردو زبان میں آئی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ عربی کے بعد سب سے زیادہ نعتیں اُردو میں لکھی گئی ہیں اوریہاں نعتوں کا بہت بڑا سرمایہ موجود ہے ۔سہ حرفی لفظ نعت ( ن ع ت ) عربی زبان کا مصدر ہے ۔ اس کے لغوی معنی کسی شخص میں قابل ِتعریف صفات کا پایا جانا ہے۔ یوں تو عربی زبان میں متعدد مصادر تعریف و توصیف کے لیے استعمال ہو تے ہیں۔ مثلاً: حمد، اللہ جل شانہ کی تعریف کے لیے مخصوص ہے اور نعت حضور سرور کائنات ﷺ کی تعریف و توصیف کے لیے مستعمل ہو کر مخصوص ہوئی۔اگرچہ بظاہر نعت گوئی آسان لگتی ہے، لیکن کہا جاتا ہے کہ اگر اللّٰہ توفیق نہ دے، تو نعت کہنا انسان کے بس کا کام نہیں۔حضرت شیخ سعدیؒ کا مشہور واقعہ ہے کہ اُنھوں نے مدح ِرسولﷺ میں تین مصرعے کہے ۔ کوشش کے باوجود چوتھا مصرعہ نہ ہو تا تھا اور سخت پریشان تھے ۔ ایک شب اُنھیں خواب میں بشارت ہوئی۔ حضورسرورکائنات ﷺ بنفس ِنفیس موجود ہیں اور شیخ سعدی ؒسے فرماتے ہیں ’’ سعدی ؔتم نے تین مصرعے کہے ہیں ،ذرا سناؤ‘‘۔ شیخ سعدیؒ نے تینوں مصرعے سنائے اور خاموش ہو گئے ۔ آ پ ﷺ نے فرمایا یہ مصرعہ بڑھا لو’’صلو علیہ و آلہ‘‘اور یوں حضرت شیخ سعدی ؒکی نعتیہ رباعی مکمل ہوئی۔اللّٰہ تعالیٰ نے اس رباعی کو شرف ِقبولیت بخشا اور اس طرح شیخ سعدیؒ نعت گو شعرا میں ممتاز ہو گئے ۔ اس رباعی کے چار مصرعے ہمیشہ توصیف ِ مدحِ رسولﷺ کرتے ہیں:بلغ العلیٰ بکمالہکشف الدجیٰ بجمالہحسنت جمیع خصالہصلو علیہ و آلہکچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ جب نعت ِمحمدﷺ کی بات آتی ہے، تو پھر اس قطعے پر آکر ختم ہو جاتی ہے :یا صاحب الجمال و یا سید البشرمن و جہک المنیر لقد نور القمرلا یمکن الثنا کما کان حقہبعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ایک مجلس میں آں حضورﷺنے ارشاد فرمایا: ’’ کوئی انسان اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا ،جب تک میری ذات اس کے لیے ماں، باپ، اولاد، سب سے زیادہ محبوب نہ بن جائے ‘‘۔ حضرت عمر ؓ وہاں تشریف فرما تھے ۔اُنھوں نے عرض کیا ’’جناب والا کی ذاتِ ستودہ صفات، والدین اور اولاد سے زیادہ محبوب ہے ، لیکن ابھی یہ کیفیت نہیں کہ میَں آپﷺ کی ذات کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا سمجھوں‘‘۔ حضورﷺ نے فرمایا ’’ ابھی ایمان کی تکمیل نہیں ہوئی ہے‘‘ ۔ حضورﷺ کا فرمانا تھا کہ حضرت عمرؓ کے دل پر ضرب ِکاری لگی اور آں حضرت ﷺکی توجہ سے دل کی کیفیت بدل گئی۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا ’’ خدا کا شکر ہے، اب دل میں کیفیت پیدا ہوئی کہ جناب ﷺ کی ذات گرامی، مجھے اپنی ذات سے بھی زیادہ محبوب ہے‘‘ ۔ آں حضرتﷺ نے فرمایا’’ اب تمھارا ایمان مکمل ہو گیا‘‘۔اس فرمانِ نبویﷺ کے مطابق ایک مومن کی تکمیل ِایمانی کے لیے اُس کے قلب کی یہی کیفیت ضروری ہے کہ اُس کے اندر مکمل سپردگی ہو۔نعت گوئی کا محرک قرآن کریم ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب ِلبیبﷺ کی شان میں جو الفاظ استعمال کیے ،اس کا ثانی تو ہو ہی نہیں سکتا۔انسان ضعیف البنیان کی کیا بساط ہے ، جو لب کشائی کرے ۔ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی ؒاگرچہ عالم دین تھے، مگر اُن کی شہرت نعت گو کی حیثیت سے بھی ہے ۔ اُنھیں عربی و فارسی اور اُردو کے علاوہ ہندی زبان پر بھی قدرت حاصل تھی اور اُن کی ایک نعت اس قدر مشہور ہے کہ اُن کا ذکر آتے ہی یہ شعر زبان پر آجاتا ہے:قرآں سے میَں نے نعت گوئی سیکھییعنی رہے احکام شریعت ملحوظمولانا رؤف امروہوی کہتے ہیں:لکھوں کیا وصف شاہ انس و جاں سے زباں اللّٰہ کی لاؤں کہاں سے علامہ محسن کاکوروی نے بے معنی مبالغہ آرائی اور لفظوں کی صنعت گری سے احتراز کر کے سیدھے سادھے انداز میں نعتیہ قصیدے لکھے :ادھر مخلوق میں شامل ادھر اللّٰہ سے واصلخواص اس برزخِ کبریٰ میں ہے حرف مشدد کا ایک او رشاعر کا اعتراف ہے :حدیثوں میں خدا کا ذکر اُن کا ذکر قرآں میںخدا کے مدح خواں وہ ہیں خدا ہے مدح خواں اُن کانعت گوئی کا آغاز حضورﷺ کی حیات و طیبہ میں ہو چکا تھا۔ اس ذیل میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ کا نامِ نامی اسمِ گرامی خصوصیت سے لیا جاتا ہے ، جنھوں نے رسول اکرمﷺ کی شان میں بے شمار نعتیہ اشعار کہے ۔ رحمت ِعالمﷺ نے اُن کے حق میں دعا فرمائی۔ اُن کے لیے اپنے سامنے منبر رکھوایا۔ اسی سے نعت گو کے اعلیٰ و ارفع مقام کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔حضورﷺ کی حیاتِ و طیبہ کے دَور میں جن صحابہ کرام نے نعتیں کہیں اُن میں ابو طالب بن عبد المطلبؓ، حضرت حمزہ بن عبد المطلب بن ہاشمؓ، حضرت عبد الرحمن بن رواحہؓ، حضرت عباس بن عبد المطلبؓ، حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علی مرتضیٰ ؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت کعب بن زبیرؓ، اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ، امام زین العابدین علی سجادالحسینؓ کے نام ِنامی اسم ِگرامی آتے ہیں۔اُردو میں شاعری کی ابتدا عرض دکن سے ہوئی۔ اسی لیے سلطان قلی قطب شاہ اور محمد شاہ کو اُردو کے پہلے نعت گو شاعر ہونے کا فخر حاصل ہے ۔ اُن کے کلام کا خاصا حصہ نعت ِرسول ﷺپر مشتمل ہے ۔ اسی لیے ولی دکنی کے دَور سے لے کر عہد جدید کے شعرا تک نعت گوئی کا سلسلہ برابر قائم ہے اور اُردو کا ہر شاعر نعت کہنا اپنے لیے باعث سعادت تصور کرتا ہے ۔ اُردو نعت گوئی میں کرامت علی خاں شہیدی،مولانا الطاف حسین حالی، علامہ اقبال، منیر شکوہا آبادی، امیر مینائی، سحر لکھنوی، اصغر گونڈوی، بہزاد لکھنوی، حفیظ جالندھری، حمید صدیقی، ماہر القادری جیسے نام ہیں، جو معتبر اور معروف ہوئے۔دَور حاضر میں بھی نعتیہ شعرا کی بہت بڑی تعداد ہے ۔خاص طور سے قریۂ اسم محمدﷺ(پاکستان) میں نعت گوئی کو کافی عروج حاصل ہوا ہے ، وہاں نعتوں پر تحقیق کا بھی خاصا کام ہوا ہے ۔ پاکستان کے نعتیہ شعرا میں حفیظ تائب، عبد العزیز خالد، مظفر وارثی،خالد احمد، مشکور حسین یاد اور ریاض مجید نے نعت کو نیا رنگ و آہنگ دیا ہے اور نئی لفظیات سے آراستہ کیا۔ ہندوستان کے اُردو اور فارسی شعرا میں نہ صرف مسلمان بل کہ اہل ِہنود نے بھی نعتیں لکھی ہیں۔ اُن میں کئی تو ایسے ہیں، جن کے نعتیہ کلام کے دواوین بھی موجود ہیں۔ نور میرٹھی نے ہندو نعت گو شعرا پر ایک کتاب مرتب کی ہے ، جس کا نام ہے ’’بہ ہر زماں، بہ ہر زباں‘‘ جس میں 326ہندو نعت گو شعرا کا ذکر ہے اور اُن کی نعتیں یکجا کر دی گئی ہیں۔ غیر مسلم شعرا میں پنڈت دیاشنکر نسیم، چھنو لال دلگیر، پنڈت ہری چند اختر، گوپی ناتھ امن، نوبت رائے نظر، پنڈت امر ناتھ آشفتہ دہلوی، بھگوت رائے راحت کاکوروی، مہاراجہ کشن پر ساد ، پنڈت برج موہن دتا تریا کیفی، رگھوپتی سہائے ، فراق گورکھپوری، اوم پرکاش، باقر ہوشیار پوری، تلوک چند محروم، تربھون ناتھ زار زتشی دہلوی، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، بال مکند عرش ملسیانی، پریم لال شفا، کالی داس گپتا رضا، جگن ناتھ آزاد، آنند موہن گلزار دہلوی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔قارئین کے ذوق کے لیے چندغیر مسلم شعرا کا نعتیہ کلام پیش ِ خدمت ہے:ہو شوق نہ کیوں نعتِ رسولِ دوسرا کامضموں ہو عیاں دل میں جو لولاک لما کاہے حامی و ممدوح مرا شافعِ عالمکیفیؔ مجھے اب خوف ہے کیا روزِ جزا کا(برج موہن دتاتریا کیفی)ہیں بے شمار معدود نہیںرحمت کی شاہراہ مسدود نہیںمعلوم ہے کچھ تم کو محمد کا مقاموہ اُمت اسلام میں محدود نہیں(رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری)آدمیت کا غرض ساماں مہیا کر دیااک عرب نے آدمی کا بول بالا کر دیاکہہ دیا لا تقنطو اخترؔ کسی نے کان میںاور دل کو سر بسر محوِ تمنا کر دیا----------سبز گنبد کے اشارے کھینچ لائے ہیں ہمیںلیجئے دربار میں حاضر ہیں اے سرکار ہمنام پاک احمد مرسل سے ہم کو پیار ہےاس لیے لکھتے ہیں اخترؔ نعت میں اشعار ہے(پنڈت ہری چند اخترؔ)سلام اُس پر جو حامی بن کے آیا غم نصیبوں کارہا جو بے کسوں کا آسرا مشفق غریبوں کا( جگن ناتھ آزادؔ)گلزارِ محمد کیا کہنا، بازارِ مدینہ کیا کہناایمان کے سکے چلتے ہیں، فردوس کا سودا ہوتا ہے(کرشن بہاری نور)فرازِ عرش سے احمد سرِ فرشِ زمیں آئےمبارک اہلِ دنیا رحمت اللعالمیں آئےفرشتوں سے کہیں بڑھ کر ہے رتبہ ذاتِ انساں کاجو کردارِ محمد دیکھ لو، تم کو یقیں آئے----------ثنا خوانِ پیمبر، ذاکرِ آلِ پیمبر ہےخدا ہی جانتا ہے بندہ مومن ہے کہ کافر ہے)پنڈت گوپی ناتھ( قلم کو جب شرف حاصل ہوا نعتِ پیمبر کابنا ہر لفظ اک تعویذ خوفِ روزِ محشر کاکہا خورشید نے یہ میرا حق ہے کیوں زمیں پائےلیا آغوش میں کرنوں نے سایہ جسمِ اطہر کا)گرسرن لال ادیب لکھنوی(کہہ حال دل کا شاہِ رسالت مآب سےہو بے نیاز ذکر عذاب و ثواب سےکہتی ہے مجھ کو خلق خراباتیِ نبیاچھا کوئی خطاب نہیں اس خطاب سے(بال مکند عرش ملسیانی)یہ سینہ اور یہ دل دوسرا معلوم ہوتا ہےکوئی پردوں میں دل کے آ چھپا، معلوم ہوتا ہے(کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ)عشقِ رسول باعثِ رحمت ہوا قرارجنت بنا ہوا ہے مدینہ رسول کامستِ مئے الست ہے گلزارؔ دہلویؔبخشش کے واسطے ہے سہارا رسول کا(پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی)خدا کا دل میں جہاں احترام روشن ہےوہاں رسولِ خدا کا بھی نام روشن ہےلبوں پہ نعتِ محمد کے جل اٹھے ہیں چراغدل و نظر کی فضائے تمام روشن ہے(سیماب سلطان پوری)٭…٭…٭ نعت گوئی عربی سے فارسی اور پھر اُردو زبان میں آئی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ عربی کے بعد سب سے زیادہ نعتیں اُردو میں لکھی گئی ہیں اوریہاں نعتوں کا بہت بڑا سرمایہ موجود ہے٭…٭…٭ ہندوستان کے اُردو اور فارسی شعرا میں نہ صرف مسلمان بل کہ اہل ِہنود نے بھی نعتیں لکھی ہیں، اُن میں کئی تو ایسے ہیں جن کے نعتیہ کلام کے دواوین بھی موجود ہیں