ع گئے وہ دن کہ صائم پارسا تھا
اُردو غزل کے استاد شاعر صائم گنجوی کرنالوی گزشتہ دنوں ادبی دنیا کو سوگوار کر گئے************************صائم گنجوی کرنالوی اپنے ہم عصروں میں آخری تھے، جو اب تک اُردو شاعری کی آبیاری میں مگن تھے۔ صائم کا تعلق کرنال کے قریبی گائوں گنج سے تھا ۔وہ تقسیم کے وقت ہجرت کرکے وزیر آباد قیام پذیر ہوئے۔ اُن کا سارا گھرانہ اُردو شاعری سے وابستہ تھا۔ صائم گنجوی فن ِ شاعری کے اسرار و رموز سے خوب واقف تھے اور اُن کی اضافی خوبی یہ تھی کہ وہ اس فن کو گھرانوں تک محدود کرنے کے قائل نہ تھے بل کہ ہر نئے شاعر کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتے بل کہ اسے فن ِشاعری کی مبادیات سے مکمل آگاہ کرتے۔ اُن کے شاگردوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ وزیر آباد اور قریب و جوار میں ہونے والی ادبی و شعری نشستوں میں وہ نہ صرف شریک ہوتے بل کہ 1922ء میں قائم شدہ ادبی تنظیم ’’بزمِ ادب‘‘ وزیرآباد کے آخری سانس تک روح ِ رواں رہے۔ شرف نوگانوی، اعجاز حسین شاہ، امتیاز اللہ ہما، عبدالمعبود فتح پوری، مخلص صدیقی، ایم سلیم چشتی، غضنفر علی مظلوم ،امام دین مسافراور کئی کہنہ مشتق غز ل گو اُن کے رفقائے کار تھے، جنھوں ے غربت اور بے وسیلگی کے حالات میں بھی سخن کا چراغ جلائے رکھا اور ایک ایک کرکے رخصت ہوئے۔ صائم کا کوئی مجموعہ کلام اشاعت پذیر نہ ہو سکا ۔ مالی ناآسودگی اور دیگر ناگزیر وجوہات کے باعث اُن کے نہ چھپنے والی مجموعوں کی تعداد نصف درجن سے زائد ہی ہو گی۔ کاش کوئی ادب پرور تنظیم یا سرکاری ادارہ ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اُن کے کلام کو محفوظ کرلے۔مذکور بزمِ ادب کے ساتھ منسلک تمام شعرا ،شاعری میں خصوصاً اُردو غزل کہنے کا طبعی میلان رکھتے تھے۔نظموں میں اُن کے موضوعات زیادہ تر قومی او رملی نوعیت کے تھے۔ یہ سب شعرا پابند صوم صلوۃ اور مذہبی رجحانات رکھتے تھے، مگر اُردو شاعری کے دامن کو اپنی خداداد صلاحیتوں سے مالامال کرتے رہتے۔ صائم نے نوجوان شعرا کو شاعری کی طرف مائل کرنے کے لیے طرحی مشاعروں کو رواج دیا اور بزمِ ادب کے اراکین کے گھروں میں ہفتہ وار گردش کرنے والی ادبی و شعری نشستیں اس روایت اور کلچر کا حصہ تھیں، جس سے اب ہمارے شہر اور قصبے محروم ہو چکے ہیں۔ صائم گنجوی اور اُن کے بھائی مرحوم سید دائم علی شاہ نے شاعری کو نہ صرف اپنی اگلی نسلوں تک منتقل کیا بل کہ اس قابلِ افتخار(جو کسی زمانے میں تھا) فن کے دروازے عوام الناس کے لیے وَا کیے۔ صائم گنجوی کا ایک صاحب زادہ پانچ سال کی عمر میں شعر کہنے لگا اور مشاعروں میں کلام پیش کیا کرتا تھا ،مگر چھوٹی عمر میں ہی دارِ فانی سے کوچ کر گیا، جس کاصدمہ صائم گنجوی ساتھ لیے پھرتے تھے ۔وہ شاعری کی ترویج کو بھی اپنے مرحوم لختِ جگر کے لیے ایصال ثواب کا ذریعہ قرار دیتے تھے۔ اس کی وفات پر صائم کا ایک شعر مجھے ابھی تک یاد ہے :توڑ دی دستِ اجل نے ریڑھ کی ہڈی مریجو بڑھاپے کا تھا میرے آسرا جاتا رہاصائم گنجوی کے لاتعداد شاگرد ہیں، مگر مقصود وزیر آبادی اُن کے سب سے قریبی شاگرد اور پسندیدہ شاعر تھے۔ جو ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو کر غربت کے اندھیروں میں کھو گئے، مگر رخصت ہونے سے پہلے ’’خزاں کے پھول‘‘جیسا شعری مجموعہ دے گئے۔ صائم کو اپنے اس ذہین شاگر پر بہت ناز تھا۔صائم کی غزل روایتی انداز میں اساتذہ جیسا کمالِ ہنر رکھتی تھی۔ انتہائی سادہ طبیعت، مومن طبع اور باریش ہونے کے باوجود عشقیہ مضامین اُن کی شاعری کا حسن تھے، جس کی واضح مثال اُن کا شہرئہ آفاق مصرعہ ہے: ع گئے وہ دن کہ صائم پارسا تھاصائم گنجوی کی وفات سے اُردو غزل کے اُس اُسلوب کو نقصان پہنچا ہے ،جو خالصتاًغزل کی شاعری کی نمایندگی کرتا ہے اور اس باریک فن کو اُستاد اور شاگرد کے قریبی رشتے میں سمو کر رکھتا ہے۔ یہی لوگ تھے، جو اپنی ذات میں انجمن کہلانے کے حقدار تھے:ع خدا رحمت کنند ایں عاشقانِ پاک طینت را٭…٭…٭