خدمت خلق اور انسانی ہم دردی سیرت طیبہ کے اہم گوشے
اسپیشل فیچر
حضرت عبد اﷲبن سلام ؓ بیان فرماتے ہیں کہ پہلا ارشاد جو رسول اکرم ؐ کی زبانِ مبارک سے میں نے سُناوہ یہ تھا: ’’لوگو! سلام کا رواج ڈالو ،کھانا کھلایا کرواور صلۂ رحمی کیا کرو۔‘‘٭…٭…٭حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ حضوراکرم ﷺنے فرمایا: ’’بھوکے کو کھانا کھلا ؤ،بیما ر کی عیادت کرو اور ناحق پکڑے جانے والے قیدی کو رہا کراؤ۔‘‘٭…٭…٭خالق کی عبادت کے ساتھ اُس کی مخلو ق سے حُسنِ سلوک بے پنا ہ اَجر کا باعث ہے ۔احادیثِ مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ آنحضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نماز ،روز ہ اور دیگر عبادات کے بارے میں تاکید کے ساتھ صحابہ کرامؓ کو دوسرے انسانوں سے بھلائی اور خیر خواہی کی بھی بھر پور تلقین فرماتے تھے ۔حضرت جریر ابنِ عبد اﷲؓ فرماتے ہیں :’’میںنے رسولؐ اﷲ سے نماز قائم کرنے ،زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی پر بیعت کی۔‘‘حدیث ِ مبارکہ میں آتا ہے کہ ساری مخلو ق میں سب سے زیادہ اﷲ کے نزدیک وہ ہے ،جو اﷲکے عیال (یعنی مخلوق) کے ساتھ زیادہ بھلائی سے پیش آتا ہے۔ حضرت علی ؓ شمائلِ نبویؐ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’آپؐ کے قریب ترین جو لوگ ہوتے تھے، اُن میں سے آپؐ کی نظر میں زیادہ صاحبِ فضیلت وہی ہوتا جو عام لوگوں کی زیادہ بھلائی چاہتا تھا اور آپؐ کے نزدیک وہی شخص صاحبِ مرتبہ ہے ،جو لوگوں کے کام آتاہے اور اُن کے ساتھ محبت واَخلاق سے پیش آتاہے۔‘‘رسول ؐاللہ نے ارشاد فرمایا :’’تم میں سے بہترین انسان وہ ہے،جس سے دوسرے کو فائدہ پہنچے۔‘‘حضرت عبد الرحمنؓ سے روایت ہے کہ حضور سرورِ عالم ؐنے ارشاد فرمایا :’’قوم کا سردار قوم کا خادم ہو تا ہے ۔‘‘حضور اکرم ؐ کی بعثت کی خبر جب حضرت ابو ذر غفار ی ؓ تک پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی کو تحقیق ِاحوال کے لیے مکّہ مکرّمہ بھیجا۔بھائی نے واپسی پر حضرت ابوذر غفاری ؓ کو ان الفاظ میں اطلاع دی: ’’میں نے رسول ؐ اللہ کو دیکھا کہ آپؐ اعلیٰ اَخلا ق کا حکم دیتے ہیں۔ ‘‘سر کار ِدوعالم ؐ کا درس یہ ہے : ’’جو شخص کسی بیوہ یا مسکین کی خبر گیری کرتا ہے، اُس کی حیثیت اﷲ کی را ہ میںجہا د کرنے والے یا اُس شخص کی ہے جو دن کو روزہ رکھتا ہے اور را ت کو عبادت کے لیے کھڑا رہتا ہے۔‘‘ایک اور حدیثِ مبارکہ ہے:’’ جس نے اﷲکی راہ میں جہا د کرنے والے کا سامان تیار کیا وہ گویا جہا د میں شریک ہُوا ،جس نے مجاہد کے جانے کے بعد اس کے گھر والوں کی خبر گیر ی کی وہ جہاد میں شامل ہُوا۔‘‘حضرت خباثؓ ایک جنگی مہم پر گئے ہوئے تھے۔ اُن کے گھر کوئی مرد نہ تھا اور عورتیں دودھ دینے والے جانوروں کا دودھ دوہنا نہیں جانتی تھیں رسول اکرمؐ روزانہ اُن کے گھر جاکر جانور وں کادودھ دوہتے تھے ۔‘‘ حضرت عبد اﷲبن سلام ؓ بیان فرماتے ہیں کہ پہلا ارشاد جو رسول اکرم ؐ کی زبانِ مبارک سے میں نے سُناوہ یہ تھا: ’’لوگو! سلام کا رواج ڈالو ،کھانا کھلایا کرواور صلۂ رحمی کیا کرو۔‘‘کنز العمال میں ایک حدیث ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ یہ عمل پسند ہے کہ کسی مسکین کو کھا نا کھلایا جائے ۔اسی طرح انسانی تعلقات میں باہمی خیر خواہی کی اہمیت اجا گر کرتے ہوئے سرکارِ دوعالم ؐنے معاشرت کا یہ زرّیں اُصول عطا فرمایا :’’ایسے شخص کی محبت میں کوئی خوبی نہیں، جو تمہا رے لیے بھی وہ کچھ نہ چاہے ،جو اپنے لیے چاہتا ہے یا اس انداز میں نہ سوچے جس انداز میں وہ اپنی بہتری اور بھلائی سوچتا ہے ۔‘‘رسول اکرم ؐنے ارشاد فرمایا:’’اللہ رَبّ العزّت کی قسم، تم مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ کچھ نہ چاہوجو اپنے لیے چاہتے ہو۔‘‘رحمتِ دوعالم ؐکے فرمو دات ہما رے لیے فلاح ونجات کی راہیں متعیّن کرتے ہیں ۔حضرت عبد اﷲبن عمر ؓروایت کرتے ہیں،رسول کریمؐ نے فرمایا :’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ،نہ تو اسے وہ رسواکرے اور نہ ہی اس پر ظلم کرے اور جو اپنے بھائی کی حاجت روائی میں رہے گا ،اﷲ اُس سے قیامت کے دن کی تکالیف دور کرے گا اور جو مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا قیامت کے دن اﷲ اُس کی پردہ پوشی کرے گا۔ ‘‘حضور اکرمؐ کاارشاد ِمبارکہ ہے: ’’آپس میں دشمنی سے گریز کرو، کیوں کہ اس سے خوبیاں فنا ہو جاتی ہیں اور فقط عیوب زندہ رہتے ہیں۔ ‘‘اسی طرح پڑوسیوں کے ساتھ حُسنِ معاملہ کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اللہ اور روزِ جزا پر اعتقاد رکھتا ہے ،وہ اپنے پڑوسیوں کی عزّت کرے اور انہیں ایذانہ دے ۔‘‘فرمایا :’’وہ شخص جس کی شراتوں سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہیں ،وہ جنّت میں داخل نہیں ہو گا۔‘‘حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی زبانی حضور اکرم ؐ کا ارشاد ِ مبارکہ مروی ہے: ’’ہمسائے کے بارے میں جبرائیل نے اتنی تلقین کی، مجھے گمان ہوا کہ شاید وہ ہمسایے کو وارثوں میں شامل کردیں گے۔ ‘‘صحیح بخاری میں ہے: ’’حضرت جابر بن عبد اﷲؓ بیما ر ہوئے تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ رسول اکرم ؐ کی معیّت میں پا پیادہ بنو سلمہ کے محلّے میں گئے اوراُن کے گھر جاکرعیادت کی۔‘‘حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ حضوراکرمؐ نے فرمایا: ’’بھوکے کو کھانا کھلا ؤ،بیما ر کی عیادت کرو اور ناحق پکڑے جانے والے قیدی کو رہا کراؤ۔‘‘ایک دن رسول ؐاللہ تشریف لے جارہے تھے ۔راستے میں ایک بچّے کو دیکھا ،جو دوسرے بچّوں سے الگ تھلگ اور مغموم بیٹھا تھا۔حضور اکرمؐ نے اُس سے استفسارکیا:’’بیٹے! کیا بات ہے تم کیوں افسردہ ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا:’’ میر اباپ مر چکا ہے اورمیری ماں نے دوسری شادی کرلی ہے، میرا کوئی سر پرست نہیں۔‘‘حضور اکرمؐ نے فرمایا :کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ محمدؐ تمہا رے باپ اورعائشہ ؓ تمہاری ماں اور فاطمہ ؓ تمہاری بہن ہو۔‘‘بچّہ خوش ہو گیا ۔رحمت دو عالم ؐنے اسے سایۂ عاطفت میں لے لیا ۔حضرت عمر ؓ کی زبانی ارشادِ مروی ہے :’’تم میں سب سے بہتر گھر وہ ہے، جس میں یتیم معزّز طریقے سے رہتا ہے۔ ‘‘ایک شخص نے حضور اکرم ؐسے عرض کی :’’میرا دل سخت ہے، اس کا علاج کیا ہے ؟آپ ؐنے فرمایا:’’ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرواور مسکین کو کھانا کھلایا کرو۔‘‘حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’جو زمین والوں پر رحم نہیں کرے گا، آسمان والا اُس پر رحم نہیں کرے گا ۔‘‘